گمنام صارف
"عبید اللہ بن زیاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←مروان بن حکم کی بیعت
imported>Jaravi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Mabbassi |
||
سطر 65: | سطر 65: | ||
جب عبد اللہ بن زبیر نے مدینے میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ مروان بن حکم مدینے اسکی بیعت کی غرض سے آیا.ابن زیاد نے بَثَنیہ کے مقام پر اس سے ملاقات کی اور اسے اس کام سے روکا اور اسے وعدہ دیا کہ اگر وہ خود مدعی خلافت ہوا تو وہ اس کی حمایت کرے گا.مروان واپس چلا گیا ابن زیاد بھی دمشق روانہ ہو گیا. اس نے وہاں ضحاک بن قیس کو شہر سے باہر نکال کیا جو ابن زبیر کیلئے لوگوں سے بیعت لے رہا تھا عبید اللہ نے مرون کیلے بیعت لی.ضحاک بن قیس نے دمشق کے نزدیک مرج راہط کے مقام پر مروانیوں سے جنگ کی جو اسکی شکست پر منتہی ہوئی ؛اس جنگ میں مروانیوں کی سپہ سالاری کے فرائض ابن زیاد کے ذمہ تھے.<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۴۰-۴۲؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۷۶-۴۷۹</ref> | جب عبد اللہ بن زبیر نے مدینے میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ مروان بن حکم مدینے اسکی بیعت کی غرض سے آیا.ابن زیاد نے بَثَنیہ کے مقام پر اس سے ملاقات کی اور اسے اس کام سے روکا اور اسے وعدہ دیا کہ اگر وہ خود مدعی خلافت ہوا تو وہ اس کی حمایت کرے گا.مروان واپس چلا گیا ابن زیاد بھی دمشق روانہ ہو گیا. اس نے وہاں ضحاک بن قیس کو شہر سے باہر نکال کیا جو ابن زبیر کیلئے لوگوں سے بیعت لے رہا تھا عبید اللہ نے مرون کیلے بیعت لی.ضحاک بن قیس نے دمشق کے نزدیک مرج راہط کے مقام پر مروانیوں سے جنگ کی جو اسکی شکست پر منتہی ہوئی ؛اس جنگ میں مروانیوں کی سپہ سالاری کے فرائض ابن زیاد کے ذمہ تھے.<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۴۰-۴۲؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۷۶-۴۷۹</ref> | ||
مروان کی حکومت کے دوران عبید اللہ دمشق میں تھا ۔ خون [[امام حسین]] کے انتقام کیلئے [[سلیمان بن صرد خزاعی]] کی سر کردگی میں [[توابین]] نے قیام کیا تو [[مروان]] نے [[ابن زیاد]] کو انکے مقابلے کیلئے روانہ کیا اور [[ابن زیاد]] کو غالب آنے کی صورت میں [[عراق]] کی حکومت دینے کا لالچ دیا<ref>یعقوبی ،تاریخ ، ج 2 ص 257</ref> ۔ابن زیاد جب [[جزیرہ]] میں پہنچا تو اسے مروان کی موت (65ق)کی خبر لیکن اس نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا ۔ | |||
===قیامِ توابین کا خاتمہ === | |||
مفصل مضمون: [[قیام توابین]] | |||
65ق کے [[جمادی الثانی]] میں [[عین الوردہ]] کے مقام پر [[ابن زیاد]] اور [[توابین]] کے درمیان گھمسان کا رن پڑا جو سلیمان اور اسکے ساتھیوں کی موت کے ساتھ اختتام ہوا ۔ | |||
===ابن زیاد اور سپاہ مختار === | |||
اس کے بعد ابن زیاد جزیرہ کے شہروں کو تحت فرمان لانے میں مشضول ہو گیا کہ جہاں کے لوگوں نے پہلے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی ہوئی تھی۔پھر اس نے مختار عاملین کے تابع موصل پر حملہ کیا ۔ | |||
مختار کے طرفدار تکریت میں عقن نشینی اختیار کی اور مختار کو اس حملے سے آگاہ کیا ۔ مختار نے اپنی سپاہ بھیجی جس نے ابن زیاد کی بھیجی ہوئی فوج کو شکست سے دو چار کیا ۔<ref>طبری ، تاریخ الطبری،ج 8 صص:643،649،646و707،7013</ref> | |||
==مرگ ابن زیاد== | |||
مختار کے لشکر کی کامیابی کے جواب میں ابن زیاد خود فوج کے ہمراہ ان کی طرف آیا ۔مختار بنیادی طور پر ابن زیاد اور کربلا کی جنگ حصہ لینے والوں کو ہلاک کرنے کے در پے تھا ،اس نے ابراہیم بن مالک اشتر کو ابن زیاد کے سپاہیوں سے مقابلے کیلئے روانہ کیا ۔ابراہیم ابن زاید سے پہلے عراق کی سر زمین پر پہنچنے کا ارادہ رکھتا تھا لہذا وہ دریائے خازر کے ساحل کے نزدیک موصل سے 5 فرسخ کے فاصلے پر باربیثا نامی دیہات میں لشکر شام کو جا پہنچا ۔ عراقیوں اور شامیوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی ۔ابن زیاد نے(محرم67) شکست کھائی ۔ وہ اپنے ساتھیوں سمیت یہاں قتل ہوا گیا ۔ابو مخنف کی روایت کے مطابق ابراہیم بن اشتر نے تن بہ تن لڑائی میں اسے قتل کیا ۔<ref>طبری ،تاریخ طبری،ج 8 صص:643،649،646 و707،713۔</ref> | |||
==ابن زیاد اور عقیدۂ شیعہ== | |||
عبید اللہ بن زیاد کے حضرت امام حسین ؑ کے خلاف اقدام کرنے اور واقعۂ عاشورا کی جنگ کو برپا کی وجہ سے وہ شروع سے ہی مسلمانوں کی نگاہوں میں منفور اوربدنام ہو گیا خاص طور پر کوفہ کے مسلمان اس سے بہت زیادہ ناراض تھے ۔جیسا کہ تاریخ کی نقل کے مطابق عبد اللہ بن عفیف ازدی کا واقعۂ کربلا کے بعد ابن زیاد کے پہلے خطبے کے درمیان اس نے ابن زیاد اور یزید کو برا بھلا کہا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۷۳-۳۷۴؛ ابن طاووس علی، اللہوف فی قتلی الطفوف، ج۱، ص۷۱-۷۲.</ref> یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس کی ماں مرجانہ نے اسے بہت نا سزا کہا ۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۰۸.</ref> | |||
شیعوں کے نزدیک عبید اللہ ابن زیاد صدیوں سے تاریخ اسلام کی منفورترین شخصیات میں سے سمجھا جاتا ہے ۔چند مشہور زیارت ناموں میں اس کا نام ذکر ہوا جن میں اسے لعنت کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے ۔<ref>کامل الزیارات، ص۱۷۶</ref> | |||
==حوالہ جات == | |||
{{حوالہ جات|2}} | |||
==مآخذ== | |||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |