"سورہ فرقان" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (Text replacement - "{{حوالہ جات|3}}" to "{{حوالہ جات}}") ٹیگ: موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{سورہ||نام = فرقان |ترتیب کتابت = 26|پارہ = 19|آیت = 227|مکی/ مدنی = مکی|ترتیب نزول = 47|اگلی = [[سورہ شعراء|شعراء]] |پچھلی = [[سورہ نور|نور]] |لفظ = 1223|حرف = 5630|تصویر=سوره فرقان.jpg}} | {{سورہ||نام = فرقان |ترتیب کتابت = 26|پارہ = 19|آیت = 227|مکی/ مدنی = مکی|ترتیب نزول = 47|اگلی = [[سورہ شعراء|شعراء]] |پچھلی = [[سورہ نور|نور]] |لفظ = 1223|حرف = 5630|تصویر=سوره فرقان.jpg}} | ||
'''سورہ فُرْقان''' [[قرآن]] کی 25ویں اور [[مکی اور مدنی|مکی]] [[سورہ|سورتوں]] میں سے ہے جو 18ویں اور 19 ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام فرقان ہے جس کے معنی حق اور باطل کو جدا کرنے والے کے ہیں۔ اس سورت میں [[توحید]]، [[معاد]]، [[نبوت]] اور [[شرک|بت پرستی]] کے خلاف جد و جہد جیسے مضامین پر تأکید کی گئی ہے۔ اس کی آخری آیتوں میں حقیقی [[ایمان| | '''سورہ فُرْقان''' [[قرآن]] کی 25ویں اور [[مکی اور مدنی|مکی]] [[سورہ|سورتوں]] میں سے ہے جو 18ویں اور 19 ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام فرقان ہے جس کے معنی حق اور باطل کو جدا کرنے والے کے ہیں۔ اس سورت میں [[توحید]]، [[معاد]]، [[نبوت]] اور [[شرک|بت پرستی]] کے خلاف جد و جہد جیسے مضامین پر تأکید کی گئی ہے۔ اس کی آخری آیتوں میں حقیقی [[ایمان|مؤمنین]] کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ اس سورت کی [[آیت]] نمبر 60 میں [[مستحب]] [[سجدہ]] ہے۔ اس سورت کی مشہور آیتوں میں آیت نمبر30 (مہجوریت قرآن کے بارے میں)، 53(میٹھے اور نمکین دریا کی جدائی کے بارے میں) اور 59(6 دن میں کائنات کی خلقت کے بارے میں) شامل ہیں۔ | ||
اس سورت کی تلاوت کے بارے میں [[پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ فرقان کی تلاوت کرے [[قیامت]] کے دن اس حالت میں محشور ہوگا کہ قیامت کے آنے پر یقین رکھتا | اس سورت کی تلاوت کے بارے میں [[پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ فرقان کی تلاوت کرے [[قیامت]] کے دن اس حالت میں محشور ہوگا کہ قیامت کے آنے پر یقین رکھتا ہوگا اور مردوں کے مبعوث ہونے میں کوئی شک نہیں کرتا ہوگا اور یہ شخص بغیر کسی حساب و کتاب کے [[بہشت]] میں داخل ہوگا۔ | ||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
[[ملف:سوره بقره آیه ۱۸۶.jpg|تصغیر|[[سورہ غافر]] آیت60، [[سورہ بقرہ]] آیت187 اور سورہ فرقان آیت77 خط ثلث]] | [[ملف:سوره بقره آیه ۱۸۶.jpg|تصغیر|[[سورہ غافر]] آیت60، [[سورہ بقرہ]] آیت187 اور سورہ فرقان آیت77 خط ثلث]] | ||
*'''نام''' | *'''نام''' | ||
اس سورت کا نام '''فرقان''' ہے جو | اس سورت کا نام '''فرقان''' ہے جو کہ سورے کی پہلی [[آیت]] سے ماخوذ ہے جس کی معنی حق اور باطل کو جدا کرنے والے کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد [[قرآن]] ہے جو حق اور باطل کو جدا کرنے والا ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴شمسی، ج۱۵، ص۳۔ </ref> | ||
*'''محل اور ترتیب نزول''' | *'''محل اور ترتیب نزول''' | ||
سورہ فرقان [[مکی]] سورتوں میں سے ہے اور [[ترتیب نزول]] کے اعتبار سے 42ویں جبکہ ترتیب [[مصحف|مُصحَف]] کے اعتبار سے 25ویں سورت ہے۔<ref>معرفت، آموزش علوم قرآن، | سورہ فرقان [[مکی]] سورتوں میں سے ہے اور [[ترتیب نزول]] کے اعتبار سے 42ویں جبکہ ترتیب [[مصحف|مُصحَف]] کے اعتبار سے 25ویں سورت ہے۔<ref>معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۱۶۶۔</ref> یہ سورت قرآن کے 18ویں اور 19ویں پارے میں واقع ہے۔ | ||
* '''آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات''' | * '''آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات''' | ||
[[سورہ]] فرقان 77 [[آیت|آیات]]، 897 کلمات اور 3877 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے یہ سورت تقریبا ایک پارے | [[سورہ]] فرقان 77 [[آیت|آیات]]، 897 کلمات اور 3877 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے یہ سورت تقریبا ایک پارے کے ایک چوتھائی حصے سے قدرے بڑی ہے۔ اس کی 60ویں آیت میں مستحب سجدہ ہے یعنی اس کی تلاوت کرنے یا سننے پر سجدہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref>دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷شمسی، ج۲، ص۱۲۴۴۔</ref> (رجوع کریں: [[عزائم|سجدہ والی سورتیں]]) | ||
==مضامین== | ==مضامین== | ||
اس [[سورت]] میں | اس [[سورت]] میں مندرج بعض موضوعات کچھ یوں ہیں: اسلام قبول کرنے میں [[مشرکین]] کے بہانے اور قرآن کا جواب، [[شرک]] کے خلاف جد و جہد، گذشتہ اقوام کی داستانیں، [[قیامت]] کے دن لوگوں کی حسرت، [[توحید]] کی نشانیاں اور کائنات میں عظمت خدا کے مظاہر اور مؤمنوں اور کافروں کا موازنہ؛ اس سورت کے مضامین میں سب سے اہم موضوع "عباد الرحمن" یعنی خدا کے حقیقی بندوں کی خصوصیات ہیں جو اس سورت کی آیت نمبر 63 سے آخر تک میں بیان ہوئی ہیں۔<ref> قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳شمسی، ج۸، ص۲۲۱۔</ref> | ||
{{سورہ فرقان}} | {{سورہ فرقان}} | ||
==تاریخی واقعات== | ==تاریخی واقعات== | ||
سورہ فرقان کے ایک حصے میں حضرت موسیؑ اور آپ کے بھائی [[حضرت ہارون|ہارون]] کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے<ref>سورہ فرقان، آیہ ۳۵۔</ref> اور [[حضرت نوح]] کی قوم کو ایک ایسی قوم کے طور پر تعارف کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے زمانے کے پیغمبروں کی تکذیب کی اور نیتجتاً وہ سارے غرق ہوگئے۔<ref>سورہ فرقان، آیہ ۳۷۔</ref> اس سورے میں [[قوم عاد]]، [[قوم ثمود]] اور [[اصحاب رس|اصحاب رَس]] کا تذکرہ بھی ملتا ہے، یہ قومیں بھی عذاب الہی کا شکار ہوگئیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 40 میں [[قوم لوط]] کی سرنوشت بیان کی گئی ہے۔<ref>سورہ فرقان، آیات ۳۵-۴۰؛ علیبابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷شمسی، ج۳، ص۳۳۹-۳۴۰۔</ref> | |||
==بعض آیات کی تفسیر== | ==بعض آیات کی تفسیر== | ||
===گناہ نیکیوں کو تباہ کرتا ہے=== | ===گناہ نیکیوں کو تباہ کرتا ہے=== | ||
[[تفسیر البرہان]] میں اس سورت کی آیت نمبر 23 کے ذیل میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے منقول ہے کہ [[قیامت]] کے دن بعض ایسے گروہ کو لایا جاتا ہے جن کے نیک اعمال پہاڑوں کے برابر ہیں لیکن خدا ان کے اعمال کو باطل کر دیتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی [[گناہ]] | [[تفسیر البرہان]] میں اس سورت کی آیت نمبر 23 کے ذیل میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے منقول ہے کہ [[قیامت]] کے دن بعض ایسے گروہ کو لایا جاتا ہے جن کے نیک اعمال پہاڑوں کے برابر ہیں لیکن خدا ان کے اعمال کو باطل کر دیتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی [[گناہ]] کا موقع پیش آتا تو یہ لوگ اس کی طرف چلے جاتے تھے۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۴، ص۱۱۸۔</ref> بعض [[احادیث]] میں آیا ہے کہ [[غیبت]]، دنیا کی محبت، [[تکبر]]، غرور، [[حسد]]، [[ریا]] اور [[زکات]] ادا نہ کرنا انسان کے نیک اعمال کے بطلان کا سبب بنتے ہیں۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۴، ص۱۱۷-۱۲۲۔</ref> | ||
===ولایت اہلبیت، اعمال کی قبولی کی شرط=== | ===ولایت اہلبیت، اعمال کی قبولی کی شرط=== | ||
اس سورت کی [[آیت]] نمبر 23 کی تفسیر میں نقل ہونے والی احادیث میں آیا ہے کہ اعمال کے قبول ہونے کی شرط [[اہل بیتؑ]] کی [[ولایت]] کو قبول کرنا ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی]] نے | اس سورت کی [[آیت]] نمبر 23 کی تفسیر میں نقل ہونے والی [[احادیث]] میں آیا ہے کہ اعمال کے قبول ہونے کی شرط [[اہل بیتؑ]] کی [[ولایت]] کو قبول کرنا ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی]] نے ان احادیث میں سے بعض کو [[البرہان فی تفسیر القرآن|البرہان]] میں نقل کرتے ہوئے ان کی تعداد بکثرت ہونے کا دعوا کیا ہے۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۴، ص۱۲۲۔</ref> اسی طرح آیت نمبر 27 اور 28 کے ذیل میں نقل ہونے والی احادیث میں لفظ "سبیل" کو [[امام علی علیہالسلام|امام علیؑ]] پر تطبیق کرتے ہوئے آپ کی [[حدیث وصایت|وصایت]] اور اس کے غصب ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ھ، ج۴، ص۱۲۴-۱۳۲۔</ref> | ||
==شأن نزول: اسلام قبول نہ کرنے | ==شأن نزول: اسلام قبول نہ کرنے کے سلسلے میں مشرکین کے بہانے== | ||
تفسیر [[المیزان فی تفسیر القرآن|المیزان]] میں اس سورت کی [[آیت]] نمبر 7 کی [[شأن نزول]] | تفسیر [[المیزان فی تفسیر القرآن|المیزان]] میں اس سورت کی [[آیت]] نمبر 7 اس کی [[شأن نزول]] کے بارے میں آیا ہے: بعض [[کفار]] [[پیغمبر اکرمؐ]] کی خدمت میں گئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں کہ اگر آپ کو مال یا منصب چاہئے تو یہ چیزیں ہم آپ کو دیں گے۔ لیکن پیغمبر اکرمؐ نے ان کی پیشکش ٹھکرا دی اور فرمایا: جو کچھ میں لے کر آیا ہوں وہ مال و دولت اور مقام و منصب کی لالچ میں نہیں بلکہ خدا نے مجھے اس کام پر مأمور فرمایا ہے کہ میں لوگوں کو [[جہنم|آتش جہنم]] سے ڈراؤں اور [[جنت]] کی بشارت دے دوں اور خدا کا یہ پیغام اس کے بندوں تک پہنچا دوں۔ جب کافروں نے آپ کا دوٹوک جواب سنا تو کہنے لگے:آپﷺ کے ساتھ کیوں کوئی فرشتہ نہیں ہے یا کیوں آپ کا کوئی باغ یا قلعہ نہیں ہے تاکہ یہ چیزیں آپﷺ کو لوگوں سے بے نیاز کردے؟۔ اس موقع پر خداوند متعال نے اس سورت کی آیت نمبر 20 نازل فرمائی جس میں آیا ہے کہ میں تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے امتحان اور آزمائش میں ڈال دونگا تاکہ پتہ چلے کہ تم لوگ صبر کا دامن تھامنے والے ہیں یا نہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو ساری دنیا کو اپنے رسول کیلئے دے سکتا ہوں پھر تم اس کی مخالفت نہ کر سکوگے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۳ء، ج۱۵، ص۱۹۵-۱۹۶۔</ref> | ||
==مشہور آیتیں== | ==مشہور آیتیں== | ||
[[ملف:محل برخورد دو دریا.jpg|تصغیر| | [[ملف:محل برخورد دو دریا.jpg|تصغیر|ڈنمارک میں دریائے بالتیک اور دریائے شمال کے ملنے کی جگہ، ان دو دریاؤں کا پانی ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط نہیں ہوتا۔ بعض مفسرین نے اسے {{حدیث|"مَرَجَ الْبَحْرَینِ"}} (آیت 53) کا مصداق قرار دیا ہے۔]] | ||
*<font color=green>{{حدیث|وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا|ترجمہ=اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ }}</font> (آیت 30) | *<font color=green>{{حدیث|وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا|ترجمہ=اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ }}</font> (آیت 30) | ||
یہ ایت اس [[سورت]] کی مشہور [[آیت|آیات]] میں سے ہے<ref>[http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,8897 مہدی غفاری، مہجوریت قرآن۔]</ref> جس میں [[پیغمبر اکرمؐ]] اپنی امت میں [[قرآن]] کی مہجوریت سے متعلق خدا سے شکایت کر رہے ہیں۔ | یہ ایت اس [[سورت]] کی مشہور [[آیت|آیات]] میں سے ہے<ref>[http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,8897 مہدی غفاری، مہجوریت قرآن۔]</ref> جس میں [[پیغمبر اکرمؐ]] اپنی امت میں [[قرآن]] کی مہجوریت سے متعلق خدا سے شکایت کر رہے ہیں۔ [[تفسیر نمونہ]] میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی یہ شکایت ابھی تک باقی ہے کیونکہ قرآن آج کل ایک رسمی کتاب میں تبدیل ہوگیا ہے۔<ref>علیبابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷شمسی، ج۳، ص۳۳۶۔</ref> [[علامہ طباطبایی]] [[تفسیر المیزان]] میں فرماتے ہیں:علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ آیات کے ظہور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی مکرم اسلام کی تمام امتوں بشمول کافر و گنہگار کے خلاف شکایت ہے۔ آیت میں فعل ماضی کا استعمال (وقال الرسول...) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ [[قیامت]] کے دن پیغمبرخداﷺ کا اپنی امت کے خلاف شکایت کرنا ایک یقینی امر ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۳ء، ج۱۵، ص۲۰۵۔</ref> [[شیعہ]] [[سنی]] کے مابین مشہور حدیث، حدیث ثقلین کے مطابق پیغمبر اکرمﷺ نے تاکید کی کہ قرآن اور [[اہل بیتؑ]] قیامت تک جدا نہیں ہوں گے، دوسری طرف انسان کی سعادت اور گمراہی سے نجات صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان ایک ہی وقت میں قرآن و اہل بیتؑ دونوں کو مانے، اور تیسری طرف سے یہ بات بھی معلوم ہے کہ [[ائمہ معصومینؑ]] قرآن ناطق ہیں،ان مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے [[امام علیؑ]] کے ایک طویل خطبے میں موجود چند نکات قابل غور لگتے ہیں۔ اس خطبے کو امام علیؑ نے پیغمبر اکرمﷺ کی وفات کے سات دن بعد اور [[مدینہ]] میں جمعِ قرآن کے بعد بیان فرمایا۔اس خطبے میں امام علیؑ نے پیغمبر خداﷺ کے شئون حیات کو بیان کیا اور یہ کہ آپﷺ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دی۔ اس خطبے میں امام علیؑ نے پیغمبر کے پاس آپؑ کے خاص مقام کا تذکرہ کیا اور یہ کہ آپؑ کی ولایت کو ولایت خدا اور ولایت رسولﷺ کے برابر قرار دیا۔ آپ سے دشمنی خدا اور اس کے رسول سے دشمنی قرار دی گئی۔ نیز پیغمبر اکرمﷺ کے وصال کے بعد کے واقعات کی طرف بھی اشارہ کیا پھر سورہ فرقان کی آیت 28 اور 29 کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں وہی ذکر ہوں جس نے(ایک ظالم شخص جو قیامت کے دن حسرت و ندامت کے ساتھ میرے حق ہونے کا اعتراف کرے گا) مجھے بھلا دیا۔ میں وہی راستہ ہوں جس سے اس نے منحرف کیا اور میں وہ ایمان ہوں جس کا اس نے کفر کیا اور میں وہی قرآن ہوں جس کو اس نے ترک کیا اور میں وہ دین ہوں جس کا اس نے انکار کیا اور میں وہی صراط مستقیم ہوں جس سے وہ دور ہوگیا۔<ref>البحراني، السيد هاشم، البرهان في تفسيرالقرآن، ج۴، ص۱۲۶.</ref> [[حضرت امام رضاؑ]] نے فرمایا کہ [[نماز]] میں قرآن پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کو مہجوریت سے نکال دیا جائے۔<ref>قرائتی، محسن، تفسیر نور، ۱۳۸۳شمسی، ج۶، ص ۲۴۹.</ref> | ||
[[ملف:تابلوی پنجمین روز آفرینش.jpg|220px|تصغیر|خلقت کے پانچویں روز کی منظر کشی، استاد [[محمود فرشچیان|فرشچیان]] کے قلم سے]] | [[ملف:تابلوی پنجمین روز آفرینش.jpg|220px|تصغیر|خلقت کے پانچویں روز کی منظر کشی، استاد [[محمود فرشچیان|فرشچیان]] کے قلم سے]] | ||
*<font color=green>{{حدیث|وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا|ترجمہ=اور وہ وہی ہے جس نے | *<font color=green>{{حدیث|وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا|ترجمہ=اور وہ وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا ہے یہ شیریں و خوشگوار ہے اور یہ سخت کھاری و تلخ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔۔}}</font>(آیت 53) | ||
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت اس کائنات میں پروردگار عالم کی قدرت کے حیرت انگیز مظاہر میں سے ایک ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، | اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت اس کائنات میں پروردگار عالم کی طاقت و قدرت کے حیرت انگیز مظاہر میں سے ایک ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴شمسی، ج۱۵، ص۱۲۴۔</ref> [[سورہ الرحمن]] (آیت 10 اور20) اور [[سورہ نمل|نمل]] (آیت 61) میں بھی ان دو دریاؤں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ | ||
*<font color=green>{{حدیث|الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَـٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا|ترجمہ=اور | *<font color=green>{{حدیث|الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَـٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا|ترجمہ=وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ (۶) دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر اقتدار قائم کیا۔ وہی (خدائے) رحمن ہے اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھو۔}}</font>(آیت 59) | ||
اس سورت کی ایک اور مشہور آیت، [[آیت]] نمبر 59 ہے ہے جس کے مطابق خدا نے زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان موجود تمام چیزوں کو چھ(6) دن کے اندر خلق فرمایا ہے۔ یہ آیت عبارت میں مختصر تفاوت کے ساتھ مزید چھ(6) [[سورہ|سورتوں] میں بھی تکرار ہوئی ہے۔<ref>سورہ اعراف، آیت 54؛ سورہ یونس، آیت 3؛ سورہ ہود، آیت 7؛ سورہ سجدہ، آیت 4؛ سورہ ق، آیت 38؛ سورہ حدید، آیت 4۔</ref> [[سورہ فصلت]] کی آیت نمبر 9 میں آیا ہے کہ خدا نے زمین کو دو دن میں خلق فرمایا۔ علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں اس آیت کے ذیل میں خلقت کی مدت | اس سورت کی ایک اور مشہور آیت، [[آیت]] نمبر 59 ہے ہے جس کے مطابق خدا نے زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان موجود تمام چیزوں کو چھ (6) دن کے اندر خلق فرمایا ہے۔ یہ آیت عبارت میں مختصر تفاوت کے ساتھ مزید چھ(6) [[سورہ|سورتوں] میں بھی تکرار ہوئی ہے۔<ref>سورہ اعراف، آیت 54؛ سورہ یونس، آیت 3؛ سورہ ہود، آیت 7؛ سورہ سجدہ، آیت 4؛ سورہ ق، آیت 38؛ سورہ حدید، آیت 4۔</ref> [[سورہ فصلت]] کی آیت نمبر 9 میں آیا ہے کہ خدا نے زمین کو دو دن میں خلق فرمایا۔ علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں اس آیت کے ذیل میں خلقت کی مدت کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس آیت میں روز سے زمان کا ایک حصہ مراد لیا ہے۔<ref>طباطبایی، ترجمہ المیزان، ۱۹۷۳ء، ج۱۷، ص۳۶۲۔</ref> [[تفسیر نمونہ]] میں بھی "روز" سے "دوران" معنی لیا گیا ہے،<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴شمسی، ج۱۵، ص۱۳۵۔</ref> نہ 24 گھنٹے۔ | ||
== فضیلت اور خاصیت== | |||
* [اس سورت کی تلاوت کے بارے میں [[پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ فرقان کی تلاوت کرے [[قیامت]] کے دن اس حالت میں محشور ہوگا کہ قیامت کے آنے پر یقین رکھتا ہوگا اور مردوں کے مبعوث ہونے میں کوئی شک نہیں کرتا ہو گا اور یہ شخص بغیر کسی حساب و کتاب کے [[بہشت]] میں داخل ہو گا۔<ref>مجمع البیان، ج7، ص250۔</ref> | |||
* [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام کاظم(ع)]] نے بھی فرمایا ہے کہ "سورہ فرقان کو ترک نہ کرو کیونکہ جو شخص ہر شب اس کی تلاوت کرے خداوند متعال کبھی بھی اس کو عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا اور اس کا کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا اور اس کو فردوس اعلیٰ میں منزل عطا کرے گا۔<ref>شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ص109۔</ref>۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ج7، ص250۔</ref> | |||
==آیات الاحکام== | ==آیات الاحکام== | ||
سورہ فرقان کی [[آیت]] نمبر 48 کو [[آیات الاحکام]] میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے پانی کا پاک ہونا(طاہر) اور | سورہ فرقان کی [[آیت]] نمبر 48 کو [[آیات الاحکام]] میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے پانی کا پاک ہونا(طاہر) اور پاک کرنے والا(مطہِّر) ہونا ثابت ہوتا ہے:<font color=green>{{حدیث|وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا |ترجمہ=اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں.}}۔</font> <ref>ایروانی، دروس تمہیدیہ، ۱۴۲۳ھ، ج۱، ص۴۱۔</ref> | ||
==مونوگراف== | ==مونوگراف== | ||
عمومی تفسیر کے علاوہ [[سورہ]] فرقان کی تفسیر کے حوالے سے مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں مثلا: | |||
* جعفر سبحانی | * جعفر سبحانی تبریزی نے '''سیمای انسان کامل در قرآن(قرآن میں انسان کامل کی تصویر) کے عنوان سے اس کی تفسیر لکھی ہے: تفسیر سورہ فرقان'''، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۷ش، ۳۹۶ صفحه. | ||
== متن اور ترجمہ == | == متن اور ترجمہ == | ||
سطر 96: | سطر 99: | ||
اور جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے؟ یا ہم اپنے پروردگار کو ہی دیکھ لیتے! انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ (21) یہ لوگ جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کیلئے کوئی بشارت نہیں ہوگی اور وہ کہیں گے پناہ ہے پناہ (یا حرام ہے حرام)۔ (22) اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے جو انہوں نے کئے ہوں گے۔ اور انہیں پراگندہ غبار بنا دیں گے۔ (23) اس دن بہشت والوں کا ٹھکانہ بہترین ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہوگی۔ (24) اور جس دن بادل کے ساتھ آسمان شق ہو جائے گا اور فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔ (25) اس دن حقیقی بادشاہی (خدائے) رحمن کی ہوگی اور وہ دن کافروں کیلئے بڑا سخت ہوگا۔ (26) اور اس دن ظالم (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسول(ص) کے ساتھ (سیدھا) راستہ اختیار کیا ہوتا۔ (27) ہائے میری بدبختی! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ (28) اس نے نصیحت (یا قرآن) کے میرے پاس آجانے کے بعد مجھے اس کے قبول کرنے سے بہکا دیا اور شیطان تو ہے ہی (مشکل وقت میں) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا (دغا باز)۔ (29) اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ (30) اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راہنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔ (31) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہاں اس طرح اس لئے کیا کہ ہم تمہارے دل کو ثبات و تقویت دیں اور (اسی لئے) اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔ (32) | اور جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے؟ یا ہم اپنے پروردگار کو ہی دیکھ لیتے! انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ (21) یہ لوگ جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کیلئے کوئی بشارت نہیں ہوگی اور وہ کہیں گے پناہ ہے پناہ (یا حرام ہے حرام)۔ (22) اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے جو انہوں نے کئے ہوں گے۔ اور انہیں پراگندہ غبار بنا دیں گے۔ (23) اس دن بہشت والوں کا ٹھکانہ بہترین ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہوگی۔ (24) اور جس دن بادل کے ساتھ آسمان شق ہو جائے گا اور فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔ (25) اس دن حقیقی بادشاہی (خدائے) رحمن کی ہوگی اور وہ دن کافروں کیلئے بڑا سخت ہوگا۔ (26) اور اس دن ظالم (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسول(ص) کے ساتھ (سیدھا) راستہ اختیار کیا ہوتا۔ (27) ہائے میری بدبختی! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ (28) اس نے نصیحت (یا قرآن) کے میرے پاس آجانے کے بعد مجھے اس کے قبول کرنے سے بہکا دیا اور شیطان تو ہے ہی (مشکل وقت میں) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا (دغا باز)۔ (29) اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ (30) اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راہنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔ (31) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہاں اس طرح اس لئے کیا کہ ہم تمہارے دل کو ثبات و تقویت دیں اور (اسی لئے) اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔ (32) | ||
اور یہ لوگ جب بھی کوئی (نیا) اعتراض اٹھاتے ہیں تو ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ تشریح آپ کے سامنے لاتے ہیں۔ (33) وہ لوگ جو اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے وہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور راستہ کے اعتبار سے گمراہ تر ہیں۔ (34) بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر مقرر کیا۔ (35) پھر ہم نے ان سے کہا کہ تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب انہوں نے نہ مانا) تو ہم نے ان کو بالکل ہلاک و برباد کر دیا۔ (36) اور نوح(ع) کی قوم کو بھی ہم نے غرق کر دیا جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور انہیں لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (37) اور (اسی طرح) ہم نے قومِ عاد و ثمود اور اصحاب الرس کو اور ان کے درمیان، بہت سی نسلوں (اور) قوموں کو بھی ہلاک کیا۔ (38) اور ہم نے ہر ایک کیلئے (پہلے برباد ہونے والوں) کی مثالیں بیان کیں اور (آخرکار) ہم نے سب کو نیست و نابود کر دیا۔ (39) اور (یہ لوگ) اس بستی سے گزرے ہیں! جس پر (پتھروں کی) بڑی بارش برسائی گئی تھی کیا (وہاں سے گزرتے ہوئے) اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ (دراصل بات یہ ہے کہ) یہ حشر و نشر کی امید ہی نہیں رکھتے۔ (40) اور وہ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہ وہ ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ (41) وہ تو قریب تھا کہ یہ شخص ہمارے معبودوں سے ہمیں بہکا دے۔ اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے تو عنقریب جب وہ عذاب (الٰہی) کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟ (42) (اے رسول(ص)) کیا آپ نے وہ شخص دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنا رکھا ہے؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ (43) | اور یہ لوگ جب بھی کوئی (نیا) اعتراض اٹھاتے ہیں تو ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ تشریح آپ کے سامنے لاتے ہیں۔ (33) وہ لوگ جو اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے وہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور راستہ کے اعتبار سے گمراہ تر ہیں۔ (34) بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر مقرر کیا۔ (35) پھر ہم نے ان سے کہا کہ تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب انہوں نے نہ مانا) تو ہم نے ان کو بالکل ہلاک و برباد کر دیا۔ (36) اور نوح(ع) کی قوم کو بھی ہم نے غرق کر دیا جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور انہیں لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (37) اور (اسی طرح) ہم نے قومِ عاد و ثمود اور اصحاب الرس کو اور ان کے درمیان، بہت سی نسلوں (اور) قوموں کو بھی ہلاک کیا۔ (38) اور ہم نے ہر ایک کیلئے (پہلے برباد ہونے والوں) کی مثالیں بیان کیں اور (آخرکار) ہم نے سب کو نیست و نابود کر دیا۔ (39) اور (یہ لوگ) اس بستی سے گزرے ہیں! جس پر (پتھروں کی) بڑی بارش برسائی گئی تھی کیا (وہاں سے گزرتے ہوئے) اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ (دراصل بات یہ ہے کہ) یہ حشر و نشر کی امید ہی نہیں رکھتے۔ (40) اور وہ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہ وہ ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ (41) وہ تو قریب تھا کہ یہ شخص ہمارے معبودوں سے ہمیں بہکا دے۔ اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے تو عنقریب جب وہ عذاب (الٰہی) کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟ (42) (اے رسول(ص)) کیا آپ نے وہ شخص دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنا رکھا ہے؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ (43) | ||
کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔ (44) کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔ (45) پھر ہم اس (سایہ) کو تھوڑا تھوڑا کرکے اپنی طرف سمیٹتے جاتے ہیں۔ (46) اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو (باعث) راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔ (47) اور وہ وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ کسی مردہ شہر (غیر آباد) کو زندہ کریں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائیں۔ (48) اور ہم اس (پانی) کو طرح طرح سے لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا ہر بات سے انکار کر دیا ہے۔ (49) اور اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک ڈرانے والا بھیجتے۔ ( | کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔ (44) کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔ (45) پھر ہم اس (سایہ) کو تھوڑا تھوڑا کرکے اپنی طرف سمیٹتے جاتے ہیں۔ (46) اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو (باعث) راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔ (47) اور وہ وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ کسی مردہ شہر (غیر آباد) کو زندہ کریں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائیں۔ (48) اور ہم اس (پانی) کو طرح طرح سے لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا ہر بات سے انکار کر دیا ہے۔ (49) اور ہم اس (پانی) کو طرح طرح سے لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا ہر بات سے انکار کر دیا ہے۔ (50) اور اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک ڈرانے والا بھیجتے۔ (51) (اے نبی(ص)) آپ کافروں کی پیروی نہ کریں اور اس (قرآن) کے ذریعہ سے ان سے بڑا جہاد کریں۔ (52) اور وہ وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا ہے یہ شیریں و خوشگوار ہے اور یہ سخت کھاری و تلخ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔ (53) اور وہ (مشرک) اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کافر تو (ہمیشہ) اپنے پروردگار کے مقابلے میں (مخالفوں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔(55) اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ (56) اور آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس (کار رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔(57) (اے رسول(ص)) آپ اس زندہ (خدا) پر بھروسہ کیجئے جس کے لئے موت نہیں ہے۔ اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کیلئے خود کافی ہے۔(58) وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ (۶) دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر اقتدار قائم کیا۔ وہی (خدائے) رحمن ہے اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھو۔ (59) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ رحمن کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے بارے میں تم ہمیں حکم دو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت میں اور اضافہ کر دیتی ہے۔(60) بڑا بابرکت ہے وہ (خدا) جس نے آسمان میں (بارہ) برج بنائے اور ان میں ایک چراغ (سورج) اور ایک چمکتا ہوا چاند بنایا۔ (61) اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہے اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرنا چاہے۔ (62) اور (خدائے) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ آہستہ (فروتنی کے ساتھ) چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم پر سلام۔ (63) اور جو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔ (64) اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور رکھ۔، بےشک اس کا عذاب پوری ہلاکت ہے۔ (65) وہ (جہنم) بہت برا ٹھکانا ہے اور بہت بری جگہ ہے۔ (66) اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی (بلکہ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے۔ (67) اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہیں پکارتے اور جس جان (کے مارنے) کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ گناہ کی سزا پائے گا۔ (68) قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ اس میں ذلیل و خوار ہوکر ہمیشہ رہے گا۔ (69) سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے کہ اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (70) اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ اللہ کی طرف اس طرح رجوع کرتا ہے جو رجوع کرنے کا حق ہے۔ (71) اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جو زُور یعنی غنا کی جگہ پر حاضر نہیں ہوتے) اور جو جب کسی بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔ (72) اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (73) اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیش رو بنا۔ (74) یہ وہ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کے صلہ میں بہشت میں بالاخانہ عطا کیا جائے گا۔ اور وہاں ان کا تحیہ و سلام سے استقبال کیا جائے گا۔ (75) وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا اچھا ہے وہ ٹھکانہ اور وہ مقام۔ (76) آپ کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا و پکار نہ ہو تو میرا پروردگار تمہاری کوئی پروا نہ کرے سو اب جبکہ تم نے (رسول کو) جھٹلا دیا ہے تو یہ (تکذیب) عنقریب (تمہارے لئے) وبال جان بن کر رہے گی۔ (77) | ||
اور آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس (کار رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔ ( | |||
اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہیں پکارتے اور جس جان (کے مارنے) کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ گناہ کی سزا پائے گا۔ (68) قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ اس میں ذلیل و خوار ہوکر ہمیشہ رہے گا۔ (69) سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے کہ اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (70) اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ اللہ کی طرف اس طرح رجوع کرتا ہے جو رجوع کرنے کا حق ہے۔ (71) اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جو زُور یعنی غنا کی جگہ پر حاضر نہیں ہوتے) اور جو جب کسی بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔ (72) اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (73) اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیش رو بنا۔ (74) یہ وہ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کے صلہ میں بہشت میں بالاخانہ عطا کیا جائے گا۔ اور وہاں ان کا تحیہ و سلام سے استقبال کیا جائے گا۔ (75) وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا اچھا ہے وہ ٹھکانہ اور وہ مقام۔ (76) آپ کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا و پکار نہ ہو تو میرا پروردگار تمہاری کوئی پروا نہ کرے سو اب جبکہ تم نے (رسول کو) جھٹلا دیا ہے تو یہ (تکذیب) عنقریب (تمہارے لئے) وبال جان بن کر رہے گی۔ (77) | |||
|archive date = | |archive date = | ||
سطر 116: | سطر 117: | ||
== مآخذ == | == مآخذ == | ||
*قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔ | *قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔ | ||
* ایروانی، باقر، دروس تمہیدیہ فی تفسیر آیات الاحکام، قم، دار الفقہ، | * ایروانی، باقر، دروس تمہیدیہ فی تفسیر آیات الاحکام، قم، دار الفقہ، ۱۴۲۳ھ۔ | ||
* بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق: قسم الدراسات الاسلامیۃ مؤسسۃ البعثۃ قم، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، | * بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق: قسم الدراسات الاسلامیۃ مؤسسۃ البعثۃ قم، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔ | ||
* دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، نشر دوستان-ناہید، | * دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، نشر دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔ | ||
* صدوق، محمد بنعلی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، | * صدوق، محمد بنعلی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔ | ||
* طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، | * طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۳ء۔ | ||
* طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق و مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، | * طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق و مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔ | ||
* علیبابایی، احمد، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، | * علیبابایی، احمد، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔ | ||
* قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مركز فرہنگی درسہایی از قرآن، | * قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مركز فرہنگی درسہایی از قرآن، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔ | ||
* معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، | * معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔ | ||
* مکارم شیرازی، ناصر و جمعی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیہ، | * مکارم شیرازی، ناصر و جمعی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔ | ||
==بیرونی روابط== | ==بیرونی روابط== |