مندرجات کا رخ کریں

"نماز جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 104: سطر 104:
[[امام سجادؑ]] نے [[صحیفہ سجادیہ]] میں<ref>نوری، وہی ماخذ، ج6، ص474۔</ref> بھی امامتِ جمعہ کو اللہ کے برگزیدہ افراد کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں بروئے کار آنے والی عبارات کا مصداق [[ائمہ|امام معصوم]] قرار نہیں دیا ہے؛ اور اس کے زیادہ عام مفہوم میں لیا ہے جس میں [[امام جماعت]] بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں، ان [[احادیث]] میں نماز کے باجماعت انعقاد کی ضرورت پر زور دینا مقصود ہے۔<ref>بطور نمونہ: حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص310۔</ref>
[[امام سجادؑ]] نے [[صحیفہ سجادیہ]] میں<ref>نوری، وہی ماخذ، ج6، ص474۔</ref> بھی امامتِ جمعہ کو اللہ کے برگزیدہ افراد کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں بروئے کار آنے والی عبارات کا مصداق [[ائمہ|امام معصوم]] قرار نہیں دیا ہے؛ اور اس کے زیادہ عام مفہوم میں لیا ہے جس میں [[امام جماعت]] بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں، ان [[احادیث]] میں نماز کے باجماعت انعقاد کی ضرورت پر زور دینا مقصود ہے۔<ref>بطور نمونہ: حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص310۔</ref>


====وجوب عینی====
====وجوب تعیینی====
دوسری طرف سے، زیادہ تر متقدم فقہی مآخذ میں ـ جو قابل دسترس ہیں ـ بعض [[احادیث]] میں نماز جمعہ کے وجوب پر تاکید ہوئی ہے اور امام معصومؑ یا ان کے نائب کی امامت صراحت کے ساتھ شرط قرار نہیں پائی ہے۔<ref>برای نمونه کلینی، الکافی، ج3 ص418ـ419۔</ref><ref>ابن بابویہ، الامالی، ص573۔</ref> بایں حال، بعد کی صدیوں کے تقریبا تمام شیعہ فقہاء نے حاکمِ [[عدالت (فقہ)|عادل]]<ref>مفید، المقنعۃ، ص676۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، مسائل الناصریات، ص265۔</ref><ref>طوسی، المبسوط، ج1، ص143۔</ref> یا امام عادل کی موجودگی یا اجازت<ref>عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج1 ص272۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، وہی ماخذ، ج3، ص41۔</ref> کو نماز جمعہ کی برپائی کی شرطوں میں گردانا ہے۔ امام جمعہ کے لئے [[عدالت (فقہ)|عدالت]] کی شرط فقہائے شیعہ نے لازمی قرار دی ہے اور [[اہل سنت]] کے فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔<ref>محقق حلی، المعتبر، ج2 ص279ـ280۔</ref> گوکہ نماز جمعہ کے واجب تعیینی<ref>واجب تعیینی، وہ واجب عمل ہے جو خود واجب ہوا ہے اور کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا، جیسے [[یومیہ نمازیں]]، اس کے مقابلے میں واجب تخییری ہے جس میں مکلف کو اختیار ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، 60 دن روزہ رکھے یا 60 افراد کو کھانا کھلائے۔[http://www.hawzah.net/fa/Book/View/45324/34500/%D9%88%D8%A7%D8%AC%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%DB%8C%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D9%88-%D8%AA%D8%AE%DB%8C%DB%8C%D8%B1%DB%8C واجب تعیینی و تخییری]۔</ref> ہونے کا نظریہ [[غیبت کبری]] کے آغاز ہی سے کم و بیش [[فقیہ|فقہاء]] کے ہاں زیر بحث رہا ہے۔<ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص29ـ65۔</ref>  
دوسری طرف سے، زیادہ تر متقدم فقہی مآخذ میں ـ جو قابل دسترس ہیں ـ بعض [[احادیث]] میں نماز جمعہ کے وجوب پر تاکید ہوئی ہے اور امام معصومؑ یا ان کے نائب کی امامت صراحت کے ساتھ شرط قرار نہیں پائی ہے۔<ref>برای نمونه کلینی، الکافی، ج3 ص418ـ419۔</ref><ref>ابن بابویہ، الامالی، ص573۔</ref> بایں حال، بعد کی صدیوں کے تقریبا تمام شیعہ فقہاء نے حاکمِ [[عدالت (فقہ)|عادل]]<ref>مفید، المقنعۃ، ص676۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، مسائل الناصریات، ص265۔</ref><ref>طوسی، المبسوط، ج1، ص143۔</ref> یا امام عادل کی موجودگی یا اجازت<ref>عَلَمُ الہُدیٰ، رسائل، ج1 ص272۔</ref><ref>عَلَمُ الہُدیٰ، وہی ماخذ، ج3، ص41۔</ref> کو نماز جمعہ کی برپائی کی شرطوں میں گردانا ہے۔ امام جمعہ کے لئے [[عدالت (فقہ)|عدالت]] کی شرط فقہائے شیعہ نے لازمی قرار دی ہے اور [[اہل سنت]] کے فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔<ref>محقق حلی، المعتبر، ج2 ص279ـ280۔</ref> گوکہ نماز جمعہ کے واجب تعیینی<ref>واجب تعیینی، وہ واجب عمل ہے جو خود واجب ہوا ہے اور کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا، جیسے [[یومیہ نمازیں]]، اس کے مقابلے میں واجب تخییری ہے جس میں مکلف کو اختیار ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، 60 دن روزہ رکھے یا 60 افراد کو کھانا کھلائے۔[http://www.hawzah.net/fa/Book/View/45324/34500/%D9%88%D8%A7%D8%AC%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%DB%8C%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D9%88-%D8%AA%D8%AE%DB%8C%DB%8C%D8%B1%DB%8C واجب تعیینی و تخییری]۔</ref> ہونے کا نظریہ [[غیبت کبری]] کے آغاز ہی سے کم و بیش [[فقیہ|فقہاء]] کے ہاں زیر بحث رہا ہے۔<ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص29ـ65۔</ref>  
اور اس کے واجب تعیینی ہونے پر دسویں صدی ہجری میں [[شہید ثانی]] نے زیادہ سنجیدگی سے بحث کی۔<ref> شہید ثانی، الرسائل، ص197۔</ref> بعض فقہاء ـ منجملہ شہید ثانی کے نواسے اور [[مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام|مدارک الاحکام]] کے مصنف<ref>"جناب سید شمس الدین محمد بن علی بن حسین موسوی عاملی جبعی" المعمروف بہ [[صاحب مدارک]] ۔</ref> ـ نے ان کی پیروی کی<ref>الموسوي العاملي، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، ج4، ص25۔</ref> اور یہ نظریہ [[صفویہ|صفوی]] دور میں ـ بطور خاص اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ـ<ref>محمد مقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص53-54۔</ref> وسیع سطح پر رائج ہوا۔  
اور اس کے واجب تعیینی ہونے پر دسویں صدی ہجری میں [[شہید ثانی]] نے زیادہ سنجیدگی سے بحث کی۔<ref> شہید ثانی، الرسائل، ص197۔</ref> بعض فقہاء ـ منجملہ شہید ثانی کے نواسے اور [[مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام|مدارک الاحکام]] کے مصنف<ref>"جناب سید شمس الدین محمد بن علی بن حسین موسوی عاملی جبعی" المعمروف بہ [[صاحب مدارک]] ۔</ref> ـ نے ان کی پیروی کی<ref>الموسوي العاملي، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، ج4، ص25۔</ref> اور یہ نظریہ [[صفویہ|صفوی]] دور میں ـ بطور خاص اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ـ<ref>محمد مقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص53-54۔</ref> وسیع سطح پر رائج ہوا۔  
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم