گمنام صارف
"عثمان بن عفان" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (←مآخذ) |
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{سانچہ:چھ رکنی شورای}} | {{سانچہ:چھ رکنی شورای}} | ||
حضرت '''عثمان بن عفان''' (متوفی ۳۵ہجری قمری) [[اہل سنت]] کے یہاں [[خلفائے راشدین]] میں تیسرے [[خلیفہ]] اور [[صحابہ|اصحاب]] [[پیغمبر اکرم]](ص) میں سے ایک صحابی ہیں۔ [[عمر بن خطاب]] نے اپنی موت سے پہلے خلیفہ چننے کے لیے جس [[چھ رکنی شورای]] کو تشکیل دیا تھا اسی نے عثمان کو ان کے بعد تخت خلافت تک پہنچا دیا۔ 23 یا 24 سنہ ہجری قمری سے 35 سنہ ہجری قمری تک انہوں نے خلافت کی اور آخر کار [[مدینہ]] میں انکی حکومت کے خلاف ایک بغاوت میں باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ | حضرت '''عثمان بن عفان''' (متوفی ۳۵ہجری قمری) [[اہل سنت]] کے یہاں [[خلفائے راشدین]] میں تیسرے [[خلیفہ]] اور [[صحابہ|اصحاب]] [[پیغمبر اکرم]](ص) میں سے ایک [[صحابی]] ہیں۔ [[عمر بن خطاب]] نے اپنی موت سے پہلے [[خلیفہ]] چننے کے لیے جس [[چھ رکنی شورای]] کو تشکیل دیا تھا اسی نے عثمان کو ان کے بعد تخت خلافت تک پہنچا دیا۔ 23 یا 24 سنہ ہجری قمری سے 35 سنہ ہجری قمری تک انہوں نے خلافت کی اور آخر کار [[مدینہ]] میں انکی حکومت کے خلاف ایک بغاوت میں باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ | ||
==حسب و نسب== | ==حسب و نسب== | ||
تاریخ اسلام میں ان کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ابن قصی القرشی الاموی۔ عثمان [[بنو امیہ|بنی امیہ]] کے طائفے سے ہے، <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref>انکے اجداد اور [[بنو ہاشم|بنی ہاشم]]، [[عبد مناف]] سے جاکر ملتے ہیں۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref>اس لحاظ سے وہ بنی امیہ کے ابوالعاص قبیلے سے ہے۔ <ref> دایرة المعارف اسلام(انگلیسی)، ذیل مدخل 'UTHMAN B. 'AFFAN.</ref> | تاریخ [[اسلام]] میں ان کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ابن قصی القرشی الاموی۔ عثمان [[بنو امیہ|بنی امیہ]] کے طائفے سے ہے، <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref>انکے اجداد اور [[بنو ہاشم|بنی ہاشم]]، [[عبد مناف]] سے جاکر ملتے ہیں۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref>اس لحاظ سے وہ بنی امیہ کے ابوالعاص قبیلے سے ہے۔ <ref> دایرة المعارف اسلام(انگلیسی)، ذیل مدخل 'UTHMAN B. 'AFFAN.</ref> | ||
اس کی ماں أروی عثمان کے باپ کے طایفے سے ہے اور اس کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب ابن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔ <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref> عثمان کی ماں پیغمبر اکرم کی پھوپھی، ام حکیم بنت [[عبدالمطلب|عبدالمطّلب]] کی بیٹی ہے۔ <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref> عثمان کی ولادت کو اختلاف کے ساتھ ساتواں <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref> اور چھٹا <ref>ابن حجر، الاصابہ، ۴، ۳۷۷.</ref> [[عام الفیل]] لکھا ہے. اس کی دو [[کنیت]] ہیں: ابوعمرو اور ابوعبداللہ، جن میں پہلی کنیت زیادہ مشہور ہے۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref>[[رقیہ بنت رسول اللہ|رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص)]]انکی بیویوں میں سے ایک ہے اور بعض کے کہنے کے مطابق ان سے دو بیٹے؛ عمرو اور عبداللہ متولد ہوئے لیکن کوئی ایک بھی زندہ نہ رہا اور بچپنے میں دنیا سے چل بسے.<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref> بعض | اس کی ماں أروی عثمان کے باپ کے طایفے سے ہے اور اس کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب ابن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔ <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref> عثمان کی ماں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی پھوپھی، ام حکیم بنت [[عبدالمطلب|عبدالمطّلب]] کی بیٹی ہے۔ <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref> عثمان کی ولادت کو اختلاف کے ساتھ ساتواں <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref> اور چھٹا <ref>ابن حجر، الاصابہ، ۴، ۳۷۷.</ref> [[عام الفیل]] لکھا ہے. اس کی دو [[کنیت]] ہیں: ابوعمرو اور ابوعبداللہ، جن میں پہلی کنیت زیادہ مشہور ہے۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref>[[رقیہ بنت رسول اللہ|رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص)]]انکی بیویوں میں سے ایک ہے اور بعض کے کہنے کے مطابق ان سے دو بیٹے؛ عمرو اور عبداللہ متولد ہوئے لیکن کوئی ایک بھی زندہ نہ رہا اور بچپنے میں دنیا سے چل بسے.<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.</ref> بعض مآخذ میں آیا ہے کہ عمرو رقیہ کا بیٹا نہیں بلکہ جاہلیت کے دَور میں عثمان کی کسی اور بیوی سے متولد ہوا تھا اور اسی وجہ سے زمان جاہلیت میں عثمان کی کنیت ابوعمرو تھی اور اسلام لانے کے بعد رقیہ سے شادی کی اور عبداللہ متولد ہوا اور اسی وجہ سے عثمان کی کنیت ابوعبداللہ کو ابوعمرو پر ترجیح دیا۔<ref>ابن جوزی، المنتظم، ۴، ۳۳۴.</ref> منابع کے مطابق رقیہ کے مرنے کے بعد پیغمبر کی دوسری بیٹی ام کلثوم کی شادی بھی عثمان سے ساتھ ہوئی۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۹.</ref> چونکہ پیغمبر اکرم(ص) کی دو بیٹیوں سے شادی کی اسی لئے[[اہل سنت]] کے منابع میں اسکو «ذوالنورین» (دو نور والا) کہا گیا ہے۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۹.</ref> | ||
==اسلام لے آنا== | ==اسلام لے آنا== | ||
{{تاریخ صدر اسلام}} | {{تاریخ صدر اسلام}} | ||
کہا جاتا ہے کہ عثمان نے [[ابوبکر]] کی دعوت پر [[مکہ]] میں اسلام | کہا جاتا ہے کہ عثمان نے [[ابوبکر]] کی دعوت پر [[مکہ]] میں اسلام قبول کیا۔ <ref>ذہبی، اسدالغابہ، ۳، ۴۸۱.</ref>لیکن کس سال اسلام لائے اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہاں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کے ابتدائی دنوں میں [[ارقم بن ابی ارقم]] کے گھر پراسلام قبول کیا ہے۔<ref> ابن جوزی، المنتظم، ۴، ۳۳۵.</ref> | ||
عثمان ان ابتدائی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے [[مکہ]] سے [[حبشہ]] کی طرف [[ہجرت]] کی<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref> اور [[جنگ بدر]] کے وقت [[مدینہ]] میں ہونے کے باوجود جنگ میں شرکت نہیں کی۔ مورخین نے انکی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ انکی بیوی [[رقیہ بنت رسول اللہ|رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص)]] کی بیماری بتایا ہے۔ اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور اسی جنگ کے اختتام پر رقیہ کا انتقال ہوگیا۔<ref>مراجعہ کریں: واقدی، المغازی، ۱، ۱۰۱؛ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸؛ ذہبی، اسدالغابہ، ۳، ۴۸۲.</ref> | عثمان ان ابتدائی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے [[مکہ]] سے [[حبشہ]] کی طرف [[ہجرت]] کی<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.</ref> اور [[جنگ بدر]] کے وقت [[مدینہ]] میں ہونے کے باوجود جنگ میں شرکت نہیں کی۔ مورخین نے انکی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ انکی بیوی [[رقیہ بنت رسول اللہ|رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص)]] کی بیماری بتایا ہے۔ اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور اسی جنگ کے اختتام پر رقیہ کا انتقال ہوگیا۔<ref>مراجعہ کریں: واقدی، المغازی، ۱، ۱۰۱؛ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸؛ ذہبی، اسدالغابہ، ۳، ۴۸۲.</ref> | ||
سطر 15: | سطر 15: | ||
=== چھ رکنی شورای === | === چھ رکنی شورای === | ||
{{اصلی| چھ رکنی شورای }} | {{اصلی| چھ رکنی شورای }} | ||
[[عمر بن خطاب]] نے اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے [[شورای|چھ رکنی شورای]] تشکیل کی یوں اسی شورای کے ذریعے عثمان سنہ 23 یا 24 ہجری قمری <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴.</ref> کو خلیفہ منتخب ہوئے اور سنہ 35 ہجری قمری تک حکومت کی۔<ref> دینوری، الامامۃ والسیاسہ، ۱، ۴۴ - ۴۶؛ زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰.</ref> | [[عمر بن خطاب]] نے اپنے بعد [[خلیفہ]] معین کرنے کے لیے [[شورای|چھ رکنی شورای]] تشکیل کی یوں اسی شورای کے ذریعے عثمان سنہ 23 یا 24 ہجری قمری <ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴.</ref> کو خلیفہ منتخب ہوئے اور سنہ 35 ہجری قمری تک حکومت کی۔<ref> دینوری، الامامۃ والسیاسہ، ۱، ۴۴ - ۴۶؛ زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰.</ref> | ||
اس سے پہلے کسی شورای کے ذریعے خلیفہ انتخاب کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ [[پیغمبر(ص)]] کی رحلت کے بعد بعض اصحاب [[سقیفہ بنی ساعدہ|سقیفہ]] میں جمع ہوگئے اور (شیعہ عقیدے کے مطابق) [[واقعہ غدیر|غدیر]] کے دن منتخب شدہ فرد کو مدنظر رکھے بغیر [[ابوبکر]] کو خلیفہ معین کیا اور کچھ خاص طریقوں سے تمام لوگوں سے بیعت لی گئی۔ انکی دلیل یہ تھی کہ خلیفہ کا چناؤ لوگوں کا کام ہے اور اپنے [[امام]] کے بارے میں لوگ خود فیصلہ کریں؛ لیکن ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ | اس سے پہلے کسی شورای کے ذریعے خلیفہ انتخاب کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ [[پیغمبر(ص)]] کی رحلت کے بعد بعض اصحاب [[سقیفہ بنی ساعدہ|سقیفہ]] میں جمع ہوگئے اور ([[شیعہ]] عقیدے کے مطابق) [[واقعہ غدیر|غدیر]] کے دن منتخب شدہ فرد کو مدنظر رکھے بغیر [[ابوبکر]] کو خلیفہ معین کیا اور کچھ خاص طریقوں سے تمام لوگوں سے بیعت لی گئی۔ انکی دلیل یہ تھی کہ خلیفہ کا چناؤ لوگوں کا کام ہے اور اپنے [[امام]] کے بارے میں لوگ خود فیصلہ کریں؛ لیکن ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے [[عمر]] کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ | ||
عمر ابن خطاب نے گزشتہ دونوں طریقوں کے برخلاف انتخاب کے لئے ایک نیا طریقہ پہچنوایا اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ابوبکر کا انتخاب مسلمانوں کی مرضی سے نہیں تھا اور اس کے بعد مسلمانوں کی مشورت سے ہونا چاہیے<ref>المصنف، ج ۵،ص۴۴۵؛ الطبقاتالکبری، ج ۳،ص۳۴۴.</ref>، چھ رکنی شورای بنا دیا تاکہ یہ ایک دوسرے کے مشورے سے انہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں۔ اس شورای کے افراد میں: [[علی بن ابی طالب(ع)]]، عثمان بن عفان، [[طلحہ بن عبیداللہ]]، [[زبیر بن عوام]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[عبدالرحمن بن عوف]] شامل تھے۔<ref>سیوطی، تاریخ خلفا،ص۱۲۹.</ref> | عمر ابن خطاب نے گزشتہ دونوں طریقوں کے برخلاف انتخاب کے لئے ایک نیا طریقہ پہچنوایا اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ابوبکر کا انتخاب مسلمانوں کی مرضی سے نہیں تھا اور اس کے بعد مسلمانوں کی مشورت سے ہونا چاہیے<ref>المصنف، ج ۵،ص۴۴۵؛ الطبقاتالکبری، ج ۳،ص۳۴۴.</ref>، چھ رکنی شورای بنا دیا تاکہ یہ ایک دوسرے کے مشورے سے انہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں۔ اس شورای کے افراد میں: [[علی بن ابی طالب(ع)]]، عثمان بن عفان، [[طلحہ بن عبیداللہ]]، [[زبیر بن عوام]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[عبدالرحمن بن عوف]] شامل تھے۔<ref>سیوطی، تاریخ خلفا،ص۱۲۹.</ref> | ||
=== ان کے دور خلافت کے واقعات === | === ان کے دور خلافت کے واقعات === | ||
تاریخی شواہد کے مطابق عثمان کا خلیفہ بننے کے بعد بہت سارے گورنر اور عہدے داروں کو انکے منصب سے ہٹا کر اپنے رشتہ داروں کو انکی جگہ مقرر کرنا اس کے ابتدائی اقدامات میں سے ہیں۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.</ref> مثال کے طور پر [[عمار بن یاسر]] کو ہٹا کر انکی جگہ اپنے سوتیلے بھائی ولید ابن عقبہ کو [[کوفہ]] اور [[ابوموسی اشعری]] کو ہٹا کر اپنے کمسن خالہ زاد بھائی عبد اللہ ابن عامر کو [[بصرہ]] کا گورنر مقرر کیا۔ [[عمرو بن عاص]] کو فتوحات اور شمالی افریقہ کی جنگوں کا سپہ سالار معین کیا اور اپنا رضاعی بھائی عبد اللہ ابن ابی سرح کو فتوحات کے خزانے (خراج اور غنائم) کا عہدہ دیا۔ لیکن بعد میں عمرو عاص کو اپنے عہدے سے معزول کر کے اس کی جگہ پر بھی عبد اللہ کو بٹھا دیا۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.</ref> | تاریخی شواہد کے مطابق عثمان کا خلیفہ بننے کے بعد بہت سارے گورنر اور عہدے داروں کو انکے منصب سے ہٹا کر اپنے رشتہ داروں کو انکی جگہ مقرر کرنا اس کے ابتدائی اقدامات میں سے ہیں۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.</ref> مثال کے طور پر [[عمار بن یاسر]] کو ہٹا کر انکی جگہ اپنے سوتیلے بھائی ولید ابن عقبہ کو [[کوفہ]] اور [[ابوموسی اشعری]] کو ہٹا کر اپنے کمسن خالہ زاد بھائی عبد اللہ ابن عامر کو [[بصرہ]] کا گورنر مقرر کیا۔ [[عمرو بن عاص]] کو فتوحات اور شمالی افریقہ کی جنگوں کا سپہ سالار معین کیا اور اپنا رضاعی بھائی عبد اللہ ابن ابی سرح کو فتوحات کے خزانے (خراج اور غنائم) کا عہدہ دیا۔ لیکن بعد میں [[عمرو عاص]] کو اپنے عہدے سے معزول کر کے اس کی جگہ پر بھی عبد اللہ کو بٹھا دیا۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.</ref> | ||
==== فتوحات ==== | ==== فتوحات ==== | ||
عثمان کے دَور میں مسلمانوں کی فتح شدہ زمینوں میں اضافہ ہوا۔ جیسے فارس کے کچھ شہر عربوں کے ہاتھ آئے اور اس فتح کے سپہ سالار عثمان ابن ابی العاص تھے۔ اسیطرح 29 ہجری کو عبد اللہ ابن ابی سرح کی سرپرستی میں شمالی افریقہ کے کچھ علاقے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویۃ بن ابی سفیان]] کی سربراہی میں جزیرہ قبرس فتح ہوئے۔<ref>مراجعہ کریں: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.</ref> | عثمان کے دَور میں مسلمانوں کی فتح شدہ زمینوں میں اضافہ ہوا۔ جیسے فارس کے کچھ شہر عربوں کے ہاتھ آئے اور اس فتح کے سپہ سالار عثمان ابن ابی العاص تھے۔ اسیطرح 29 ہجری کو عبد اللہ ابن ابی سرح کی سرپرستی میں شمالی افریقہ کے کچھ علاقے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویۃ بن ابی سفیان]] کی سربراہی میں جزیرہ قبرس فتح ہوئے۔<ref>مراجعہ کریں: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.</ref> | ||
سطر 32: | سطر 32: | ||
===اسلامی احکام میں تبدیلی=== | ===اسلامی احکام میں تبدیلی=== | ||
عثمان نے بعض موارد میں اسلامی احکام کو تبدیل کیا۔ اس نے رسول اللہ کی سنت کے خلاف [[منا]] میں نماز پوری پڑھی اور جب [[صحابہ]] جیسے [[عبدالرحمان بن عوف]] کے اعتراض کا سامنا ہوا اور جواب دینے سے قاصر رہا تو کہا | عثمان نے بعض موارد میں اسلامی احکام کو تبدیل کیا۔ اس نے رسول اللہ کی سنت کے خلاف [[منا]] میں [[نماز]] پوری پڑھی اور جب [[صحابہ]] جیسے [[عبدالرحمان بن عوف]] کے اعتراض کا سامنا ہوا اور جواب دینے سے قاصر رہا تو کہا "ہذا رَأىٌ رَأَیْتُہ" " یہ میری رای ہے جو میں نے دیا ہے"<ref>تاریخ اسلام، ج4 ص268</ref> اور [[متقی ہندی]] کے کہنے کے مطابق [[وضو]] میں تبدیلی اور شیعہ اور اہل سنت کا اختلاف بھی اس کے دَور خلافت سے شروع ہوا ہے. <ref>کنزالعمال ج9 ص443 ح 26890</ref>وہ ایک جگہ خود کہتا ہے کہ پیغمبر اکرم نے ہاتھ اور منہ دھونے کے بعد سر کا مسح کیا اور پھر پاؤں کا مسح کیا<ref>المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص16 </ref>لیکن ایک اور جگہ پیغمبر اکرم کے وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میں کہا ہے۔ <ref> مسند الدارمي ج1 ص544 </ref> | ||
حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: | حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: | ||
::«اگر دین افراد کی نظر کا تابع ہوتا تو پاؤں کے تلوں کو مسح کرنا پاوں کے اوپر والے حصے کی نسبت زیادہ مناسب لگتا؛ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پاؤں کے اوپر والے حصے کو مسح کرتے تھے۔»<ref>ابن ابی شیبہ، المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص25؛ كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ج9 ص606 </ref> | ::«اگر دین افراد کی نظر کا تابع ہوتا تو پاؤں کے تلوں کو مسح کرنا پاوں کے اوپر والے حصے کی نسبت زیادہ مناسب لگتا؛ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پاؤں کے اوپر والے حصے کو مسح کرتے تھے۔»<ref>ابن ابی شیبہ، المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص25؛ كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ج9 ص606 </ref> |