گمنام صارف
"عبید اللہ بن زیاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←عبید اللہ اور کوفہ
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 19: | سطر 19: | ||
60ویں ہجری میں معاویہ کے مرنے یزید چاہتا تھا کہ اسے بصرے سے ہٹا دے لیکن بصرے اور کوفے کے خراب سیاسی حالات نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا لیکن امام حسین ؑ کے قیام کے شروع ہونے اور آپکی جانب سے مسلم بن عقیل کے کوفہ بھیجے جانے کے بعد یزید نے عبید اللہ اور اس کے باپ کی تحریکوں کے کچلنے میں خشونت آمیزی میں شہرت کی بنا پر اسے کوفے کا والی مقرر کیا ۔کہتے ہیں یزید نے اس اقدام کا فیصلہ اپنے مشاوروں میں سے "سرجون " نامی عیسائی کے مشورے کے بعد کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۸</ref> ۔ | 60ویں ہجری میں معاویہ کے مرنے یزید چاہتا تھا کہ اسے بصرے سے ہٹا دے لیکن بصرے اور کوفے کے خراب سیاسی حالات نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا لیکن امام حسین ؑ کے قیام کے شروع ہونے اور آپکی جانب سے مسلم بن عقیل کے کوفہ بھیجے جانے کے بعد یزید نے عبید اللہ اور اس کے باپ کی تحریکوں کے کچلنے میں خشونت آمیزی میں شہرت کی بنا پر اسے کوفے کا والی مقرر کیا ۔کہتے ہیں یزید نے اس اقدام کا فیصلہ اپنے مشاوروں میں سے "سرجون " نامی عیسائی کے مشورے کے بعد کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۸</ref> ۔ | ||
==عبید اللہ اور کوفہ== | ==عبید اللہ اور کوفہ== | ||
کوفیوں نے 60ویں کے اختتام پر حضرت امام حسین ؑ کی بیعت کی آمادگی کا اعلان کیا اور آپ کے کوفہ آنے کے منتظر تھے کہ عبید اللہ بن زیاد اپنا چہرہ چھپائے وارد کوفہ ہوا ۔ لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین ؑ آئے ہیں لہذا انہوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا لیکن وہ جلد ہی حقیقت امر سے آگاہ ہو گئے ۔امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹</ref>۔ | |||
عبید اللہ نے کوفہ میں آتے ہی لوگوں سے ایک خطاب کیا اور انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے بعد کہا کہ جو اس کی پیروی کرے گا اس سے اچھا برتاؤ سے پیش آئے گا <ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۷</ref>۔ | |||
یعقوبی کی روایت مطابق ہانی بن عروۃ پہلے سے عبید اللہ سے آشنائی رکھتا تھا اور وہ گمان کرتا تھا اس وجہ سے وہ اس کی عیادت کیلئے آئے گا۔ اس نے عبید اللہ کے قتل کی خاطر مسلم بن عقیل کو گھر میں پناہ دے رکھی تھی ۔<ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳</ref>۔ ایک دوسری روایت کے مطابق کوفے کے نامور شیعہ رہنماؤں میں سے شریک بن اعور ہانی کے گھر میں مریض ہو گیا ؛ تو ہانی نے مسلم سے کہا کہ جب عبید اللہ اس کے گھر آئے تو وہ اسے قتل کر ڈالے<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۴۸</ref>۔ | |||
اس کے باوجود ہانی اپمے گھر میں قتل کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے مسلم کو اس قتل سے روک دیا لہذا عبید اللہ صحیح و سالم واپس چلا گیا <ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۸ و ۹۹</ref>۔ | |||
طبری کی گزارش کے مطابق عبید اللہ ہانی کے گھر آنے پر مسلم کی چھپائے جانے سے آگاہ ہو تھا لہذا اس نے واپسی پر ہانی کو "دار الامارہ' میں اسے طلب کیا اور اسے زندانی کیا اور جلد ہی مسلم کر گرفتار کر کے اسے قتل کیا اور اس کا سر یزید کے پاس شام روانہ کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹-۲۳۱ و ۲۷۰</ref> ۔ | |||
عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص کو لشکر کے ہمراہ حسین ؑ کی جانب روانہ کیا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۰۸</ref>۔ | |||
عمر بن سعد اس وقت ری کا حاکم مقرر ہو چکا تھا اور ری جانے کیلئے تیار تھا لیکن عبید اللہ نے اسے یزید کی بیعت لینے کیلئے یا جنگ کرنے کی ذمہ داری کی سونپی اس کے حوالے کی عمر نے اس کام سے معذرت چاہی تو عبید اللہ نے ری کی حاکمیت کو اسی کام سے مشروط کر دیا<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۸؛ دینوری، اخبار الطوال، ج۱، ص۲۵۳</ref> ۔ | |||
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ سے مذکرے کے بعد عبید اللہ کو لکھا کہ حسین ؑ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا ان سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے ۔ ابتدائی طور پر عبید اللہ یہ خبر سن کر خواشحال ہوا لیکن وہاں پر موجود شمر بن ذی الجوشن نے اسے اس صلح سے منع کیا ۔پس عبید اللہ نے عمر کو خط لکھا :اگر حسین سے بیعت لے لو تو اسے کوفے روانہ کرو ورنہ اس سے جنگ کر اور تم حسین سے لڑنے پر راضی نہیں تو لشکر کی سرداری شمر کے حوالے کرو۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۱۵-۳۱۶؛ مفید، الارشاد، ج۱، ص۴۳۸</ref> | |||
==اہل بیت کی اسیری== |