مندرجات کا رخ کریں

"عائشہ بنت ابو بکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 33: سطر 33:
==سوانح حیات==
==سوانح حیات==
{{ازواج رسول خدا}}
{{ازواج رسول خدا}}
عا‎ئشہ کا باپ [[ابوبکر]] '''بنی تیم''' قبیلے سے تھا اور اس کی ماں رومان بنت عمیر بنی کنانہ قبیلے سے تھی۔<ref>طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔<ref>عسکری، نقش عائشہ در احادیث اسلام، ج۱، ص۴۵؛ ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۱.</ref>
حضرت عا‎ئشہ [[حضرت ابوبکر]] کی بیٹی ہیں جو قبیلہ '''بنی تیم''' سے تھا۔ ان کی والدہ "رومان بنت عمیر" قبیلہ بنی کنانہ سے تھی۔<ref>طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔<ref>عسکری، نقش عائشہ در احادیث اسلام، ج۱، ص۴۵؛ ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۱.</ref>
عا‎ئشہ کی کنیت ان کا بھتیجا [[عبداللہ بن زبیر]] کی وجہ سے «ام عبداللہ» سے مشہور ہوئی۔<ref>ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۲۲.</ref>بہت سارے تاریخ مصادر میں انہیں «ام المؤمنین» کہا گیا ہے۔<ref>ابن طولون، الائمۃ الاثناعشر، ص۱۳۱.</ref><br />
 
کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے عائشہؓ کو «حمیراء» سے پکارا ہے۔<ref>دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.</ref>اس بارے میں ایک روایت بھی مشہور ہے کہ جس میں آپؐ نے عائشہ سے کہا ہے:{{حدیث| کَلِّمینی یا حُمَیْراء}}(اے حمیرا مجھ سے بات کرو۔) کہا جاتا ہے کہ پہلی بار غزالی نے اپنی کتاب ''احیاء علوم الدین'' میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ان سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ حدیث ذکر نہیں ہوئی ہے۔ اسی لئے اہل سنت کے عالم دین الفتنی (متوفی ۹۸۶ھ) لکھتا ہے کہ غزالی نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔<ref>الفتنی، تذکرۃ الموضوعات، ص۱۹۶.</ref>شیعہ عالم دین [[سید مرتضی عسکری]] بھی اس روایت کو بے بنیاد سمجھتا ہے اور اسے غزالی کی جعلی حدیث قرار دیتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔<ref>عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عائشۃ، ۱۴۱۸ق، ص۲۵و۲۶.</ref>
حضرت عائشہ کی کنیت ان کے بھتیجے [[عبداللہ بن زبیر]] کی وجہ سے "ام عبداللہ" سے مشہور ہوئی۔<ref>ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۲۲.</ref>بہت سارے تاریخی مصادر میں انہیں "ام المؤمنین" کہا گیا ہے۔<ref>ابن طولون، الائمۃ الاثناعشر، ص۱۳۱.</ref><br />
 
کہا گیا ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] آپ کو "حمیراء" کہہ کر پکارتے تھے۔<ref>دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.</ref> اس بارے میں ایک روایت بھی مشہور ہے کہ جس میں آپؐ نے عائشہ سے فرمایا: {{حدیث| کَلِّمینی یا حُمَیْراء}}(اے حمیرا مجھ سے بات کرو۔) کہا جاتا ہے کہ پہلی بار غزالی نے اپنی کتاب ''احیاء علوم الدین'' میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ان سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ حدیث ذکر نہیں ہوئی ہے۔ اسی لئے اہل سنت کے عالم دین الفتنی (متوفی ۹۸۶ھ) لکھتا ہے کہ غزالی نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔<ref>الفتنی، تذکرۃ الموضوعات، ص۱۹۶.</ref>شیعہ عالم دین [[علامہ عسکری]] بھی اس روایت کو بے بنیاد سمجھتتے ہوئے اسے غزالی کی جعلی حدیث قرار دیتے ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔<ref>عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عائشۃ، ۱۴۱۸ق، ص۲۵و۲۶.</ref>


===وفات===
===وفات===
عائشہ ۱۰ [[شوال]] [[سنہ ۵۸ ہجری قمری]] یا (۵۷ھ) کو 66 سال کی عمر میں [[مدینہ]] میں وفات پائی اور [[ابوہریرہ]] نے [[نماز جنازہ]] پڑھائی اور [[جنت البقیع]] میں [[دفن]] ہوئیں۔<ref>ذہبی، تاریخ اسلام، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۶۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۲۰.</ref>بعض نے تاریخ وفات کو [[رمضان]] کی 17 تاریخ قرار دیا ہے۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۴۲.</ref><br />
حضرت عائشہ [[۱۰ شوال]] [[سنہ ۵۸ ہجری قمری]] یا (۵۷ھ) کو 66 سال کی عمر میں [[مدینہ]] میں وفات پائی۔ [[ابوہریرہ]] نے [[نماز جنازہ]] پڑھائی اور [[جنت البقیع]] میں [[دفن]] ہوئیں۔<ref>ذہبی، تاریخ اسلام، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۶۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۲۰.</ref>بعض نے تاریخ وفات کو [[رمضان]] کی 17 تاریخ قرار دیا ہے۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۴۲.</ref><br />
عائشہ کی وفات کی علت کے بارے میں اختلاف ہے۔ [[اہل سنت]] کے برخلاف بعض کا کہنا ہے کہ عائشہ کو [[معاویہ]] نے قتل کروایا ہے اور اپنی مکر اور چالاکی سے ایک گڑا کھودا اور عائشہ کو اس میں پھینک دیا۔ جبکہ اہل سنت کا کہنا ہے کہ وہ طبیعی موت مری ہے۔<ref>بیاضی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ق، ج۳، ص۴۸.</ref> اور قتل کی علت کو معاویہ کی طرف سے یزید کے لیے بیعت مانگنے پر عائشہ کی طرف سے اعتراض کرنے کو قرار دیا ہے۔<ref>حر عاملی، اثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۰۲.</ref>جو لوگ کہتے ہیں کہ عائشہ قتل ہوئی ہے ان کے نزدیک یہ قتل [[ذی‌الحجہ]] کی آخری تاریخ قرار دی گئی ہے۔<ref>سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.</ref>
 
حضرت عائشہ کی علت وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ [[اہل سنت]] ان کی موت کو طبیعی موت قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے [[معاویہ]] کو آپ کے قتل میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاویہ نے اپنی مکر اور چالاکی سے ایک گڑا کھودا اور عائشہ کو اس میں گرا دیا۔<ref>بیاضی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ق، ج۳، ص۴۸.</ref> اور اس کی علت معاویہ کی طرف سے [[یزید]] کے لیے [[بیعت]] مانگنے پر حضرت عائشہ کا اعتراض قرار دیتے ہیں۔<ref>حر عاملی، اثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۰۲.</ref> ان لوگوں کے نزدیک قتل  کا یہ واقعہ [[ذی‌الحجہ]] کی آخری تاریخ کو واقع ہوا ہے۔<ref>سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.</ref>


==حضور پاکؐ سے شادی==
==حضور پاکؐ سے شادی==
confirmed، templateeditor
7,303

ترامیم