مندرجات کا رخ کریں

"بعثت" کے نسخوں کے درمیان فرق

142 بائٹ کا اضافہ ،  17 فروری 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{اسلام-عمودی}}
{{اسلام-عمودی}}
'''بعثت''' [[حضرت محمدؐ]] کو [[نبوت|پیغمبری]] پر مبعوث ہونے اور ان کی رسالت کے آغاز کو کہا جاتا ہے جو 27 رجب، چالیس عام الفیل کو واقع ہوا۔ اسی لئے شیعہ 27 رجب کو '''عید مبعث''' کے عنوان سے مناتے ہیں۔ رسول اکرم کی بعثت دینِ اسلام کا آغاز اور حجاز کی سرزمین سے بت پرستی ختم ہونے کی ابتدا تھی۔
'''بعثت''' [[حضرت محمدؐ]] کو [[نبوت|پیغمبری]] پر مبعوث ہونے اور ان کی رسالت کے آغاز کو کہا جاتا ہے جو [[27 رجب]]، چالیس عام الفیل کو واقع ہوا۔ اسی لئے [[شیعہ]] 27 رجب کو '''عید مبعث''' کے عنوان سے مناتے ہیں۔ رسول اکرم کی بعثت [[دین اسلام]] کا آغاز اور [[حجاز]] کی سرزمین سے بت پرستی ختم ہونے کی ابتدا تھی۔
===بعث کا معنی ===
===بعثت کے معنی ===
بعثت، [[خدا]] کی طرف سے کسی شخص کا پیغمبری کے لئے منتخب ہونے اور اس کی نبوت کے آغاز کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعثت تمام انبیاءؑ کا نبوت پر مبعوث ہونے کو کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ سے حضرت محمدؐ کا انتخاب ذہن میں آتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: مطیع، «بعثت»، ص۷۹-۲۸۰.</ref> اسی لئے اسلامی تہذیب میں مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] رسالت پر مبعوث ہوئے۔<ref>ہمایی، «مبحث بعثت رسول اکرمؐ»، ص۴۴.</ref>
بعثت، [[خدا]] کی طرف سے کسی شخص کا پیغمبری کے لئے منتخب ہونے اور اس کی نبوت کے آغاز کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعثت تمام [[انبیاءؑ]] کا نبوت پر مبعوث ہونے کو کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ سے [[حضرت محمدؐ]] کا انتخاب ذہن میں آتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: مطیع، «بعثت»، ص۷۹-۲۸۰.</ref> اسی لئے اسلامی تہذیب میں مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] رسالت پر مبعوث ہوئے۔<ref>ہمایی، «مبحث بعثت رسول اکرمؐ»، ص۴۴.</ref>
[[ملف:غار حراء.jpg|تصغیر|240px|چپ|[[غار حراء]] جہاں [[پیغمبر اکرمؐ]] پر پہلی وحی نازل ہوئی]]
[[ملف:غار حراء.jpg|تصغیر|240px|چپ|[[غار حراء]] جہاں [[پیغمبر اکرمؐ]] پر پہلی وحی نازل ہوئی]]
بعثت عربی میں نکالنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۲۹۶.</ref> اسی طرح بھیجنے<ref>فراهیدی، کتاب العین، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۱۲.</ref> اور روانہ کرنے کے معنی میں بھی آیا ہے۔<ref>راغب اصفهانی، معجم مفردات الفاظ القرآن، ۱۴۱۲ق، ص۱۳۲-۱۳۳.</ref>
بعثت کا لفظ عربی میں نکالنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۲۹۶.</ref> اسی طرح بھیجنے<ref>فراہیدی، کتاب العین، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۱۲.</ref> اور روانہ کرنے کے معنی میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے۔<ref>راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ القرآن، ۱۴۱۲ق، ص۱۳۲-۱۳۳.</ref>
بعثت [[قرآن کریم]] میں لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>سورہ بقرہ، آیت 213؛ سورہ نحل، آیت 36؛ سورہ اسراء، آیت 17.</ref> اسی طرح قرآن کریم میں [[قیامت]] کے دن مردوں کے زندہ ہونے کو بھی بعثت سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ یس، آیت 52؛ سورہ بقرہ، آیت 56؛ سورہ حج، آیت 7۔</ref>
بعثت کا لفظ [[قرآن|قرآنی]] اصطلاح میں لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>سورہ بقرہ، آیت 213؛ سورہ نحل، آیت 36؛ سورہ اسراء، آیت 17.</ref> اسی طرح قرآن کریم میں [[قیامت]] کے دن مردوں کے زندہ کیے جانے کو بھی بعثت سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ یس، آیت 52؛ سورہ بقرہ، آیت 56؛ سورہ حج، آیت 7۔</ref>


==پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کا زمان اور مکان==
==پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کا زمان اور مکان==
{{اصلی|حضرت محمدؐ|اسلام}}
{{اصلی|حضرت محمدؐ|اسلام}}
[[پیغمبر اکرمؐ]] 40 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔<ref>یعقوبی،احمد، تاریخ، جلد۲، ص۱۵؛ ابن اثیر، الکامل، جلد ۲، ص۴۶؛ ابن کثیر، السیره النبویہ، جلد ۱، ص۳۸۵</ref>
[[پیغمبر اکرمؐ]] 40 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔<ref>یعقوبی،احمد، تاریخ، جلد۲، ص۱۵؛ ابن اثیر، الکامل، جلد ۲، ص۴۶؛ ابن کثیر، السیره النبویہ، جلد ۱، ص۳۸۵</ref>
مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ پیر کے دن [[27 رجب]] سنہ 40 [[عام الفیل]] کو پیش آیا ان دنوں [[ایران]] میں خسرو پرویز کی حکومت بیسویں سال میں داخل ہو چکی تھی۔ بعض قول کے مطابق روز مبعث [[17 رمضان|17]] یا [[18 رمضان]]، یا [[ربیع الاول]] کے مہینے کی کسی تاریخ کو یہ واقعہ پیش آیا، اگرچہ اہل [[تشیع]] کے نزدیک [[27 رجب]] ہے۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۳۶۳ش، ص۱۸، ص۱۹۰؛ عاملی، الصحيح من سیرة النبی الأعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۰.</ref> رسول اکرمؐ [[غار حرا]] میں نبوت پر فائژ ہوئے۔
مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ پیر کے دن [[27 رجب]] سنہ 40 [[عام الفیل]] کو پیش آیا۔ ان دنوں [[ایران]] میں خسرو پرویز کی حکومت بیسویں سال میں داخل ہو چکی تھی۔ بعض تاریخی اقوال کے مطابق [[17 رمضان|17]] یا [[18 رمضان]]، یا [[ربیع الاول]] کے مہینے کی کسی تاریخ کو مبعث کا واقعہ پیش آیا، اگرچہ اہل [[تشیع]] کے نزدیک [[27 رجب]] کو ہی<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۳۶۳ش، ص۱۸، ص۱۹۰؛ عاملی، الصحيح من سیرة النبی الأعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۰.</ref> رسول اکرمؐ [[غار حرا]] میں نبوت پر فائژ ہوئے۔


==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ==
==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ==
[[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]](س) اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی  اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94 <font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم ذی القعدہ کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑا رش ہوتا تھا اور متعدد معاملے ہوتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخرفروشی کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ جاہلیت کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر،  بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref>
[[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں [[عبادت]] میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]](س) اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد [[سورہ شعراء]] کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی اور اسی سال [[سورہ حجر]] کی آیت نمبر 94<font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم [[ذی القعدہ]] کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑی بھیڑ رہتی تھی اور متعدد معاملے انجام پاتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ [[جاہلیت]] کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر،  بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref>


===وحی کے فرشتے کا نزول اور پیغمبر کرمؐ کا عکس العمل===
===وحی کے فرشتے کا نزول اور پیغمبر کرمؐ کا عکس العمل===
confirmed، movedable
5,509

ترامیم