مندرجات کا رخ کریں

"سخی مزار" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  11 ستمبر
(عدد انگلیسی)
سطر 37: سطر 37:
==محل وقوع==
==محل وقوع==
[[file:زیارت سخی.jpeg|تصغیر|جنوبی منظر (فوٹو:روئٹرز نیوز ایجنسی)]]
[[file:زیارت سخی.jpeg|تصغیر|جنوبی منظر (فوٹو:روئٹرز نیوز ایجنسی)]]
[[file:زیارت سخی3.jpeg|تصغیر|مغربی منظر]]
[[file:زیارت سخی۳.jpeg|تصغیر|مغربی منظر]]
زیارت سخی اسمائی پہاڑ ( ٹی وی پہاڑ) کے مغربی دامن پر اور کابل کے علاقے کارتے سخی میں واقع ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص101.</ref> اس کے بالمقابل کابل یونیورسٹی، علی آباد ہسپتال اور حسینیہ عرفان واقع ہیں۔ اس کے جنوبی حصے میں، امام علیؑ مسجد (میر علی احمد حجت نے تعمیر کی) اور اس کے باہر، سلام ٹیلے پر، مسجد اور مدرسہ علمیہ محمدیہ واقع ہیں جنہیں واعظ بہسودی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس مزار کے مغربی اور جنوبی علاقے میں ایک قبرستان ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی۔</ref> جہاں سید علی احمد حجت،<ref>احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص100.</ref> امان اللہ خان کی والدہ حیات بیگم، واعظ بہسودی اور کمیونسٹ، مجاہدین اور طالبان حکومت کے تشدد سے مارے جانے والے متعدد افراد کی قبریں ہیں۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref>
زیارت سخی اسمائی پہاڑ ( ٹی وی پہاڑ) کے مغربی دامن پر اور کابل کے علاقے کارتے سخی میں واقع ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص101.</ref> اس کے بالمقابل کابل یونیورسٹی، علی آباد ہسپتال اور حسینیہ عرفان واقع ہیں۔ اس کے جنوبی حصے میں، امام علیؑ مسجد (میر علی احمد حجت نے تعمیر کی) اور اس کے باہر، سلام ٹیلے پر، مسجد اور مدرسہ علمیہ محمدیہ واقع ہیں جنہیں واعظ بہسودی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس مزار کے مغربی اور جنوبی علاقے میں ایک قبرستان ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی۔</ref> جہاں سید علی احمد حجت،<ref>احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص100.</ref> امان اللہ خان کی والدہ حیات بیگم، واعظ بہسودی اور کمیونسٹ، مجاہدین اور طالبان حکومت کے تشدد سے مارے جانے والے متعدد افراد کی قبریں ہیں۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref>


سطر 43: سطر 43:
کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک کپڑا جو سنہ 1109 سے 1181 ہجری تک فیض آباد، بدخشان میں تھا<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص18.</ref> اور 1182ھ کے اواخر میں یہ کپڑا احمد شاہ ابدالی کے حکم سے ولی‌ الله خان اعتماد الدوله کے ذریعے ولایت بدخشان کے علاقہ فیض آباد سے قندہار لے جایا گیا۔ سنہ 1182 ہجری کے اوائل میں یہ کپڑا کابل پہنچا اور موجودہ مزار کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اور یہاں رکھنے کی مدت چالیس دن سے 8 مہینے تک ذکر ہوئی ہے۔ اس دوران کابل اور گردونواح سے لوگ اس کپڑے کی زیارت کے لیے آتے تھے۔<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص28.</ref> سنہ 1180ھ کو بھی کپڑا منتقل ہونے کا سال قرار دیا گیا ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380.</ref>  
کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک کپڑا جو سنہ 1109 سے 1181 ہجری تک فیض آباد، بدخشان میں تھا<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص18.</ref> اور 1182ھ کے اواخر میں یہ کپڑا احمد شاہ ابدالی کے حکم سے ولی‌ الله خان اعتماد الدوله کے ذریعے ولایت بدخشان کے علاقہ فیض آباد سے قندہار لے جایا گیا۔ سنہ 1182 ہجری کے اوائل میں یہ کپڑا کابل پہنچا اور موجودہ مزار کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اور یہاں رکھنے کی مدت چالیس دن سے 8 مہینے تک ذکر ہوئی ہے۔ اس دوران کابل اور گردونواح سے لوگ اس کپڑے کی زیارت کے لیے آتے تھے۔<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص28.</ref> سنہ 1180ھ کو بھی کپڑا منتقل ہونے کا سال قرار دیا گیا ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380.</ref>  


روایت ہوئی ہے کہ کپڑا لے جانے والے صوفیاء نے چند دنوں کے بعد دو راتوں کو لگاتار خواب میں دیکھا کہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس ایک شخص جس نے اپنی تلوار پتھر پر رکھی ہوئی ہے کچھ لوگوں کے ساتھ کپڑے کے پاس نماز پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس شخص نے اپنا تعارف امام علیؑ سے کرایا۔ اسی وجہ سے اس وقت سے یہ مقام حضرت علی علیہ السلام کی قدمگاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ پتھر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref> یہ پتھر مزار کی شمالی دیوار میں پہاڑ کی طرف واقع ہے جو سنگِ ذوالفقار سے مشہور ہے۔ کپڑا لے جانے والوں نے قندھار پہنچ کر احمد شاہ ابدالی کو یہ واقعہ بیان کیا تو اس نے وہاں "سخی، شاہ مردان" کے نام سے ایک مزار بنانے کا حکم دیا۔ اس مزار کی تاریخ اس کے اندر، دیوار پر کتبے پر لکھی ہوئی ہے۔.<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref>  
روایت ہوئی ہے کہ کپڑا لے جانے والے صوفیاء نے چند دنوں کے بعد دو راتوں کو لگاتار خواب میں دیکھا کہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس ایک شخص جس نے اپنی تلوار پتھر پر رکھی ہوئی ہے کچھ لوگوں کے ساتھ کپڑے کے پاس نماز پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس شخص نے اپنا تعارف امام علیؑ سے کرایا۔ اسی وجہ سے اس وقت سے یہ مقام حضرت علی علیہ السلام کی قدمگاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ پتھر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref> یہ پتھر مزار کی شمالی دیوار میں پہاڑ کی طرف واقع ہے جو سنگِ ذوالفقار سے مشہور ہے۔ کپڑا لے جانے والوں نے قندھار پہنچ کر احمد شاہ ابدالی کو یہ واقعہ بیان کیا تو اس نے وہاں "سخی، شاہ مردان" کے نام سے ایک مزار بنانے کا حکم دیا۔ اس مزار کی تاریخ اس کے اندر، دیوار پر کتبے پر لکھی ہوئی ہے۔.<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref>


==عمارت==
==عمارت==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,499

ترامیم