مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 26: سطر 26:
==تبوک==
==تبوک==
==غزوہ تبوک کا سبب==
==غزوہ تبوک کا سبب==
ابتدائی [[:سانچہ:سیرت نگار|سیرت نگاروں]] کی باقیماندہ کاوشوں میں [[غزوہ]] [[تبوک]] کے سلسلے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔ تاہم ان روایات کے درمیان اس [[غزوہ|غزوے]] کے وقوع کے وقت جیسے اہم مسائل کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>دانشنامہ جہان اسلام [http://rch.ac.ir/article/Details/7387 تبوک] ۔</ref>۔<ref>دانشنامہ جہان اسلام [http://lib.eshia.ir/23019/1/3257 غزوه تبوک، شماره2357۔]</ref> مشہور روایت کے مطابق، اس جنگی مہم کا سبب [[رسول خداؐ]] کا مقصد [[شام]] کی حدود میں رومیوں کی عسکری نقل و حرکت اور جنگی تیاریاں تھیں۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم 1، ص150ـ 151۔</ref>۔<ref>البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>
ابتدائی [[:سانچہ:سیرت نگار|سیرت نگاروں]] کی باقیماندہ کاوشوں میں [[غزوہ]] [[تبوک]] کے سلسلے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔ تاہم ان روایات کے درمیان اس [[غزوہ|غزوے]] کے وقوع کے وقت جیسے اہم مسائل کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>دانشنامہ جہان اسلام [http://rch.ac.ir/article/Details/7387 تبوک] ۔،دانشنامہ جہان اسلام [http://lib.eshia.ir/23019/1/3257 غزوه تبوک، شماره2357۔]</ref> مشہور روایت کے مطابق، اس جنگی مہم کا سبب [[رسول خداؐ]] کا مقصد [[شام]] کی حدود میں رومیوں کی عسکری نقل و حرکت اور جنگی تیاریاں تھیں۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم 1، ص150ـ 151۔،البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>


==شام سے ملنے والی خبریں==
==شام سے ملنے والی خبریں==
سطر 35: سطر 35:
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔</ref>
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔</ref>


بالفاظ دیگر: عصر رسالت میں [[شام]] مشرقی روم کی نوآبادی کی حیثیت رکھتا تھا جس کا دارالحکومت [[قسطنطنیہ]] تھا۔ سرحدی علاقوں کو عوام اور حکام عیسائی تھے اور سرحدوں میں سکونت پذیر قبائل [[شام]] کی مرکزی حکومت کے اطاعت گزار تھے جبکہ [[شام]] کی مرکزی حکومت مشرقی روم کی کٹھ پتلی تھی۔ [[مکہ]] میں بت پرستوں کا قلعہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہونے کی وجہ سے رومی حکام [[شام]] پر مسلمانوں کے حملے کے امکان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ سلطان روم مسلمانوں کو اچانک دبوچنا اور ان کی قوت زائل کرنا چاہتا تھا اور یہ کام اس نے [[شام]] کے حکمران کے سپرد کیا۔ [[رسول اللہؐ]] کو خبر ہوئی تو آپؐ نے بھی اچانک اور بےخبری میں رومی حکمرانوں کو حیرت زدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ [[مدینہ]] کے عوام اپنے کام کاج میں مصروف تھے اور فصلوں کی کٹائی کا موسم تھا جبکہ دوسری طرف سے قحط سالی کی سی کیفیت علاقے پر طاری تھی۔ آپؐ نے منزل مقصود کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو جنگ کے اخراجات پورے کرنے دعوت دی۔ مسلمان مردوں اور خواتین نے دل کھول کر مدد کی؛ اگر ایک طرف سے [[عبد الرحمن بن عوف]] نے 4000 دینار بطور امداد آپؐ کی خدمت میں پیش کئے تو ابو عقیل نامی شخص نے ـ جس کے پاس چھ کلوگرام گندم تھی ـ تین کلوگرام گندم دے دی۔ [[منافقین]] نے اس غریب مسلمان کی مدد کو ناچیز قرار دیتے ہوئے طعنے دیئے تو خداوند متعال نے ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: <font color = green>{{قرآن کا متن|'''الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ'''|ترجمہ=وہ لوگ جو نکتہ چینی کرتے ہیں خیرات کے بارے میں ایسے مؤمنین پر جو اپنی خوشی سے خیرات کرتے ہیں اور جو اپنی محنت مزدوری کے سوا اور کچھ رکھتے ہی نہیں تو ان کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ خود ان کا مذاق اڑائے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔|سورت=9|آیت=79}}</font><ref>سوره توبہ، آیت 79۔</ref>۔<ref>مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ج‏7، ص: 414۔</ref>
بالفاظ دیگر: عصر رسالت میں [[شام]] مشرقی روم کی نوآبادی کی حیثیت رکھتا تھا جس کا دارالحکومت [[قسطنطنیہ]] تھا۔ سرحدی علاقوں کو عوام اور حکام عیسائی تھے اور سرحدوں میں سکونت پذیر قبائل [[شام]] کی مرکزی حکومت کے اطاعت گزار تھے جبکہ [[شام]] کی مرکزی حکومت مشرقی روم کی کٹھ پتلی تھی۔ [[مکہ]] میں بت پرستوں کا قلعہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہونے کی وجہ سے رومی حکام [[شام]] پر مسلمانوں کے حملے کے امکان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ سلطان روم مسلمانوں کو اچانک دبوچنا اور ان کی قوت زائل کرنا چاہتا تھا اور یہ کام اس نے [[شام]] کے حکمران کے سپرد کیا۔ [[رسول اللہؐ]] کو خبر ہوئی تو آپؐ نے بھی اچانک اور بےخبری میں رومی حکمرانوں کو حیرت زدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ [[مدینہ]] کے عوام اپنے کام کاج میں مصروف تھے اور فصلوں کی کٹائی کا موسم تھا جبکہ دوسری طرف سے قحط سالی کی سی کیفیت علاقے پر طاری تھی۔ آپؐ نے منزل مقصود کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو جنگ کے اخراجات پورے کرنے دعوت دی۔ مسلمان مردوں اور خواتین نے دل کھول کر مدد کی؛ اگر ایک طرف سے [[عبد الرحمن بن عوف]] نے 4000 دینار بطور امداد آپؐ کی خدمت میں پیش کئے تو ابو عقیل نامی شخص نے ـ جس کے پاس چھ کلوگرام گندم تھی ـ تین کلوگرام گندم دے دی۔ [[منافقین]] نے اس غریب مسلمان کی مدد کو ناچیز قرار دیتے ہوئے طعنے دیئے تو خداوند متعال نے ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: <font color = green>{{قرآن کا متن|'''الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ'''|ترجمہ=وہ لوگ جو نکتہ چینی کرتے ہیں خیرات کے بارے میں ایسے مؤمنین پر جو اپنی خوشی سے خیرات کرتے ہیں اور جو اپنی محنت مزدوری کے سوا اور کچھ رکھتے ہی نہیں تو ان کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ خود ان کا مذاق اڑائے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔|سورت=9|آیت=79}}</font><ref>سوره توبہ، آیت 79۔،مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ج‏7، ص: 414۔</ref>


==منافقین کی ریشہ دوانیاں==
==منافقین کی ریشہ دوانیاں==
[[رسول خداؐ]] نے رومیوں کے ساتھ جنگ کا ارادہ ظاہر کیا تو بعض اصحاب نیز [[مدینہ]] کے [[منافقین]] نے سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا یا پھر مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی۔<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول الله صلی الله علیہ وآلہ، ص220۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص995ـ 996۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص168ـ169۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ 102، 108۔</ref>
[[رسول خداؐ]] نے رومیوں کے ساتھ جنگ کا ارادہ ظاہر کیا تو بعض اصحاب نیز [[مدینہ]] کے [[منافقین]] نے سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا یا پھر مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی۔<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول الله صلی الله علیہ وآلہ، ص220۔،الواقدي، المغازي، ج3، ص995ـ 996۔،ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص168ـ169۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ 102، 108۔</ref>


کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگی مہم کے لئے [[عزیمت]] سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصد رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ وہ حالات و واقعات تھے جو [[مدینہ]] میں رونما ہورہے تھے؛ اور آپؐ کے اس اقدام کی وجہ سے ان میں سے کئی خفیہ سازشیں آشکار ہوکر سامنے آئیں جن میں دو اہم سازشیں کچھ یوں تھیں:
کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگی مہم کے لئے [[عزیمت]] سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصد رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ وہ حالات و واقعات تھے جو [[مدینہ]] میں رونما ہورہے تھے؛ اور آپؐ کے اس اقدام کی وجہ سے ان میں سے کئی خفیہ سازشیں آشکار ہوکر سامنے آئیں جن میں دو اہم سازشیں کچھ یوں تھیں:
* [[منافقین]] نے وسیع تشہیری مہم چلائی؛ یہاں تک کہ [[عبداللہ بن ابی]] کے گماشتوں نے [[رسول اللہؐ]] کے مد مقابل صف بندی کی اور منافقین بعد ازاں واپس [[مدینہ]] آئے۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص103۔</ref>
* [[منافقین]] نے وسیع تشہیری مہم چلائی؛ یہاں تک کہ [[عبداللہ بن ابی]] کے گماشتوں نے [[رسول اللہؐ]] کے مد مقابل صف بندی کی اور منافقین بعد ازاں واپس [[مدینہ]] آئے۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص103۔</ref>
* [[رسول اللہؐ]] پر [[تبوک]] سے واپسی کے وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، ص221۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: الطبرسي، اِعلام الوری بأعلام الہدی، ج1، ص245ـ247۔</ref> ان موضوعات کو اگلی سطور میں زیر بحث لایا جائے گا۔
* [[رسول اللہؐ]] پر [[تبوک]] سے واپسی کے وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، ص221۔،نیز رجوع کریں: الطبرسي، اِعلام الوری بأعلام الہدی، ج1، ص245ـ247۔</ref> ان موضوعات کو اگلی سطور میں زیر بحث لایا جائے گا۔


===منافقین کے ساتھ شدت عمل===
===منافقین کے ساتھ شدت عمل===
سطر 58: سطر 58:
<font color = green>"‌{{حدیث|'''يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى'''}}"</font>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج2، ص368۔</ref> (ترجمہ: اے [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] [[منافقین]] گمان کرتے ہیں کہ آپ نے محھے پیچھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے!
<font color = green>"‌{{حدیث|'''يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى'''}}"</font>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج2، ص368۔</ref> (ترجمہ: اے [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] [[منافقین]] گمان کرتے ہیں کہ آپ نے محھے پیچھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے!


چنانچہ [[رسول اللہؐ]] نے فرمایا: <font color= green>"‌{{حدیث|'''كَذِبُوا وَلكِنِّي إنَّما خَلَّفتُكَ لِما وَرائِي... أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّا أنـّه لانَبی بَعدی'''}}"‌۔</font> <br/> (ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے)۔<ref>الطبري، وہی ماخذ۔</ref>۔<ref>الزہري، المغازي النبويۃ، ، ص111۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔</ref>۔</ref>۔<ref>الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔</ref>۔<ref>البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔</ref>۔<ref>ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ،  ج5، ص7۔</ref>
چنانچہ [[رسول اللہؐ]] نے فرمایا: <font color= green>"‌{{حدیث|'''كَذِبُوا وَلكِنِّي إنَّما خَلَّفتُكَ لِما وَرائِي... أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّا أنـّه لانَبی بَعدی'''}}"‌۔</font> <br/> (ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے)۔<ref>الطبري، وہی ماخذ۔،الزہري، المغازي النبويۃ، ، ص111۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔</ref>۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ،  ج5، ص7۔</ref>


===متن حدیث===
===متن حدیث===
'''[[حدیث]] منزلت'''، مشہور [[حدیث|احادیث]] نبوی میں سے اور [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی نسبت [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی منزلت اور دیگر [[صحابہ|اصحاب]] پر آپؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور [[شیعہ]] علماء کی نظر میں یہ [[حدیث|احادیث]] متواترہ میں سے ہے اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی جانشینی کے لئے آپؑ کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔
'''[[حدیث]] منزلت'''، مشہور [[حدیث|احادیث]] نبوی میں سے اور [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی نسبت [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی منزلت اور دیگر [[صحابہ|اصحاب]] پر آپؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور [[شیعہ]] علماء کی نظر میں یہ [[حدیث|احادیث]] متواترہ میں سے ہے اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی جانشینی کے لئے آپؑ کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔


یہ [[حدیث]] بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ [[جنگ تبوک]] کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل [[حدیث]] کچھ یوں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: <br/> <font color=green>"'''‌{{حدیث|أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ...}}'''"۔</font> <br/> جو مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ دیگر مآخذ میں بھی موجود ہے۔<ref>صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406۔</ref>۔<ref>بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔</ref>۔<ref>ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج4، ص375؛ ج7 ص195ـ197؛ ج8، ص307۔</ref>۔<ref>بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276۔</ref>۔<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، 56، 176؛ ج5، ص332؛ ج10، ص499۔</ref>۔<ref>ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109۔</ref>۔<ref>متقی، کنز العمال، ج11، ص599؛ ج13، ص151، 192 ۔</ref>
یہ [[حدیث]] بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ [[جنگ تبوک]] کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل [[حدیث]] کچھ یوں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: <br/> <font color=green>"'''‌{{حدیث|أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ...}}'''"۔</font> <br/> جو مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ دیگر مآخذ میں بھی موجود ہے۔<ref>صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406۔،بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔،ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج4، ص375؛ ج7 ص195ـ197؛ ج8، ص307۔،بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276۔،خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، 56، 176؛ ج5، ص332؛ ج10، ص499۔،ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109۔،متقی، کنز العمال، ج11، ص599؛ ج13، ص151، 192 ۔</ref>


====حدیث کی ایک اور صورت====
====حدیث کی ایک اور صورت====
روایات کے مطابق [[رسول اللہؐ]] [[منافقین]] کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو حکم دیا کہ [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز [[مہاجرین]] [اور اہل [[مدینہ]]] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں [[رسول اللہؐ]] نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا:
روایات کے مطابق [[رسول اللہؐ]] [[منافقین]] کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو حکم دیا کہ [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز [[مہاجرین]] [اور اہل [[مدینہ]]] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں [[رسول اللہؐ]] نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا:


<font color = green>"'''{{حدیث|ارجع يا أخي إلى مكانك فإن المدينة لا تصلح الا بي او بك، فأنت ‏خليفتي في أهلي ودار هجرتي وقومي أ ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي}}۔'''"</font> (ترجمہ: میرے بھائی علی! [[مدینہ]] میں اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ، کیونکہ میرے اور تہمارے سوا کوئی بھی وہاں کے امور کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتا یا [[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔ پس تم میرے جانشین اور میرے نمائندے ہو میرے خاندان اور میرے گھر اور میری قوم ([[مہاجرین]]) کے درمیان۔ اے علی! کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ میری نسبت تمہاری منزلت وہی ہو جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] کو حاصل تھی؟ سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔</ref>۔<ref>بحار الانوار، ج21، ص208۔</ref>۔<ref>الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص337۔</ref>
<font color = green>"'''{{حدیث|ارجع يا أخي إلى مكانك فإن المدينة لا تصلح الا بي او بك، فأنت ‏خليفتي في أهلي ودار هجرتي وقومي أ ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي}}۔'''"</font> (ترجمہ: میرے بھائی علی! [[مدینہ]] میں اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ، کیونکہ میرے اور تہمارے سوا کوئی بھی وہاں کے امور کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتا یا [[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔ پس تم میرے جانشین اور میرے نمائندے ہو میرے خاندان اور میرے گھر اور میری قوم ([[مہاجرین]]) کے درمیان۔ اے علی! کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ میری نسبت تمہاری منزلت وہی ہو جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] کو حاصل تھی؟ سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،بحار الانوار، ج21، ص208۔،الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص337۔</ref>


[[حدیث]] منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے نزدیک [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ [[حدیث]] مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔
[[حدیث]] منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے نزدیک [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ [[حدیث]] مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔


====عنوان حدیث: حدیث منزلت====
====عنوان حدیث: حدیث منزلت====
یہ [[حدیث]] شریف بعد میں [[حدیث منزلت]] کے عنوان سے مشہور اور [[امیرالمؤمنین]] کے اہم ترین مناقب میں شمار ہوئی اور مختلف محدثین و مؤرخین نے مختلف اسناد سے اس کو نقل کیا۔<ref>مثلاً رجوع کریں: کوفی، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیه‌السلام، ج1، ص499ـ542۔</ref>۔<ref>ابن بطريق، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، ص126 به بعد۔</ref> نیز اس [[حدیث]] سے [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی [[خلافت بلا فصل]] کی اہم ترین دلیلوں کے کے زمرے میں، استناد کیا گیا۔<ref>علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، ج3، ص5 اور اگلے صفحات۔</ref>۔<ref>الطوسي، نصیرالدین، تجریدالاعتقاد، ص230۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: جاحظ، البيان والتبيين، ص153ـ160۔</ref>۔<ref>ابن تیمیۃ، منہاج السنۃالنبويۃ، ج7، ص325 اور بعد کے صفحات۔</ref>
یہ [[حدیث]] شریف بعد میں [[حدیث منزلت]] کے عنوان سے مشہور اور [[امیرالمؤمنین]] کے اہم ترین مناقب میں شمار ہوئی اور مختلف محدثین و مؤرخین نے مختلف اسناد سے اس کو نقل کیا۔<ref>مثلاً رجوع کریں: کوفی، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیه‌السلام، ج1، ص499ـ542۔،ابن بطريق، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، ص126 به بعد۔</ref> نیز اس [[حدیث]] سے [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی [[خلافت بلا فصل]] کی اہم ترین دلیلوں کے کے زمرے میں، استناد کیا گیا۔<ref>علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، ج3، ص5 اور اگلے صفحات۔،الطوسي، نصیرالدین، تجریدالاعتقاد، ص230۔،نیز رجوع کریں: جاحظ، البيان والتبيين، ص153ـ160۔،ابن تیمیۃ، منہاج السنۃالنبويۃ، ج7، ص325 اور بعد کے صفحات۔</ref>


====ایک تبصرہ====
====ایک تبصرہ====
[[حدیث]] میں جملہ <font color = green>"{{حدیث|'''لا نبي بعدي'''}}"</font> (= میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اعلان منزلت سے مراد کوئی عام سی تعریف و تجلیل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ <font color = green>"{{حدیث|'''میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بلافصل [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] ہیں جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے فرق صرف یہ ہے کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین بھی تھے اور پیغمبر بھی تھے جبکہ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] خلیفہ اور جانشین ہیں لیکن نبی نہیں ہیں'''}}"</font>۔
[[حدیث]] میں جملہ <font color = green>"{{حدیث|'''لا نبي بعدي'''}}"</font> (= میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اعلان منزلت سے مراد کوئی عام سی تعریف و تجلیل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ <font color = green>"{{حدیث|'''میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بلافصل [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] ہیں جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے فرق صرف یہ ہے کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین بھی تھے اور پیغمبر بھی تھے جبکہ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] خلیفہ اور جانشین ہیں لیکن نبی نہیں ہیں'''}}"</font>۔


[[رسول اللہؐ]] کے اس آخری [[غزوہ|غزوے]] کے دوران [[مدینہ]] میں [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور [[حدیث]] کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مدینہ]] میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] سے فرمایا: {{حدیث|'''[[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے}}۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔</ref>۔<ref>المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔</ref>۔<ref>الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔</ref>۔<ref>الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔</ref>۔<ref>البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔</ref>۔<ref>ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ،  ج5، ص7۔</ref>
[[رسول اللہؐ]] کے اس آخری [[غزوہ|غزوے]] کے دوران [[مدینہ]] میں [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور [[حدیث]] کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مدینہ]] میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] سے فرمایا: {{حدیث|'''[[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے}}۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔،الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔،ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ،  ج5، ص7۔</ref>


[[رسول اللہؐ]] نے اس [[حدیث]] کے ضمن میں فرمایا: "{{حدیث|إن المدينة لا تصلح إلا بي او بك}}" اور واضح کیا کہ "کہ آپؑ صرف [[اہل بیت]] [[رسول اللہ|رسول]] میں ہی [[رسول خداؐ]] کے نمائندے نہیں تھے بلکہ اسلامی حکومت کے دار الحکومت میں آپؐ کے جانشین تھے اور [[فتح مکہ]] کے بعد کے حساس حالات میں میں دارالحکومت کی صورت حال کی اصلاح یا تو آپؐ خود کرسکتے تھے یا پھر [[علیؑ]] اسے درست کرنے اور آپؐ کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے؛ موقع پرست منافقین اور دشمنان [[اسلام]] کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، اطراف کے قبائل کو اطاعت پر مجبور کرسکتے ہیں اور انہیں [[مدینہ]] پر وار کرنے سے روک سکتے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں؛ چنانچہ آپؐ ہرگز گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ خود بھی [[تبوک]] چلے جائيں اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو بھی ساتھ لے جائیں۔
[[رسول اللہؐ]] نے اس [[حدیث]] کے ضمن میں فرمایا: "{{حدیث|إن المدينة لا تصلح إلا بي او بك}}" اور واضح کیا کہ "کہ آپؑ صرف [[اہل بیت]] [[رسول اللہ|رسول]] میں ہی [[رسول خداؐ]] کے نمائندے نہیں تھے بلکہ اسلامی حکومت کے دار الحکومت میں آپؐ کے جانشین تھے اور [[فتح مکہ]] کے بعد کے حساس حالات میں میں دارالحکومت کی صورت حال کی اصلاح یا تو آپؐ خود کرسکتے تھے یا پھر [[علیؑ]] اسے درست کرنے اور آپؐ کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے؛ موقع پرست منافقین اور دشمنان [[اسلام]] کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، اطراف کے قبائل کو اطاعت پر مجبور کرسکتے ہیں اور انہیں [[مدینہ]] پر وار کرنے سے روک سکتے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں؛ چنانچہ آپؐ ہرگز گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ خود بھی [[تبوک]] چلے جائيں اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو بھی ساتھ لے جائیں۔
سطر 160: سطر 160:
مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت [[روم]] کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ [[روم]] کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔
مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت [[روم]] کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ [[روم]] کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔


<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ'''|ترجمہ=اور ان تینوں پر کہ جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ یہ عالم ہوا کہ زمین ان پر باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنے سے تنگ ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ سے بچاؤ کے لیے کوئی جائے پناہ سوا خود اسی کے نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ ہی وہ ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان|سورت=9|آیت=117}}</font><ref>سوره توبہ، آیہ 117۔</ref>۔646۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج‏4، ص‏179۔</ref>۔<ref>ابن حنبل، مسند احمد، ج‏6، ص‏389۔</ref>۔<ref> سبل الہدی والرشاد، ج‏9، ص‏379۔</ref>
<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ'''|ترجمہ=اور ان تینوں پر کہ جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ یہ عالم ہوا کہ زمین ان پر باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنے سے تنگ ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ سے بچاؤ کے لیے کوئی جائے پناہ سوا خود اسی کے نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ ہی وہ ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان|سورت=9|آیت=117}}</font><ref>سوره توبہ، آیہ 117۔</ref>۔646۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج‏4، ص‏179۔،ابن حنبل، مسند احمد، ج‏6، ص‏389۔، سبل الہدی والرشاد، ج‏9، ص‏379۔</ref>


==سپاہ کے لئے وسائل کی فراہمی میں دشواریاں==
==سپاہ کے لئے وسائل کی فراہمی میں دشواریاں==
[[رسول اللہؐ]] نے سپاہ کی تیاری میں تیزرفتاری سے کام لینے کا حکم دیا تھا مگر شدید گرمی، طویل سفر اور بعض اصحاب کی غربت آڑے آرہی تھی<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص992۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ102۔</ref> یہاں تک کہ اس سپاہ کو "جیش العسر" کا نام دیا گیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref> [[عروہ بن زبیر]]  نے [[غزوہ]] [[تبوک]] کو [[غزوۃ العسر]] کا نام دیا ہے۔<ref>نیز رجوع کریں: عروة بن زبیر، ص220۔</ref>
[[رسول اللہؐ]] نے سپاہ کی تیاری میں تیزرفتاری سے کام لینے کا حکم دیا تھا مگر شدید گرمی، طویل سفر اور بعض اصحاب کی غربت آڑے آرہی تھی<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص992۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ102۔</ref> یہاں تک کہ اس سپاہ کو "جیش العسر" کا نام دیا گیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref> [[عروہ بن زبیر]]  نے [[غزوہ]] [[تبوک]] کو [[غزوۃ العسر]] کا نام دیا ہے۔<ref>نیز رجوع کریں: عروة بن زبیر، ص220۔</ref>


چنانچہ [[رسول اللہؐ]] نے اس [[غزوہ|غزوے]] میں ـ سابقہ [[غزوہ|غزوات]] کے برعکس، ـ اپنا مقصود واضح طور پر بیان فرمایا تاکہ لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ [[رسول اکرمؐ]] نے ابتداء میں [[مدینہ]] کے نواح میں  [[ثنی الوداع|ثَنی الوداع]] میں پڑاؤ ڈال دیا اور بعد ازاں 30000 مجاہدین کے ہمراہ [[مدینہ]] سے شمال کی جانب [[روم]] کی سرحدوں کی جانب عزیمت فرمائی۔<ref>واقدی ج3، ص992، 996، 1002۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص199۔</ref> ایک روایت کے مطابق سپاہ [[اسلام]] 10000 سواروں اور 20000 پیادوں پر مشتمل تھا؛ ہر قبیلے کو اپنا پرچم عطا کیا گیا؛ کام کاج کے اس موسم میں اتنی بڑی سپاہ کی فراہمی اللہ تعالی کے وعد و وعید کے ذریعے ممکن ہوئی۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref>
چنانچہ [[رسول اللہؐ]] نے اس [[غزوہ|غزوے]] میں ـ سابقہ [[غزوہ|غزوات]] کے برعکس، ـ اپنا مقصود واضح طور پر بیان فرمایا تاکہ لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ [[رسول اکرمؐ]] نے ابتداء میں [[مدینہ]] کے نواح میں  [[ثنی الوداع|ثَنی الوداع]] میں پڑاؤ ڈال دیا اور بعد ازاں 30000 مجاہدین کے ہمراہ [[مدینہ]] سے شمال کی جانب [[روم]] کی سرحدوں کی جانب عزیمت فرمائی۔<ref>واقدی ج3، ص992، 996، 1002۔،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص199۔</ref> ایک روایت کے مطابق سپاہ [[اسلام]] 10000 سواروں اور 20000 پیادوں پر مشتمل تھا؛ ہر قبیلے کو اپنا پرچم عطا کیا گیا؛ کام کاج کے اس موسم میں اتنی بڑی سپاہ کی فراہمی اللہ تعالی کے وعد و وعید کے ذریعے ممکن ہوئی۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref>


===جنگ میں شرکت پر قرآن کی تاکید===
===جنگ میں شرکت پر قرآن کی تاکید===
سطر 187: سطر 187:


==سپاہ کی تشکیل اور جنگ کے لئے عزیمت==
==سپاہ کی تشکیل اور جنگ کے لئے عزیمت==
[[رسول اللہؐ]] کو خبر ملی تو گرمی بہت شدید تھی۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص165۔</ref>۔<ref>الحلبي، السيرة الحلبیۃ، ج3، ص99۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الامم و الملوک، ج3، 142۔</ref> فصل کاٹنے اور پھل چننے کا زمانہ تھا، لوگوں کو اپنا گھر بار اور کارو بار چھوڑ دینا دشوار ہورہا تھا؛<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص992۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الامم و الملوک، ج3، 142۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، 159۔</ref> آپؐ نے سپاہ [[اسلام]] میں رضاکارانہ شرکت کے لئے اعلان کرایا اور [[مکہ]] کے باشندوں نیز اطراف کے بادیہ نشینوں سے مدد مانگی اور مسلمانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور سابقہ [[غزوہ|غزوات]] کے برعکس اس بار اعلان کیا کہ "ہم [[تبوک]] جا رہے ہیں" اور یہ اس لئے تھا کہ لوگ اس طویل سفر کی تکالیف کو مدنظر رکھ کر سفر کی تیاری کریں۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص165۔</ref>۔<ref>الواقدی، المغازي، ج3، ص991۔990؛ 991؛ 996۔</ref>۔<ref>الحلبی، السیرة الحلبیۃ، ص99۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ص160۔</ref>۔<ref>الطبرسي، اعلام الوری، ص122۔</ref>  مسلمانوں نے دل کھول کر مدد کی۔<ref>طبری، تاریخ، ج3، ص142۔</ref> تقریبا 30000 افراد پر مشتمل لشکر۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166۔</ref>۔<ref>الحلبی، السیرة الحلبیۃ، ص102۔</ref> جس میں 10000 ہزار گھوڑے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص1002۔، ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166۔</ref> اور 12000 اونٹ۔<ref>مسعودی، التنبیہ والإشراف، ص235۔</ref> شامل تھے [[تبوک]] کی جانب عزیمت کے لئے تیار ہوا۔
[[رسول اللہؐ]] کو خبر ملی تو گرمی بہت شدید تھی۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص165۔،الحلبي، السيرة الحلبیۃ، ج3، ص99۔،الطبري، تاریخ الامم و الملوک، ج3، 142۔</ref> فصل کاٹنے اور پھل چننے کا زمانہ تھا، لوگوں کو اپنا گھر بار اور کارو بار چھوڑ دینا دشوار ہورہا تھا؛<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص992۔،الطبري، تاریخ الامم و الملوک، ج3، 142۔،ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، 159۔</ref> آپؐ نے سپاہ [[اسلام]] میں رضاکارانہ شرکت کے لئے اعلان کرایا اور [[مکہ]] کے باشندوں نیز اطراف کے بادیہ نشینوں سے مدد مانگی اور مسلمانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور سابقہ [[غزوہ|غزوات]] کے برعکس اس بار اعلان کیا کہ "ہم [[تبوک]] جا رہے ہیں" اور یہ اس لئے تھا کہ لوگ اس طویل سفر کی تکالیف کو مدنظر رکھ کر سفر کی تیاری کریں۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص165۔،الواقدی، المغازي، ج3، ص991۔990؛ 991؛ 996۔،الحلبی، السیرة الحلبیۃ، ص99۔،ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ص160۔،الطبرسي، اعلام الوری، ص122۔</ref>  مسلمانوں نے دل کھول کر مدد کی۔<ref>طبری، تاریخ، ج3، ص142۔</ref> تقریبا 30000 افراد پر مشتمل لشکر۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166۔،الحلبی، السیرة الحلبیۃ، ص102۔</ref> جس میں 10000 ہزار گھوڑے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص1002۔، ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166۔</ref> اور 12000 اونٹ۔<ref>مسعودی، التنبیہ والإشراف، ص235۔</ref> شامل تھے [[تبوک]] کی جانب عزیمت کے لئے تیار ہوا۔


دوسری طرف سے [[منافقین]] نے کسی عذر کے بغیر سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166-165۔</ref>۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص995۔</ref>، اور دوسروں کو بھی گرمی کی شدت اور دیگر بہانوں سے جنگ میں شرکت سے روکا۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص993۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، ص 106۔</ref>
دوسری طرف سے [[منافقین]] نے کسی عذر کے بغیر سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166-165۔،الواقدی، المغازی، ج3، ص995۔</ref>، اور دوسروں کو بھی گرمی کی شدت اور دیگر بہانوں سے جنگ میں شرکت سے روکا۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص993۔،ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، ص 106۔</ref>


==سپاه اسلام تبوک میں==
==سپاه اسلام تبوک میں==
سپاہ [[اسلام]] بہت زیادہ صعوبتیں جھیل کر آخر کار [[تبوک]] میں داخل ہوئی۔<ref>رجوع کنید به الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔</ref> [[رسول اللہؐ]] نے [[تبوک]] میں 20 دن تک قیام فرمایا جبکہ ہرقل حمص ميں ہی مقیم رہا<ref> الواقدي، المغازى، ج 2، ص 1015۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص119۔121۔</ref> معلوم ہوا کہ رومی جنگ کا ارادہ ترک کرچکے ہیں یا الواقدی کے بقول "معلوم ہوا کہ رومیوں کی لشکرکشی کی خبر درست تھی"۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص1019۔</ref>
سپاہ [[اسلام]] بہت زیادہ صعوبتیں جھیل کر آخر کار [[تبوک]] میں داخل ہوئی۔<ref>رجوع کنید به الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔</ref> [[رسول اللہؐ]] نے [[تبوک]] میں 20 دن تک قیام فرمایا جبکہ ہرقل حمص ميں ہی مقیم رہا<ref> الواقدي، المغازى، ج 2، ص 1015۔،ابن سعد، الطبقات، ج2، ص119۔121۔</ref> معلوم ہوا کہ رومی جنگ کا ارادہ ترک کرچکے ہیں یا الواقدی کے بقول "معلوم ہوا کہ رومیوں کی لشکرکشی کی خبر درست تھی"۔<ref>الواقدی، المغازی، ج3، ص1019۔</ref>


گوکہ مسلمانوں کو اس سفر کے دوران بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم یہ ایک بڑی آزمایش تھی جس سے گذرکر مسلمانوں نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ ہر حال میں [[اسلام]] کا تحفظ کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے [[منافقین]] مکمل طور پر بے نقاب ہوئے اور اسلامی معاشرے نے ان کو بخوبی پہچان لیا۔ نیز [[رسول اللہؐ]] نے راستے میں سرحدی علاقوں میں مقیم بعض قبائل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے جو اسلامی مملکت کے امن و سلامتی میں بہت اہم ثابت ہوئے۔<ref>جعفرى، يعقوب، تاريخ اسلام از منظر قرآن، ص227۔</ref>
گوکہ مسلمانوں کو اس سفر کے دوران بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم یہ ایک بڑی آزمایش تھی جس سے گذرکر مسلمانوں نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ ہر حال میں [[اسلام]] کا تحفظ کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے [[منافقین]] مکمل طور پر بے نقاب ہوئے اور اسلامی معاشرے نے ان کو بخوبی پہچان لیا۔ نیز [[رسول اللہؐ]] نے راستے میں سرحدی علاقوں میں مقیم بعض قبائل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے جو اسلامی مملکت کے امن و سلامتی میں بہت اہم ثابت ہوئے۔<ref>جعفرى، يعقوب، تاريخ اسلام از منظر قرآن، ص227۔</ref>


بایں حال بعض روایات کے مطابق، [[روم]] کے فرمانروا نے اپنے نمائندے آپؐ کے پاس روانہ کئے جنہیں آپؐ نے محبت کے ساتھ قبول کیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔</ref> اسی دوران [[رسول اللہؐ]] نے [[دومۃ الجندل]] کے حاکم [[اکیدر بن عبدالملک کندی|اُکیدِر بن عبدالملک کِندی]]، نیز "اَذرُح"، "جربا" اور "اَیلہ" کے باشندوں کے ساتھ [[جزیہ]] کی ادائیگی کی شرط پر صلح کرلی۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1029ـ1032۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص37۔</ref>۔<ref>البلاذري، فتوح البلدان، ص59، 68۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص108ـ 109۔</ref>
بایں حال بعض روایات کے مطابق، [[روم]] کے فرمانروا نے اپنے نمائندے آپؐ کے پاس روانہ کئے جنہیں آپؐ نے محبت کے ساتھ قبول کیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔،الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔</ref> اسی دوران [[رسول اللہؐ]] نے [[دومۃ الجندل]] کے حاکم [[اکیدر بن عبدالملک کندی|اُکیدِر بن عبدالملک کِندی]]، نیز "اَذرُح"، "جربا" اور "اَیلہ" کے باشندوں کے ساتھ [[جزیہ]] کی ادائیگی کی شرط پر صلح کرلی۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1029ـ1032۔،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص37۔،البلاذري، فتوح البلدان، ص59، 68۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص108ـ 109۔</ref>


==مدینہ واپسی==
==مدینہ واپسی==
[[رسول اللہؐ]] کے ماہ مبارک [[رمضان المبارک|رمضان]] سنہ 9 ہجری میں [[مدینہ]] تشریف فرما ہوئے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1056۔</ref>۔<ref>الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص68۔</ref>
[[رسول اللہؐ]] کے ماہ مبارک [[رمضان المبارک|رمضان]] سنہ 9 ہجری میں [[مدینہ]] تشریف فرما ہوئے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1056۔،الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص68۔</ref>


آنحضرتؐ نے ان لوگوں کی قسم قبول کرلی جو مسلمان تھے لیکن [[منافقین]] کی افواہوں یا ذاتی اور خاندانی مسائل کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے؛ تاہم حکم دیا کہ تین افراد کا مقاطعہ کریں۔ ان افراد نے [[توبہ]] کرلی اور خدا نے ان کی [[توبہ]] قبول کرلی اور اسی مناسبت سے [[سورہ توبہ]] کی آیات 117 تا 119 نازل فرمائیں۔<ref>الزہري، المغازي النبويۃ، ص108ـ111۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1049ـ 1056۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص111۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابن قدامۃ، کتاب التوابین، ص94ـ101۔</ref>
آنحضرتؐ نے ان لوگوں کی قسم قبول کرلی جو مسلمان تھے لیکن [[منافقین]] کی افواہوں یا ذاتی اور خاندانی مسائل کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے؛ تاہم حکم دیا کہ تین افراد کا مقاطعہ کریں۔ ان افراد نے [[توبہ]] کرلی اور خدا نے ان کی [[توبہ]] قبول کرلی اور اسی مناسبت سے [[سورہ توبہ]] کی آیات 117 تا 119 نازل فرمائیں۔<ref>الزہري، المغازي النبويۃ، ص108ـ111۔،الواقدي، المغازي، ج3، ص1049ـ 1056۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص111۔،نیز رجوع کریں: ابن قدامۃ، کتاب التوابین، ص94ـ101۔</ref>


===منافقین کا رسول اللہؐ پر قاتلانہ حملہ===
===منافقین کا رسول اللہؐ پر قاتلانہ حملہ===
[[تبوک]] سے واپسی کے دوران "عقبہ" کے مقام پر بعض [[منافقین]] نے [[رسول خداؐ]] پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش بنائی لیکن خداوند متعال نے اپنے [[رسول اللہؐ|حبیب]] کو سازش سے آگاہ کیا اور آپؐ نے [[حذیفہ بن یمان|حذیفہ]] اور [[عمار بن یاسر|عمار]] کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے تاکہ گھاٹی سے گذر جائیں۔ نقاب پوش [[منافقین]] نے آپؐ کی اونٹنی کو ہنکانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ [[عمار بن یاسر]] آپؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھے اور حذیفہ پیچھے سے ہانک رہے تھے۔ چلتے چلتے [[منافقین]] کے ایک گروہ نے آپؐ کو گھیر لیا۔ آپؐ نے انہیں ڈانٹا؛ حذیفہ نے [[رسول اللہؐ]] کے حکم پر ان اپنے ڈنڈے سے ان کی سواریوں کا منہ موڑ دیا؛ اور فرار ہوکر لشکر میں بکھر گئے۔<ref>ابن كثير، البدايۃ والنہا‌يۃ، ج5، ص24-25۔</ref>۔<ref>ابن حنبل، مسند، ج5، ص390-391۔</ref> [[رسول خداؐ]] نے حملہ آور [[منافقین]] کے نام حذیفہ اور عمار کے لئے فاش کردیئے تھے اور انہیں امانت داری کا حکم دیتے ہوئے انہیں خفیہ رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
[[تبوک]] سے واپسی کے دوران "عقبہ" کے مقام پر بعض [[منافقین]] نے [[رسول خداؐ]] پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش بنائی لیکن خداوند متعال نے اپنے [[رسول اللہؐ|حبیب]] کو سازش سے آگاہ کیا اور آپؐ نے [[حذیفہ بن یمان|حذیفہ]] اور [[عمار بن یاسر|عمار]] کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے تاکہ گھاٹی سے گذر جائیں۔ نقاب پوش [[منافقین]] نے آپؐ کی اونٹنی کو ہنکانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ [[عمار بن یاسر]] آپؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھے اور حذیفہ پیچھے سے ہانک رہے تھے۔ چلتے چلتے [[منافقین]] کے ایک گروہ نے آپؐ کو گھیر لیا۔ آپؐ نے انہیں ڈانٹا؛ حذیفہ نے [[رسول اللہؐ]] کے حکم پر ان اپنے ڈنڈے سے ان کی سواریوں کا منہ موڑ دیا؛ اور فرار ہوکر لشکر میں بکھر گئے۔<ref>ابن كثير، البدايۃ والنہا‌يۃ، ج5، ص24-25۔،ابن حنبل، مسند، ج5، ص390-391۔</ref> [[رسول خداؐ]] نے حملہ آور [[منافقین]] کے نام حذیفہ اور عمار کے لئے فاش کردیئے تھے اور انہیں امانت داری کا حکم دیتے ہوئے انہیں خفیہ رکھنے کی ہدایت کی تھی۔


تفصیل کے لئے رجوع کریں: '''[[اصحاب عقبہ]]'''
تفصیل کے لئے رجوع کریں: '''[[اصحاب عقبہ]]'''
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم