مندرجات کا رخ کریں

"حسن مثنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 11: سطر 11:
| سکونت = [[مدینہ]]، [[کوفہ]]
| سکونت = [[مدینہ]]، [[کوفہ]]
| لقب = حسن مثنی
| لقب = حسن مثنی
| والد = [[امام حسن]] (ع)
| والد = [[امام حسن ؑ|امام حسن]]
| والدہ = خَوْلَہ بنت منظور بن زَبّان فَزاری۔
| والدہ = خَوْلَہ بنت منظور بن زَبّان فَزاری۔
| شریک حیات = [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ]]۔
| شریک حیات = [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ]]۔
سطر 17: سطر 17:
| عمر =
| عمر =
}}
}}
'''حسن‌ بن‌ حسن‌ بن‌ علی بن ابی‌ طالب'''، '''حسن مثنی''' کے نام سے معروف، حضرت [[امام حسن]] (ع) کے بیٹے ہیں۔ جن کی شادی حضرت [[امام حسین]] (ع) کی بیٹی [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ]] سے ہوئی۔ آپ 85 ہجری قمری میں زندہ تھے۔ آپ علویوں کے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ [[حسن مثنی]] [[کربلا]] کے میدان میں زخمی ہوئے اور اپنے ماموں [[اسماء بن خارجہ فزاری]] کے توسط سے اس معرکے سے نجات حاصل کر سکے۔ [[کوفہ]] میں اپنے ماموں کے زیر نگرانی صحت یاب ہوئے۔ اس کے بعد [[کوفہ]] سے [[مدینہ]] واپس آگئے۔
'''حسن‌ بن‌ حسن‌ بن‌ علی بن ابی‌ طالب'''، '''حسن مثنی''' کے نام سے معروف، [[حضرت امام حسنؑ]] کے بیٹے ہیں۔ جن کی شادی [[حضرت امام حسینؑ]] کی بیٹی [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ]] سے ہوئی۔ آپ 85 ہجری قمری میں زندہ تھے۔ آپ علویوں کے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ حسن مثنی [[کربلا]] کے میدان میں زخمی ہوئے اور اپنے ماموں [[اسماء بن خارجہ فزاری]] کے توسط سے اس معرکے سے نجات حاصل کر سکے۔ [[کوفہ]] میں اپنے ماموں کے زیر نگرانی صحت یاب ہوئے۔ اس کے بعد کوفہ سے [[مدینہ]] واپس آگئے۔


[[حجاج بن یوسف]] کے خلاف [[عبد الرحمان بن محمد بن اشعث]] کی شورش میں آپ نے عبد الرحمان کا ساتھ دیا۔ [[حسن مثنی]] اپنے زمانِ حیات میں [[حضرت علی|حضرت امیر المؤمنین]] (ع) کے موقوفات کے متولی تھے۔ حسن مثنی کے [[امامت]] کا دعوی کرنے کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ [[زیدیہ]] مکتب کے بعض مآخذ اور ملل و نحل کے علما نے انہیں زیدیوں کا امام قرار دیا ہے۔
[[حجاج بن یوسف]] کے خلاف [[عبد الرحمان بن محمد بن اشعث]] کی شورش میں آپ نے عبد الرحمان کا ساتھ دیا۔ حسن مثنی اپنے زمانِ حیات میں [[حضرت علی ؑ]] کے موقوفات کے متولی تھے۔ حسن مثنی کے [[امامت]] کا دعوی کرنے کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ [[زیدیہ]] مکتب کے بعض مآخذ اور ملل و نحل کے علما نے انہیں زیدیوں کا امام قرار دیا ہے۔
==نام و نسب ==
==نام و نسب ==
آپ کے والد کا نام حضرت [[امام حسن علیہ السلام]] تھا جو شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام "خَوْلَہ بنت منظور بن زَبّان فَزاری" تھا۔ <ref>مصعب‌ بن عبداللّہ، نسب قریش، ص۴۶؛ ابن‌قتیبہ، المعارف، ص۱۱۲؛ طبری، ج۵، ص۴۶۹</ref> سنہ 36 ق میں محمد بن طلحہ بن عبید اللہ کی [[جنگ جمل]] میں قتل ہونے کے بعد حضرت [[امام حسن]](ع) کے عقد میں آئیں۔<ref> ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۹۸ ؛ قس ابن‌قتیبہ، المعارف ص۱۱۲.</ref>۔ حسن مثنی کی کنیت "ابو محمد" تھی<ref>ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابی طالب، ص۹۸</ref>۔
آپ کے والد کا نام [[حضرت امام حسنؑ]] تھا جو شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام "خَوْلَہ بنت منظور بن زَبّان فَزاری" تھا۔<ref>مصعب‌ بن عبداللّہ، نسب قریش، ص۴۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۱۲؛ طبری، ج۵، ص۴۶۹</ref> سنہ 36 ق میں محمد بن طلحہ بن عبید اللہ کی [[جنگ جمل]] میں قتل ہونے کے بعد حضرت امام حسنؑ کے عقد میں آئیں۔<ref> ابن‌عنبہ، عمدةالطالب، ص۹۸؛ قس ابن‌قتیبہ، المعارف، ص۱۱۲.</ref> حسن مثنی کی کنیت "ابو محمد" تھی<ref>ابن‌عنبہ، عمدةالطالب، ص۹۸</ref>۔
==ازدواج ==
==ازدواج ==
حضرت [[امام حسین]](ع) کی بیٹی [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ]] آپ کی زوجہ تھیں۔ [[امام حسین]](ع) نے واقعۂ [[عاشورا]] سے پہلے اپنی بیٹی کا عقد [[حسن مثنی]] سے کیا۔<ref> رجوع کریں: مصعب‌ بن‌عبداللّه، نسب قریش، ص۵۱؛ حسنی، المصابیح، ص۳۷۹.</ref> جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
[[حضرت امام حسینؑ]] کی بیٹی [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ]] آپ کی زوجہ تھیں۔ امام حسین نے [[واقعہ کربلا]] سے پہلے اپنی بیٹی کا عقد حسن مثنی سے کیا۔<ref> رجوع کریں: مصعب‌ بن‌عبداللّه، نسب قریش، ص۵۱؛ حسنی، المصابیح، ص۳۷۹.</ref> جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
:حسن مثنی نے حضرت [[امام حسین]] (ع) سے انکی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا رشتہ مانگا۔<ref>المنتظم، ج۷، ص۱۸۳</ref> امام نے فرمایا: میری بیٹیوں فاطمہ اور سکینہ میں سے جسے چاہو انتخاب کر سکتے ہو۔ [[حسن مثنی]] نے شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہا۔ لیکن امام نے فاطمہ کا عقد حسن مثنی سے کر دیا۔ <ref>مفید، ارشاد، ص۳۶۶</ref> ابن فندق کے بقول یہ شادی حضرت [[امام حسین]] (ع) کی [[شہادت]] کے سال انجام پائی۔<ref>ابن فندق، لباب الانساب، ص۳۸۵</ref> حضرت [[امام حسین]] (ع) کی شہادت 61 ہجری قمری کی 10 محرم کو ہوئی۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال یہی ہے کہ [[عاشورا]] سے کچھ مدت پہلے 60 ہجری میں ہی [[مکہ]] میں انجام پائی۔ پس اس بنا پر [[حسن مثنی]] اپنی زوجہ [[فاطمہ بنت الحسین]] کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔<ref> قاضی، تحقیقی درباره اولین اربعین، ص۳۷۷</ref>
:حسن مثنی نے [[حضرت امام حسین ؑ]] سے انکی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا رشتہ مانگا۔<ref>المنتظم، ج۷، ص۱۸۳</ref> امام نے فرمایا: میری بیٹیوں فاطمہ اور سکینہ میں سے جسے چاہو انتخاب کر سکتے ہو۔ حسن مثنی نے شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہا۔ لیکن امام نے فاطمہ کا عقد حسن مثنی سے کر دیا۔<ref>مفید، ارشاد، ص۳۶۶</ref> ابن فندق کے بقول یہ شادی حضرت امام حسینؑ کی [[شہادت]] کے سال انجام پائی۔<ref>ابن فندق، لباب الانساب، ص۳۸۵</ref> حضرت امام حسینؑ کی شہادت 61 ہجری قمری کی 10 محرم کو ہوئی۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال یہی ہے کہ [[عاشورا]] سے کچھ مدت پہلے 60 ہجری میں ہی [[مکہ]] میں انجام پائی۔ پس اس بنا پر حسن مثنی اپنی زوجہ [[فاطمہ بنت الحسین]] کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔<ref> قاضی، تحقیقی درباره اولین اربعین، ص۳۷۷</ref>


== اولاد==
== اولاد==
{{شجرہ نامہ امام حسن}}
{{شجرہ نامہ امام حسن}}
حضرت فاطمہ سے انکی اولاد [[عبد اللہ محض]]، [[ابراہیم عمر]]، [[حسن مثلث]] تھے۔ ان تینوں فرزندوں کی وفات عباسی خلیفہ [[ابو جعفر منصور]] کے زندان میں ہوئی۔<ref> ابن‌سعد، ج۵، ص۳۱۹؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۰۳ـ۴۰۴؛ ابن‌عنبہ، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۱۰۱.</ref>
حضرت فاطمہ سے انکی اولاد [[عبد اللہ محض]]، [[ابراہیم عمر]]، [[حسن مثلث]] تھے۔ ان تینوں فرزندوں کی وفات عباسی خلیفہ [[ابو جعفر منصور]] کے زندان میں ہوئی۔<ref> ابن‌سعد، ج۵، ص۳۱۹؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۰۳ـ۴۰۴؛ ابن‌عنبہ، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۱۰۱.</ref>
پھر ان کے بعد [[عبد اللہ بن حسن]] ایک عالم اور ادیب شخص تھے جنہوں نے عباسیوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کی۔<ref>رجوع کریں: ابوالفرج اصفہانی، ج۲۱، ص۸۵ـ۹۳</ref> [[نفس زکیہ]] کے نام سے مشہور ہونے والے [[محمد]] اور قتیل باخَمْرا کے نام سے مشہور '''ابراہیم''' بھی ان کی نسل میں سے ہیں۔
پھر ان کے بعد [[عبد اللہ بن حسن]] ایک عالم اور ادیب شخص تھے جنہوں نے عباسیوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کی۔<ref>رجوع کریں: ابوالفرج اصفہانی، ج۲۱، ص۸۵ـ۹۳</ref> [[نفس زکیہ]] کے نام سے مشہور ہونے والے محمد اور [[قتیلِ باخمرا|قتیل باخَمْرا]] کے نام سے مشہور ابراہیم بھی ان کی نسل میں سے ہیں۔


==واقعۂ عاشورا ==
==واقعۂ عاشورا ==
[[حسن مثنی]] واقعۂ [[کربلا]] میں موجود تھے [[ابو مخنف]] کی احمد بن ابراہیم حسنی سے منقول روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر 19 یا 20 سال تھی۔<ref>رجوع کریں:مقتل، ص۳۷۹؛ قس طبری، ج۵، ص۴۶۹.</ref> روز [[عاشورا]] آپ نے بڑی بہادری کے ساتھ حضرت [[امام حسین]] (ع) کی معیت میں جنگ کی اور زخمی ہو کر اسیر ہوئے۔ لیکن اپنے ماموں [[اسماء بن خارجہ فزاری]] کے توسط سے نجات پائی اور [[کوفہ]] میں ان کی زیر نگرانی آپ کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد [[مدینہ]] واپس آگئے۔<ref>رجوع کنید به حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، ج۲، ص۲۵؛ ابن‌طاووس، ص۶۳</ref>
حسن مثنی [[واقعۂ کربلا]] میں موجود تھے [[ابو مخنف]] کی احمد بن ابراہیم حسنی سے منقول روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر 19 یا 20 سال تھی۔<ref>رجوع کریں:مقتل، ص۳۷۹؛ قس طبری، ج۵، ص۴۶۹.</ref> [[روز عاشورا]] آپ نے بڑی بہادری کے ساتھ [[حضرت امام حسینؑ]] کی معیت میں جنگ کی اور زخمی ہو کر اسیر ہوئے۔ لیکن اپنے ماموں [[اسماء بن خارجہ فزاری]] کے توسط سے نجات پائی اور [[کوفہ]] میں ان کی زیر نگرانی آپ کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد [[مدینہ]] واپس آگئے۔<ref>رجوع کنید به حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، ج۲، ص۲۵؛ ابن‌طاووس، ص۶۳</ref>


==نقلِ حدیث==
==نقلِ حدیث==
حسن مثنی اپنے والد حضرت [[امام حسن]] (ع) اور دوسرے افراد سے روایت نقل کرتے ہیں۔<ref>رجوع کریں: ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۶۱ـ۶۲.</ref>
حسن مثنی اپنے والد حضرت امام حسنؑ اور دوسرے افراد سے روایت نقل کرتے ہیں۔<ref>رجوع کریں: ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۶۱ـ۶۲.</ref>


==متولی موقوفات امام علی ==
==متولی موقوفات امام علی ==
حضرت [[امام علی]] کی [[وصیت]]<ref>مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶؛ حسنی، ص۳۸۴</ref> کے مطابق '''حسن مثنی''' مدینے میں حضرت علی(ع) کے موقوفات کے شرعی متولی تھے۔ <ref> مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۰۳؛ مفید، ج۲، ص۲۳.</ref>
[[حضرت علی ؑ]] کی وصیت<ref>مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶؛ حسنی، ص۳۸۴</ref> کے مطابق حسن مثنی مدینے میں حضرت علی ؑ کے موقوفات کے شرعی متولی تھے۔ <ref> مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۰۳؛ مفید، ج۲، ص۲۳.</ref>


[[حجاج بن یوسف ثقفی]] جب [[مدینہ|مدینے]] کا حاکم تھا تو اس نے [[حسن مثنی]] سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے چچا عمر بن علی کو ان موقوفات کی تولیت میں شریک قرار دے لیکن چونکہ یہ تولیت حضرت [[فاطمہ زہرا]] کی اولاد سے مخصوص تھی اس لئے آپ نے انکار کیا اور شام میں [[عبد الملک بن مروان]] کے پاس گئے جہاں اموی خلیفہ نے بھی حجاج کو اس کام سے منع کیا۔<ref> مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶ـ۴۷؛ بلاذری؛ حسنی، المصابیح، ص۳۸۴؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۶۵؛ ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۹۹.</ref>
[[حجاج بن یوسف ثقفی]] جب [[مدینہ|مدینے]] کا حاکم تھا تو اس نے حسن مثنی سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے چچا عمر بن علی کو ان موقوفات کی تولیت میں شریک قرار دے لیکن چونکہ یہ تولیت [[حضرت فاطمہ زہراؑ]] کی اولاد سے مخصوص تھی اس لئے آپ نے انکار کیا اور شام میں [[عبد الملک بن مروان]] کے پاس گئے جہاں اموی خلیفہ نے بھی حجاج کو اس کام سے منع کیا۔<ref> مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶ـ۴۷؛ بلاذری؛ حسنی، المصابیح، ص۳۸۴؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۶۵؛ ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۹۹.</ref>


[[حسن مثنی]] نے اپنے بعد ان موقوفاتِ کی تولیت اپنے فرزند عبد اللہ کے سپرد کی لیکن منصور عباسی نے عبد اللہ کو زندانی کر دیا اور ان موقوفات کی تولیت اپنے اختیار میں لے لی۔<ref>حسنی، المصابیح، ص۳۸۳؛ مُحَلِّی، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمة الزیدیۃ، ج۲، ص۲۳۸</ref>
[[حسن مثنی]] نے اپنے بعد ان موقوفاتِ کی تولیت اپنے فرزند عبد اللہ کے سپرد کی لیکن منصور عباسی نے عبد اللہ کو زندانی کر دیا اور ان موقوفات کی تولیت اپنے اختیار میں لے لی۔<ref>حسنی، المصابیح، ص۳۸۳؛ مُحَلِّی، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمة الزیدیۃ، ج۲، ص۲۳۸</ref>


==عبد الرحمان بن محمد کی معاونت==
==عبد الرحمان بن محمد کی معاونت==
جب [[عبد الرحمان بن محمد بن اشعث]] کندی نے [[حجاج بن یوسف ثقفی]] کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تو چونکہ لوگ اس وقت  خلافت صرف قرشی شخص  کی نسبت  قبول کرنے کو تیار  تھے،اس نے اس کے متعلق علویوں کے بزرگوں حضرت [[امام سجاد]] اور '''حسن مثنی''' سے  خط و کتابت کی ۔ امام سجاد(ع) نے اس کے اس تقاضے کو رد کر دیا اور حسن مثنی نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے بیعت توڑنے کے احتمال کی بنا پر اسے رد کیا لیکن عبد الرحمان بن محمد کے مسلسل اسرار کی بنا پر اسے قبول کر لیا اور اس کے ساتھ بعنوان خلیفہ انکی بیعت ہوئی ۔ عراق کے مشہور علما عبدالرحمان بن‌ابی لیلی، شعبی، محمدبن سیرین و حسن بصری نے ان کی بیعت کی <ref>حسنی، المصابیح، ص۳۸۰ـ۳۸۱</ref>اور حسن مثنی '''الرضا''' کے نام سے ملقَب ہوئے ۔
جب [[عبد الرحمان بن محمد بن اشعث]] کندی نے [[حجاج بن یوسف ثقفی]] کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تو چونکہ لوگ اس وقت  خلافت صرف قرشی شخص  کی نسبت  قبول کرنے کو تیار  تھے،اس نے اس کے متعلق علویوں کے بزرگوں [[امام سجادؑ|حضرت امام سجادؑ]] اور حسن مثنی سے  خط و کتابت کی۔ امام سجادؑ نے اس کے اس تقاضے کو رد کر دیا اور حسن مثنی نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے بیعت توڑنے کے احتمال کی بنا پر اسے رد کیا لیکن عبد الرحمان بن محمد کے مسلسل اسرار کی بنا پر اسے قبول کر لیا اور اس کے ساتھ بعنوان خلیفہ انکی بیعت ہوئی۔ عراق کے مشہور علما عبدالرحمان بن‌ابی لیلی، شعبی، محمدبن سیرین و حسن بصری نے ان کی بیعت کی <ref>حسنی، المصابیح، ص۳۸۰ـ۳۸۱</ref>اور حسن مثنی الرضا کے نام سے ملقَب ہوئے ۔


لیکن [[شیخ مفید]] کے  مطابق حسن مثنی نے ہرگز ادعائے امامت نہیں کیا اور نہ کسی نے اس کے نام سے ایسا ادعا نہیں کیا ہے ۔<ref>مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، ج۲، ص۲۶</ref>
لیکن [[شیخ مفید]] کے  مطابق حسن مثنی نے ہرگز ادعائے امامت نہیں کیا اور نہ کسی نے اس کے نام سے ایسا ادعا نہیں کیا ہے ۔<ref>مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، ج۲، ص۲۶</ref>
سطر 51: سطر 51:
زیدی مذہب میں حسن مثنی کو [[زیدیہ|زیدیوں]] کے امام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔<ref>حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ محلی، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمۃ الزیدیۃ، ج۲، ص۲۳۵.</ref>
زیدی مذہب میں حسن مثنی کو [[زیدیہ|زیدیوں]] کے امام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔<ref>حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ محلی، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمۃ الزیدیۃ، ج۲، ص۲۳۵.</ref>
==وفات==
==وفات==
85 ہجری میں ابن اشعث کے قتل کے بعد [[حسن مثنی]] مخفی ہو گئے لیکن آخرکار [[ولید بن عبد الملک]] کے ساتھیوں نے انہیں مسموم کیا اور قتل کرنے کے بعد جنازے کو [[مدینہ]] بھیجا اور انہوں نے اسے بقیع میں دفنا دیا۔<ref>حسنی، المصابیح، ص۳۸۲؛ ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۱۰۰.</ref>
85 ہجری میں ابن اشعث کے قتل کے بعد حسن مثنی مخفی ہو گئے لیکن آخرکار [[ولید بن عبد الملک]] کے ساتھیوں نے انہیں مسموم کیا اور قتل کرنے کے بعد جنازے کو [[مدینہ]] بھیجا اور انہوں نے اسے بقیع میں دفنا دیا۔<ref>حسنی، المصابیح، ص۳۸۲؛ ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۱۰۰.</ref>


صحیح بخاری میں روایت منقول ہے جس کی بنا پر [[فاطمہ بنت الحسین]] نے ان کے مزار پر قبہ کی تعمیر کروائی۔<ref>صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب۶۱؛ فتح الباری فی شرح صحیح بخاری، ج۳، ص۲۵۵، باب۶۱</ref>
صحیح بخاری میں روایت منقول ہے جس کی بنا پر [[فاطمہ بنت الحسین]] نے ان کے مزار پر قبہ کی تعمیر کروائی۔<ref>صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب۶۱؛ فتح الباری فی شرح صحیح بخاری، ج۳، ص۲۵۵، باب۶۱</ref>
confirmed، Moderators، منتظمین، templateeditor
21

ترامیم