مندرجات کا رخ کریں

"سورہ طہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

256 بائٹ کا اضافہ ،  6 اگست 2019ء
م
سطر 76: سطر 76:
|ترجمہ=بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔}}
|ترجمہ=بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}<!--
{{خاتمہ}}
تفاسیر میں آیا ہے کہ جب بھی [[جبرئیل]] [[پیغمبر اکرمؐ]] پر [[قرآن]] نازل کرتا تھا، وی از بیم اینکه مبادا [[قرآن]] را فراموش کند و به خاطر عشق به فراگیری قرآن و حفظ آن برای مردم، به هنگام دریافت [[وحی]] عجله می‌کرد و بدون مهلت دادن به جبرئیل برای اتمام سخن، شروع به بیان آن برای مردم می‌کرد؛ به همین دلیل خداوند در این آیه از پیامبرش ‌می‌خواهد گوش فرادهد تا نزول وحی تمام شود و بعد به مردم ابلاغ کند.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۱۲؛ مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۴۸.</ref>
تفاسیر میں آیا ہے کہ جب بھی [[جبرئیل]] [[پیغمبر اکرمؐ]] کی خدمت میں [[قرآن]] لے کر آتا تھا آپؐ [[قرآن]] کو فراموش کرنے کے خوف اور اسے مسلمانوں تک پہنچانے اور انہیں تعلیم دینے کے لئے جلدی کرتے تھے اور جبرئیل کی گفتگو ختم ہونے سے پہلے لوگوں کے لئے بیان کرنا شروع کرتے تھے؛ اسی بنا پر خدا نے اس آیت میں اپنے پیارے حبیب کو یہ سفارش کرتے ہیں کہ پہلے وحی کو مکمل سنیں پھر اس کے بعد اسے لوگوں کے لئے بیاں کریں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۱۲؛ مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۴۸.</ref>


در [[تفسیر مجمع البیان]] سه احتمال برای دستور به عدم تعجیل در ابلاغ وحی بیان شده است:
[[تفسیر مجمع البیان]] میں وحی کے ابلاغ میں جلدی نہ کرنے کی تین دلیل بیان ہوئی ہے:
* پیش از آنکه جبرئیل وحی را به پایان برساند به تلاوت قرآن عجله نکند همانگونه که در آیه ۱۶ [[سوره قیامت]] نیز بر آن تأکید کرده است.
* جبرئیل وحی کو ختم کرنے سے پہلے اس کی تلاوت کرنے میں جلدی نہ کریں جیسا کہ [[سوره قیامت]] کی آیت نمبر 15 میں بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے۔
* تا وقتی معانی قرآن برای تو آشکار نشده برای پیروانت نخوان.
* جب تک قرآن کا مفہوم آپ کے لئے واضح نہ ہو اسے اپنے ماننے والوں کے لئے بیان نہ کریں۔
* پیش از آنکه وحی بر تو نازل شود درخواست نزول وحی نکن زیرا خداوند بر حسب مصلحت نازل می‌فرماید.<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۵۱-۵۲.</ref>
* آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے نزول وحی کی دعا نہ کریں کیونکہ خدا قرآن کو اپنی مصلحت کے تحت نازل کرتا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۵۱-۵۲.</ref>


درباره فراز آخر آیه «وَ قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْماً» از پیامبر(ص) روایت است هرگاه روزی بر من آید که در آن بر علم من افزوده نشود و به درگاه خداوند [[تقرب]] پیدا نکنم، طلوع خورشید آن روز بر من مبارک نیست.<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۵۲.</ref>
اس آیت کے آخری حصے: {{قرآن کا متن|وَ قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْماً|ترجمہ=اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔ }} کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے کہ وہ دن جس میں میرے علم میں اضافہ نہ ہو اور خدا کی بارگاہ میں تقرب حاصل نہ ہو اس دن کا سورج میرے لئے مبارک نہیں ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۵۲.</ref>


===آیت 124===
===آیت 124===
سطر 91: سطر 91:
|ترجمہ=اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔}}
|ترجمہ=اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}<!--
تنگی زندگی در این آیه را بیشتر به سبب کمبودهای معنوی و نبودن غنای روحی و وابستگی بیش از حد به جهان ماده و ترس از نابودی دانسته‌اند و کسی که [[ایمان]] به خدا دارد و دل به ذات او بسته از همه این نگرانی‌ها در امان است.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۸۷ش، ج۱۳، ص۳۲۷.</ref>
تنگی زندگی در این آیه را بیشتر به سبب کمبودهای معنوی و نبودن غنای روحی و وابستگی بیش از حد به جهان ماده و ترس از نابودی دانسته‌اند و کسی که [[ایمان]] به خدا دارد و دل به ذات او بسته از همه این نگرانی‌ها در امان است.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۸۷ش، ج۱۳، ص۳۲۷.</ref>
برخی [[مفسران]] تنگ‌دستی را ناشی از قوانین زمین می‌دانند نه آسمان یعنی بر اثر اعمال مردمی است که حق و [[عدالت]] را نابود می‌کنند و اگر آنان از آیین خدا پیروی می‌کردند یقینا هیچ نیازمندی بر روی زمین یافت نمی‌شد.<ref>مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۵۲.</ref>
برخی [[مفسران]] تنگ‌دستی را ناشی از قوانین زمین می‌دانند نه آسمان یعنی بر اثر اعمال مردمی است که حق و [[عدالت]] را نابود می‌کنند و اگر آنان از آیین خدا پیروی می‌کردند یقینا هیچ نیازمندی بر روی زمین یافت نمی‌شد.<ref>مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۵۲.</ref>
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم