گمنام صارف
"نماز جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 138: | سطر 138: | ||
[[ابن بطوطہ]] کی روایت کے مطابق، ساتویں صدی ہجری میں، [[بغداد]] میں 11 مساجد میں نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی؛ ممالیک کی حکومت کے دور میں اس شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی چنانچہ نماز جمعہ مقامی مساجد اور مدرسوں میں بھی بپا کی جاتی تھی۔<ref>قلقشندی، صبح الاعشی، ج3، ص362۔</ref> | [[ابن بطوطہ]] کی روایت کے مطابق، ساتویں صدی ہجری میں، [[بغداد]] میں 11 مساجد میں نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی؛ ممالیک کی حکومت کے دور میں اس شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی چنانچہ نماز جمعہ مقامی مساجد اور مدرسوں میں بھی بپا کی جاتی تھی۔<ref>قلقشندی، صبح الاعشی، ج3، ص362۔</ref> | ||
==امام جمعہ کا تقرر== | |||
{{اصل مضمون|امام جمعہ}} | |||
[[شیعہ]] نیز زیادہ تر مذاہب [[اہل سنت]] کے فقہاء، [دوسری جسمانی عبادات کی مانند]، نماز جمعہ کی صحت کو '''حاکم''' کی موجودگی یا اجازت سے مشروط نہیں کرتے اور وہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے محاصرے کے دوران [[امیرالمؤمنین|حضرت علی علیہ السلام]] کی امامت کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔<ref>شافعی، الامّ، ج1، ص192۔ ابن قدامہ، المغنی، ج2، ص173ـ174۔ نووی، المجموع، ج4، ص509۔</ref> اس کے باوجود پوری تاریخ اسلام میں امامت جمعہ سرکاری منصب کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہے۔<ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص255۔</ref> | |||
[[اہل سنت]] میں [[احناف]] کا عقیدہ ہے کہ نماز جمعہ کی امامت کے لئے، سلطان یا اس کے نائب یا نماز جمعہ بپا کرنے کے لئے سلطان کے اجازہ یافتہ شخص کا ہونا، لازمی ہے، خواہ وہ سلطان ظالم ہی کیوں نہ ہو۔<ref>اوزاعی، فقہ الاوزاعی، ج1، ص 260-261۔</ref> | |||
==نماز جمعہ کی کیفیت== | |||
نماز جمعہ سے پہلے دو خطبے پڑھے جاتے ہیں بعدازاں نماز جمعہ کی نیت سے دو رکعت نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اس نماز کی پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے ایک قنوت اور دوسری رکعت میں [[رکوع]] کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔ | |||
* '''خطبے''' | |||
نماز جمعہ کا آغاز دو [[خطبہ|خطبوں]] سے ہوتا ہے جو در حقیقت [[نماز ظہر]] کی پہلی دو رکعتوں کے متبادل ہیں۔<ref>عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج3، ص41۔رافعی قزوینی، فتح العزیز، ج4، ص576۔ نَوَوی، المجموع، ج4، ص513۔ قس حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص312ـ313۔</ref> | |||
خطیب جمعہ کو [[امام جماعت]] کی تمام شروط پر پورا اترنے کے علاوہ<ref>بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص872-873۔</ref> دوسری کئی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے مثلا اونچی آواز کا مالک ہو، شجاع ہو، حقائق کے بیان میں کھرا، صاف گو اور بے جھجھک ہو اور اسلام و مسلمین کی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔ نیز بہتر ہے کہ امام جمعہ عادل ترین اور شریف ترین افراد میں سے منتخب کیا جائے۔<ref>ابن عطار، ادب الخطیب، ص89- 96۔ امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، ج1 ص209۔ بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص879-880۔</ref> | |||
[[امام رضاؑ]] ان خطبوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: | |||
: خطبہ اس لئے روز جمعہ کے لئے وضع ہوا ہے کہ خداوند متعال مسلمانوں کے حاکم کو موقع فراہم کرتا ہے کہ لوگوں کو موعظہ کرے اور انہیں خدا کی اطاعت کی رغبت دلائے، [[گناہ|اللہ کی نافرمانی]] سے ڈرائے، انہیں ان کے [[دین]] اور دنیا کی مصلحتوں سے آگاہ کردے، دنیا بھر سے اس کو ملنے والی اہم خبروں اور واقعات ـ جو عوام کے مقدرات کے لئے اہمیت رکھتے ہیں ـ کو ان تک پہنچا دے۔ دو خطبے قرار دیئے گئے ہیں تا کہ ایک خطبے میں اللہ کی حمد و تقدیس کا اہتمام ہو اور دوسرے میں ضروریات سے آگاہ کیا جائے، بعض مسائل کے سلسلے میں ہوشیار اور خبردار کیا جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے اور ان اوامر اور اسلامی معاشرے کی صلاح یا فساد سے متعلق احکام ان تک پہنچا دے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7 ص344۔</ref> | |||
** '''وقت اور مضامین ''' | |||
اکثر [[مرجع تقلید|مراجع تقلید]] کی رائے کے مطابق خطبات جمعہ [[ظہر شرعی]] سے قبل دیئے جائیں۔<ref>علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، ج4، ص68ـ69۔ حائری، صلاۃ الجمعۃ، ص193ـ199۔</ref> | |||
فقہائے شیعہ کا مشہور فتوی یہ ہے کہ خطبہ کم از کم حمد [[خدا]]، [[رسول اللہ(ص)]] پر [[صلوات]]، وعظ و نصیحت، [[تقوی]] کی تلقین و ترغیب اور [[قرآن]] کی ایک چھوٹی [[سورہ|سورت]] پر مشتمل ہونا چاہئے۔<ref>سلاّر دیلمی، المراسم العلویۃ فی الاحکام النبویۃ، ص77۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص344۔ بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص878، 879۔</ref> | |||
** '''خطبات کا سننا ''' | |||
نمازیوں کو ہر وہ عمل ترک کردینا چاہئے جو انہیں [[خطبہ|خطبوں]] کی سماعت سے باز رکھتا ہو جیسے بولنا یا نماز پڑھنا وغیرہ۔<ref>سرخسی، کتاب المبسوط، ج2، ص29ـ30۔ ابن ادریس، السرائر، ج1، ص291، 295۔ نووی، روضۃ الطالبین، ج1، ص573۔ خوئی، منہاج الصالحین، ج1، ص187۔ بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص888، 892۔</ref> | |||
[[امیرالمؤمنین|امیرالمؤمنین علیؑ]] فرماتے ہیں: | |||
: نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں: وہ لوگ جو امام سے پہلے نماز میں حاضر ہوتے ہیں، اور خاموش رہ کر خطبے سنتے ہیں، ان لوگوں کی نماز جمعہ میں شرکت ان کے 10 دنوں کے [[:زمرہ:گناہ|گناہوں]] کا [[کفارہ]] ہے۔ بعض وہ لوگ ہیں جو نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں لیکن بات چیت اور ہلنے جلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کو نماز جمعہ سے ملنے والا صلہ "دوستوں کے ساتھ گفتگو اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا" ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو امام خطبہ دینا شروع کرتا ہے تو وہ نماز میں مصروف ہوجاتے ہیں، وہ بھی سنت کے خلاف عمل کرتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر خدا سے کچھ مانگیں تو اللہ چاہے تو انہیں عطا کرتا ہے، چاہے تو انہیں محروم کردیتا ہے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج86 ص198۔</ref> | |||
*'''دو رکعت نماز''' | |||
دو [[خطبہ|خطبے]] دیئے جانے کے بعد دو رکعت [[نماز|نماز جمعہ]] پڑھی جاتی ہے۔ پہلی رکعت میں [[سورہ حمد]] کے بعد [[سورہ جمعہ]] اور دوسری رکعت میں [[سورہ منافقون]] یا پہلی رکعت میں [[سورہ اعلی]] اور دوسری رکعت میں [[سورہ غاشیہ]] پڑھنا [[مستحب]] ہے۔ اونچی آواز [یعنی جَہْر] سے سورتوں کی تلاوت بھی [[مستحب]] ہے۔<ref>مفید، المقنعۃ، ص141۔کاسانی، بدائع الصنائع، ج1، ص269۔نجفی، جواہر الکلام، ج11، ص133ـ134۔</ref> | |||
*'''دو قنوت ''' | |||
:بعض [[شیعہ]] فقہاء کے مطابق پہلی رکعت میں [[رکوع]] سے پہلے اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا [[مستحب]] ہے۔<ref>طوسی، النہایۃ، ص106۔طوسی، الخلاف، ج1، ص631ـ 632۔بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص878۔</ref> | |||
[پہلی رکعت میں غائب ہونے کی صورت میں] نماز جمعہ کی دوسری رکعت میں شامل ہونا کافی ہے، یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ نماز جمعہ کی ایک رکعت با جماعت اور دوسری رکعت فرادٰی کی صورت میں، ادا کی جائے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج11، ص147۔زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج2، ص273۔</ref> | |||
==تاریخی پس منظر== | ==تاریخی پس منظر== | ||
سطر 205: | سطر 242: | ||
دسمبر 1979 سے اکتوبر 1982ع تک کے عرصے میں [مجاہدین خلق نامی دہشت گرد تنظیم کی] دہشت گردانہ کاروائیوں میں [[ایران]] کے کئی مشہور ائمۂ جمعہ نے جام شہادت نوش کیا جن میں آیت اللہ [[سید محمد علی قاضی طباطبائی]] (ولادت سنہ 1293 شہادت 1358ھ ش) اور آیت اللہ [[سید اسد اللہ مدنی]] (ولادت سنہ 1292 شہادت 1360ھ ش) [دونوں بمقام تبریز]، آیت اللہ [[سید عبدالحسین دستغیب]] (ولادت سنہ 1288 شہادت 1360ھ ش [بمقام شیراز])، آیت اللہ [[محمد صدوقی]] (ولادت 1287 شہادت 1361ھ ش [بمقام یزد]) اور آیت اللہ [[عطاء اللہ اشرفی اصفہانی]] (ولادت سنہ 1279 شہادت 1361ھ ش [بمقام کرمانشاہ]) شامل ہیں۔<ref>دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، روزہا و رویدادہا، ج2، ص81 و 229۔ دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، وہی ماخذ، ج3، ص102ـ103، 297۔</ref> | دسمبر 1979 سے اکتوبر 1982ع تک کے عرصے میں [مجاہدین خلق نامی دہشت گرد تنظیم کی] دہشت گردانہ کاروائیوں میں [[ایران]] کے کئی مشہور ائمۂ جمعہ نے جام شہادت نوش کیا جن میں آیت اللہ [[سید محمد علی قاضی طباطبائی]] (ولادت سنہ 1293 شہادت 1358ھ ش) اور آیت اللہ [[سید اسد اللہ مدنی]] (ولادت سنہ 1292 شہادت 1360ھ ش) [دونوں بمقام تبریز]، آیت اللہ [[سید عبدالحسین دستغیب]] (ولادت سنہ 1288 شہادت 1360ھ ش [بمقام شیراز])، آیت اللہ [[محمد صدوقی]] (ولادت 1287 شہادت 1361ھ ش [بمقام یزد]) اور آیت اللہ [[عطاء اللہ اشرفی اصفہانی]] (ولادت سنہ 1279 شہادت 1361ھ ش [بمقام کرمانشاہ]) شامل ہیں۔<ref>دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، روزہا و رویدادہا، ج2، ص81 و 229۔ دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، وہی ماخذ، ج3، ص102ـ103، 297۔</ref> | ||
==فوٹو گیلری== | ==فوٹو گیلری== |