مندرجات کا رخ کریں

"اصول اربع مائۃ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{اہم کتب حدیث}}
{{اہم کتب حدیث}}
''' اصول اربع مائۃ ''' ان چار سو [[احادیث]] کی کتابوں کے مجموعے کو کہتے ہیں کہ جنہیں پہلے [[شیعہ]] راویوں نے جمع کیا تھا۔ [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] طاہرین کی [[احادیث]] کے یہ مجموعے احکام، سنن، مواعظ، ادعیہ اور تفسیری [[احادیث]] پر مشتمل ہیں۔حضرت علی سے لے کر حضرت [[امام حسن عسکری]] کے زمانے تک کی [[احادیث]] [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] کے اصحاب کے ذریعے ان اصول میں جمع آوری کی گئی تھیں۔ ان میں اکثر [[امام صادق]] کے اصحاب کی تھیں۔
'''اصول اربع مائۃ''' ان چار سو [[احادیث]] کی کتابوں کے مجموعے کو کہتے ہیں کہ جنہیں پہلے [[شیعہ]] راویوں نے جمع کیا تھا۔ [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] طاہرین کی [[احادیث]] کے یہ مجموعے احکام، سنن، مواعظ، ادعیہ اور تفسیری [[احادیث]] پر مشتمل ہیں۔ حضرت علی سے لے کر حضرت [[امام حسن عسکری]] کے زمانے تک کی [[احادیث]] [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] کے اصحاب کے ذریعے ان اصول میں جمع آوری کی گئی تھیں۔ ان میں اکثر [[امام صادق]] کے اصحاب کی تھیں۔
یہ اصول بعد کی [[احادیث]] کی کتب کیلئے اس طرح منبع اور مصدر قرار پائیں کہ بعد کے محدثین کی نسلوں کے نزدیک کسی [[حدیث]] کی صحت کا یہ معیار تھا کہ ان اصول میں سے کسی ایک اصل میں پائی جائے۔  
یہ اصول بعد کی [[احادیث]] کی کتب کیلئے اس طرح منبع اور مصدر قرار پائے کہ بعد کے محدثین کے نزدیک کسی [[حدیث]] کی صحت کا یہ معیار تھا کہ ان اصول میں سے کسی ایک اصل میں پائی جائے۔  


== اصل اور کتاب کا فرق==
==اصل اور کتاب کا فرق==


[[امامیہ]] کے آثار میں اصل کتاب اور مصَنَّف کے مقابلے میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر رجالی کتب میں بعض اوقات راوی کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے :{{[[حدیث]]|له کتاب و له اصل‌}} (اس کی ایک کتاب اور اس کی ایک اصل ہے)۔کتاب کے اصل سے فرق کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کتاب اور مُصَنَّف میں مؤلف تدوین اور اضافات کی کوشش میں تھا جبکہ اصل میں مصنف کسی کمی اور زیادتی کے بغیر جو سنتا تھا صرف اسے لکھتا تھا ۔
[[امامیہ]] کے آثار میں اصل کتاب اور مصَنَّف کے مقابلے میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر رجالی کتب میں بعض اوقات راوی کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے: {{[[حدیث]]|له کتاب و له اصل‌}} (اس کی ایک کتاب اور اس کی ایک اصل ہے)۔ کتاب کے اصل سے فرق کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کتاب اور مُصَنَّف میں مؤلف تدوین اور اضافات کی کوشش میں تھا جبکہ اصل میں مصنف کسی کمی اور زیادتی کے بغیر جو سنتا تھا صرف اسے لکھتا تھا۔


بعض نے اس طرح فرق بیان کیا ہے: اصل ایسا مجموعہ ہے جس کے متعلق اطمینان ہوتا ہے کہ یہ کسی دوسری کتاب سے نہیں لیا گیا ہے ۔<ref>مامقانی، مقباس الہدایہ، ج۳، ص۲۶.</ref> جبکہ کتاب ایک ایسا موجوعہ ہے کہ اس کی [[احادیث]] اصل سے لہ گئی ہوتی ہیں۔<ref>مامقانی، مقباس الہدایہ، ج۳، ص۲۶.</ref>
بعض نے اس طرح فرق بیان کیا ہے: اصل ایسا مجموعہ ہے جس کے متعلق اطمینان ہوتا ہے کہ یہ کسی دوسری کتاب سے نہیں لیا گیا ہے۔<ref>مامقانی، مقباس الہدایہ، ج۳، ص۲۶.</ref> جبکہ کتاب ایک ایسا موجوعہ ہے کہ اس کی [[احادیث]] اصل سے لہ گئی ہوتی ہیں۔<ref>مامقانی، مقباس الہدایہ، ج۳، ص۲۶.</ref>


بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:  
ٓ[[آقا بزرگ تہرانی]] لکھتے ہیں:  
::: [[حدیث]] میں اصل [[حدیث]] کے مخصوص حصے پر اطلاق ہوتا ہے لیکن کتاب تمام قسم کی [[احادیث]] پر بولا جاتا ہے ۔حقیقت میں  اصل معنائے لغوی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ [[حدیث]] کی کتاب اگر عین [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] کا کلام ہو تو جو کوئی ایسی [[احادیث]] کے متعلق کوئی مطلب لکھنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی نسبت  وہ ابتدائی اور اصلی ہے۔ اسی وجہ سے ایسے احادیثی مجموعوں کو اصل کہتے ہیں  لیکن ممکن ہے کہ کتاب [[احادیث]] اور مصنف کے اپنے استنباط کو بھی شامل ہو۔<ref>آقابزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۱۲۶.</ref>
::: [[حدیث]] میں اصل [[حدیث]] کے مخصوص حصے پر اطلاق ہوتا ہے لیکن کتاب تمام قسم کی [[احادیث]] پر بولا جاتا ہے۔ حقیقت میں  اصل معنائے لغوی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ [[حدیث]] کی کتاب اگر عین [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] کا کلام ہو تو جو کوئی ایسی [[احادیث]] کے متعلق کوئی مطلب لکھنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی نسبت  وہ ابتدائی اور اصلی ہے۔ اسی وجہ سے ایسے احادیثی مجموعوں کو اصل کہتے ہیں  لیکن ممکن ہے کہ کتاب [[احادیث]] اور مصنف کے اپنے استنباط کو بھی شامل ہو۔<ref>آقا بزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۱۲۶.</ref>


==اصل کی اہمیت==
==اصل کی اہمیت==
ظاہری طور پر ان اصول پر اعتماد کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر اصحاب [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] وقت ضائع کئے بغیر [[حدیث]] سنتے ہی لکھتے تھے کہ جس میں فراموشی یا کمی اور زیادتی کا احتمال کم ہوتا ہے ۔ اس مطلب کی مؤید [[سید بن طاووس]] کی [[مہج الدعوات]] کی یہ روایت ہے : [[امام کاظم]] کے اصحاب کی ایک جماعت قلم و کاغذ کے ہمراہ انکی خدمت میں حاضر ہوئی۔ جونہی امام کوئی بات کرتے یا کسی چیز کے بارے میں فتوا نقل کرتے تو وہ اسے لکھ لیتے ۔<ref>آقابزرگ، الذریعہ، ج‌۲، ص۱۲۷.</ref>
ظاہری طور پر ان اصول پر اعتماد کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر اصحاب [[آئمہ طاہرین|آئمہ]] وقت ضائع کئے بغیر [[حدیث]] سنتے ہی لکھتے تھے کہ جس میں فراموشی یا کمی اور زیادتی کا احتمال کم ہوتا ہے۔ اس مطلب کی مؤید [[سید بن طاووس]] کی [[مہج الدعوات]] کی یہ روایت ہے: [[امام کاظم]] کے اصحاب کی ایک جماعت قلم و کاغذ کے ہمراہ انکی خدمت میں حاضر ہوئی۔ جونہی امام کوئی بات کرتے یا کسی چیز کے بارے میں فتوا نقل کرتے تو وہ اسے لکھ لیتے ۔<ref>آقا بزرگ، الذریعہ، ج‌۲، ص۱۲۷.</ref>


[[آئمہ طاہرین|آئمہ]] کے زمانے میں چار سو سے زیادہ اصل تھیں  لیکن امامیہ جن پر اعتبار ، انکی صحت اور ان پر عمل کرنے میں اتفاق رکھتے تھے وہ چار سو اصل تھیں ۔<ref>بحرانی، الحدائق الناضرة، ج۱، ص۱۷-۲۱</ref>
[[آئمہ طاہرین|آئمہ]] کے زمانے میں چار سو سے زیادہ اصل تھیں  لیکن امامیہ جن پر اعتبار، انکی صحت اور ان پر عمل کرنے میں اتفاق رکھتے تھے وہ چار سو اصل تھیں۔<ref>بحرانی، الحدائق الناضرة، ج۱، ص۱۷-۲۱</ref>


ان چار سو اصلوں کے تمام مصنف قابل اعتماد اور سچے تھے لیکن وہ تمام 12امامی نہیں تھے ۔ [[شیخ طوسی]] [[الفہرست شیخ طوسی|الفہرست]] میں کہتے ہیں : صاحبان اصول اور [[شیعہ]] مؤلفین میں سے اگرچہ ایک تعداد فاسد العقیدہ تھی لیکن انکی کتابیں راستگوئی اور امانتداری کے لحاظ سے مورد تائید اور اعتماد ہیں ۔<ref>طوسی، الفہرست، ص۲.</ref>
ان چار سو اصلوں کے تمام مصنف قابل اعتماد اور سچے تھے لیکن وہ تمام 12 امامی نہیں تھے۔ [[شیخ طوسی]] [[الفہرست شیخ طوسی|الفہرست]] میں کہتے ہیں: صاحبان اصول اور [[شیعہ]] مؤلفین میں سے اگرچہ ایک تعداد فاسد العقیدہ تھی لیکن انکی کتابیں راستگوئی اور امانتداری کے لحاظ سے مورد تائید اور اعتماد ہیں۔<ref>طوسی، الفہرست، ص۲.</ref>


[[شیخ بہائی]] مشرق الشمسین میں بیان کرتے ہیں: [[شیعہ]] علما کے نزدیک [[حدیث]] کے صحیح ہونے کے قرینوں میں کسی ایک یا چند اصلوں میں پائا جانا یا چند اصلوں میں تکرار یا [[حدیث]] کا کسی ایک ایسی اصل میں موجود ہونا کہ جس کا مؤلف قطعی طور پر قابل اطمینان اور اصحاب اجماع میں سے ہونا ہے ۔یہی بات علمائے قدیم کے اصول کے محتویات پر اعتماد کی حکایت بیان کرتی ہے ۔<ref>شیخ بہایی، مشرق الشمسین، ص۲۶-۲۷.</ref>
[[شیخ بہائی]] مشرق الشمسین میں بیان کرتے ہیں: [[شیعہ]] علما کے نزدیک [[حدیث]] کے صحیح ہونے کے قرینوں میں کسی ایک یا چند اصلوں میں پائا جانا یا چند اصلوں میں تکرار یا [[حدیث]] کا کسی ایک ایسی اصل میں موجود ہونا کہ جس کا مؤلف قطعی طور پر قابل اطمینان اور [[اصحاب اجماع]] میں سے ہونا ہے۔ یہی بات علمائے قدیم کے اصول کے محتویات پر اعتماد کی حکایت بیان کرتی ہے۔<ref>شیخ بہایی، مشرق الشمسین، ص۲۶-۲۷.</ref>


==اصول کی سرنوشت==
==اصول کی سرنوشت==


[[کتب اربعہ]] : ([[کافی]]، [[من لایحضره الفقیہ]]، [[تہذیب الاحکام|التہذیب]]اور [[الاستبصار]]) کی تالیف سے پہلے ان اصول کی حفاظت کا بہت زیادہ اہتمام تھا ۔لیکن کتب اربعہ کے لکھے جانے کے بعد اصول کی حفاظت کے اہتمام میں کمی آگئی ۔ان چار سو اصول کی عدم حفاظت کے اہتمام کی علت ان میں موضوعی ترتیب کا نہ ہوناتھا کہ جس کی وجہ سے ان میں رجوع کرنا مشکل تھا ۔دوسری جانب کتب اربعہ منظم صورت میں  ان اصول اربع مائۃ پر  مشتمل تھیں۔<ref>مدیرشانہ چی، تاریخ [[حدیث]]، ص۹۴.</ref>
[[کتب اربعہ]]: ([[کافی]]، [[من لایحضره الفقیہ]]، [[تہذیب الاحکام|التہذیب]]اور [[الاستبصار]]) کی تالیف سے پہلے ان اصول کی حفاظت کا بہت زیادہ اہتمام تھا ۔لیکن کتب اربعہ کے لکھے جانے کے بعد اصول کی حفاظت کے اہتمام میں کمی آگئی ۔ان چار سو اصول کی عدم حفاظت کے اہتمام کی علت ان میں موضوعی ترتیب کا نہ ہوناتھا کہ جس کی وجہ سے ان میں رجوع کرنا مشکل تھا ۔دوسری جانب کتب اربعہ منظم صورت میں  ان اصول اربع مائۃ پر  مشتمل تھیں۔<ref>مدیرشانہ چی، تاریخ [[حدیث]]، ص۹۴.</ref>


[[ابن ادریس حلی]] (متوفی حدود ۵۹۸ق.)  کے زمانے تک اکثر اصول اپنی اصلی حالت میں موجود تھے ۔اس نے  '''سرائر''' کے اختتام پر ان اصول سے [[مستطرفات سرائر]] کے عنوان کے تحت [[احادیث]] نقل کی ہیں ۔<ref>آقابزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۱۳۴.</ref>
[[ابن ادریس حلی]] (متوفی حدود ۵۹۸ق.)  کے زمانے تک اکثر اصول اپنی اصلی حالت میں موجود تھے ۔اس نے  '''سرائر''' کے اختتام پر ان اصول سے [[مستطرفات سرائر]] کے عنوان کے تحت [[احادیث]] نقل کی ہیں ۔<ref>آقابزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۱۳۴.</ref>
گمنام صارف