confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
==مفہوم شناسی== | ==مفہوم شناسی== | ||
نکاح مِسْیار شادی کی اس قسم کو کہا جاتا ہے جس میں اہل سنت کی نظر میں نکاح کی شرائط مثلاً شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور مہر وغیرہ کی رعایت کی جاتی ہے اور عورت اپنی صوابدید سے کفالت اور صحبت کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔<ref>[https://darolefta.org/1266/ «نکاح مسیار جایز است»]، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21؛ ایوبی، نصیری و تولایی، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، ص26، حاتمی و شنیور، «نکاحہای نوین معاصر و مشروعیت آنہا»، | نکاح مِسْیار شادی کی اس قسم کو کہا جاتا ہے جس میں اہل سنت کی نظر میں نکاح کی شرائط مثلاً شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور مہر وغیرہ کی رعایت کی جاتی ہے اور عورت اپنی صوابدید سے کفالت اور صحبت کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔<ref>[https://darolefta.org/1266/ «نکاح مسیار جایز است»]، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21؛ ایوبی، نصیری و تولایی، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، ص26، حاتمی و شنیور، «نکاحہای نوین معاصر و مشروعیت آنہا»، ص50۔</ref> اہل سنت کے مفتی یوسف قرضاوی کے مطابق نکاح مسیار اکثر طور پر پہلی شادی نہیں ہوتی ہے بلکہ مرد کی دائمی بیوی ہے اور اسے نان و نفقہ اور رہائش کا حق دے رہا ہوتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔</ref> | ||
عرب کے عظیم علماء کی کونسل کے رکن عبداللہ مُنَیّع کے مطابق، میسار میں شادی کے تمام قوانین پائے جاتے ہیں، جیسے وراثت، مہر، اور بچوں کی قانونی حیثیت اور مشروعیت۔ لیکن عورت صحبت اور نفقہ جیسے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت | عرب کے عظیم علماء کی کونسل کے رکن عبداللہ مُنَیّع کے مطابق، میسار میں شادی کے تمام قوانین پائے جاتے ہیں، جیسے وراثت، مہر، اور بچوں کی قانونی حیثیت اور مشروعیت۔ لیکن عورت صحبت اور نفقہ جیسے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21۔</ref> اہل سنت عالم دین وَہبَہ زُحیلی نکاح مسیار میں وراثت کے حق کو بھی محفوظ قرار دیتے ہیں۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص49۔</ref> | ||
اس نکاح میں شوہر جب چاہے عورت کے پاس جا سکتا ہے اور عورت بھی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، | اس نکاح میں شوہر جب چاہے عورت کے پاس جا سکتا ہے اور عورت بھی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص65۔</ref> عربی زبان میں مسیار کا لفظ نہیں ہے اور عام زبان میں اس کے معنی عارضی اور آسان کے ہیں۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص7۔</ref> | ||
==متعہ کے ساتھ مماثلت اور اختلافات== | ==متعہ کے ساتھ مماثلت اور اختلافات== | ||
مکارم شیرازی کے مطابق نکاح مسیار، عقد موقت کی طرح ہے؛ کیونکہ اس قسم کی شادی میں عورت اپنے ہی گھر میں رہتی ہے اور اس کی کفالت اور نفقہ بھی اس کے اپنے ذمے ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، | مکارم شیرازی کے مطابق نکاح مسیار، عقد موقت کی طرح ہے؛ کیونکہ اس قسم کی شادی میں عورت اپنے ہی گھر میں رہتی ہے اور اس کی کفالت اور نفقہ بھی اس کے اپنے ذمے ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21۔</ref> دونوں شادیوں میں عورت کو نان و نفقہ، ساتھ سونے یا رہائش کا حق حاصل نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے سے وراثت نہیں لیتے ہیں. اس کے علاوہ، عورت کو گھر سے نکلنے کے لیے اپنے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص54۔</ref> | ||
نکاح مسیار اور نکاح موقت میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں نکاح کی مدت کا تعین ہونا ضروری ہے، لیکن نکاح مسیار کو عقد دائم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ نیز نکاح مسیار میں شادیوں کی تعداد دائمی نکاح کی طرح صرف چار عورتوں کی گنجائش ہے لیکن متعہ میں تعداد محدود نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ مسیار میں میاں بیوی کی علیحدگی [[طلاق]]، [[طلاق خلع|خلع]] یا [[فسخ ازدواج|فسخ]] کے ذریعے ہوتی ہے؛ لیکن عقد موقت میں مدت ختم ہوتے ہی یا مدت کو بخش دینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، | نکاح مسیار اور نکاح موقت میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں نکاح کی مدت کا تعین ہونا ضروری ہے، لیکن نکاح مسیار کو عقد دائم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ نیز نکاح مسیار میں شادیوں کی تعداد دائمی نکاح کی طرح صرف چار عورتوں کی گنجائش ہے لیکن متعہ میں تعداد محدود نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ مسیار میں میاں بیوی کی علیحدگی [[طلاق]]، [[طلاق خلع|خلع]] یا [[فسخ ازدواج|فسخ]] کے ذریعے ہوتی ہے؛ لیکن عقد موقت میں مدت ختم ہوتے ہی یا مدت کو بخش دینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔<ref>قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص15۔</ref> اس کے علاوہ نکاح مسیار کے لیے دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، جب کہ نکاح موقت (متعہ) میں ایسی شرط نہیں ہے۔<ref>عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص680۔</ref> | ||
==تاریخچہ اور وجود میں آنے کے عوامل== | ==تاریخچہ اور وجود میں آنے کے عوامل== | ||
کہا جاتا ہے کہ نکاح مسیار نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوا تھا۔ فَہَد اَلغنیم کو پہلا شخص سمجھا جاتا ہے جس نے نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کی۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، | کہا جاتا ہے کہ نکاح مسیار نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوا تھا۔ فَہَد اَلغنیم کو پہلا شخص سمجھا جاتا ہے جس نے نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کی۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔</ref> سنہ 1990ء کی دہائی میں، سعودی عرب میں نکاح مسیار رائج ہونے کے بعد، اس طرح کی شادی آہستہ آہستہ خلیج فارس کے [[کویت]]، [[قطر]]، [[بحرین]] اور [[متحدہ عرب امارات|امارات]] جیسے عرب ممالک میں پھیل گئی اور شاید دوسرے ممالک میں بھی سرایت کر گیا ہو۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320۔</ref> بعض سنی علماء نے مسیار کو اپنی فقہ میں بعض مثالوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔<ref>صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔</ref> | ||
مستقل شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، جیسے مکان اور بھاری مہر اور مردوں کی اپنی دوسری شادی کو گھر والوں سے چھپانے کی خواہش، اہل سنت میں نکاح مسیار کے ظہور کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ طلاق یافتہ اور بےسرپرست عورتوں کی تعداد میں اضافہ، بعض حالات میں مردوں کو کئی بیویوں کی ضرورت؛ جیسے کہ پہلی بیوی کی بیماری اور عورت کی طرف سے غریب آدمی کا خرچہ مہیا کرنا میسار کی تشکیل کے محرکات اور اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320 ـ | مستقل شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، جیسے مکان اور بھاری مہر اور مردوں کی اپنی دوسری شادی کو گھر والوں سے چھپانے کی خواہش، اہل سنت میں نکاح مسیار کے ظہور کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ طلاق یافتہ اور بےسرپرست عورتوں کی تعداد میں اضافہ، بعض حالات میں مردوں کو کئی بیویوں کی ضرورت؛ جیسے کہ پہلی بیوی کی بیماری اور عورت کی طرف سے غریب آدمی کا خرچہ مہیا کرنا میسار کی تشکیل کے محرکات اور اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320 ـ 321۔</ref> | ||
شیعہ علماء کا خیال ہے کہ سنی فقہ کی طرف سے متعہ اور عقدِ موقت کی مخالفت اور اس کے اسباب کا سامنا ہونے پر نکاح مسیار کے نام سے ایک ردعمل کا باعث بنا ہے۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ: عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص683؛ صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، | شیعہ علماء کا خیال ہے کہ سنی فقہ کی طرف سے متعہ اور عقدِ موقت کی مخالفت اور اس کے اسباب کا سامنا ہونے پر نکاح مسیار کے نام سے ایک ردعمل کا باعث بنا ہے۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ: عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص683؛ صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص66۔</ref> بعض شیعہ فقہاء نے اس مسئلے پر اہل سنت علماء پر تنقید کی ہے اور ان پر اس مسئلے میں دوغلے پن کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق متعہ اور نکاح مسیار میں مماثلت اور ان کی تشکیل کا ایک ہی پس منظر ہوتے ہوئے سنی مفتیوں نے متعہ کو کیوں باطل اور حرام قرار دیا ہے جبکہ نکاح مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص20، 21 ـ 22۔</ref> | ||
==نکاح مسیار کا حکم== | ==نکاح مسیار کا حکم== | ||
[[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق، تمام شیعہ فقہاء جنہوں نے اس مسئلہ پر بحث کیا ہے، انہوں نے نکاح مسیار کو جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص22۔</ref> ان کے نزدیک ایسا نکاح دو طرح سے صحیح ہے: | |||
ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، تمام شیعہ فقہاء جنہوں نے اس مسئلہ پر بحث کیا ہے، انہوں نے نکاح مسیار کو جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، | |||
#عقد نکاح کے متن میں عورت سے بعض حقوق مثلاً نفقہ، ساتھ سونا، مکان اور وراثت کا مطالبہ نہ کرنے کی شرط شامل نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ اخلاقی طور پر ان سے مطالبہ نہ کرے پر خود کو پابند کرے۔ | #عقد نکاح کے متن میں عورت سے بعض حقوق مثلاً نفقہ، ساتھ سونا، مکان اور وراثت کا مطالبہ نہ کرنے کی شرط شامل نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ اخلاقی طور پر ان سے مطالبہ نہ کرے پر خود کو پابند کرے۔ | ||
#کچھ حقوق کی چھوٹ کو معاہدہ کے متن میں فعل کی شرط کی شکل میں شامل کیا جانا چاہئے، نتیجہ کی شرط نہیں؛ فعل شرط ہونے کی صورت میں عورت کہتی ہے کہ میں تم سے شادی کروں گی اور تم سے کفالت یا صحبت کا مطالبہ نہیں کروں گی۔ نتیجہ کی شرط میں مرد کہتا ہے کہ میں تم سے شادی کروں گا، بشرطیکہ تمھیں کوئی حق نہ ہو۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، | #کچھ حقوق کی چھوٹ کو معاہدہ کے متن میں فعل کی شرط کی شکل میں شامل کیا جانا چاہئے، نتیجہ کی شرط نہیں؛ فعل شرط ہونے کی صورت میں عورت کہتی ہے کہ میں تم سے شادی کروں گی اور تم سے کفالت یا صحبت کا مطالبہ نہیں کروں گی۔ نتیجہ کی شرط میں مرد کہتا ہے کہ میں تم سے شادی کروں گا، بشرطیکہ تمھیں کوئی حق نہ ہو۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص23۔</ref> مکارم شیرازی کے نزدیک عورت شرطِ فعل کے ذریعہ حق وراثت سے بھی دستبردار ہوسکتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص24۔</ref> | ||
کہا گیا ہے کہ شیعہ مراجع تقلید میں سے سید علی سیستانی اور حسین علی منتظری بھی مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>حاتمی و شنیور، «نکاحہای نوین معاصر و مشروعیت آنہا»، | کہا گیا ہے کہ شیعہ مراجع تقلید میں سے سید علی سیستانی اور حسین علی منتظری بھی مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔<ref>حاتمی و شنیور، «نکاحہای نوین معاصر و مشروعیت آنہا»، ص56۔</ref> | ||
اہل سنت مفتیوں میں مسیار کے حکم کے بارے میں تین نظریات بیان کیے گئے ہیں: ایک گروہ نے اسے حلال سمجھا ہے اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے، اور ان میں سے بعض نے اس کے حکم کے بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے اور خاموشی اختیار کیا ہے۔.<ref>[https://ensani.ir/fa/article/2025/%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%B3%D9%86%D9%86-%D9%88-%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B1 «اہل تسنن و ازدواج مسیار»]، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات | اہل سنت مفتیوں میں مسیار کے حکم کے بارے میں تین نظریات بیان کیے گئے ہیں: ایک گروہ نے اسے حلال سمجھا ہے اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے، اور ان میں سے بعض نے اس کے حکم کے بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے اور خاموشی اختیار کیا ہے۔.<ref>[https://ensani.ir/fa/article/2025/%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%AA%D8%B3%D9%86%D9%86-%D9%88-%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B1 «اہل تسنن و ازدواج مسیار»]، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی۔</ref> میسار کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس شادی میں بھی دائمی شادی کی شرائط، عناصر اور اہم فوائد بھی ہیں۔<ref>عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص681 ـ 682، قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔</ref> | ||
اور مکارم شیرازی کے مطابق، بہت سے اہل سنت فقہاء جیسے سعودی عرب کے مفتی بِن باز اور مصر کے مفتی قرضاوی اور نصر فرید واصل نے اس قسم کی شادی کو جائز قرار دیا ہے؛ لیکن الازہر کے سابق شیخ جد الحق نے اس کی مخالفت کی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21 ـ | اور مکارم شیرازی کے مطابق، بہت سے اہل سنت فقہاء جیسے سعودی عرب کے مفتی بِن باز اور مصر کے مفتی قرضاوی اور نصر فرید واصل نے اس قسم کی شادی کو جائز قرار دیا ہے؛ لیکن الازہر کے سابق شیخ جد الحق نے اس کی مخالفت کی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21 ـ 22۔</ref> عبداللہ منیع، عضو شورای عالمان بزرگ عربستان<ref>[https://arabi21.com/story/1158530/%D8%B9%D8%B6%D9%88-%D8%A8%D9%80-%D9%83%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21۔</ref> اسی طرح الازہر مصر سے وابستہ ادارہ دار الافتاء نے نکاح مسیار کو صحیح قرار دیا ہے۔<ref>[https://www.tabnak.ir/fa/news/620/%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%AE%D9%81%D9%8A-%D8%A8%D8%B1%D8 «ازدواج مخفی برای اہل سنت مجاز شد»]، سایت تابناک۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
سطر 46: | سطر 45: | ||
* ایوبی، حسین و دیگران، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، در مجلہ مطالعات فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 5، پاییز و زمستان 1390ہجری شمسی۔ | * ایوبی، حسین و دیگران، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، در مجلہ مطالعات فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 5، پاییز و زمستان 1390ہجری شمسی۔ | ||
* حاتمی، علی اصغر و قادر شنیور، «نکاحہای نوین معاصر و مشروعیت آنہا»، در مجلہ مطالعات فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 3، زمستان 1389ہجری شمسی۔ | * حاتمی، علی اصغر و قادر شنیور، «نکاحہای نوین معاصر و مشروعیت آنہا»، در مجلہ مطالعات فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 3، زمستان 1389ہجری شمسی۔ | ||
* خلیفہ فرج العائب، ابوالقاسم، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، در مجلة العلوم القانونیة و الشرعیة، دانشگاہ زاویہ ـ لیبی، شمارہ 7، | * خلیفہ فرج العائب، ابوالقاسم، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، در مجلة العلوم القانونیة و الشرعیة، دانشگاہ زاویہ ـ لیبی، شمارہ 7، 2015ء۔ | ||
* صادقی، محمد، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، در مجلہ مطالعات راہبردی زنان، شمارہ 40، تابستان 1387ہجری شمسی۔ | * صادقی، محمد، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، در مجلہ مطالعات راہبردی زنان، شمارہ 40، تابستان 1387ہجری شمسی۔ | ||
* عامری، سہیلا، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، در مجموعہ مقالات دوازدہمین کنفرانس بینالمللی پژوہشہای مدیریت و علوم انسانی در ایران، 1402ہجری شمسی۔ | * عامری، سہیلا، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، در مجموعہ مقالات دوازدہمین کنفرانس بینالمللی پژوہشہای مدیریت و علوم انسانی در ایران، 1402ہجری شمسی۔ | ||
* [https://arabi21.com/story/1158530 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21، تاریخ درج مطلب: 19 فوریہ 2009، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1403ہجری شمسی۔ | * [https://arabi21.com/story/1158530 «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»]، سایت عربی21، تاریخ درج مطلب: 19 فوریہ 2009، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1403ہجری شمسی۔ | ||
* قرضاوی، یوسف، «حول زواج المسیار»، ارائہ شدہ در ہمایش مجمع فقہی اسلامی، دورہ 18، مکہ، 1427ق/ | * قرضاوی، یوسف، «حول زواج المسیار»، ارائہ شدہ در ہمایش مجمع فقہی اسلامی، دورہ 18، مکہ، 1427ق/2006ء۔ | ||
* مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، تحقیق: محمدرضا حامدی و مسعود مکارم، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ اول، 1424ھ۔ | * مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، تحقیق: محمدرضا حامدی و مسعود مکارم، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ اول، 1424ھ۔ | ||
* [https://darolefta.org/1266 «نکاح مسیار جایز است»]، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت، تاریخ درج مطلب: 10 مرداد 1400ش، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1403ہجری شمسی۔ | * [https://darolefta.org/1266 «نکاح مسیار جایز است»]، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت، تاریخ درج مطلب: 10 مرداد 1400ش، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1403ہجری شمسی۔ |