گمنام صارف
"قیام امام حسینؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
==قیام کے متعلق مختلف نظریات == | ==قیام کے متعلق مختلف نظریات == | ||
===خروج باطل=== | ===خروج باطل=== | ||
ابن تیمیہ (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں امام حسین ؑ کے قیام کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے:۔ | [[ابن تیمیہ]] (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب [[منہاج السنہ]] میں [[امام حسین]] ؑ کے قیام کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے:۔ | ||
:{{حدیث|'''فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ'''}}<ref>ابن تیمیہ، منہاج السنۃ ج 4 صص 530،531۔</ref>ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا<ref>اس سے پہلے عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مطیع وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں امام حسین ؑ کو خروج سے منع کیا تھا۔</ref> اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر اور دفع | :{{حدیث|'''فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ'''}}<ref>ابن تیمیہ، منہاج السنۃ ج 4 صص 530،531۔</ref>ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا<ref>اس سے پہلے عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مطیع وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں [[امام حسین]] ؑ کو خروج سے منع کیا تھا۔</ref> اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط [[رسول اللہ]] کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم [[شہید]] کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر کے حصول اور شر کے دفع کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔ | ||
نیز کچھ اور دانشور بھی اسی سے ملتے جلتے عقیدے کے قائل ہیں اگرچہ انہوں نے اس نظریے کی تصریح نہیں کی ہے لیکن انہوں نے | نیز کچھ اور دانشور بھی اسی سے ملتے جلتے عقیدے کے قائل ہیں اگرچہ انہوں نے اس نظریے کی تصریح نہیں کی ہے لیکن انہوں نے [[واقعۂ کربلا]] کا جائزہ لیتے ہوئے ایسے اظہار خیالات کیے ہیں جن سے یہ سمجھا جا سکتا کہ وہ امام کے اس قیام کو ایک دنیاوی حکومت کے حصول کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔مثلا قاضی ابو بکر ابن عربی اندلسی مالکی 543ق، عبد الرحمان بن خلدون808 ق، شیخ محمد طنطاوی مصری 1277ق اور محب الدین طبری1389ق کے نام لئے جا سکتے ہیں۔<ref>مقتل جامع سید الشہداء ج ص 254.مزید معلومات کیلئے مطالعہ کریں:ابن العربی ، العواصم من القواصم ص232۔ابن خلدون، مقدمہ تاریخ ابن خلدون ج 1 ص 228۔اعواصم من القواصم ص 232 </ref> | ||
=== کفارۂ گناہ === | === کفارۂ گناہ === | ||
اس نظریے کی بنیاد مسیحی تعلیمات ہیں کہ جن میں کہا گیا ہے حضرت عیسیٰ کو دار پر لٹکایا گیا ان کا یہ عمل افراد امت کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ اسی طرح حضرت امام حسین ؑ پر گریہ کرنا گناہوں کی شفاعت کا باعث ہے اگرچہ وہ گناہ جس قدر بھی زیادہ ہوں ۔ بعض متاخر مؤلفین نے اس نگاہ سے کربلا کو دیکھا ہے اور اپنے اشعار وغیرہ میں اس کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا ہے ۔ البتہ ملاں مہدی نراقی حضرت امام حسینؑ اس کے متعلق لکھتے ہیں : | اس نظریے کی بنیاد مسیحی تعلیمات ہیں کہ جن میں کہا گیا ہے [[حضرت عیسیٰ]]ؑ کو دار پر لٹکایا گیا ان کا یہ عمل افراد امت کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ اسی طرح حضرت [[امام حسین]] ؑ پر گریہ کرنا گناہوں کی [[شفاعت]] کا باعث ہے اگرچہ وہ گناہ جس قدر بھی زیادہ ہوں ۔ بعض متاخر مؤلفین نے اس نگاہ سے [[کربلا]] کو دیکھا ہے اور اپنے اشعار وغیرہ میں اس کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا ہے ۔ البتہ ملاں مہدی نراقی حضرت امام حسینؑ اس کے متعلق لکھتے ہیں : | ||
:حضرت امام حسین ؑ نے اپنے تمام موالیان اور محبین کیلئے شہادت کبریٰ کا انتخاب کیا اور اس مرتبے کا حصول شہادت کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ امت کے گناہوں کی کدورت امام حسین ؑ کے خون پر موقوف تھی ۔<ref>ملا مہدی نراقی ،محرق القلوب ص 4۔ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ج 1 ص۔259</ref> | :حضرت [[امام حسین]] ؑ نے اپنے تمام موالیان اور محبین کیلئے [[شہادت]] کبریٰ کا انتخاب کیا اور اس مرتبے کا حصول [[شہید|شہادت]] کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ امت کے گناہوں کی کدورت [[امام حسین]] ؑ کے خون پر موقوف تھی ۔<ref>ملا مہدی نراقی ،محرق القلوب ص 4۔ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ج 1 ص۔259</ref> | ||
نیز ملا حبیب اللہ کاشانی لکھتے ہیں : | نیز [[ملا حبیب اللہ کاشانی]] لکھتے ہیں : | ||
:خدا نے تمام انبیاء اور اولیاء کو گواہ بنایا تھا کہ جیسے ہی حضرت امام حسین ؑ کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرے گا وہ تمام شیعوں کے گناہوں در گذر کرے گا۔اسی وجہ سے جب آپ کا سر مبارک تن سے جدا کرنے کیلئے آپ کے سینۂ مبارک پر بیٹھ کر سر جدا کرنے لگا تو فرمایا : {{حدیث|ھل وافیت بعہدی}} یعنی میں نے عالم ذر میں جو تم سے عہد کیا تھا کیا میں نے اسے پورا کر دیا ؟ پس اے میرے محبوب تو اپنا عہد پورا کر....تو عالم بالا سے آواز آئی ہم نے بھی اپنا عہد پورا کر دیا ہے۔.......<ref>ملا ملا حبیب اللہ کاشانی،تذکرۃ الشہداء 13۔ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ج 1 ص۔259</ref> | :[[توحید|خدا]] نے تمام انبیاء اور اولیاء کو گواہ بنایا تھا کہ جیسے ہی حضرت [[امام حسین]] ؑ کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرے گا وہ تمام شیعوں کے گناہوں سے در گذر کرے گا۔اسی وجہ سے جب شمر آپ کا سر مبارک تن سے جدا کرنے کیلئے آپ کے سینۂ مبارک پر بیٹھ کر سر جدا کرنے لگا تو فرمایا : {{حدیث|ھل وافیت بعہدی}} یعنی میں نے عالم ذر میں جو تم سے عہد کیا تھا کیا میں نے اسے پورا کر دیا ؟ پس اے میرے محبوب تو اپنا عہد پورا کر....تو عالم بالا سے آواز آئی ہم نے بھی اپنا عہد پورا کر دیا ہے۔.......<ref>ملا ملا حبیب اللہ کاشانی،تذکرۃ الشہداء 13۔ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ج 1 ص۔259</ref> | ||
===شہادت کا حصول=== | ===شہادت کا حصول=== | ||
ابن نما حلی<ref> ابن نما حلی ، مثیر الاحزان ص 11، 12</ref> اور سید ابن طاؤس<ref> سید ابن طاؤس، اللہوف،ص82، 83</ref> اس نظریے کے قائلین میں سے ہیں ۔ امام حسین ؑ نے قیام کیا تا کہ اس کے ذریعے خدا کے نزدیک بالا ترین مقام شہادت تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ البتہ ان دونوں علمائے نامدار نے کسی جگہ اصلاح امت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی | [[ابن نما حلی]]<ref> ابن نما حلی ، [[مثیر الاحزان]] ص 11، 12</ref> اور [[سید ابن طاؤس]]<ref> سید ابن طاؤس، اللہوف،ص82، 83</ref> اس نظریے کے قائلین میں سے ہیں ۔ [[امام حسین]] ؑ نے قیام کیا تا کہ اس کے ذریعے [[توحید|خدا]] کے نزدیک بالا ترین مقام [[شہادت]] تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ البتہ ان دونوں علمائے نامدار نے کسی جگہ اصلاح امت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نفی نہیں کی ہے۔ | ||
===حکومت اسلامی کا قیام === | ===حکومت اسلامی کا قیام === | ||
اس نظریے کے مطابق امام حسین ؑ کا مقصد اول حکومت اسلام کا قیام کرناتھا ۔صلح کا دوسرا مرحلہ اور شہادت تیسرے مرحلے میں شمار ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں امام حسین ؑ نے حکومت اسلامی کے قیام کی کوشش کی لیکن اس کی کامیابی نہ ہونے کی بنا پر صلح کے اقدام کئے لیکن شہادت کیلئے کسی قسم کا اپنی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ مخالفین امام حسین ؑ اسلام کے سر سخت دشمن تھے انہوں نے امام کے ساتھ جنگ کی اور امام کو مظلومانہ شہادت سے ہمکنار کیا ۔ ۔<ref>نعمت اللہ صالح نجف آبادی ،شہید جاوید ، ص159. اختصار کے ساتھ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ص 275</ref> | اس نظریے کے مطابق [[امام حسین]] ؑ کا مقصد اول حکومت اسلام کا قیام کرناتھا ۔صلح کا دوسرا مرحلہ اور شہادت تیسرے مرحلے میں شمار ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں امام حسین ؑ نے حکومت اسلامی کے قیام کی کوشش کی لیکن اس کی کامیابی نہ ہونے کی بنا پر صلح کے اقدام کئے لیکن شہادت کیلئے کسی قسم کا اپنی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ مخالفین [[امام حسین]] ؑ اسلام کے سر سخت دشمن تھے انہوں نے امام کے ساتھ جنگ کی اور امام کو مظلومانہ شہادت سے ہمکنار کیا ۔ ۔<ref>نعمت اللہ صالح نجف آبادی ،شہید جاوید ، ص159. اختصار کے ساتھ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ص 275</ref> | ||
اس نظریے کے قائل نے امام حسین ؑ کی شہادت کی تائید میں آنے والیں روایات پر تنقید کی ہے نیز کہا ہے کہ اس سے پہلے شیخ مفید | اس نظریے کے قائل نے [[امام حسین]] ؑ کی شہادت کی تائید میں آنے والیں روایات پر تنقید کی ہے نیز کہا ہے کہ اس سے پہلے [[شیخ مفید]] ،[[سید مرتضی]] اور [[شیخ طوسی]] بھی اسی کے قائل تھے ۔مزید کہا کہ نظریہ [[شہادت]] کو [[سید ابن طاؤس]] نے آکر بیان کیا ہے اس سے پہلے اس کا کوئی قائل نہیں تھا ۔<ref>نعمت اللہ صالح نجف آبادی ،شہید جاوید ، ص106.</ref> | ||
===خصوصی حکم کی وجہ سے قیام کیا === | ===خصوصی حکم کی وجہ سے قیام کیا === | ||
اس نظریے کے مطابق حضرت امام حسین ؑ نے خدا کی جانب سے خصوصی الہام کی وجہ سے قیام کیا ۔ حکم الہامی کے مطابق اس پر صرف حضرت امام حسین ؑ کو ہی عمل کرنا تھا ۔ قائلین کے مطابق روایات کی روشنی میں واقعۂ کربلا ابتدائے آفرینش سے ایک حتمی فیصلے کے طور پر تھا لہذا امام نے اپنے لیے اس مقرر شدہ ذمہ داری کو عملی صورت میں انجام دیا ۔علامہ مجلسی<ref>مجلسی۔بحار الانوار ج 45 ص 78</ref> ،صاحب جواہر الکلام <ref>حسن جواہری، جواہر الکلام ج 21 ص295</ref>، سید محمد حسین طباطبائی<ref>سید محمد حسین طباطبائی، بحثی کوتاہ دربارہ علم امام ص نقل از بیست مقالہ رضا استادی ص442</ref> اس کے قائلین میں سے ہیں ۔ | اس نظریے کے مطابق حضرت [[امام حسین]] ؑ نے [[توحید|خدا]] کی جانب سے خصوصی الہام کی وجہ سے قیام کیا ۔ حکم الہامی کے مطابق اس پر صرف حضرت [[امام حسین]] ؑ کو ہی عمل کرنا تھا ۔ قائلین کے مطابق روایات کی روشنی میں [[واقعۂ کربلا]] ابتدائے آفرینش سے ایک حتمی فیصلے کے طور پر تھا لہذا امام نے اپنے لیے اس مقرر شدہ ذمہ داری کو عملی صورت میں انجام دیا ۔علامہ مجلسی<ref>مجلسی۔بحار الانوار ج 45 ص 78</ref> ،صاحب جواہر الکلام <ref>حسن جواہری، جواہر الکلام ج 21 ص295</ref>، سید محمد حسین طباطبائی<ref>سید محمد حسین طباطبائی، بحثی کوتاہ دربارہ علم امام ص نقل از بیست مقالہ رضا استادی ص442</ref> اس کے قائلین میں سے ہیں ۔ | ||
===نیکی کا حکم دینا اور نہی سے روکنا=== | ===نیکی کا حکم دینا اور نہی سے روکنا=== | ||
اس نظریے کے مطابق امام حسین ؑ نے اصلاح معاشرے کے لئے قیام کیا ۔تا کہ معاشرے میں فراموش شدہ حکم الہی کو زندہ کیا جا سکے ۔ اس حکم کا پشتوانہ ابو الفتوح میں حضرت امام حسین ؑ کی محمد بن حنفیہ کے نام وصیت ہے جو انہوں نے مدینے سے نکلتے وقت کی تھی جس کے یہ الفاظ ہیں : | اس نظریے کے مطابق [[امام حسین]] ؑ نے اصلاح معاشرے کے لئے قیام کیا ۔تا کہ معاشرے میں فراموش شدہ حکم الہی کو زندہ کیا جا سکے ۔ اس حکم کا پشتوانہ ابو الفتوح میں حضرت [[امام حسین]] ؑ کی [[محمد بن حنفیہ]] کے نام وصیت ہے جو انہوں نے مدینے سے نکلتے وقت کی تھی جس کے یہ الفاظ ہیں : | ||
: {{حدیث|انی لم أخرج أشِراً ولا بطِراً ولا ظالماً ، وإنَّما خرجت لطلب الإصلاح في أُمَّة جَدِّي رسول الله ( صلَّى الله عليه وآله ) أُريد أنْ آمر بالمعروف وأنهى عن المُنكر وأسير بسيرة جَدِّي وأبي علي بن أبي طالب}}<ref>احمد بن اعثم کوفی،الفتوح ،ج 5 ص 21۔</ref> ترجمہ:میں خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں نکلا ہوں میں تو صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں ۔ میں نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔میں اپنے جد اور اپنے باپ علی بن ابی طالب کی سیرت پر چل رہا ہوں۔<ref>خلفائے راشدین کی سیرت کا اضافہ: الفتوح کے موجودہ نسخوں میں سیرت جدی محمد و سیرت ابی علی بن ابی طالب کے بعد " سیرت خلفاء راشدین " کے الفاظ مذکور ہیں ۔ کیا یہ کلمات امام حسین ؑ نے فرمائے تھے ؟ اس مقام پر بعض محققین کی رائے کے مطابق یہ الفاظ بعد میں اضافہ کئے گئے ہیں کیونکہ خلفائے راشدین کی مخصوص اصطلاح 132 ق کے بعد شروع ہوئی ہے لہذا ممکن نہیں کہ امام کی جانب سے یہ الفاظ کہے گئے ہوں ۔ انہوں نے یہ بات "رسوم دار الخلافۃ" تالیف ہلال بن محسن صابئی اور فاروق عمر کی کتاب "بحوث فی التاریخ العباسیہ" کے حوالے سے کی ہے ۔ البتہ تاریخ کے محقق صاحب "موسوعہ التاریخ الاسلامی" شیخ محمد ہادی یوسفی غروی کے بقول اس بات کا تذکرہ تیجانی سماوی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا لیکن اسے سب سے پہلے شہید انسانیت کے مؤلف یعنی نعمت اللہ صالحی نجف آبادی نے ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:ہلال بن محسن صابئی،رسوم دار الخلافۃ۔ فاروق عمر،بحوث فی التاریخ العباسیہ۔عسکری، معالم المدرستین ج 3 ص 50 کا تعلیقہ۔ </ref> | : {{حدیث|انی لم أخرج أشِراً ولا بطِراً ولا ظالماً ، وإنَّما خرجت لطلب الإصلاح في أُمَّة جَدِّي رسول الله ( صلَّى الله عليه وآله ) أُريد أنْ آمر بالمعروف وأنهى عن المُنكر وأسير بسيرة جَدِّي وأبي علي بن أبي طالب}}<ref>احمد بن اعثم کوفی،الفتوح ،ج 5 ص 21۔</ref> ترجمہ:میں خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں نکلا ہوں میں تو صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں ۔ میں نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔میں اپنے جد اور اپنے باپ [[حضرت علی|علی بن ابی طالب]] کی سیرت پر چل رہا ہوں۔<ref>خلفائے راشدین کی سیرت کا اضافہ: الفتوح کے موجودہ نسخوں میں سیرت جدی محمد و سیرت ابی علی بن ابی طالب کے بعد " سیرت خلفاء راشدین " کے الفاظ مذکور ہیں ۔ کیا یہ کلمات [[امام حسین]] ؑ نے فرمائے تھے ؟ اس مقام پر بعض محققین کی رائے کے مطابق یہ الفاظ بعد میں اضافہ کئے گئے ہیں کیونکہ خلفائے راشدین کی مخصوص اصطلاح 132 ق کے بعد شروع ہوئی ہے لہذا ممکن نہیں کہ امام کی جانب سے یہ الفاظ کہے گئے ہوں ۔ انہوں نے یہ بات "رسوم دار الخلافۃ" تالیف ہلال بن محسن صابئی اور فاروق عمر کی کتاب "بحوث فی التاریخ العباسیہ" کے حوالے سے کی ہے ۔ البتہ تاریخ کے محقق صاحب "[[موسوعہ التاریخ الاسلامی]]" شیخ محمد ہادی یوسفی غروی کے بقول اس بات کا تذکرہ [[تیجانی سماوی]] نے اپنی کتاب میں ذکر کیا لیکن اسے سب سے پہلے [[شہید انسانیت]] کے مؤلف یعنی [[نعمت اللہ صالحی نجف آبادی]] نے ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:ہلال بن محسن صابئی،رسوم دار الخلافۃ۔ فاروق عمر،بحوث فی التاریخ العباسیہ۔عسکری، معالم المدرستین ج 3 ص 50 کا تعلیقہ۔ </ref> | ||
[[fa:قیام امام حسین (ع)]] | [[fa:قیام امام حسین (ع)]] | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |