|
|
سطر 5: |
سطر 5: |
| * پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے سنہ پانچ ہجری قمری درج ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، جامعه مدرسین، ج۱، ص۶۱۰.</ref> | | * پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے سنہ پانچ ہجری قمری درج ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، جامعه مدرسین، ج۱، ص۶۱۰.</ref> |
| * پیغمبر اکرمؐ کی سلمان فارسی کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے رجب، سنہ 9 ہجری کو لکھا گیا ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، جامعه مدرسین، ج۱، ص۶۰۹.«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّهْ فِی شَهْرِ رَجَبِ سِنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةْ».</ref> | | * پیغمبر اکرمؐ کی سلمان فارسی کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے رجب، سنہ 9 ہجری کو لکھا گیا ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، جامعه مدرسین، ج۱، ص۶۰۹.«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّهْ فِی شَهْرِ رَجَبِ سِنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةْ».</ref> |
|
| |
| [[رسول خدا]](ص) ماہ ربیع الاول کے کس دن مکہ سے باہر نکلے اور کس دن مدینہ پہنچے ہیں؟، اس سلسلے میں سیرت نگاروں کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ہشام ـ جس نے آپ کے اس سفر کے واقعات کو نقل کیا ہے ـ نے لکھا ہے کہ سوموار 12 ربیع الاول کے ظہر کے وقت آپ قبا پہنچے ہیں اور ابن کلبی لکھتا ہے کہ آپ سوموار یکم ربیع الاول کو مکہ سے روانہ ہوئے تھے اور 12 ربیع الاول کو قبا پہنچے ہیں جبکہ بعض دیگر نے لکھا ہے کہ آپ آٹھ ربیع الاول کو قبا پہنچے تھے۔ متأخر اسلامی اور یورپی مؤرخین کہتے ہیں کہ آپ 9 دن تک سفر میں تھے اور بعثت کے چودہویں سال، 12 ربیع الاول (بمطابق 24 ستمبر سنہ 622 عیسوی) کو مدینہ کے قریب واقع [[قبا]] پہنچے ہیں۔ بعد میں رسول اللہ(ص) کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت مسلمانوں کی تاریخ کا مبدأ قرار پائی لیکن مسلمانوں نے ماہ محرم کو قمری سال کا ابتدائی مہینہ قرار دیا۔ رسول اللہ(ص) نے [[قبا]] کے مقام پر اپنے قیام کے دوران ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو آج بھی مسجد قُبا کے نام سے مشہور ہے۔<ref>رجوع کریں: شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 59-60۔</ref>
| |
|
| |
| [[رسول اللہ]] نے [[مکہ]] چھوڑ کر [[مدینہ]] [[ہجرت]] کی تو نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور پھر [[ہجرت]] ایک بڑی ترقی تھی اور مسلمان اب چھپ چھپ کر عبادت کرنے کے بجائے اپنی حکومت کے مالک تھے۔ ہر لحاظ سے تاریخ کا تعین کرنا ضروری تھا چنانچہ [[رسول اللہ]](ص) کی [[ہجرت]] [[مدینہ]] کو تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا گوکہ اس کے تعین کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ سنہ سترہ ہجری کو بعض ضروریات کی بنا پر خلیفہ ثانی [[عمر بن الخطاب]] نے اسلامی تاریخ کا مبدأ معین کرنے کا فیصلہ کیا؛ بعض نے [[بعثت]] کو مبدأ قرار دینے کی تجویز دی اور بعض دوسروں نے وفات نبی(ص) کو بنیاد بنانے کی تجویز دی۔ [[امیرالمؤمنین]] [[علی بن ابیطالب|امام علی علیہ السلام]] نے [[ہجرت نبوی]] کو مبدأ قرار دینے کی تجویز پیش کی اور اسی رائے پر اتفاق ہوا۔<ref>رجوع کریں: "البدایۃ والنہایۃ" ج 7 ص 73 و 74 و "تاریخ عمر ابن خطاب"، ابن جوزی ص 75 و 76 ، "تهذیب التاریخ ابن عساکر" ج 1 ص 22 و 23 اور "الکامل" ابن اثیر ج 1 ص 10۔</ref> تاہم "ابن شہاب زہری" سمیت متعدد مؤرخین نے کہا ہے کہ [[رسول اللہ(ص)]] نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ کے تعین کا حکم دیا اور خود اس تاریخ کا تعین کیا ہے [اور بعض روایات کے مطابق آپ اپنے زمانے میں خطوط و مکاتیب لکھتے ہوئے ہجری تاریخ سے استفادہ کیا ہے]۔ بطور مثال:
| |
| # [[عبد اللہ بن عباس]] سے منقول ہے جس سال [[رسول اللہ]](ص) مدینہ میں داخل ہوئے اسی سال آپ نے تاریخ ہجری کا تعین فرمایا اور [[عبد اللہ بن زبیر]] اسی سال پیدا ہوا۔<ref>حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین، ج 3 ص 13 و 14- ج 1 ص 196- طبری ج 2 ص 389 و 390۔</ref>
| |
| # بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ تاریخ کا مبدأ [[ہجرت]] قرار دینے کا حکم [[رسول اللہ]](ص) نے متعین کیا۔<ref>رجوع کریں: فتح الباری ج7 ص208، "التنبیه والاشراف" ص251، تاریخ طبری (طبع دار المعارف) ج2 ص388 اور تاریخ الخمیس ج1 ص338۔</ref>
| |
| # سخاوی کا کہنا ہے: یہ کہ کس نے پہلی تاریخ کا تعین کیا ہے، اس میں اختلاف ہوا ہے؛ [[ابن عساکر]] نے [[تاریخ دمشق]] میں [[انس]] سے روایت کی ہے کہ تاریخ [[رسول اللہ]](ص) کے [[مدینہ]] آنے کے دنوں سے ہی موجود تھی اور اصحعی (اصمعی) نے بھی کہا ہے کہ [اسلامی] تاریخ سنہ 7 ہجری سے قرار دی گئی ہے۔<ref>رجوع کریں: الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص 78۔</ref>
| |
| # حیات [[رسالت مآب]](ص) سے ہی ایسے مکتوبات اور [[نصوص]] ہم تک پہنچی ہیں جن میں تاریخ ہجری درج کی گئی ہے اور یہ خود اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ تاریخ [[رسول اللہ]](ص) کی حیات میں ہی آپ ہی کے حکم پر قرار دی گئی ہے چنانچہ [[عمر بن خطاب]] ہجری تاریخ کے بانی نہيں ہیں۔ [[رسول اللہ]](ص) کے مکتوبات و نصوص کو [[علامہ سیدجعفر مرتضی عاملی]] نے اپنی(35 مجلدات پر مشتمل) عمدہ کاوش [[الصحیح من سیره النبی الاعظم (ص)]] کی جلد نمبر 4 میں درج کیا ہے اور شائقین اس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
| |
| محقق ارجمند [[علامہ جعفر مرتضی العاملی]] نے مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ دوسری کئی دلیلیں پیش کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ [[خلیفہ ثانی]] کے زمانے میں تاریخ کے حوالے سے اجلاس ضرور ہوا تھا لیکن اس کا مقصد تاریخ اسلام کی بنیاد رکھنا نہ تھا بلکہ اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ [[ربیع الاول]] کو ہی ہجری سال کا پہلے مہینے کے طور پر بحال رکھا جائے یا محرم کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا جائے۔ چنانچہ [[خلیفہ ثانی]] کے دور میں تاریخ کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہ تھا جس پر کسی قسم کی بحث کی ضرورت پڑی ہو کیونکہ یہ مہم [[رسول اللہ(ص)]] نے اپنے زمانے میں ہی سر کرلی تھی۔
| |
| کہا گیا ہے کہ چونکہ [[محرم]] حج کے مہینے کے بعد واقع ہوا تھا چنانچہ اس کو سال کے پہلے مہینے کے طور پر تسلیم کیا گیا اور خلیفہ نے اس کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا۔
| |
|
| |
|
| == ہجری یا اسلامی تقویم کے مہینے == | | == ہجری یا اسلامی تقویم کے مہینے == |