مندرجات کا رخ کریں

"بعثت" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,619 بائٹ کا اضافہ ،  2 مارچ 2022ء
م
سطر 7: سطر 7:
بعثت [[قرآن کریم]] میں لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>سورہ بقرہ، آیت 213؛ سورہ نحل، آیت 36؛ سورہ اسراء، آیت 17.</ref> اسی طرح قرآن کریم میں [[قیامت]] کے دن مردوں کے زندہ ہونے کو بھی بعثت سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ یس، آیت 52؛ سورہ بقرہ، آیت 56؛ سورہ حج، آیت 7۔</ref>
بعثت [[قرآن کریم]] میں لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>سورہ بقرہ، آیت 213؛ سورہ نحل، آیت 36؛ سورہ اسراء، آیت 17.</ref> اسی طرح قرآن کریم میں [[قیامت]] کے دن مردوں کے زندہ ہونے کو بھی بعثت سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ یس، آیت 52؛ سورہ بقرہ، آیت 56؛ سورہ حج، آیت 7۔</ref>


==مبعث پیغمبر اکرمؐ==
==پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کا زمان اور مکان==
{{اصلی|حضرت محمدؐ|اسلام}}
{{اصلی|حضرت محمدؐ|اسلام}}
[[پیغمبر اکرمؐ]] 40 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔<ref>یعقوبی،احمد، تاریخ، جلد۲، ص۱۵؛ ابن اثیر، الکامل، جلد ۲، ص۴۶؛ ابن کثیر، السیره النبویہ، جلد ۱، ص۳۸۵</ref> اس اختلاف کی وجہ بعثت کے مفہوم میں اختلاف ہے کہ بعثت کا آغاز قرآن کی پہلی آیت کے نزول سے ہوتا ہے یا پہلی بار باقاعدہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ سے۔{{حوالہ درکار}}
[[پیغمبر اکرمؐ]] 40 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔<ref>یعقوبی،احمد، تاریخ، جلد۲، ص۱۵؛ ابن اثیر، الکامل، جلد ۲، ص۴۶؛ ابن کثیر، السیره النبویہ، جلد ۱، ص۳۸۵</ref>
مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ پیر کے دن [[27 رجب]] سنہ 40 [[عام الفیل]] کو پیش آیا ان دنوں [[ایران]] میں خسرو پرویز کی حکومت بیسویں سال میں داخل ہو چکی تھی۔ بعض قول کے مطابق روز مبعث 17 یا 18 [[رمضان]]، یا [[ربیع الاول]] کے مہینے کی کسی تاریخ کو یہ واقعہ پیش آیا، اگرچہ اہل [[تشیع]] کے نزدیک پہلا قول درست ہے۔<ref>ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، ج ۱، ص۲۴۰؛ یعقوبی، احمد، تاریخ، ج ۲، ص۱۵؛ طبری، تاریخ، ج ۲، ص۲۹۳.</ref>  
مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ پیر کے دن [[27 رجب]] سنہ 40 [[عام الفیل]] کو پیش آیا ان دنوں [[ایران]] میں خسرو پرویز کی حکومت بیسویں سال میں داخل ہو چکی تھی۔ بعض قول کے مطابق روز مبعث [[17 رمضان|17]] یا [[18 رمضان]]، یا [[ربیع الاول]] کے مہینے کی کسی تاریخ کو یہ واقعہ پیش آیا، اگرچہ اہل [[تشیع]] کے نزدیک [[27 رجب]] ہے۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۳۶۳ش، ص۱۸، ص۱۹۰؛ عاملی، الصحيح من سیرة النبی الأعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۰.</ref> رسول اکرمؐ [[غار حرا]] میں نبوت پر فائژ ہوئے۔


[[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref>
==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ==
== ماجرای آغاز رسالت پیامبر==


پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]](س) اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی  اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94 <font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ اپنے نئے اشعار سنارہے تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔


اس دن [[ابو لہب]] نے آپ کا مذاق اڑایا جسے دیکھ کر بعض دوسروں نے بھی آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔ کچھ لوگوں نے آپ پر ایمان لے آیا اور ان لوگوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے پہلے تین سالوں میں مخفیانہ طور پر آپ پر ایمان لا چکے تھے۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref>
جایی که مردم برای تجارت در آن جمع بودند و عده‌ای نیز در بلندی‌های آن به بیان اشعار تازه و داستان‌های گوناگون مشغول بودند، دعوت خویش را آشکار کرد.{{مدرک}} [[ابولهب]] و عده‌ای به پیروی از او پیامبر(ص) را آزار رساندند؛ اما [[ابوطالب]] در حمایت از پیامبر(ص) آنان را تنبیه کرد.<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷-۱۸.</ref>
*'''پہلی وحی'''
 
[[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]](س) اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی  اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94 <font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم ذی القعدہ کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑا رش ہوتا تھا اور متعدد معاملے ہوتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخرفروشی کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ جاہلیت کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر،  بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref>
 
===وحی کے فرشتے کا نزول اور پیغمبر کرمؐ کا عکس العمل===


{{Quote box
{{Quote box
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم