گمنام صارف
"جعدہ بنت اشعث" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''جَعده یا جُعده بنت اشعث بن قیس کندی'''، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حضرت امام حسن علیہ السلام]] کی زوجہ تھی۔ اس سے امام حسن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اس نے [[معاویہ]] کے اکسانے پر امام حسن کو زہر دیا۔ امام سے اس کی شادی کیوں اور کیسے | |||
ہوئی، اس کے متعلق مختلف روایات مذکور ہیں۔ | |||
== نام، ولادت ، نسب == | == نام، ولادت ، نسب == | ||
تاریخ میں اسکی ولادت کے متعلق کچھ ذکر نہیں ہے البتہ اس کے نسب | تاریخ میں اسکی ولادت کے متعلق کچھ ذکر نہیں ہے البتہ اس کے نسب میں اس کے باپ کا نام [[اشعث بن قیس]] کِندی مذکور ہے جو [[اسلام]] کے ابتدائی سالوں میں ایک جانا پہچانا چہرہ تھا اور اس کی ماں کا نام ام فروة آیا ہے جو [[ابوبکر]] کی بہن تھی۔<ref>کتاب الفتوح، ج ۱، ص۶۸.</ref> | ||
[[ابوالفرج اصفہانی]] کے مطابق | [[ابوالفرج اصفہانی]] کے مطابق سکینہ، شعثاء و عائشہ اسکے نام تھے لیکن اس کا اصلی نام جُعده تھا۔<ref>مقاتل الطالببین، ص۳۲.</ref> [[حضرت امام حسن]] کی [[شہادت]] کے بعد اس کے بیٹوں کو ''بنی مسمہ الازواج''( اپنے شوہروں کو زہر دینے والی کی اولاد) کہا جاتا تھا ۔<ref>الارشاد، ج ۲، ص۱۶. شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۴۹.</ref> | ||
==امام حسن سے ازدواج== | ==امام حسن سے ازدواج== | ||
بلاذری اس شادی کے متعلق لکھتا ہے : [[امام علی علیہالسلام|امام علی]] نے امام حسن کیلئے سعید بن قیس کی بیٹی '''ام عمران''' کا رشتہ طلب کیا تو سعید نے اپنے بھائی اشعث بن قیس سے مشورہ کیا. اشعث نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعید سے کہا :بہتر نہیں کہ تم ام عمران کو میرے بیٹے محمد سے بیاہ دو؟ اشعث بن قیس نے پھر حضرت علی کو [[حضرت امام حسن]] کیلئے اپنی بیٹی جعدہ کی تجویز دی .<ref>بلاذری ،انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۴ و ۱۵.</ref> | بلاذری اس شادی کے متعلق لکھتا ہے : [[امام علی علیہالسلام|امام علی]] نے امام حسن کیلئے سعید بن قیس کی بیٹی '''ام عمران''' کا رشتہ طلب کیا تو سعید نے اپنے بھائی اشعث بن قیس سے مشورہ کیا. اشعث نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعید سے کہا :بہتر نہیں کہ تم ام عمران کو میرے بیٹے محمد سے بیاہ دو؟ اشعث بن قیس نے پھر حضرت علی کو [[حضرت امام حسن]] کیلئے اپنی بیٹی جعدہ کی تجویز دی .<ref>بلاذری ،انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۴ و ۱۵.</ref> |