مندرجات کا رخ کریں

"سورہ قریش" کے نسخوں کے درمیان فرق

10,399 بائٹ کا ازالہ ،  8 دسمبر 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{سورہ||نام = قریش |ترتیب کتابت = 106 | پارہ = 30 |آیت = 4 |مکی/ مدنی = مکی | ترتیب نزول = 29 |اگلی = [[سورہ ماعون|ماعون]] |پچھلی = [[سورہ فیل|فیل]] |لفظ = 17 |حرف = 76|تصویر=سوره قریش.jpg}}
 
''' قُرَیش ''' ، [[ حجاز ]] کے عرب قبائل میں سے اہم ترین اور مشہور ترین قبیلہ تھا کہ [[ پیغمبر اکرمؐ ]] کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ زیادہ تر نسب شناسوں کی یہی رائے ہے کہ پیغمبرؐ کے بارہویں جد [[ نضر بن کنانہ ]] کا لقب قریش تھا؛ اس لیے جس بھی خاندان کا نسب پیغمبرؐ کے بارہویں جد ’’نضر بن کنانہ‘‘ تک پہنچتا تھا، وہ ''' قُرَشی ''' کہلاتا اور اس کا شمار قبیلہ قریش سے ہوتا تھا۔
بعض ماہر نسب شناسوں نے پیغمبرؐ کے دسویں جد [[ فھر بن مالک ]] کا لقب ’’قریش‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ [[ قرآن ]] میں ایک [[ سورت ]] کا نام [[ قریش ]] ذکر ہوا ہے۔
== نام رکھنے کی علت ==
قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:
* اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۶.</ref>
* دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸.</ref> نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹.</ref>
* سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱۱، ص۸۰.</ref>
* چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۶.</ref>
== قریش کی شاخیں ==
’’قریش‘‘ مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور [[ اسلام ]] کے وقت متعدد شاخوں پر مشتمل تھا؛ منجملہ: [[ بنی ہاشم ]] ، [[بنی مطلب]]، بنی حارث، [[بنی امیہ]]، بنی نوفل، بنی حارث بن فهر، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زهره، بنی تیم بن مره، بنی مخزوم، بنی یقَظه، بنی مرّه، بنی عدی بن کعب، بنی سهم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامه، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبدالله، بنی خزیمه اور بنی بنانہ.{{مدرک}}
قریش کی ۲۵ شاخوں کے بعض خاندان سرزمین [[ بطحاء ]] ( [[ مکہ ]] کے ہموار علاقوں) میں رہائش پذیر تھے جو (قریش بطاح) یا (قریش بطحاء) کے نام سے مشہور تھے اور کچھ خاندان مکہ شہر سے باہر پہاڑوں پر سکونت پذیر تھے کہ جو ’’قریش ظواہر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ {{مدرک}}
== مکہ پر حاکمیت کا آغاز ==
قریش سے پہلے [[ کعبہ ]] کے انتظام کی ذمہ داری [[ قبیلہ خزاعہ ]] کے پاس تھی۔ <ref> مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ص۱۲۶.</ref> ان دنوں قریش مکہ کے مضافات میں رہتے تھے اور کعبہ کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قصی بن کلاب مکہ میں ساکن ہو گئے اور قبیلہ خزاعہ کی بڑی بیٹی کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بنی کنانہ اور قریش کو اپنا معاون مقرر کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۶؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.</ref>
== پیشہ ==
=== تجارت ===
’’قریشی‘‘ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس غرض سے [[ یمن ]] ، [[ شام ]] اور [[ ایران ]] کا رخ کرتے تھے اور معروف بازار جیسے [[ بازار عکاظ ]] اور بازار ذی المجاز ان کے زیر اختیار تھے۔ {{مدرک}}
وہ ہر سال گرمیوں اور سردیوں میں دو تجارتی سفر کرتے تھے کہ جن کی طرف [[ قرآن ]] نے اشارہ کیا ہے۔ البتہ پہلے ان کی تجارت مکہ کے اندر تک محدود تھی۔ غیر عرب تاجر ان سے اشیا خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرتے تھے۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۴۲.</ref> آخرکار ہاشم بن عبد مناف نے قریش کی شام اور یمن کیساتھ تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے [[ شام ]] کے شہروں میں تجارت کی اجازت لی۔ پھر ان کے بھائی عبد الشمس حبشہ کے حاکم سے تجارت کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور عبد مناف کے سب سے چھوٹے بیٹے نوفل بن عبد مناف نے بھی [[ عراق ]] کا سفر کر کے کسریٰ سے عراق میں تجارت کا اجازت نامہ دریافت کیا۔ <ref> بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۹.</ref>
===کعبہ سے مربوط منصب ===
قریش [[ کعبہ ]] اور اس سے مربوط مسائل کو بہت اہمیت دیتے تھے چونکہ ان کی معیشت اور سیاست کعبہ سے مربوط مناصب کی بنیاد پر قائم تھی۔ کعبہ سے مربوط تمام مراکز کا انتظام قریش کی بزرگ شخصیات کے پاس تھا۔ ظہور اسلام کے وقت کعبہ کے مناصب قریش کی دس شاخوں کے پاس تھے۔
یہ دس شاخیں درج ذیل ہیں: [[بنی ہاشم]]، [[بنی امیہ]]، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی، بنی نوفل اور بنی جمح.{{مدرک}}
کعبہ کے مناصب جو قریش کے پاس تھے؛ یہ ہیں: ’’[[ سقایت ]]‘‘ (کعبہ کے زائرین کو پانی پلانا) ، ’’رفادت‘‘ (زائرین کعبہ کی مہمان نوازی)‘ ’’[[ حجابت ]]‘‘ (کلید داری اور دربانی)، ’’قضاوت‘‘، قیادت (تجارتی اور جنگی قافلوں کی سربراہی اور سرپرستی) ’’عمارت‘‘ (مسجد الحرام کی دیکھ بھال)، اموال کعبہ کی جمع آوری اور دیکھ بھال کا منصب، [[ دیت ]] اور غرامت کی ادائیگی کا منصب اور ۔۔۔ {{مدرک}}
== دین ==
=== حضرت ابراہیم کے دین کی پیروی ===
تاریخ اسلام کے بعض مآخذ کی بنا پر قریشی پہلے [[ حضرت ابراہیم ]] کے دین یعنی [[ دین حنیف ]] پر کاربند تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود دین ابراہیم کے بعض احکام و آداب اسی طرح باقی رہے مگر ان میں بھی تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کر دی گئیں۔ منجملہ ان بدعتوں میں سے ایک [[ عرفہ میں وقوف ]] کا ترک ہے۔ <ref> {{مدرک}}</ref>
قریشی جانتے تھے کہ [[ عرفہ ]] میں وقوف دین [[ ابراہیمؑ ]] کے احکام میں سے ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے خود اسے ترک کر دیا جبکہ دوسرے عربوں پر اسے واجب قرار دیا ور کہنے لگے: ہم ابراہیمؑ کی اولاد، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور مجاور ہیں؛ ہمارے لیے سزاوار نہیں ہے کہ حرم سے خارج ہو کر غیر حرم کا حرم کی مانند احترام کریں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کام سے ان کا عربوں کے نزدیک مقام کم ہوتا ہے۔ <ref> ابن حبیب بغدادی، المنمق، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷. </ref>
یہ لوگ حرم سے باہر کے لوگوں کو پابند کرتے تھے کہ اپنی اشیائے خوردونوش حرم کے اندر نہ لائیں اور اہل حرم کے کھانے تناول کریں، [[ طواف ]] کے موقع پر اہل مکہ کا قومی اور مقامی لباس پہنیں اور اگر کوئی اسے خریدنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پابرہنہ طواف کرے۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹. </ref>




گمنام صارف