مندرجات کا رخ کریں

"عبید اللہ بن زیاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 37: سطر 37:
عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا گیا۔اہل بیت پیغمبر ؐ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لانا ایسے واقعات میں سے ہے جسے تاریخ و حدیث کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے ۔ ان واقعات میں سے عبید اللہ کی حضرت زینب سے گفتگو اور آپ کے دیے جانے والے جوابات بھی تاریخی اور دوسرے منابع میں مذکور ہیں۔ حضرت زینب اور عبید اللہ کی باہمی گفتگو دربار میں موجود حاضرین پر نہایت اثر انداز ہوئی۔ کوفے میں ہونے والے دلخراش واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو ۔ خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ۔ عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا ۔ زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص114 و 115</ref> ۔
عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا گیا۔اہل بیت پیغمبر ؐ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لانا ایسے واقعات میں سے ہے جسے تاریخ و حدیث کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے ۔ ان واقعات میں سے عبید اللہ کی حضرت زینب سے گفتگو اور آپ کے دیے جانے والے جوابات بھی تاریخی اور دوسرے منابع میں مذکور ہیں۔ حضرت زینب اور عبید اللہ کی باہمی گفتگو دربار میں موجود حاضرین پر نہایت اثر انداز ہوئی۔ کوفے میں ہونے والے دلخراش واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو ۔ خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ۔ عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا ۔ زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص114 و 115</ref> ۔
==حضرت زینب ؑ سے گفتگو==
==حضرت زینب ؑ سے گفتگو==
اہل بیت کوفہ میں اسیر کر کے لانے کے بعد انہیں عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لایا گیا ۔ تاریخ کے مطابق کے مطابق ایک پرانے لباس میں تھین اور عبید اللہ اور اس کے دربار کی طرف توجہ کئے بغیر ایک کونے میں بیٹھ گئیں ۔ عبید اللہ نے ان سے تین دفعہ پوچھا کہ تم کون ہو؟لیکن اس نے جواب نہ پایا۔ بالآخر اس نے اہل دربار میں کسی نے کہا :زینب بنت علی بن طالب ہے۔ابن زیاد آپ کی اس بے اعتنائی سے غصہ میں آیا اور اس نے  کہا :حمد و ثنا ہے اس پروردگار کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے جھوٹوں کو آشکار کیا ۔حضرت زینب ؑ نے جواب دیا : اس خدا کی حمد و ثنا ہے جس نے ہمیں پیغمبر کے ساتھ  تکریم بخشی ۔اور ہمیں آلودگی اور پلیدگی پاک قرار دیا ۔وہ جو گناہگار ہے وہ رسوا ہو گا اور وہ جو کہ  بدکار ہے جھوٹ بولتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ابن زیاد آپ سے مخاطب ہوا :دیکھا خدا نے بالآخر تمہارے ساتھ کیا کیا؟  حضرت زینب نے جواب دیا :ہم نے خدا  سے نیکی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔خدا نے ہمارے خاندان کیلئے شہادت کو مقدر کیا تھا  اور وہ شجاعت کے ساتھ اپنی  قتل گاہ کی طرف آئے ۔ خدا جلد ہی انہیں اور تمہیں ایک جگہ اکٹھا کرے گا تا کہ اس کے حضور تمہارا محاکمہ کیا جا سکے گا۔تم اس وقت دیکھو گے کہ اچھا انجام اور عاقبت کس کی ہے ؟ اے مرجانہ کے بیٹے تمہاری ماں تیرے عزا میں بیٹھے!۔ یہ سننا تھا کہ ابن زیاد خشمگین ہو گیا اور کہتے ہیں کہ اس نے حضرت زینب ؑ کے قتل کا ارادہ کیا لیکن عمرو بن حُریث  کی وجہ سے باز رہا  اور اس نے کہا :اے بار الہا!اس سرکش بھائی، دیگر باغیوں اور اسکے خاندان کے حامیوں کے قتل سے میرے دل کو آرام بخش ۔حضرت زینب ؑ نے کہا :خدا کی قسم ! تم نے میرے بھائی کو قتل کیا میرے نسل کو قتل کیا اور ہماری نسل کو جڑ سے اکھاڑا ۔ اگر تمہارا دل اسی سے شفا پاتا ہے تو تو نے شفا پائی ۔ عبید اللہ مخاطب ہوا : اپنے باپ کی مانند قافیہ کے ساتھ اور اس کی مانند مسجع گفتگو کرتی ہے ۔<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص115 و 116</ref>
اہل بیت کو کوفہ میں اسیر کر کے لانے کے بعد انہیں عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لایا گیا ۔ تاریخ کے مطابق کے مطابق ایک پرانے لباس میں تھین اور عبید اللہ اور اس کے دربار کی طرف توجہ کئے بغیر ایک کونے میں بیٹھ گئیں ۔ عبید اللہ نے ان سے تین دفعہ پوچھا کہ تم کون ہو؟لیکن اس نے جواب نہ پایا۔ بالآخر اس نے اہل دربار میں کسی نے کہا :زینب بنت علی بن طالب ہے۔ابن زیاد آپ کی اس بے اعتنائی سے غصہ میں آیا اور اس نے  کہا :حمد و ثنا ہے اس پروردگار کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے جھوٹوں کو آشکار کیا ۔حضرت زینب ؑ نے جواب دیا : اس خدا کی حمد و ثنا ہے جس نے ہمیں پیغمبر کے ساتھ  تکریم بخشی ۔اور ہمیں آلودگی اور پلیدگی پاک قرار دیا ۔وہ جو گناہگار ہے وہ رسوا ہو گا اور وہ جو کہ  بدکار ہے جھوٹ بولتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ابن زیاد آپ سے مخاطب ہوا :دیکھا خدا نے بالآخر تمہارے ساتھ کیا کیا؟  حضرت زینب نے جواب دیا :ہم نے خدا  سے نیکی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔خدا نے ہمارے خاندان کیلئے شہادت کو مقدر کیا تھا  اور وہ شجاعت کے ساتھ اپنی  قتل گاہ کی طرف آئے ۔ خدا جلد ہی انہیں اور تمہیں ایک جگہ اکٹھا کرے گا تا کہ اس کے حضور تمہارا محاکمہ کیا جا سکے گا۔تم اس وقت دیکھو گے کہ اچھا انجام اور عاقبت کس کی ہے ؟ اے مرجانہ کے بیٹے تمہاری ماں تیرے عزا میں بیٹھے!۔ یہ سننا تھا کہ ابن زیاد خشمگین ہو گیا اور کہتے ہیں کہ اس نے حضرت زینب ؑ کے قتل کا ارادہ کیا لیکن عمرو بن حُریث  کی وجہ سے باز رہا  اور اس نے کہا :اے بار الہا!اس سرکش بھائی، دیگر باغیوں اور اسکے خاندان کے حامیوں کے قتل سے میرے دل کو آرام بخش ۔حضرت زینب ؑ نے کہا :خدا کی قسم ! تم نے میرے بھائی کو قتل کیا میرے نسل کو قتل کیا اور ہماری نسل کو جڑ سے اکھاڑا ۔ اگر تمہارا دل اسی سے شفا پاتا ہے تو تو نے شفا پائی ۔ عبید اللہ مخاطب ہوا : اپنے باپ کی مانند قافیہ کے ساتھ اور اس کی مانند مسجع گفتگو کرتی ہے ۔<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص115 و 116</ref>
 
==یزید کے بعد==
==یزید کے بعد==


گمنام صارف