مندرجات کا رخ کریں

"کتاب الغیبۃ (شیخ طوسی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 44: سطر 44:
*'''فصل ہشتم:''' اس فصل میں ۲۳ روایتوں کے ذیل میں امام زمانؑ کے بعض اوصاف اور آپؑ کے مقامات کو بیان کیا ہے۔ نیز امام کی سیرت بھی اسی فصل میں بیان کی گئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۷.</ref>
*'''فصل ہشتم:''' اس فصل میں ۲۳ روایتوں کے ذیل میں امام زمانؑ کے بعض اوصاف اور آپؑ کے مقامات کو بیان کیا ہے۔ نیز امام کی سیرت بھی اسی فصل میں بیان کی گئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۷.</ref>


==خصوصیات==
== مصادر و مآخذ ==
* [[غیبت]] کے موضوع میں منبع ہونا: مؤلف اور اپنے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ کتاب نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص بھی مہدویت کے بارے میں کتاب لکھنا چاہے وہ خواہ نخواہ اس کتاب کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے علما اور محققین اس اثر پر خاص توجہ رکھتے ہیں۔
شیخ طوسی کی اس تالیف میں جن مصادر و مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں:
* حدود کا نفاذ حضور معصوم (ع) سے مخصوص ہونا: نفاذ [[حدود]] کی بحث اثبات غیبت حضرت حجت (عج) پر موقوف ہے۔ اس سلسلے میں شیخ طوسی اس بات کے قائل تھے کہ قتل و [[دیت]] جیسے مسائل میں صرف معصوم حد جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس لحاظ سے حدود منسوخ ہو چکی ہیں۔
 
* مدعیان نیابت: [[غیبت صغری]] کے زمانے میں علما کے درمیان ہونے والی ابحاث میں سے ایک بحث بعض افراد کی جانب سے امام مہدی کی نیابت خاص کا جھوٹا دعوی کرنا تھا۔ شیخ طوسی نے اس کتاب میں چند افراد کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے ایسی امام مہدی کی نیابت خاص کا دعوا کیا۔ ان میں سے ایک [[حسین بن منصور حلاج]] ہے۔
*وہ مآخذ جو ابھی بھی دسترسی میں ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
: شیخ طوسی نے [[ابو سہل نوبختی]] اور [[شیخ صدوق]] کی دو داستانوں کے حوالے سے منصور حلاج کے جھوٹے دعوائے نیابت خاص کو ذکر کیا ہے۔ لیکن انصاف یہی ہے کہ ان میں کوئی ایک داستان بھی منصور حلاج کے ادعائے نیابت خاص کے دعوے کو ثابت نہیں کرتی ہے۔
#[[کتاب سلیم بن قیس ہلالی]]: یہ کتاب نہایت قدیمی روائی کتابوں میں سے ایک ہے جس سے شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ کی تالیف میں روایتیں نقل کی ہیں؛<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹.</ref>
* حیات حضرت حجت (عج): شیعوں کے عمومی اعتقادات کے مطابق امام مہدی [[امامت]] کے منصب پر فائز ہونے کے بعد لوگوں کی نظروں سے غائب اور مخفی ہوئے اور اس زمانے کو غیبت صغری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور اس زمانے کے امام سے رابطے کا تنہا ذریعہ [[نواب اربعہ]] تھے کہ جن کے ذریعے لوگ امام سے مرتبط رہتے تھے۔ اس نواب اربعہ کے بعد [[غیبت کبری]] کا زمانہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔<ref> کتاب‌ شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور</ref>
#[[الکافی (کتاب)|کافی]]: مصنف نے امام(عج) کی ولادت کے اثبات اور شیعوں کی امام سے ملاقات کے موضوع کو ثابت کرنے کے لیے [[محمد بن یعقوب|کلینی]] کی اصول کافی کی  "کتابُ‌ الحجہ" سے استفادہ کیا ہے؛<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹.</ref>
#[[کتاب الغیبۃ (نعمانی)|کتاب‌الغیبہ]]، مولفہ [[محمد بن ابراہیم نعمانی|محمد بن ابراہیم نُعمانی]]؛
#[[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[شیخ صدوق]] کی تصنیف۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹-۷۰</ref>
#[[الشافی فی الامامۃ (کتاب)|الشّافی فی الامامہ]]، [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] کی تصنیف: کہا جاتا ہے کہ کتاب الغیبۃ کی کلامی مباحث کو اس کتاب سے لی گئی ہے۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۷۰.</ref>
 
*کچھ مصادر ابھی دسترس میں نہیں ہیں۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹.</ref> یہ منابع درج ذیل ہیں: "الضِّیاءُ فی الرَّدِّ عَلَی المُحمدیّۃ و الجعفریۃ" یہ [[سعد بن عبد الله اشعری قمی|سعد بن عبدالله اَشعری قمی]] کی کتاب ہے، "کتابُ‌الرَّجعہ" و "کتابُ‌القائم" جو کہ [[فضل بن شاذان نیشابوری|فضل بن شاذان]] کے قلمی آثار ہیں، کتاب "اخبار الوُکَلاءِ الاَربَعہ" [[ابن نوح سیرافی|ابن‌ نوح سیرافی]] اور کتاب اَلغیبہ جو کہ [[محمد بن علی شلمغانی|محمد بن علی شَلمَغانی]] کی کتاب ہے۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۷۰.</ref>
[[ملف:ترجمه کتاب الغیبه طوسی.jpg|150px|تصغیر|ترجمہ کتاب [[الغیبہ طوسی]]]]


== اہمیت کتاب ==
== اہمیت کتاب ==
confirmed، movedable
5,031

ترامیم