مندرجات کا رخ کریں

"قرآنی تمثیلات" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 31: سطر 31:


==قرآنی تماثیل کے بارے میں دو نقطہ نگاہ==
==قرآنی تماثیل کے بارے میں دو نقطہ نگاہ==
قرآنی تماثیل کے مصادیق کا تجزیہ و تحلیل دو نقطہ نگا سے کرتے ہیں:<ref>ملاحظہ کریں: جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1378ہجری شمسی، ج2، ص332۔</ref>
قرآنی تماثیل کا تجزیہ دو نقطہ نگا سے کیا جاتا ہے:<ref>ملاحظہ کریں: جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1378ہجری شمسی، ج2، ص332۔</ref>
#قرآن میں ذکر ہونے والی مثالیں صرف اور صرف تشبیہ اور مخاطب کے ذہن کو مطلوبہ کلام تک نزدیک لانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔
#قرآنی تمثیلات صرف تشبیہ اور مخاطب کے ذہن کو مطلوبہ مفاہیم تک لانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔
#قرآنی تماثیل میں کسی قسم کی تشبیہ اور مجاز گویی نہیں ہوتی بلکہ یہ مثالیں اشیا کی حقیقت اور ان کے مثالی وجود کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔{{نوٹ| ان دو نقطہ نگاہ کا فرق وہاں ظاہر ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر قرآن میں بعض انسانوں کو «گدھے» یا «کتے» سے تشبیہ دئے گئے ہیں؛ اس صورت میں پہلے نقطہ نگاہ کے مطابق مذکورہ انسانوں میں ان حیوانات کی صفات پائے جاتے ہیں، لیکن دوسرے نقطہ نگاہ کے مطابق یہ مثالیں حقیقت میں ان انسانوں کے وجودی حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ قیامت کے دن یہ انسان بعینہ انہی حیوانوں کی شکل مں محشور ہونگے۔ (جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1378ہجری شمسی، ج2، ص332۔)}}
#قرآنی تماثیل میں صرف تشبیہ اور مجاز گویی کا عنصر نہیں بلکہ یہ مثالیں اشیا کی حقیقت اور ان کے مثالی وجود کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔{{نوٹ| ان دو نقطہ نگاہ کا فرق وہاں ظاہر ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر قرآن میں بعض انسانوں کو «گدھے» یا «کتے» سے تشبیہ دئے گئے ہیں؛ اس صورت میں پہلے نقطہ نگاہ کے مطابق مذکورہ انسانوں میں ان حیوانات کی صفات پائے جاتے ہیں، لیکن دوسرے نقطہ نگاہ کے مطابق یہ مثالیں حقیقت میں ان انسانوں کے وجودی حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ قیامت کے دن یہ انسان بعینہ انہی حیوانوں کی شکل مں محشور ہونگے۔ (جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1378ہجری شمسی، ج2، ص332۔)}}
بعض شیعہ مفسرین جیسے علامہ طباطبائی<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص132–133۔</ref> اور آیت اللہ جوادی‌ آملی<ref>جوادی‌آملی، قرآن حکیم از منظر امام رضا، 1382ہجری شمسی، ج5، ص397</ref> اور بعض اہل سنت مفسرین جیسے محمد عبدہ<ref>رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم، 1366ھ، ج2، ص190۔</ref> اس بات کے قائل ہیں کہ [[معاد]] اور مبدأ سے مربوط آیات جیسے [[آیات خلقت انسان]]، [[ملائکہ کا آدم کے لئے سجدہ]]، [[ابلیس]] کی نافرمانی وغیرہ اگرچہ ظاہرا استعارہ اور مجاذا استعمال کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ سب مثالین ان میں پوشیدہ حقیقت اور تکوینیات کو بیان کرتی ہیں۔ اس نظریہ کو «تمثیل تکوینی» کہا جا سکتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: محمدی پارسا، «[https://jipt.sbu.ac.ir/article_96260.html تأمّلی بر رویکرد تمثیلِ تکوینی در تبیین آیات خلقت انسان]»۔</ref>
بعض شیعہ مفسرین جیسے علامہ طباطبائی<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص132–133۔</ref> اور آیت اللہ جوادی‌ آملی<ref>جوادی‌آملی، قرآن حکیم از منظر امام رضا، 1382ہجری شمسی، ج5، ص397</ref> اور بعض اہل سنت مفسرین جیسے محمد عبدہ<ref>رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم، 1366ھ، ج2، ص190۔</ref> اس بات کے قائل ہیں کہ [[معاد]] اور مبدأ سے مربوط آیات جیسے [[آیات خلقت انسان]]، [[ملائکہ کا آدم کے لئے سجدہ]]، [[ابلیس]] کی نافرمانی وغیرہ اگرچہ ظاہرا استعارہ اور مجاذا استعمال کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ سب مثالین ان میں پوشیدہ حقیقت اور تکوینیات کو بیان کرتی ہیں۔ اس نظریہ کو «تمثیل تکوینی» کہا جا سکتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: محمدی پارسا، «[https://jipt.sbu.ac.ir/article_96260.html تأمّلی بر رویکرد تمثیلِ تکوینی در تبیین آیات خلقت انسان]»۔</ref>


confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم