مندرجات کا رخ کریں

"علم کلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

460 بائٹ کا اضافہ ،  30 جنوری 2021ء
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 47: سطر 47:
# '''سیاسی منازعات و اختلافات''': بعض سیاسی و سماجی اختلافات علم کلام کے رونق حاصل کرنے کا سبب بنے اور بتدریج علم کلام وجود میں آیا۔ مثلا رحلت پیغمبر (ص) کے بعد [[امامت]] و [[خلافت]] کے مسئلہ میں بحث، [[ایمان]] و ارتکاب [[گناہ کبیرہ]] کا مسئلہ، مسئلہ [[حکمیت]] جسے [[خوارج]] نے پیش کیا یا مسئلہ [[جبر و اختیار]]، جسے [[بنی امیہ]] نے اپنی حکومت کی توجیہ کے لئے پیش کیا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۹.</ref>
# '''سیاسی منازعات و اختلافات''': بعض سیاسی و سماجی اختلافات علم کلام کے رونق حاصل کرنے کا سبب بنے اور بتدریج علم کلام وجود میں آیا۔ مثلا رحلت پیغمبر (ص) کے بعد [[امامت]] و [[خلافت]] کے مسئلہ میں بحث، [[ایمان]] و ارتکاب [[گناہ کبیرہ]] کا مسئلہ، مسئلہ [[حکمیت]] جسے [[خوارج]] نے پیش کیا یا مسئلہ [[جبر و اختیار]]، جسے [[بنی امیہ]] نے اپنی حکومت کی توجیہ کے لئے پیش کیا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۹.</ref>
# '''مسلموں اور غیر مسلموں کا اختلاط''': جب وقت مسلمانوں نے غیر مسلموں جیسے ایرانیوں، رومیوں، [[مصر|مصریوں]] سے ارتباط پیدا کئے۔ عقاید اسلامی کے دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلافات آشکار ہوئے اور میں تعارض کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں نے [[اسلام]] کے بنیادی عقاید کے دفاع میں علم کلام کی بحثوں کو شروع کیا اور انہیں رونق بخشی۔ اس طرح سے علم کلام نے ارتقائی سفر طے کیا۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، ۱۳۲۸ش، ص۸.</ref>
# '''مسلموں اور غیر مسلموں کا اختلاط''': جب وقت مسلمانوں نے غیر مسلموں جیسے ایرانیوں، رومیوں، [[مصر|مصریوں]] سے ارتباط پیدا کئے۔ عقاید اسلامی کے دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلافات آشکار ہوئے اور میں تعارض کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں نے [[اسلام]] کے بنیادی عقاید کے دفاع میں علم کلام کی بحثوں کو شروع کیا اور انہیں رونق بخشی۔ اس طرح سے علم کلام نے ارتقائی سفر طے کیا۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، ۱۳۲۸ش، ص۸.</ref>
# '''دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلاط''': اسلامی ریاستوں میں وسعت کے بعد دیگر ادیان و مذاہب کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے اسلامی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام مخالف چیزوں کو ترک کر دیا لیکن بعض چیزیں جن کے بارے میں ابتداء میں اسلامی نقطہ نظر واضح نہیں تھا، انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق قرآنی و اسلامی تفسیریں پیش کیں۔ لہذا علمائے اسلام نے کوشش کی کہ علم کلام کے مباحث کی مدد سے اسلامی نظریات کو واضح کریں اور خود ساختہ عقاید کو اس میں خلط ہونے سے بھی بچائیں۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۹و۵۰.</ref>
# '''دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلاط''': اسلامی ریاستوں میں وسعت کے بعد دیگر ادیان و مذاہب کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے اسلامی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام مخالف چیزوں کو ترک کر دیا لیکن بعض چیزیں جن کے بارے میں ابتداء میں اسلامی نقطہ نظر واضح نہیں تھا، انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق قرآنی و اسلامی تفسیریں پیش کیں۔{{نوٹ| مثلا یہودی خدا کی جسمانیت، خدا کی عصمت، امکان نسخ شریعت، یا جیسے عیسائی عینیت صفات و ذات خداوند، کلام الہی کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے یا جیسے زرتشتی خیر و شر کے مسئلہ میں کوشش کرتے تھے کہ اپنے دین اور اسلام میں اس کی مشترک تفسیر ان کے سامنے پیش کریں۔}}  لہذا علمائے اسلام نے کوشش کی کہ علم کلام کے مباحث کی مدد سے اسلامی نظریات کو واضح کریں اور خود ساختہ عقاید کو اس میں خلط ہونے سے بھی بچائیں۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۹و۵۰.</ref>
# '''تحریک ترجمہ''': کلام اسلامی کے بعض مسائل کا ذکر اور انہیں تخصصی و منظم طور پر پیش کرنا، تحریک ترجمہ کے دور میں پیش آیا۔ اس تحریک کا آغاز دوسری صدی ہجری کے نصف دوم (سنہ 150 ھ) میں ہوا اور اس کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۹و۵۰.</ref>
# '''تحریک ترجمہ''': کلام اسلامی کے بعض مسائل کا ذکر اور انہیں تخصصی و منظم طور پر پیش کرنا، تحریک ترجمہ کے دور میں پیش آیا۔ اس تحریک کا آغاز دوسری صدی ہجری کے نصف دوم (سنہ 150 ھ) میں ہوا اور اس کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۹و۵۰.</ref>


گمنام صارف