مندرجات کا رخ کریں

"نکاح مسیار" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''نِکاح مِسْیار'''  [[اہل سنت و جماعت|اہل‌سنت]] کے ہاں رائج [[شادی بیاه|شادی]] کی ایک قسم ہے۔ اہل سنت کے مطابق اس نکاح میں [[عقد نکاح|دائمی نکاح]] کی شرائط پائی جاتی ہیں جیسے شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور [[حق مہر|مہر]]، لیکن اس میں عورت اپنی مرضی سے [[نفقہ|کفالت]] اور [[جماع|صحبت]] کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔ اس نکاح میں شوہر جب چاہے بیوی کے پاس آ سکتا ہے اور بیوی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔
'''نِکاح مِسْیار'''  [[اہل سنت و جماعت|اہل‌سنت]] کے ہاں رائج [[شادی بیاه|شادی]] کی ایک قسم ہے۔ اہل سنت کے مطابق اس نکاح میں [[عقد نکاح|دائمی نکاح]] کی شرائط پائی جاتی ہیں جیسے [[عقد نکاح|شرعی عقد]] کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور [[حق مہر|مہر]]، لیکن اس میں عورت اپنی مرضی سے [[نفقہ|کفالت]] اور [[جماع|صحبت]] کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔ اس نکاح میں شوہر جب چاہے بیوی کے پاس آ سکتا ہے اور بیوی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔


عورت کے لیے رہائش اور نفقہ کا حق نہ ہونے میں نکاح مسیار، شیعہ مذہب میں موجود متعہ یا نکاح موقت کی طرح ہے؛ لیکن اس کے ساتھ کچھ اختلافات ہیں۔ جیسے اس کا مستقل اور دائمی ہونا، چار بیویوں کی حد تک رہنا، گواہ کی ضرورت، اور علیحدگی کے لئے [[طلاق]]، [[طلاق خلع|خلع]] یا [[فسخ ازدواج|فسخ]] کی ضرورت ہونا جوکہ متعہ میں نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نکاحِ مسیار ان نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوئے تھے۔ فَہَد الغنیم کو پہلا شخص سمجھا جاتا ہے جس نے نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کی۔
عورت کے لیے رہائش اور [[نفقہ]] کا حق نہ ہونے میں نکاح مسیار، [[شیعہ|شیعہ مذہب]] میں موجود [[نکاح متعہ|متعہ]] یا نکاح موقت کی طرح ہے؛ البتہ کچھ فرق بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے اس کا مستقل اور دائمی ہونا، چار بیویوں سے زیادہ کی گنجائش نہ ہونا، گواہ کی ضرورت، اور علیحدگی کے لئے [[طلاق]]، [[طلاق خلع|خلع]] یا [[فسخ ازدواج|فسخ]] کی ضرورت ہونا جوکہ متعہ میں نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نکاحِ مسیار ان نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوئے تھے۔ فَہَد الغنیم کو نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کرنے والا پہلا شخص سمجھا جاتا ہے۔


امامیہ فقہاء کے مطابق متعہ اور مسیار کی شادی میں مماثلت اور اس کی تشکیل کے پس منظر میں یکسوئی کے مطابق، سنی مفتیوں کی طرف سے متعہ کو باطل قرار دینے اور مسیار کو درست قرار دینے میں سنی مفتیوں پر دوہرے فیصلے کا الزام لگایا ہے۔ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق نکاحِ مسیار کا مطالعہ کرنے والے تمام شیعہ فقہاء نے شرائط کے ساتھ اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ سنی مفتیوں کے ایک گروہ نے نکاحِ مسیار کو جائز، بعض نے حرام اور بعض نے اس کے حکم کے بارے میں خاموشی اختیار کیا ہے۔
[[مجتہد|امامیہ فقہاء]] کے مطابق متعہ اور مسیار کی شادی میں مماثلت اور اس کی تشکیل کے پس منظر میں یکسوئی کے باوجود سنی مفتیوں کی طرف سے متعہ کو باطل اور مسیار کو درست قرار دینے پر سنی مفتیوں پر دوہرے فیصلے کا الزام لگایا ہے۔ [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق نکاحِ مسیار کی تحقیق کرنے والے تمام شیعہ فقہاء نے شرائط کے ساتھ اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے جبکہ سنی مفتیوں کے ایک گروہ نے نکاحِ مسیار کو [[حلال|جائز]]، بعض نے [[حرام]] اور بعض نے اس کے حکم کے بارے میں خاموشی اختیار کیا ہے۔


==مفہوم شناسی==
==مفہوم شناسی==
نکاح مِسْیار شادی کی اس قسم کو کہا جاتا ہے جس میں اہل سنت کی نظر میں نکاح کی شرائط مثلاً شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور مہر وغیرہ کی رعایت کی جاتی ہے اور عورت اپنی صوابدید سے کفالت اور صحبت کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔<ref>[https://darolefta.org/1266/ «نکاح مسیار جایز است»]، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21؛ ایوبی، نصیری و تولایی، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، ص26، حاتمی و شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، ص50۔</ref> اہل سنت کے مفتی یوسف قرضاوی کے مطابق نکاح مسیار اکثر طور پر پہلی شادی نہیں ہوتی ہے بلکہ مرد کی دائمی بیوی ہے اور اسے نان و نفقہ اور رہائش کا حق دے رہا ہوتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔</ref>
نکاح مِسْیار، شادی کی اس قسم کو کہا جاتا ہے جس میں اہل سنت کی نظر میں نکاح کی شرائط مثلاً شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور [[حق مہر|مہر]] وغیرہ کی رعایت کی جاتی ہے اور عورت اپنی مرضی سے کفالت اور صحبت کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔<ref>[https://darolefta.org/1266/ «نکاح مسیار جایز است»]، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21؛ ایوبی، نصیری و تولایی، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، ص26، حاتمی و شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، ص50۔</ref> اہل سنت کے مفتی یوسف قرضاوی کے مطابق نکاح مسیار اکثر طور پر پہلی شادی نہیں ہوتی ہے بلکہ مرد کی دائمی بیوی ہے اور اسے نان و نفقہ اور رہائش کا حق دے رہا ہوتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔</ref>


عرب کے عظیم علماء کی کونسل کے رکن عبداللہ مُنَیّع کے مطابق، میسار میں شادی کے تمام قوانین پائے جاتے ہیں، جیسے وراثت، مہر، اور بچوں کی قانونی حیثیت اور مشروعیت۔ لیکن عورت صحبت اور نفقہ جیسے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21۔</ref> اہل سنت عالم دین وَہبَہ زُحیلی نکاح مسیار میں وراثت کے حق کو بھی محفوظ قرار دیتے ہیں۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص49۔</ref>
عرب کے عظیم علماء کی کونسل کے رکن عبداللہ مُنَیّع کے مطابق، میسار میں شادی کے تمام قوانین پائے جاتے ہیں، جیسے [[ارث|وراثت]]، مہر، اور بچوں کی قانونی حیثیت اور مشروعیت۔ لیکن عورت [[جماع|صحبت]] اور نفقہ جیسے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21۔</ref> اہل سنت عالم دین وَہبَہ زُحیلی نکاح مسیار میں وراثت کے حق کو بھی محفوظ قرار دیتے ہیں۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص49۔</ref>


اس نکاح میں شوہر جب چاہے عورت کے پاس جا سکتا ہے اور عورت بھی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص65۔</ref> عربی زبان میں مسیار کا لفظ نہیں ہے اور عام زبان میں اس کے معنی عارضی اور آسان کے ہیں۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص7۔</ref>
اس نکاح میں شوہر جب چاہے عورت کے پاس جا سکتا ہے اور عورت بھی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص65۔</ref> عربی زبان میں مسیار کا لفظ نہیں ہے اور عام زبان میں اس کے معنی عارضی اور آسان کے ہیں۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص7۔</ref>


==متعہ کے ساتھ مماثلت اور اختلافات==
==متعہ کے ساتھ مماثلت اور فرق==
مکارم شیرازی کے مطابق نکاح مسیار، عقد موقت کی طرح ہے؛ کیونکہ اس قسم کی شادی میں عورت اپنے ہی گھر میں رہتی ہے اور اس کی کفالت اور نفقہ بھی اس کے اپنے ذمے ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21۔</ref> دونوں شادیوں میں عورت کو نان و نفقہ، ساتھ سونے یا رہائش کا حق حاصل نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے سے وراثت نہیں لیتے ہیں. اس کے علاوہ، عورت کو گھر سے نکلنے کے لیے اپنے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص54۔</ref>   
مکارم شیرازی کے مطابق نکاح مسیار، [[نکاح متعہ|عقد موقت]] کی طرح ہے؛ کیونکہ اس قسم کی شادی میں عورت اپنے ہی گھر میں رہتی ہے اور اس کی کفالت اور [[نفقہ]] بھی اس کے اپنے ذمے ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21۔</ref> دونوں شادیوں میں عورت کو نان و نفقہ، ساتھ سونے یا رہائش کا حق حاصل نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے سے وراثت نہیں لیتے ہیں. اس کے علاوہ، عورت کو گھر سے نکلنے کے لیے اپنے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص54۔</ref>   


نکاح مسیار اور نکاح موقت میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں نکاح کی مدت کا تعین ہونا ضروری ہے، لیکن نکاح مسیار کو عقد دائم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ نیز نکاح مسیار میں شادیوں کی تعداد دائمی نکاح کی طرح صرف چار عورتوں کی گنجائش ہے لیکن متعہ میں تعداد محدود نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ مسیار میں میاں بیوی کی علیحدگی [[طلاق]]، [[طلاق خلع|خلع]] یا [[فسخ ازدواج|فسخ]] کے ذریعے ہوتی ہے؛ لیکن عقد موقت میں مدت ختم ہوتے ہی یا مدت کو بخش دینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص15۔</ref> اس کے علاوہ نکاح مسیار کے لیے دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، جب کہ نکاح موقت (متعہ) میں ایسی شرط نہیں ہے۔<ref>عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص680۔</ref>
نکاح مسیار اور نکاح موقت میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں نکاح کی مدت کا تعین ہونا ضروری ہے، لیکن نکاح مسیار کو عقد دائم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ نیز نکاح مسیار میں شادیوں کی تعداد میں دائمی نکاح کی طرح صرف چار عورتوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن متعہ میں تعداد محدود نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ مسیار میں میاں بیوی کی علیحدگی [[طلاق]]، [[طلاق خلع|خلع]] یا [[فسخ ازدواج|فسخ]] کے ذریعے ہوتی ہے؛ لیکن عقد موقت میں مدت ختم ہوتے ہی یا مدت کو بخش دینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص15۔</ref> اس کے علاوہ نکاح مسیار کے لیے دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، جب کہ نکاح موقت (متعہ) میں ایسی شرط نہیں ہے۔<ref>عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص680۔</ref>


==تاریخچہ اور وجود میں آنے کے عوامل==
==تاریخچہ اور وجود میں آنے کے عوامل==
کہا جاتا ہے کہ نکاح مسیار نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوا تھا۔ فَہَد اَلغنیم کو پہلا شخص سمجھا جاتا ہے جس نے نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کی۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔</ref> سنہ 1990ء  کی دہائی میں، سعودی عرب میں نکاح مسیار رائج ہونے کے بعد، اس طرح کی شادی آہستہ آہستہ خلیج فارس کے [[کویت]]، [[قطر]]، [[بحرین]] اور [[متحدہ عرب امارات|امارات]] جیسے عرب ممالک میں پھیل گئی اور شاید دوسرے ممالک میں بھی سرایت کر گیا ہو۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320۔</ref> بعض سنی علماء نے مسیار کو اپنی فقہ میں بعض مثالوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔</ref>
کہا جاتا ہے کہ نکاح مسیار نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوا تھا۔ فَہَد اَلغنیم کو پہلا شخص سمجھا جاتا ہے جس نے نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کی۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔</ref> سنہ 1990ء  کی دہائی میں، سعودی عرب میں نکاح مسیار رائج ہونے کے بعد، اس طرح کی شادی آہستہ آہستہ خلیج فارس کے [[کویت]]، [[قطر]]، [[بحرین]] اور [[متحدہ عرب امارات|امارات]] جیسے عرب ممالک میں پھیل گئی اور شاید دوسرے ممالک میں بھی سرایت کر گیا ہو۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320۔</ref> بعض سنی علماء نے مسیار کو اپنی [[فقہ]] میں بعض مثالوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔</ref>


مستقل شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، جیسے مکان اور بھاری مہر اور مردوں کی اپنی دوسری شادی کو گھر والوں سے چھپانے کی خواہش، اہل سنت میں نکاح مسیار کے ظہور کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ طلاق یافتہ اور بےسرپرست عورتوں کی تعداد میں اضافہ، بعض حالات میں مردوں کو کئی بیویوں کی ضرورت؛ جیسے کہ پہلی بیوی کی بیماری اور عورت کی طرف سے غریب آدمی کا خرچہ مہیا کرنا میسار کی تشکیل کے محرکات اور اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320 ـ 321۔</ref>
مستقل شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، جیسے مکان اور بھاری مہر اور مردوں کی اپنی دوسری شادی کو گھر والوں سے چھپانے کی خواہش، اہل سنت میں نکاح مسیار کے ظہور کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ طلاق یافتہ اور بےسرپرست عورتوں کی تعداد میں اضافہ، بعض حالات میں مردوں کو کئی بیویوں کی ضرورت؛ جیسے کہ پہلی بیوی کی بیماری اور عورت کی طرف سے غریب آدمی کا خرچہ مہیا کرنا میسار کی تشکیل کے محرکات اور اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320 ـ 321۔</ref>


شیعہ علماء کا خیال ہے کہ سنی فقہ کی طرف سے متعہ اور عقدِ موقت کی مخالفت اور اس کے اسباب کا سامنا ہونے پر نکاح مسیار کے نام سے ایک ردعمل کا باعث بنا ہے۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ: عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص683؛ صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص66۔</ref> بعض شیعہ فقہاء نے اس مسئلے پر اہل سنت علماء پر تنقید کی ہے اور ان پر اس مسئلے میں دوغلے پن کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق متعہ اور نکاح مسیار میں مماثلت اور ان کی تشکیل کا ایک ہی پس منظر ہوتے ہوئے سنی مفتیوں نے متعہ کو کیوں باطل اور حرام قرار دیا ہے جبکہ نکاح مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص20، 21 ـ 22۔</ref>  
شیعہ علماء کا خیال ہے کہ سنی فقہ کی طرف سے متعہ اور عقدِ موقت کی مخالفت اور معاشرے میں اس کے اسباب کی فراہمی نکاح مسیار کے نام سے ایک ردعمل کا باعث بنے ہیں۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ: عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص683؛ صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص66۔</ref> بعض شیعہ فقہاء نے اس مسئلے میں اہل سنت علماء پر تنقید کرتے ہوئے اس مسئلے میں ان پر دوغلے پن کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق متعہ اور نکاح مسیار میں مماثلت اور ان کی تشکیل کا ایک ہی پس منظر ہوتے ہوئے سنی مفتیوں نے متعہ کو باطل اور حرام جبکہ نکاح مسیار کو جائز قرار دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص20، 21 ـ 22۔</ref>  


==نکاح مسیار کا حکم==
==نکاح مسیار کا حکم==
[[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق، تمام شیعہ فقہاء جنہوں نے اس مسئلہ پر بحث کیا ہے، انہوں نے نکاح مسیار کو جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص22۔</ref> ان کے نزدیک ایسا نکاح دو طرح سے صحیح ہے:
[[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق، تمام شیعہ فقہاء جنہوں نے اس مسئلہ پر بحث کیا ہے، انہوں نے نکاح مسیار جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص22۔</ref> ان کے نزدیک ایسا نکاح دو طرح سے صحیح ہے:


#عقد نکاح کے متن میں عورت سے بعض حقوق مثلاً نفقہ، ساتھ سونا، مکان اور وراثت کا مطالبہ نہ کرنے کی شرط شامل نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ اخلاقی طور پر ان سے مطالبہ نہ کرے پر خود کو پابند کرے۔
#عقد نکاح کے متن میں عورت سے بعض حقوق مثلاً نفقہ، ساتھ سونا، مکان اور وراثت کا مطالبہ نہ کرنے کی شرط شامل نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ اخلاقی طور پر ان سے مطالبہ نہ کرنے پر خود کو پابند کرے۔
#کچھ حقوق کی چھوٹ کو معاہدہ کے متن میں فعل کی شرط کی شکل میں شامل کیا جانا چاہئے، نتیجہ کی شرط نہیں؛ فعل شرط ہونے کی صورت میں عورت کہتی ہے کہ میں تم سے شادی کروں گی اور تم سے کفالت یا صحبت کا مطالبہ نہیں کروں گی۔ نتیجہ کی شرط میں مرد کہتا ہے کہ میں تم سے شادی کروں گا، بشرطیکہ تمھیں کوئی حق نہ ہو۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص23۔</ref> مکارم شیرازی کے نزدیک عورت شرطِ فعل کے ذریعہ حق وراثت سے بھی دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص24۔</ref>
#کچھ حقوق کی چھوٹ کو معاہدہ کے متن میں فعل کی شرط کی شکل میں شامل کیا جانا چاہئے، نتیجہ کی شرط نہیں؛ فعل شرط ہونے کی صورت میں عورت کہتی ہے کہ میں تم سے شادی کروں گی اور تم سے کفالت یا صحبت کا مطالبہ نہیں کروں گی۔ نتیجہ کی شرط میں مرد کہتا ہے کہ میں تم سے شادی کروں گا، بشرطیکہ تمھیں کوئی حق نہ ہو۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص23۔</ref> مکارم شیرازی کے نزدیک عورت شرطِ فعل کے ذریعہ حق وراثت سے بھی دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص24۔</ref>


کہا گیا ہے کہ شیعہ مراجع تقلید میں سے سید علی سیستانی اور حسین علی منتظری بھی مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>حاتمی و شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، ص56۔</ref>
کہا گیا ہے کہ شیعہ مراجع تقلید میں سے [[سید علی حسینی سیستانی|سید علی سیستانی]] اور [[حسین علی منتظری]] بھی مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>حاتمی و شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، ص56۔</ref>


اہل سنت مفتیوں میں مسیار کے حکم کے بارے میں تین نظریات بیان کیے گئے ہیں: ایک گروہ نے اسے حلال سمجھا ہے اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے، اور ان میں سے بعض نے اس کے حکم کے بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے اور خاموشی اختیار کیا ہے۔.<ref>[https://ensani.ir/fa/article/2025/%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%B3%D9%86%D9%86-%D9%88-%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B1 «اہل تسنن و ازدواج مسیار»]، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی۔</ref> میسار کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس شادی میں بھی دائمی شادی کی شرائط، عناصر اور اہم فوائد بھی ہیں۔<ref>عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص681 ـ 682، قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔</ref>  
اہل سنت مفتیوں کے حوالے سے مسیار کے حکم کے بارے میں تین نظریات بیان کیے گئے ہیں: ایک گروہ نے اسے حلال سمجھا ہے اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے، اور ان میں سے بعض نے اس کے حکم کے بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے اور خاموشی اختیار کیا ہے۔<ref>[https://ensani.ir/fa/article/2025/%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%B3%D9%86%D9%86-%D9%88-%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B1 «اہل تسنن و ازدواج مسیار»]، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی۔</ref> میسار کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس شادی میں بھی دائمی شادی کی شرائط، عناصر اور اہم فوائد شامل ہیں۔<ref>عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص681 ـ 682، قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔</ref>  


اور مکارم شیرازی کے مطابق، بہت سے اہل سنت فقہاء جیسے سعودی عرب کے مفتی بِن باز اور مصر کے مفتی قرضاوی اور نصر فرید واصل نے اس قسم کی شادی کو جائز قرار دیا ہے؛ لیکن الازہر کے سابق شیخ جد الحق نے اس کی مخالفت کی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21 ـ 22۔</ref> عبداللہ منیع، عضو شورای عالمان بزرگ عربستان<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21۔</ref> اسی طرح الازہر مصر سے وابستہ ادارہ دار الافتاء نے نکاح مسیار کو صحیح قرار دیا ہے۔<ref>[https://www.tabnak.ir/fa/news/620/%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%AE%D9%81%D9%8A-%D8%A8%D8%B1%D8 «ازدواج مخفی برای اہل سنت مجاز شد»]، سایت تابناک۔</ref>
اور مکارم شیرازی کے مطابق، بہت سے اہل سنت فقہاء جیسے سعودی عرب کے مفتی بِن باز اور مصر کے مفتی قرضاوی اور نصر فرید واصل نے اس قسم کی شادی کو جائز قرار دیا ہے؛ لیکن الازہر کے سابق شیخ جد الحق نے اس کی مخالفت کی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21 ـ 22۔</ref> عبداللہ منیع، عضو شورای عالمان بزرگ عربستان<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21۔</ref> اسی طرح الازہر مصر سے وابستہ ادارہ دار الافتاء نے نکاح مسیار کو صحیح قرار دیا ہے۔<ref>[https://www.tabnak.ir/fa/news/620/%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%AE%D9%81%D9%8A-%D8%A8%D8%B1%D8 «ازدواج مخفی برای اہل سنت مجاز شد»]، سایت تابناک۔</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099

ترامیم