confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 46: | سطر 46: | ||
==افک کا واقعہ== | ==افک کا واقعہ== | ||
{{اصلی|افک}} | {{اصلی|واقعۂ افک}} | ||
پانچ ہجری کو [[غزوہ بنی مصطلق]] سے واپسی پر اسلامی فوج جب آرام کرنے رک گئی تو عائشہ رفع حاجت کی غرض سے کچھ فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عائشہ وہاں پر نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور فوج روانہ ہوئی اس خیال سے کہ عائشہ کجاوے میں موجود ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ عائشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ جگہ خالی ہوگئی ہے اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عائشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عائشہ کے بارے میں بدگوئی کرنے کا سبب بنا اور عائشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا اور عائشہ کو اس سے بری سمجھا اور تہمت لگانے والوں کی مذمت کی۔<ref>نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ ؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛ </ref>اہل سنت ان آیتوں کو عائشہ کی فضیلت قرار دیتے ہوئے اسے دوسری [[ازواج رسول]] سے برتر سمجھتے ہوئے خود عائشہ اور اس کے رشتہ داروں سے اس کی برتری کو نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ نقل ہوا ہے: رسول اللہ کی سب سے محبوب بیوی عائشہ ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۸، ص۶۸.</ref> اس کے باوجود بعض [[شیعہ]] علماء اگرچہ ان آیات کو عائشہ کے بارے میں نقل ہونے کو مانتے ہیں لیکن اسے عائشہ کے لیے فضیلت نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ صرف الزام کو اس سے دور کیا ہے اور کچھ نہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.</ref>جبکہ بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں جو ابراہیم ابن رسول اللہ کی موت کے بعد نازل ہوئی۔<ref> یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶</ref> | پانچ ہجری کو [[غزوہ بنی مصطلق]] سے واپسی پر اسلامی فوج جب آرام کرنے رک گئی تو عائشہ رفع حاجت کی غرض سے کچھ فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عائشہ وہاں پر نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور فوج روانہ ہوئی اس خیال سے کہ عائشہ کجاوے میں موجود ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ عائشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ جگہ خالی ہوگئی ہے اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عائشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عائشہ کے بارے میں بدگوئی کرنے کا سبب بنا اور عائشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا اور عائشہ کو اس سے بری سمجھا اور تہمت لگانے والوں کی مذمت کی۔<ref>نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ ؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛ </ref>اہل سنت ان آیتوں کو عائشہ کی فضیلت قرار دیتے ہوئے اسے دوسری [[ازواج رسول]] سے برتر سمجھتے ہوئے خود عائشہ اور اس کے رشتہ داروں سے اس کی برتری کو نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ نقل ہوا ہے: رسول اللہ کی سب سے محبوب بیوی عائشہ ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۸، ص۶۸.</ref> اس کے باوجود بعض [[شیعہ]] علماء اگرچہ ان آیات کو عائشہ کے بارے میں نقل ہونے کو مانتے ہیں لیکن اسے عائشہ کے لیے فضیلت نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ صرف الزام کو اس سے دور کیا ہے اور کچھ نہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.</ref>جبکہ بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں جو ابراہیم ابن رسول اللہ کی موت کے بعد نازل ہوئی۔<ref> یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶</ref> | ||