"خلافت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''خلافت'''، ایک سیاسی اور مذہبی اصطلاح ہے جس کا معنی سیاست، حکومت اور دیانت میں [[ | '''خلافت'''، ایک سیاسی اور مذہبی اصطلاح ہے جس کا معنی سیاست، حکومت اور دیانت میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے جانشین کے ہے۔ | ||
[[شیعہ]]، تعلیمات میں خلافت سے مراد تمام دنیوی اور اخروی امور میں | [[شیعہ]]، تعلیمات میں خلافت سے مراد تمام دنیوی اور اخروی امور میں پیغمبر اکرم(ص) کے جانشین کے ہیں۔ شیعہ مذہب میں رسول اکر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلیفے [[ائمہ|بارہ معصوم امام(ع)]] جو کہ پیغمبر اکرم کی [[اہل بیت]] میں سے ہیں اور پیغمبر اکرم اور ان میں صرف فرق اتنا ہے کہ ان پر [[وحی]] نازل نہیں ہوتی ہے۔ آنحضرت کی رحلت کے بعد خلافت رسمی طور پر ([[امام علی(ع)]] اور [[امام حسن مجتبی (ع)]] کے دو مختصر دور حکومت کے علاوہ )، عملی طور پر غیر[[معصوم|معصومین]] کے ہاتھ رہی ہے اور تقریبا تیرہ صدیاں مختلف خاندان اور اشخاص نے پورے جہان [[اسلام]] میں خود کو پیغمبر اکرم کا خلیفہ معرفی کیا ہے۔ | ||
لیکن تاریخ اسلام میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جس نے [[ | لیکن تاریخ اسلام میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جس نے [[پیغمبر(ص)|پیغمبر]] کی رحلت کے بعد حکومت کو اپنے ہاتھوں لیا اور اس کے ذمہ داروں کو یعنی اپنے خلفاء کو صرف حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین معرفی کیے۔ | ||
==خلافت کا مفہوم== | ==خلافت کا مفہوم== | ||
خلافت، ایک عربی لفظ ہے جسکا معنی جانشین بنانا، اور خلیفہ کا لفظ ( جس کی جمع خلفاء اور خلائف ہے) جانشین، وکیل اور قائممقام کے معنی میں ہے۔<ref>مراجعہ کریں:ابن منظور، «خَلَفَ» کے ذیل میں؛ زبیدی، ج ۲۳، ص ۲۶۳ـ۲۶۵۔</ref> لفظ [[خلیفہ]]<ref>کیلئے رجوع کریں: بقرہ: ۳۰۔</ref>، خلفاء<ref>اعراف: ۶۹، ۷۴؛ نمل: ۶۲۔</ref> و خلائف<ref>انعام:۱۶۵؛ یونس: ۱۴، ۷۳؛ فاطر: ۳۹۔</ref> [[قرآن]] میں بھی اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ | خلافت، ایک عربی لفظ ہے جسکا معنی جانشین بنانا، اور خلیفہ کا لفظ ( جس کی جمع خلفاء اور خلائف ہے) جانشین، وکیل اور قائممقام کے معنی میں ہے۔<ref>مراجعہ کریں:ابن منظور، «خَلَفَ» کے ذیل میں؛ زبیدی، ج ۲۳، ص ۲۶۳ـ۲۶۵۔</ref> لفظ [[خلیفہ]]<ref>کیلئے رجوع کریں: بقرہ: ۳۰۔</ref>، خلفاء<ref>اعراف: ۶۹، ۷۴؛ نمل: ۶۲۔</ref> و خلائف<ref>انعام:۱۶۵؛ یونس: ۱۴، ۷۳؛ فاطر: ۳۹۔</ref> [[قرآن]] میں بھی اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ | ||
خلافت اور [[خلیفہ]]، ان دو الفاظ کا سب سے زیادہ استعمال انکا اصطلاحی معنی ہے جو [[ | خلافت اور [[خلیفہ]]، ان دو الفاظ کا سب سے زیادہ استعمال انکا اصطلاحی معنی ہے جو [[پیغمبر(ص)]] کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں سیاسی تغییر و تحولات کے لیے استعمال ہوا پہلا لفظ حکومت اور مطلق حاکمیت میں جانشینی کے معنی میں ہے اور دوسرا لفظ حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین کے معنی میں ہے | ||
مذکورہ اصطلاحات کا بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ دونوں الفاظ مسلمانوں کے سیاسی کلچر میں کلیدترین مفاہیم اور الفاظ میں بدل گئے ہیں یہاں تک کہ بعد میں مسلمانوں کے کچھ گروہ نظام خلافت کی مشروعیت کیلئے اس خلیفہ کے لفظ کو [[قرآن]] میں استعمال ہونے سے مستند کیا ہے | مذکورہ اصطلاحات کا بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ دونوں الفاظ مسلمانوں کے سیاسی کلچر میں کلیدترین مفاہیم اور الفاظ میں بدل گئے ہیں یہاں تک کہ بعد میں مسلمانوں کے کچھ گروہ نظام خلافت کی مشروعیت کیلئے اس خلیفہ کے لفظ کو [[قرآن]] میں استعمال ہونے سے مستند کیا ہے | ||
۔<ref>ماوردی، ۱۴۰۹، ص ۴؛ قلقشندی، مآثرالأنافۃ فی معالم الخلافۃ (بیروت)، ج ۱، ص ۸ـ۱۲، ۱۴ـ۱۶۔</ref> اسی معنی میں، [[امامت]] اور [[امام]] کے دو لفظ بھی بار بار ابتدایی مسلمان مولفین کی کتابوں میں استعمال ہویے ہیں جو [[شیعہ]] امامت کے مفہوم سے کوسوں دور ہے۔ | ۔<ref>ماوردی، ۱۴۰۹، ص ۴؛ قلقشندی، مآثرالأنافۃ فی معالم الخلافۃ (بیروت)، ج ۱، ص ۸ـ۱۲، ۱۴ـ۱۶۔</ref> اسی معنی میں، [[امامت]] اور [[امام]] کے دو لفظ بھی بار بار ابتدایی مسلمان مولفین کی کتابوں میں استعمال ہویے ہیں جو [[شیعہ]] امامت کے مفہوم سے کوسوں دور ہے۔ | ||
تاریخ اسلام میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جو [[ | تاریخ اسلام میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جو [[پیغمبر(ص)|پیغمبر]] کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کی باگ ڈور اس ڈھانچے میں تشکیل پایی اور اس کے ذمہ دار یعنی خلیفہ، اسلامی حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین شمار کیے جاتے ہیں۔ | ||
==تاریخچہ== | ==تاریخچہ== | ||
سطر 20: | سطر 20: | ||
* عمر بن خطاب | * عمر بن خطاب | ||
{{اصلی|عمر بن خطاب}} | {{اصلی|عمر بن خطاب}} | ||
ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، [[عمر بن خطاب]] کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی [[بیعت]] کرنے کو لازمی قرار دیا۔<ref>مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔</ref> [[عمر بن خطاب]] کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہوئے، رسولاللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔<ref>بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔</ref> یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو [[ | ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، [[عمر بن خطاب]] کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی [[بیعت]] کرنے کو لازمی قرار دیا۔<ref>مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔</ref> [[عمر بن خطاب]] کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہوئے، رسولاللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔<ref>بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔</ref> یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے اختیارات کے ساتھ برابر سمجھتے تھے۔<ref>مراجعہ کریں:جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص۱۰۱۔</ref> انکی بعض حکومتی پالیسیاں خلافت کے ساختار کو اس دور کے رائج حکومتی ڈھانچے کے قریب لانے میں بہت موثر تھیں؛ ان میں سے بعض اہم اقدامات؛ عرب کو دیگر اقوام(اصطلاحاً عجم) پر برتری کو ترویج دینا جو کہ [[پیغمبر اسلام]] کی قوم پرستی کے مخالف پالیسی کی معارض تھی، بیت المال (جسکو اللہ کا مال نام دیا تھا) کی تقسیم بندی میں مسلمانوں کے لیے برتری کا قایل ہونا؛ غنایم کو مساوی تقسیم کرنے کے طریقے کو ختم کرنا اہم مثالیں ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مالک بن انس، ص ۳۰۸؛ ابن سعد، ج ۳، ص ۲۷۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص ۴۴۸ـ ۴۶۱؛ ماوردی، نصیحۃ الملوک، ص ۳۵۳۔</ref> | ||
*عثمان بن عفان | *عثمان بن عفان | ||
{{اصلی|عثمان بن عفان}} | {{اصلی|عثمان بن عفان}} | ||
عمر، نے اپنے جانشین معین کرنے کی ذمہ داری کو [[ | عمر، نے اپنے جانشین معین کرنے کی ذمہ داری کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے [[صحابہ]] میں سے [[چھ رکنی شورای |چھ رکنی شورای]] کے سپرد کیا۔[[عثمان بن عفان]] ۲۳ہ ق کوتیسرے [[خلیفہ]] کے طور پر مسند قدرت پر بیٹھ گئے۔ [[چھ رکنی شورای]] کا انکی [[بیعت]] کیلئے سب سے اہم شرط [[قرآن|اللہ کی کتاب]] اور پیغمبر کی سنّت، کے علاوہ پہلے دو خلیفوں کی پیروی(شیخین کی سیرت) تھی؛ جسکو حضرت [[علی بن ابی طالب]] نے ماننے سے انکار کیا <ref>ابن شبّہ نمیری، ج ۳، ص ۹۳۰؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۶۲؛ طبری، ج ۴، ص ۲۳۳؛قس ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۶ـ۲۷</ref>۔ لیکن تاریخی منابع کے مطابق عثمان مذکورہ شرط پرپابند نہیں رہے جسکی اہم مثالیں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی طرف سے طرد شدہ افراد کو اہم اور کلیدی پوسٹوں پر رکھنا [[بنی امیہ]] کو حکومتی امور پر مسلط کرنا اور کسی ضابطہ اور قانون کے بغیر بعض لوگوں اور اپنے اموی رشتہ داروں کو بیت المال سے بذل کرنا ہیں۔<ref>ابن تیبہ، ج ۱، ص ۳۲؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۶۸، ۱۷۴؛ طبری، ج ۴، ص ۳۴۷ـ ۳۴۸؛ اس حوالے سے زیادہ توضیح اور تشریح کے لیے مراجعہ کریں جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۲، ص ۳۴۴ـ ۳۴۹۔</ref> | ||
*علی ابن ابیطالب (ع) | *علی ابن ابیطالب (ع) | ||
{{اصلی|علی ابن ابی طالب}} | {{اصلی|علی ابن ابی طالب}} | ||
[[امام علی|علی(ع)]] کی [[مسجد]] میں لوگوں کے اجتماع میں [[قرآن|اللہ کی کتاب]] اور | [[امام علی|علی(ع)]] کی [[مسجد]] میں لوگوں کے اجتماع میں [[قرآن|اللہ کی کتاب]] اور پیغمبر کی سنّت پر عمل کرنے کی شرط سے [[بیعت]] ہوئی۔<ref>یعقوبی، ج ۲، ص ۱۷۸ـ۱۷۹؛ طبری، ج ۴، ص ۴۲۷، ۴۳۵؛ ابن اعثم کوفی، ج ۲، ص ۴۳۵ـ۴۳۶۔</ref> آپ نے زبردستی بیعت لینے کو مناسب نہیں سمجھا اور اسی وجہ سے بیعت ایک اختیاری امر قرار پایی اور لوگوں کو بیعت کرنے کی دعوت دینے کو اپنے ذمہ داری سمجھتے تھے لیکن اجباری بیعت کو نہیں مانتے تھے<ref>مراجعہ کریں: نہجالبلاغہ، خط ۱؛ اسکافی، ص ۵۲، ۱۰۵ـ۱۰۶؛ طبری، ج ۴، ص ۴۲۷۔</ref> آپ [[دین]] کی تعلیم کو حاکم کی اصلی ذمہ داری سمجھتے تھے۔<ref>نہجالبلاغہ، خطبہ ۳۴؛ طبری، ج ۵، ص ۹۱۔</ref> اسی وجہ سے [[ایمان]] کے پرچم کو لوگوں کے درمیان گاڈا اور انکو [[حلال]] اور [[حرام]] سے آگاہ کیا۔<ref>نہجالبلاغہ، خطبہ ۸۷۔</ref> | ||
*حسن بن علی (ع) | *حسن بن علی (ع) | ||
سطر 36: | سطر 36: | ||
امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں [[خلفای راشدین|راشدین]] کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،<ref>اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹</ref> | امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں [[خلفای راشدین|راشدین]] کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،<ref>اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹</ref> | ||
چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے [[ | چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے [[پیغمبر(ص)]] کے نامور[[صحابہ]] میں شمار ہونا، پیغمبر اکرم سے نسبی یا سببی رشتہ داری ہونا، اسلام میں پہل کرنا، پیغمبر اکرم اور انکے اہداف سے یاری، اور آخر میں سیرہ علمی (اس مورد میں تیسرا خلیفہ کو استثناء کرنا ہوگا) نے وہ اور بعد والے خلیفوں کے درمیان تفاوت ایجاد کیا بلکہ اسلامی معاشرے میں صاحبان قدرت کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایک معیار میں تبدیل ہوگیا۔ | ||
آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،<ref>مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹</ref> خلیفہ کا[[قریش|قریشی]] ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے [[بیعت]] ایک سبب بننا، <ref>ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۷؛ مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۰ـ۹۳</ref>، امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے حاکم کی اطاعت ضروری ہونا، خروج سے ممانعت، <ref>ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۵۶۶ـ۵۶۷</ref>، خلیفہ کو خلافت سے خلع کرنے کا امکان یا عدم امکان،<ref>ابن فرّاء، ص ۲۰ـ۲۳</ref>، باغیوں کے ساتھ[[جہاد]] وغیرہ، سب [[خلفای راشدین]] کے انتصاب اور انکی کارکردگی سے ماخوذ تھے جو ایک آیڈیل حکومت کے طور پر استناد کیا جاتا تھا | آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،<ref>مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹</ref> خلیفہ کا[[قریش|قریشی]] ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے [[بیعت]] ایک سبب بننا، <ref>ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۷؛ مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۰ـ۹۳</ref>، امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے حاکم کی اطاعت ضروری ہونا، خروج سے ممانعت، <ref>ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۵۶۶ـ۵۶۷</ref>، خلیفہ کو خلافت سے خلع کرنے کا امکان یا عدم امکان،<ref>ابن فرّاء، ص ۲۰ـ۲۳</ref>، باغیوں کے ساتھ[[جہاد]] وغیرہ، سب [[خلفای راشدین]] کے انتصاب اور انکی کارکردگی سے ماخوذ تھے جو ایک آیڈیل حکومت کے طور پر استناد کیا جاتا تھا | ||
===امویوں کی خلافت=== | ===امویوں کی خلافت=== | ||
[[معاویہ بن ابی سفیان]] نے 41 ہ ق کو اموی حکومت تشکیل دیکر اسلامی خلافت کو مشروعیت کے بحران سے دوچار کردیا۔ معاویہ کو نہ تو مسلمان گزشتہ خلفاء کی طرح سمجھتے تھے اور نہ ہی نیک شہرت کے مالک تھے بلکہ اس نے خود اس بات کی تصریح کی تھی کہ خلافت کو رضایت سے نہیں بلکہ زبردستی حاصل کیا ہے۔ <ref>ابن عبد ربّہ، ج ۴، ص ۷۵ـ۷۶</ref> اور خود کہ پہلا بادشاہ کا نام دیکر خلافت کے زوال کی خبر دے دی۔۔<ref>مراجعہ کریں: ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۱، ۱۷۷</ref> اس نے حکومت کو اپنی خاندان کے لیے ایک الہی برتری سمجھا۔<ref>ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۸۳، ۱۸۷؛ ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۰</ref> آخری مورد ایک ایسے غالب نظریے میں تبدیل ہوگیا کہ خلافت بنی امیہ میں موروثی ہونے علاوہ اسلامی خلافت کو ایک مذہبی لبادہ میں رکھ کر اسلامی سلطنت میں تبدیل کردیا، اور بعد میں | [[معاویہ بن ابی سفیان]] نے 41 ہ ق کو اموی حکومت تشکیل دیکر اسلامی خلافت کو مشروعیت کے بحران سے دوچار کردیا۔ معاویہ کو نہ تو مسلمان گزشتہ خلفاء کی طرح سمجھتے تھے اور نہ ہی نیک شہرت کے مالک تھے بلکہ اس نے خود اس بات کی تصریح کی تھی کہ خلافت کو رضایت سے نہیں بلکہ زبردستی حاصل کیا ہے۔ <ref>ابن عبد ربّہ، ج ۴، ص ۷۵ـ۷۶</ref> اور خود کہ پہلا بادشاہ کا نام دیکر خلافت کے زوال کی خبر دے دی۔۔<ref>مراجعہ کریں: ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۱، ۱۷۷</ref> اس نے حکومت کو اپنی خاندان کے لیے ایک الہی برتری سمجھا۔<ref>ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۸۳، ۱۸۷؛ ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۰</ref> آخری مورد ایک ایسے غالب نظریے میں تبدیل ہوگیا کہ خلافت بنی امیہ میں موروثی ہونے علاوہ اسلامی خلافت کو ایک مذہبی لبادہ میں رکھ کر اسلامی سلطنت میں تبدیل کردیا، اور بعد میں پیغمبر اکرم سے ایک منسوب حدیث « خلافت تیس سال کی ہے اور اس کے بعد بادشاہت ہے»،<ref>نعیم بن حمّاد، ص ۵۷؛ احمد بن حنبل، ج ۶، ص ۲۸۹</ref> کے ذریعے تأکید بلکہ ایک قسم کی تائید کی گئی۔ | ||
جب 60 ہجری کو یزید خلافت پر پہنچا تو اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے علاوہ، اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفتوں کو سنگدلی کے ساتھ سرکوب کیا۔ [[امام حسین (ع)]] سے نبرد آزمایی اور [[واقعہ حرہ]] انہی میں سے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۶۱ـ۴۶۲ و ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۱۴؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۵۰</ref> اس کے بعد ، خلافت کی مشروعیت کا معیار حق پر ثابت قدم ہونا نہیں بلکہ وہ خود [[حق]] اور [[باطل]] کا معیار تھا۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۹۷</ref> مخالفوں کے مختلف قیام اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس قسم کی خلافت اگرچہ مسلط تھی لیکن سب کو شامل نہیں کرتی تھی اور | جب 60 ہجری کو یزید خلافت پر پہنچا تو اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے علاوہ، اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفتوں کو سنگدلی کے ساتھ سرکوب کیا۔ [[امام حسین (ع)]] سے نبرد آزمایی اور [[واقعہ حرہ]] انہی میں سے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۶۱ـ۴۶۲ و ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۱۴؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۵۰</ref> اس کے بعد ، خلافت کی مشروعیت کا معیار حق پر ثابت قدم ہونا نہیں بلکہ وہ خود [[حق]] اور [[باطل]] کا معیار تھا۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۹۷</ref> مخالفوں کے مختلف قیام اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس قسم کی خلافت اگرچہ مسلط تھی لیکن سب کو شامل نہیں کرتی تھی اور پیغمبر اکرم کی خاندان کے علاوہ کہ جنہوں نے کربلا میں قیام کر کے اپنا موقف بیان کیا، مسلمانوں کے دیگر چند گروہ خاص کر ([[مکہ]]، [[مدینہ]]) اور [[عراق]] کے لوگوں نے بھی انہیں تحمل نہیں کیا۔<ref>مراجعہ کریں:خلیفۃ بن خیاط، ص ۱۵۷؛ ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۷۳ـ۱۷۴؛ طبری، ج ۵، ص ۴۹۲</ref> | ||
خلافت کے دعویداروں میں سے ایک [[عبداللہ بن زبیر]] تھا جو [[یزید ابن معاویہ|یزید]] کی موت کے بعد 64 ہجری کو [[قرآن|اللہ کی کتاب]]، رسول کی [[سنّت]] اور سیرہ خلفای صالح» پر عمل کرنے کو اساس بنا کر لوگوں کو اپنی [[بیعت]] کی طرف بلایا۔<ref>بلاذری، ج ۶، ص ۳۴۱</ref> ان کی اس دعوت کا اصل ہدف خلاف کی ابتدائی شکل کی طرف لوٹنا تھا، [[معاویہ ابن یزید]] کی اموی پرتنش خلافت سے دستبرداری کے بعد، آہستہ آہستہ حجاز (ابن زبیر کی تحریک کا محل آغاز) سے دیگر علاقوں کی طرف پھیلنے لگا | خلافت کے دعویداروں میں سے ایک [[عبداللہ بن زبیر]] تھا جو [[یزید ابن معاویہ|یزید]] کی موت کے بعد 64 ہجری کو [[قرآن|اللہ کی کتاب]]، رسول کی [[سنّت]] اور سیرہ خلفای صالح» پر عمل کرنے کو اساس بنا کر لوگوں کو اپنی [[بیعت]] کی طرف بلایا۔<ref>بلاذری، ج ۶، ص ۳۴۱</ref> ان کی اس دعوت کا اصل ہدف خلاف کی ابتدائی شکل کی طرف لوٹنا تھا، [[معاویہ ابن یزید]] کی اموی پرتنش خلافت سے دستبرداری کے بعد، آہستہ آہستہ حجاز (ابن زبیر کی تحریک کا محل آغاز) سے دیگر علاقوں کی طرف پھیلنے لگا | ||
مروانیوں کی خلافت 64 ہجری سے شروع ہوئی اور دس خلیفوں کے ذریعے 132 ہجری تک باقی رہی۔ مروانیوں نے خلافت میں اپنی بادشاہتی نظر کو دوام بخشا اور خلیفہ کے معنوی مقام کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی اور اس کے لیے قدسی معنی ایجاد کیا۔<ref>مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۲۳۶ـ۲۴۷</ref> | مروانیوں کی خلافت 64 ہجری سے شروع ہوئی اور دس خلیفوں کے ذریعے 132 ہجری تک باقی رہی۔ مروانیوں نے خلافت میں اپنی بادشاہتی نظر کو دوام بخشا اور خلیفہ کے معنوی مقام کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی اور اس کے لیے قدسی معنی ایجاد کیا۔<ref>مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۲۳۶ـ۲۴۷</ref> | ||
امویوں کی وسیع تبلیغات اور سیاسی تسلط کی وجہ سے خلافت اور خلیفہ کا مفہوم اکثر مسلمانوں کے ذھن میں یہاں تک کہ [[امویوں]] کی حکومت کے بعد بھی انکا ترویج کیا ہوا مفہوم تھا۔ | امویوں کی وسیع تبلیغات اور سیاسی تسلط کی وجہ سے خلافت اور خلیفہ کا مفہوم اکثر مسلمانوں کے ذھن میں یہاں تک کہ [[امویوں]] کی حکومت کے بعد بھی انکا ترویج کیا ہوا مفہوم تھا۔ | ||
اس کے باوجود [[اہل بیت(ع)|خاندان | اس کے باوجود [[اہل بیت(ع)|خاندان پیغمبر]] کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور رفتار کی وجہ سے انکی حکومت کا چہرہ مسخ اور ناقابل ترمیم باقی رہا۔۔<ref>مراجعہ کریں: جاحظ، رسائل الجاحظ: الرسائل الکلامیۃ، ص ۲۴۲ـ۲۴۵؛ غزالی، ص ۱۱۹؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۵۷؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۵۴</ref> اسی وجہ سے تاریخ میں بہت سارے مسلم مولفین نے امیر المومنین کی اصطلاح یا حتی خلیفہ کی اصطلاح کو امویوں کے لیے استعمال کرنے سے اجتناب کیا ہے یہاں تک کہ اموی دو اصلاح کرنے والے خلیفے، [[عمر بن عبدالعزیز]] اور [[یزید بن ولید]] کا انکے درمیان موجود ہونا، یا بعض مولفین کی امویوں کی کارکردگی کی توجیہ کرنے کی کوششیں<ref>مراجعہ کریں: خطیب اسکافی، ص ۱۲؛ طرطوشی، ص ۱۲۶ـ۱۲۷</ref>، بھی انکے منفی چہرے کی تطہیر کے لیے مفید واقع نہیں ہوئیں۔ | ||
===عباسیوں کی خلافت=== | ===عباسیوں کی خلافت=== | ||
اسلامی خلافت کا تیسرا دور بنی عباس والوں کا ہے جنہوں نے 37 خلیفوں کے زریعے پانچ صدیوں(۱۳۲ـ۶۵۶ھ) سے زیادہ مملکت اسلامی پر حکومت کیا۔ «الرضا من آل محمد (ص)» کے نعرے سے یہ خلافت تشکیل پائی، [[اہل بیت]] کو حقوق دلانے اور الہی میراث یعنی [[محمد (ص)| | اسلامی خلافت کا تیسرا دور بنی عباس والوں کا ہے جنہوں نے 37 خلیفوں کے زریعے پانچ صدیوں(۱۳۲ـ۶۵۶ھ) سے زیادہ مملکت اسلامی پر حکومت کیا۔ «الرضا من آل محمد (ص)» کے نعرے سے یہ خلافت تشکیل پائی، [[اہل بیت]] کو حقوق دلانے اور الہی میراث یعنی [[محمد (ص)|پیغمبر (ص)]]کی (جانشینی) انکے خاندان کو واپس کرنے کے لیے [[سفاح]] کی بیعت کی۔<ref>مراجعہ کریں: یعقوبی، ج ۲، ص ۳۵۰ـ۳۵۱</ref> وراثت بنی عباس کی خلافت کے ڈھانچے میں ایک لازمی رکن شمار ہوتی تھی۔ | ||
اس دورے میں خلیفہ کی [[بیعت]] خاص آداب اور رسومات کے ساتھ انجام دی جاتی تھی۔<ref>ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص ۱؛ ابن فرّاء، ص ۲۴؛ بلعمی، ج ۲، ص ۱۱۶۹؛ ثعالبی، ص ۷۶؛ گردیزی، ص ۱۵۳؛ ابن جوزی، ج ۹، ص ۲۱۹؛ قلقشندی، صنع الاعشی فی صناعۃ الانشا، ج ۹، ص ۲۷۶ـ۲۷۹</ref> تیسری صدی سے ہی خلفاء کے دربار کی آداب و رسوم کے آثار تدوین ہوگئے اور تشریفات، تزین اور ڈیکوریشن خلیفہ اور اس کے دربار کی لوازمات میں سے شمار ہونے لگیں <ref>جاحظ، التاج فی اخلاق الملوک، ص۱۵ـ۲۱، ۲۴ـ ۳۲، ۵۳ـ۸۷؛ ثعلبی، ص۳۷ـ۱۰۱</ref> | اس دورے میں خلیفہ کی [[بیعت]] خاص آداب اور رسومات کے ساتھ انجام دی جاتی تھی۔<ref>ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص ۱؛ ابن فرّاء، ص ۲۴؛ بلعمی، ج ۲، ص ۱۱۶۹؛ ثعالبی، ص ۷۶؛ گردیزی، ص ۱۵۳؛ ابن جوزی، ج ۹، ص ۲۱۹؛ قلقشندی، صنع الاعشی فی صناعۃ الانشا، ج ۹، ص ۲۷۶ـ۲۷۹</ref> تیسری صدی سے ہی خلفاء کے دربار کی آداب و رسوم کے آثار تدوین ہوگئے اور تشریفات، تزین اور ڈیکوریشن خلیفہ اور اس کے دربار کی لوازمات میں سے شمار ہونے لگیں <ref>جاحظ، التاج فی اخلاق الملوک، ص۱۵ـ۲۱، ۲۴ـ ۳۲، ۵۳ـ۸۷؛ ثعلبی، ص۳۷ـ۱۰۱</ref> | ||
عباسی خلفاء کی ابتدائی نسل مذہبی اور سیاسی مقتدر شان و شوکت رکھتے تھے اور انکی دینی اقتدار، سیاسی طاقت کی بنیاد سمجھی جاتی تھی <ref>ابن مقفع، ص ۱۹۲؛ ابویوسف، ص ۵؛ بلک، ص ۳۶ـ۳۹</ref> لیکن خلیفہ کی سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی؛ اور خلیفہ کا عزل و نصب اور حکومت کی بقاء یہاں تک کہ خلیفہ کی موت و زندگی کا اختیار بھی پورے طور پر ترک فوج، آل بویہ اور سلجوقیوں کے ہاتھ میں تھی۔<ref>مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۱۸۵؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۳۳ـ۱۳۴</ref> | عباسی خلفاء کی ابتدائی نسل مذہبی اور سیاسی مقتدر شان و شوکت رکھتے تھے اور انکی دینی اقتدار، سیاسی طاقت کی بنیاد سمجھی جاتی تھی <ref>ابن مقفع، ص ۱۹۲؛ ابویوسف، ص ۵؛ بلک، ص ۳۶ـ۳۹</ref> لیکن خلیفہ کی سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی؛ اور خلیفہ کا عزل و نصب اور حکومت کی بقاء یہاں تک کہ خلیفہ کی موت و زندگی کا اختیار بھی پورے طور پر ترک فوج، آل بویہ اور سلجوقیوں کے ہاتھ میں تھی۔<ref>مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۱۸۵؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۳۳ـ۱۳۴</ref> | ||
سطر 61: | سطر 61: | ||
===عثمانی حکومت=== | ===عثمانی حکومت=== | ||
[[عثمانی سلطنت|عثمانی حکومت]]، جس کے قبضے میں [[روس]] کے صحراوں کے وسیع حصوں سے لیکر بحیرہ اسود تک، [[یورپ]] اور [[افریقہ]] کے کچھ علاقے اور [[عراق]]، [[حجاز]] اور [[شام]] تھے، ایک طاقتور اور تازہ دم حکومت شمار ہوتی تھی 923ھ کو مصر پر قبضہ کرنے کے بعد اسے رسمی طور پر خلافت کا عنوان دیا گیا۔ عثمانی بادشاہ عباسی خلیفہ سے متصل ہوئے بغیر اپنی مذہبی مشروعیت کو میسر ہوتے نہیں دیکھتا تھا <ref>ابن سباط، ج ۲، ص ۷۵۰</ref> یہاں تک کہ عثمانی خلافت کا موجد، سلیم اول، بھی خلافت کا ادعا کرنے سے پہلے کوشش کرتا تھا کہ عباسی خلیفہ سے متوسل ہوکر ان کے ذریعے اپنی ساکھ بنائے۔<ref>مراجعہ کریں: ابن ایاس، ج ۵، ص ۲۷۲؛ بارتولد، ص ۶۷</ref> سلیم کی [[ایشیائے صغیر]]، حجاز، شام و شمالی افریقہ میں فتوحات کی وجہ سے عثمانی حکومت کی بڑھتی ہوتی سرزمین نے عثمانیوں کو پورے جہان [[اسلام]] کی حکمرانی حاصل کرنے کی طرف دھکیل دیا۔920ھ کو[[چالدران کی جنگ]] کے بعد کہ جسمیں سلیم کو فتح ملی تو اس کو « خدا کا خلیفہ اور | [[عثمانی سلطنت|عثمانی حکومت]]، جس کے قبضے میں [[روس]] کے صحراوں کے وسیع حصوں سے لیکر بحیرہ اسود تک، [[یورپ]] اور [[افریقہ]] کے کچھ علاقے اور [[عراق]]، [[حجاز]] اور [[شام]] تھے، ایک طاقتور اور تازہ دم حکومت شمار ہوتی تھی 923ھ کو مصر پر قبضہ کرنے کے بعد اسے رسمی طور پر خلافت کا عنوان دیا گیا۔ عثمانی بادشاہ عباسی خلیفہ سے متصل ہوئے بغیر اپنی مذہبی مشروعیت کو میسر ہوتے نہیں دیکھتا تھا <ref>ابن سباط، ج ۲، ص ۷۵۰</ref> یہاں تک کہ عثمانی خلافت کا موجد، سلیم اول، بھی خلافت کا ادعا کرنے سے پہلے کوشش کرتا تھا کہ عباسی خلیفہ سے متوسل ہوکر ان کے ذریعے اپنی ساکھ بنائے۔<ref>مراجعہ کریں: ابن ایاس، ج ۵، ص ۲۷۲؛ بارتولد، ص ۶۷</ref> سلیم کی [[ایشیائے صغیر]]، حجاز، شام و شمالی افریقہ میں فتوحات کی وجہ سے عثمانی حکومت کی بڑھتی ہوتی سرزمین نے عثمانیوں کو پورے جہان [[اسلام]] کی حکمرانی حاصل کرنے کی طرف دھکیل دیا۔920ھ کو[[چالدران کی جنگ]] کے بعد کہ جسمیں سلیم کو فتح ملی تو اس کو « خدا کا خلیفہ اور پیغمبر» سے خطاب کیا۔<ref>مراجعہ کریں: فریدونبیگپاشا، ج ۱، ص ۴۱۶</ref> | ||
عثمانی خلافت کسی بھی وقت ایک معنوی مرکز کے عنوان سے جانی نہیں گئی۔ خلفاء کا غیر عرب اور غیر قریشی ہونا اور انکی [[اہل بیت(ع)| | عثمانی خلافت کسی بھی وقت ایک معنوی مرکز کے عنوان سے جانی نہیں گئی۔ خلفاء کا غیر عرب اور غیر قریشی ہونا اور انکی [[اہل بیت(ع)|پیغمبر کی خاندان]] سے کوئی نسبت نہ ہونا اس کی اہم وجہ تھی جیسا کہ عثمانی خلافت کے اعلان کی پہلی صدی میں ہی ایک عثمانی اہم شخصیت نے ایک رسالہ لکھ کر غیر قریشی خاص کر عثمانی بادشاہوں کیلئے خلیفہ اور امام کا لقب استعمال کرنے کو مشروعیت دینے کی کوشش کی۔<ref>مراجعہ کریں: لطفیپاشا، ص۳۸ـ۴۸، ۶۲</ref> اور اس کام نے عثمانی خلافت کو انکی اصلی سلطنت کے اندر مورد سوال ٹھہرایا ۔<ref>مراجعہ کریں: لطفیپاشا، ص ۶۸، جس میں اس مسئلے کے منکروں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ </ref> | ||
۱۳۰۱ش/ ۱۹۲۲ کو [[انقرہ]] کی قومی اسمبلی کے اراکین نے ووٹ کے ذریعے عثمانی خلافت کو ایک روحانی مقام تک محدود کردیا اور بادشاہت سے جدا کیا۔ اس کے ایک سال بعد بادشاہی نظام ختم ہوکر [[ترکی]] جمہوریہ وجود میں آیی جسے خلافت پسند مسلمانوں کے عکس العمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض شخصیات جیسے سید [[امیرعلی ہندی]] [[شیعہ]] امامی میں سے اور آغاخان ( [[اسماعیلی]] سربراہ)کو اتنا پریشان کردیا کہ تحریک خلافت کی نمایندگی میں ترکی چلے گئے اور ترکی کے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات میں انکی تصمیم میں تجدید نظر کا مطالبہ کیا لیکن ان اقدامات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ۱۳۰۳ ہ۔ش/ ۱۹۲۴ م، کو ترکوں نے نظام خلافت کو ہمیشہ کے لیے لغو کرنے کی رای دی۔ | ۱۳۰۱ش/ ۱۹۲۲ کو [[انقرہ]] کی قومی اسمبلی کے اراکین نے ووٹ کے ذریعے عثمانی خلافت کو ایک روحانی مقام تک محدود کردیا اور بادشاہت سے جدا کیا۔ اس کے ایک سال بعد بادشاہی نظام ختم ہوکر [[ترکی]] جمہوریہ وجود میں آیی جسے خلافت پسند مسلمانوں کے عکس العمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض شخصیات جیسے سید [[امیرعلی ہندی]] [[شیعہ]] امامی میں سے اور آغاخان ( [[اسماعیلی]] سربراہ)کو اتنا پریشان کردیا کہ تحریک خلافت کی نمایندگی میں ترکی چلے گئے اور ترکی کے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات میں انکی تصمیم میں تجدید نظر کا مطالبہ کیا لیکن ان اقدامات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ۱۳۰۳ ہ۔ش/ ۱۹۲۴ م، کو ترکوں نے نظام خلافت کو ہمیشہ کے لیے لغو کرنے کی رای دی۔ | ||
سطر 118: | سطر 118: | ||
* بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب فتوح البلدان، چاپ دخویہ، لیدن ۱۸۶۶، چاپ افست فرانکفورت ۱۴۱۳/۱۹۹۲۔ | * بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب فتوح البلدان، چاپ دخویہ، لیدن ۱۸۶۶، چاپ افست فرانکفورت ۱۴۱۳/۱۹۹۲۔ | ||
* بلعمی، محمدبن محمد، تاریخنامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران ۱۳۶۶ش۔ | * بلعمی، محمدبن محمد، تاریخنامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران ۱۳۶۶ش۔ | ||
* بلک، آنتونی، تاریخ اندیشہ سیاسی اسلام: از عصر | * بلک، آنتونی، تاریخ اندیشہ سیاسی اسلام: از عصر پیغمبر تا امروز، ترجمہ محمدحسین وقار، تہران ۱۳۸۵ش۔ | ||
* بنّا، حسن، مجموعۃ رسائل الامام الشہید حسین البنا، اسکندریہ ۱۴۲۳/۲۰۰۲۔ | * بنّا، حسن، مجموعۃ رسائل الامام الشہید حسین البنا، اسکندریہ ۱۴۲۳/۲۰۰۲۔ | ||
* تحفہ: در اخلاق و سیاست، از متون فارسی قرن ہشتم، چاپ محمدتقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۱ش | * تحفہ: در اخلاق و سیاست، از متون فارسی قرن ہشتم، چاپ محمدتقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۱ش |