confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 13: | سطر 13: | ||
==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ== | ==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ== | ||
[[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]](س) اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94 <font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم ذی القعدہ کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑا رش ہوتا تھا اور متعدد معاملے ہوتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخرفروشی کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ جاہلیت کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر، بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref> | [[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]](س) اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94 <font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم ذی القعدہ کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑا رش ہوتا تھا اور متعدد معاملے ہوتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخرفروشی کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ جاہلیت کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر، بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref> | ||