"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 35: | سطر 35: | ||
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔</ref> | یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔</ref> | ||
بالفاظ دیگر: عصر رسالت میں [[شام]] مشرقی روم کی نوآبادی کی حیثیت رکھتا تھا جس کا دارالحکومت [[قسطنطنیہ]] تھا۔ سرحدی علاقوں کو عوام اور حکام عیسائی تھے اور سرحدوں میں سکونت پذیر قبائل [[شام]] کی مرکزی حکومت کے اطاعت گزار تھے جبکہ [[شام]] کی مرکزی حکومت مشرقی روم کی کٹھ پتلی تھی۔ [[مکہ]] میں بت پرستوں کا قلعہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہونے کی وجہ سے رومی حکام [[شام]] پر مسلمانوں کے حملے کے امکان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ سلطان روم مسلمانوں کو اچانک دبوچنا اور ان کی قوت زائل کرنا چاہتا تھا اور یہ کام اس نے [[شام]] کے حکمران کے سپرد کیا۔ [[رسول اللہؐ]] کو خبر ہوئی تو آپؐ نے بھی اچانک اور بےخبری میں رومی حکمرانوں کو حیرت زدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ [[مدینہ]] کے عوام اپنے کام کاج میں مصروف تھے اور فصلوں کی کٹائی کا موسم تھا جبکہ دوسری طرف سے قحط سالی کی سی کیفیت علاقے پر طاری تھی۔ آپؐ نے منزل مقصود کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو جنگ کے اخراجات پورے کرنے دعوت دی۔ مسلمان مردوں اور خواتین نے دل کھول کر مدد کی؛ اگر ایک طرف سے [[عبد الرحمن بن عوف]] نے 4000 دینار بطور امداد آپؐ کی خدمت میں پیش کئے تو ابو عقیل نامی شخص نے ـ جس کے پاس چھ کلوگرام گندم تھی ـ تین کلوگرام گندم دے دی۔ [[منافقین]] نے اس غریب مسلمان کی مدد کو ناچیز قرار دیتے ہوئے طعنے دیئے تو خداوند متعال نے ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: | بالفاظ دیگر: عصر رسالت میں [[شام]] مشرقی روم کی نوآبادی کی حیثیت رکھتا تھا جس کا دارالحکومت [[قسطنطنیہ]] تھا۔ سرحدی علاقوں کو عوام اور حکام عیسائی تھے اور سرحدوں میں سکونت پذیر قبائل [[شام]] کی مرکزی حکومت کے اطاعت گزار تھے جبکہ [[شام]] کی مرکزی حکومت مشرقی روم کی کٹھ پتلی تھی۔ [[مکہ]] میں بت پرستوں کا قلعہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہونے کی وجہ سے رومی حکام [[شام]] پر مسلمانوں کے حملے کے امکان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ سلطان روم مسلمانوں کو اچانک دبوچنا اور ان کی قوت زائل کرنا چاہتا تھا اور یہ کام اس نے [[شام]] کے حکمران کے سپرد کیا۔ [[رسول اللہؐ]] کو خبر ہوئی تو آپؐ نے بھی اچانک اور بےخبری میں رومی حکمرانوں کو حیرت زدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ [[مدینہ]] کے عوام اپنے کام کاج میں مصروف تھے اور فصلوں کی کٹائی کا موسم تھا جبکہ دوسری طرف سے قحط سالی کی سی کیفیت علاقے پر طاری تھی۔ آپؐ نے منزل مقصود کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو جنگ کے اخراجات پورے کرنے دعوت دی۔ مسلمان مردوں اور خواتین نے دل کھول کر مدد کی؛ اگر ایک طرف سے [[عبد الرحمن بن عوف]] نے 4000 دینار بطور امداد آپؐ کی خدمت میں پیش کئے تو ابو عقیل نامی شخص نے ـ جس کے پاس چھ کلوگرام گندم تھی ـ تین کلوگرام گندم دے دی۔ [[منافقین]] نے اس غریب مسلمان کی مدد کو ناچیز قرار دیتے ہوئے طعنے دیئے تو خداوند متعال نے ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: {{عربی|'''الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ'''|ترجمہ=وہ لوگ جو نکتہ چینی کرتے ہیں خیرات کے بارے میں ایسے مؤمنین پر جو اپنی خوشی سے خیرات کرتے ہیں اور جو اپنی محنت مزدوری کے سوا اور کچھ رکھتے ہی نہیں تو ان کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ خود ان کا مذاق اڑائے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔|سورت=9|آیت=79}}<ref>سوره توبہ، آیت 79۔،مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ج7، ص: 414۔</ref> | ||
==منافقین کی ریشہ دوانیاں== | ==منافقین کی ریشہ دوانیاں== | ||
سطر 56: | سطر 56: | ||
بہر صورت [[منافقین]] [[مدینہ]] میں بغاوت کا ارادہ رکھتے تھے اور [گویا [[رسول اللہؐ]] نے منافقین ہی کے منصوبوں کی ناکامی کے لئے آپؑ کو جانشین مقرر کیا تھا چنانچہ] منافقین آپؑ کی موجودگی کو اپنی سازشوں کے سامنے رکاوٹ سمجھتے تھے اور [[رسول خداؐ]] کے اس اقدام سے ناراض تھے چنانچہ انھوں نے افواہ اڑائی کہ [[رسول اللہؐ]] مجاہدین کے درمیان [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے؛ یا گرمی اور جنگ کی دشواریوں سے پہلو تہی کرنے والوں نے کہا کہ [[علیؑ]] بھی ان ہی کی طرح جنگ سے پیچھے رہ گئے ہیں؛ بعض دوسروں نے کہا کہ [[رسول اللہؐ]] کو [[علیؑ]] کی معیت ناگوار تھی چنانچہ انہیں اپنے گھر کی سرپرستی کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ چنانچہ [[علیؑ]] ہتھیار سنبھال کر شہر کے نواح میں واقع "جُرْفْ" کے مقام پر [[رسول اکرمؐ]] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: | بہر صورت [[منافقین]] [[مدینہ]] میں بغاوت کا ارادہ رکھتے تھے اور [گویا [[رسول اللہؐ]] نے منافقین ہی کے منصوبوں کی ناکامی کے لئے آپؑ کو جانشین مقرر کیا تھا چنانچہ] منافقین آپؑ کی موجودگی کو اپنی سازشوں کے سامنے رکاوٹ سمجھتے تھے اور [[رسول خداؐ]] کے اس اقدام سے ناراض تھے چنانچہ انھوں نے افواہ اڑائی کہ [[رسول اللہؐ]] مجاہدین کے درمیان [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے؛ یا گرمی اور جنگ کی دشواریوں سے پہلو تہی کرنے والوں نے کہا کہ [[علیؑ]] بھی ان ہی کی طرح جنگ سے پیچھے رہ گئے ہیں؛ بعض دوسروں نے کہا کہ [[رسول اللہؐ]] کو [[علیؑ]] کی معیت ناگوار تھی چنانچہ انہیں اپنے گھر کی سرپرستی کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ چنانچہ [[علیؑ]] ہتھیار سنبھال کر شہر کے نواح میں واقع "جُرْفْ" کے مقام پر [[رسول اکرمؐ]] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: | ||
"{{حدیث|'''يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى'''}}"۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج2، ص368۔</ref> (ترجمہ: اے [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] [[منافقین]] گمان کرتے ہیں کہ آپ نے محھے پیچھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے! | |||
چنانچہ [[رسول اللہؐ]] نے فرمایا: <font color= green>"{{حدیث|'''كَذِبُوا وَلكِنِّي إنَّما خَلَّفتُكَ لِما وَرائِي... أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّا أنـّه لانَبی بَعدی'''}}"۔ | چنانچہ [[رسول اللہؐ]] نے فرمایا: <font color= green>"{{حدیث|'''كَذِبُوا وَلكِنِّي إنَّما خَلَّفتُكَ لِما وَرائِي... أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّا أنـّه لانَبی بَعدی'''}}"۔ <br/> (ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے)۔<ref>الطبري، وہی ماخذ۔،الزہري، المغازي النبويۃ، ، ص111۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔</ref>۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص7۔</ref> | ||
===متن حدیث=== | ===متن حدیث=== | ||
'''[[حدیث]] منزلت'''، مشہور [[حدیث|احادیث]] نبوی میں سے اور [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی نسبت [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی منزلت اور دیگر [[صحابہ|اصحاب]] پر آپؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور [[شیعہ]] علماء کی نظر میں یہ [[حدیث|احادیث]] متواترہ میں سے ہے اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی جانشینی کے لئے آپؑ کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔ | '''[[حدیث]] منزلت'''، مشہور [[حدیث|احادیث]] نبوی میں سے اور [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی نسبت [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی منزلت اور دیگر [[صحابہ|اصحاب]] پر آپؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور [[شیعہ]] علماء کی نظر میں یہ [[حدیث|احادیث]] متواترہ میں سے ہے اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی جانشینی کے لئے آپؑ کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔ | ||
یہ [[حدیث]] بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ [[جنگ تبوک]] کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل [[حدیث]] کچھ یوں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: <br/> <font color=green>"'''{{حدیث|أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ...}}'''"۔ | یہ [[حدیث]] بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ [[جنگ تبوک]] کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل [[حدیث]] کچھ یوں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: <br/> <font color=green>"'''{{حدیث|أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ...}}'''"۔ <br/> جو مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ دیگر مآخذ میں بھی موجود ہے۔<ref>صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406۔،بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔،ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج4، ص375؛ ج7 ص195ـ197؛ ج8، ص307۔،بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276۔،خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، 56، 176؛ ج5، ص332؛ ج10، ص499۔،ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109۔،متقی، کنز العمال، ج11، ص599؛ ج13، ص151، 192 ۔</ref> | ||
====حدیث کی ایک اور صورت==== | ====حدیث کی ایک اور صورت==== | ||
روایات کے مطابق [[رسول اللہؐ]] [[منافقین]] کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو حکم دیا کہ [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز [[مہاجرین]] [اور اہل [[مدینہ]]] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں [[رسول اللہؐ]] نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا: | روایات کے مطابق [[رسول اللہؐ]] [[منافقین]] کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو حکم دیا کہ [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز [[مہاجرین]] [اور اہل [[مدینہ]]] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں [[رسول اللہؐ]] نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا: | ||
"'''{{حدیث|ارجع يا أخي إلى مكانك فإن المدينة لا تصلح الا بي او بك، فأنت خليفتي في أهلي ودار هجرتي وقومي أ ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي}}۔'''" (ترجمہ: میرے بھائی علی! [[مدینہ]] میں اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ، کیونکہ میرے اور تہمارے سوا کوئی بھی وہاں کے امور کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتا یا [[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔ پس تم میرے جانشین اور میرے نمائندے ہو میرے خاندان اور میرے گھر اور میری قوم ([[مہاجرین]]) کے درمیان۔ اے علی! کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ میری نسبت تمہاری منزلت وہی ہو جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] کو حاصل تھی؟ سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،بحار الانوار، ج21، ص208۔،الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص337۔</ref> | |||
[[حدیث]] منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے نزدیک [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ [[حدیث]] مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔ | [[حدیث]] منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے نزدیک [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ [[حدیث]] مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔ | ||
سطر 76: | سطر 76: | ||
====ایک تبصرہ==== | ====ایک تبصرہ==== | ||
[[حدیث]] میں جملہ | [[حدیث]] میں جملہ "{{حدیث|'''لا نبي بعدي'''}}" (= میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اعلان منزلت سے مراد کوئی عام سی تعریف و تجلیل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ "{{حدیث|'''میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بلافصل [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] ہیں جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے فرق صرف یہ ہے کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین بھی تھے اور پیغمبر بھی تھے جبکہ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] خلیفہ اور جانشین ہیں لیکن نبی نہیں ہیں'''}}"۔ | ||
[[رسول اللہؐ]] کے اس آخری [[غزوہ|غزوے]] کے دوران [[مدینہ]] میں [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور [[حدیث]] کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مدینہ]] میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] سے فرمایا: {{حدیث|'''[[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے}}۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔،الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔،ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص7۔</ref> | [[رسول اللہؐ]] کے اس آخری [[غزوہ|غزوے]] کے دوران [[مدینہ]] میں [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور [[حدیث]] کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مدینہ]] میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] سے فرمایا: {{حدیث|'''[[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے}}۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔،الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔،ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص7۔</ref> | ||
سطر 93: | سطر 93: | ||
پیچھے رہوگے تو خدا کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے: | پیچھے رہوگے تو خدا کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے: | ||
"{{عربی|'''يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ * إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ'''|ترجمہ=اے ایمان لانے والو ! تمہیں کیا ہے کہ جب کہا جاتا ہے تم سے کہ اللہ کی راہ میں باہر نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین گیر ہو جاتے ہو! کیا تم آخرت کے بدلے اس دنیوی زندگی پر راضی ہو تو نہیں ہے اس دنیوی زندگی کا سرو سامان آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت کم * اگر تم باہر نہ نکلو گے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب کے ساتھ سزا دے گا اور تمہارے بدلے کسی دوسرے گروہ کو کھڑا کر دے گا اور تم انہیں کچھ نقصان نہ پہنچاؤ گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے|سورت=9|آیت=38-39}}"<ref>سوره توبہ، آیات 38-39۔</ref> | |||
سابقہ آیات میں، [[جہاد]] میں شرکت کے سلسلے میں بعض مسلمانوں کی کاہلی کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر شدید تنقید اور ان پر عتاب کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ ہلکے پھلکے یا بوجھل (جس صورت میں بھی ہو) اللہ کی راہ میں جہاد کرو: | سابقہ آیات میں، [[جہاد]] میں شرکت کے سلسلے میں بعض مسلمانوں کی کاہلی کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر شدید تنقید اور ان پر عتاب کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ ہلکے پھلکے یا بوجھل (جس صورت میں بھی ہو) اللہ کی راہ میں جہاد کرو: | ||
"{{عربی|'''انْفِرُواْ خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ'''|ترجمہ=چل کھڑے ہو ہلکے پھلکے اور بھاری، بوجھل (جیسے بھی ہو) اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔|سورت=9|آیت=41}}"<ref>سوره توبہ، آیات 41۔</ref> | |||
اس آیت کے مطابق وہ لوگ جو کسی چیز سے وابستہ نہیں تھے اور [[جہاد]] میں بآسانی شرکت کرسکتے تھے اور وہ جن کی راہ میں کام کاج اور دیگر گھریلو مسائل آڑے آرہے تھے، سب کو [[جہاد]] میں شرکت کا حکم دیا ہے۔ | اس آیت کے مطابق وہ لوگ جو کسی چیز سے وابستہ نہیں تھے اور [[جہاد]] میں بآسانی شرکت کرسکتے تھے اور وہ جن کی راہ میں کام کاج اور دیگر گھریلو مسائل آڑے آرہے تھے، سب کو [[جہاد]] میں شرکت کا حکم دیا ہے۔ | ||
===منافقین کی شادمانیاں=== | ===منافقین کی شادمانیاں=== | ||
{{عربی|'''فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّهِ وَكَرِهُواْ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرّاً لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ * فَلْيَضْحَكُواْ قَلِيلاً وَلْيَبْكُواْ كَثِيراً جَزَاء بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ'''.|ترجمہ=جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ پیغمبر خدا کے پیچھے گھروں میں بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہوں نے ناپسند کیا اسے کہ وہ اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہا کہ گرمی میں سفر نہ کرو، کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ زیادہ گرم ہے، کاش وہ سمجھ سے کام لیں * تو انہیں ہنسنا کم چاہیے اور انہیں رونا زیادہ چاہیے، سزا میں اس کی جو وہ کرتے رہے ہیں|سورت=9|آیت=81 و 82}}۔<ref>سوره توبہ، آیات 81-82۔</ref> | |||
سطر 108: | سطر 108: | ||
البتہ اگلی آیات میں مجبور اور معذور لوگوں کو مستثنی قرار دیا گیا ہے: | البتہ اگلی آیات میں مجبور اور معذور لوگوں کو مستثنی قرار دیا گیا ہے: | ||
"{{عربی|'''لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاء وَلاَ عَلَى الْمَرْضَى وَلاَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ ...'''|ترجمہ=نہیں ہے کمزوروں پر اور بیماروں پر اور نہ ان پر جن کے پاس خرچہ نہ ہو کوئی سختی...۔|سورت=9|آیت=91}}"<ref>سوره توبہ، آیہ 91۔</ref> | |||
===مناقفین کی بہانہ تراشیاں=== | ===مناقفین کی بہانہ تراشیاں=== | ||
"{{عربی|'''لَوْ كَانَ عَرَضاً قَرِيباً وَسَفَراً قَاصِداً لاَّتَّبَعُوكَ وَلَـكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ'''|ترجمہ=اگر قریبی کوئی منفعت ہوتی اور سفر معمولی ہوتا تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے ہو جاتے مگر ان پر بڑی دور دراز مسافت پڑ گئی اور بہت جلد وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ اگر ہم روانہ ہو سکتے تو آپ کے ساتھ ضرور نکلتے۔ وہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔|سورت=9|آیت=42}}"<ref>سوره توبہ، آیہ 42۔</ref> | |||
جنگ [[تبوک]] کے لئے روانگی سے قبل بعض منافقین نے [[رسول اللہؐ]] سے اپنے بعض کاموں کے لئے جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت مانگی اور آپؐ نے انہیں اجازت دے دی۔ | جنگ [[تبوک]] کے لئے روانگی سے قبل بعض منافقین نے [[رسول اللہؐ]] سے اپنے بعض کاموں کے لئے جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت مانگی اور آپؐ نے انہیں اجازت دے دی۔ | ||
سطر 118: | سطر 118: | ||
یہ اجازت اس لئے تھی کہ سچے اور جھوٹے سامنے آجائیں؛ دوسری طرف سے ایسے لوگوں کو [[جہاد]] میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دینے کا فائدہ مسلمانوں ہی کو پہنچتا تھا کیونکہ ان کی طرف سے فتنہ انگیزی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کا امکان تھا: | یہ اجازت اس لئے تھی کہ سچے اور جھوٹے سامنے آجائیں؛ دوسری طرف سے ایسے لوگوں کو [[جہاد]] میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دینے کا فائدہ مسلمانوں ہی کو پہنچتا تھا کیونکہ ان کی طرف سے فتنہ انگیزی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کا امکان تھا: | ||
"{{عربی|'''عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ'''|ترجمہ=اللہ آپ کو معاف کرے، کیوں آپ نے انہیں اجازت دی جب تک کہ کھل نہ جائیں آپ پر وہ جو سچے ہیں اور وہ معلوم ہو جائیں کہ جو جھوٹے ہیں۔|سورت=9|آیت=43}}"<ref>سوره توبہ، آیہ 43۔</ref> | |||
گویا [[رسول خداؐ]] نے مصلحتوں کو دیکھ کر ہی [[جہاد]] میں ان کی شرکت کو جائز نہیں سمجھا ہے جیسے کہ اگلی آیات میں بھی واضح ہے؛ اسی لئے ان کے جھوٹے عذر کو آپؐ نے قبول کیا اور انہیں جنگ [[تبوک]] میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی لیکن خداوند متعال چاہتا تھا کہ انہیں ابتداء میں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ وہ نافرمانی کریں اور اپنے آپ کو رسوا کریں جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے: | گویا [[رسول خداؐ]] نے مصلحتوں کو دیکھ کر ہی [[جہاد]] میں ان کی شرکت کو جائز نہیں سمجھا ہے جیسے کہ اگلی آیات میں بھی واضح ہے؛ اسی لئے ان کے جھوٹے عذر کو آپؐ نے قبول کیا اور انہیں جنگ [[تبوک]] میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی لیکن خداوند متعال چاہتا تھا کہ انہیں ابتداء میں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ وہ نافرمانی کریں اور اپنے آپ کو رسوا کریں جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے: | ||
"{{عربی|'''لاَ يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ * إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ'''|ترجمہ=آپ سے چھٹی نہیں مانگتے وہ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اس سے کہ وہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ پرہیز گاروں کا خوب جاننے والا ہے * آپ سے چھٹی کے طالب تو بس وہ ہوتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دلوں کو شک ہے تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔|سورت=9|آیت=43}}"<ref>سوره توبہ، آیات 44-45۔</ref> | |||
===منافقین کی فتنہ انگیزی=== | ===منافقین کی فتنہ انگیزی=== | ||
"{{عربی|'''وَلَوْ أَرَادُواْ الْخُرُوجَ لأَعَدُّواْ لَهُ عُدَّةً وَلَـكِن كَرِهَ اللّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُواْ مَعَ الْقَاعِدِينَ * لَوْ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلاَّ خَبَالاً ولأَوْضَعُواْ خِلاَلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ'''|ترجمہ=اور اگر وہ باہر نکلنے کی نیت رکھتے تو اس کے لیے پہلے سے تیاری کرتے مگر اللہ کو ان کا چل کھڑا ہونا نا پسند تھا تو اس نے ان کی ہمت پست کر دی اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھو بیٹھنے والوں کے ساتھ * اگر وہ تم میں شامل ہو کر نکلتے تو تم میں بس خرابیوں میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان گھوڑے دوڑاتے اس کوشش میں کہ تم میں فتنہ و فساد برپا ہو اور تم میں ایسے ہیں جو ان کی خوب سنتے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔|سورت=9|آیت=46-47}}"<ref>سوره توبہ، آیات 47-46۔</ref> | |||
[[منافقین]] جنہوں نے [[رسول خداؐ]] سے [[جہاد]] میں شرکت نہ کرنے کی اجازت یا چھٹی مانگی تھی، درحقیقت شرکت کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے اور ان کے اجازت مانگنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ گویا وہ آپؐ کے مطیع ہیں اور اگر آپؐ انہیں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہ بھی دیتے وہ شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اگر وہ ارادہ رکھتے تو اس کے لئے تیاریاں بھی کرتے۔ خداوند متعال مؤخر الذکر آیت میں فرماتا ہے کہ اگر وہ جنگ میں شرکت کرتے تو مسلمانوں کے لئے زحمت کا سبب بنتے؛ ان کی صفوں میں رخنہ ڈالتے اور مسلمانوں کے درمیان بھی ان کی باتیں سننے والے موجود ہیں۔ | [[منافقین]] جنہوں نے [[رسول خداؐ]] سے [[جہاد]] میں شرکت نہ کرنے کی اجازت یا چھٹی مانگی تھی، درحقیقت شرکت کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے اور ان کے اجازت مانگنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ گویا وہ آپؐ کے مطیع ہیں اور اگر آپؐ انہیں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہ بھی دیتے وہ شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اگر وہ ارادہ رکھتے تو اس کے لئے تیاریاں بھی کرتے۔ خداوند متعال مؤخر الذکر آیت میں فرماتا ہے کہ اگر وہ جنگ میں شرکت کرتے تو مسلمانوں کے لئے زحمت کا سبب بنتے؛ ان کی صفوں میں رخنہ ڈالتے اور مسلمانوں کے درمیان بھی ان کی باتیں سننے والے موجود ہیں۔ | ||
سطر 132: | سطر 132: | ||
بے شک وہ اپنی جھوٹی افواہوں کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو منحرف کرتے، سپاہ [[اسلام]] میں اختلاف ڈالتے اور اور سپاہ کے حوصلوں کو کمزور کرتے؛ وہ ابتداء ہی سے فتنہ انگيزی کے درپے تھے: | بے شک وہ اپنی جھوٹی افواہوں کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو منحرف کرتے، سپاہ [[اسلام]] میں اختلاف ڈالتے اور اور سپاہ کے حوصلوں کو کمزور کرتے؛ وہ ابتداء ہی سے فتنہ انگيزی کے درپے تھے: | ||
"{{عربی|'''لَقَدِ ابْتَغَوُاْ الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُواْ لَكَ الأُمُورَ حَتَّى جَاء الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ'''|ترجمہ=وہ پہلے بھی فتنہ پردازی کے خواہاں رہے ہیں اور آپ کے لیے معاملات کو درہم و برہم کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ حق سامنے آ گیا اور اللہ کی بات غالب آ گئی، درصورت یہ کہ وہ ناپسند کرتے تھے۔|سورت=9|آیت=48}}"<ref>سوره توبہ، آیات 48۔</ref> | |||
===جد بن قیس کا قصہ=== | ===جد بن قیس کا قصہ=== | ||
[[رسول خداؐ]] نے جد بن قیس کو دیکھا اور فرمایا "کیا تم اس جنگ کے لئے ہمارے ساتھ نہیں جارہے ہو، گویا تم زرد فام خواتین سے چشم پوشی نہیں کرسکتے ہو!" کہنے لگا: اے [[رسول خداؐ|رسول خدا]]! میری قوم جانتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو مجھ جتنا عورتوں کا رسیا ہو اور مجھے خوف ہے کہ آپ کے ساتھ جاؤں اور رومی عورتوں کو دیکھ کر صبر کا دامن چھوڑ جاؤں؛ چنانچہ استدعا ہے کہ مجھے مبتلا نہ کریں اور مجھے شہر میں رہنے دیں۔ دوسری طرف سے اسی شخص نے اپنی قوم کی ایک جماعت سے مخاطب ہوکر کہا: گرمی بہت شدید ہے لہذا اپنے گھر بار کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ جد بن قیس کے بیٹے نے کہا: "خود تو [[رسول خداؐ]] کے فرمان کی مخالفت کر ہی رہے ہو کیا یہی کافی نہیں ہے اور اب لوگوں کو بھی گرمی کا بہانہ بنا کر آپؐ کی نافرمانی پر اکسا رہے ہو؟ خدا کی قسم! خدا تمہارے بارے میں بھی آیت نازل کرے گا جس کو [[قیامت]] تک کے لوگ پڑھیں گے"۔ اتفاق سے آیت کریمہ نازل ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: | [[رسول خداؐ]] نے جد بن قیس کو دیکھا اور فرمایا "کیا تم اس جنگ کے لئے ہمارے ساتھ نہیں جارہے ہو، گویا تم زرد فام خواتین سے چشم پوشی نہیں کرسکتے ہو!" کہنے لگا: اے [[رسول خداؐ|رسول خدا]]! میری قوم جانتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو مجھ جتنا عورتوں کا رسیا ہو اور مجھے خوف ہے کہ آپ کے ساتھ جاؤں اور رومی عورتوں کو دیکھ کر صبر کا دامن چھوڑ جاؤں؛ چنانچہ استدعا ہے کہ مجھے مبتلا نہ کریں اور مجھے شہر میں رہنے دیں۔ دوسری طرف سے اسی شخص نے اپنی قوم کی ایک جماعت سے مخاطب ہوکر کہا: گرمی بہت شدید ہے لہذا اپنے گھر بار کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ جد بن قیس کے بیٹے نے کہا: "خود تو [[رسول خداؐ]] کے فرمان کی مخالفت کر ہی رہے ہو کیا یہی کافی نہیں ہے اور اب لوگوں کو بھی گرمی کا بہانہ بنا کر آپؐ کی نافرمانی پر اکسا رہے ہو؟ خدا کی قسم! خدا تمہارے بارے میں بھی آیت نازل کرے گا جس کو [[قیامت]] تک کے لوگ پڑھیں گے"۔ اتفاق سے آیت کریمہ نازل ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: "{{عربی|'''وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ'''|ترجمہ=اور ان میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے چھٹی دیجئے اور مجھے گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ گمراہی میں وہ خود پڑ ہی چکے ہیں اور بلاشبہ دوزخ گھیرے ہوئے ہے کافروں کو|سورت=9|آیت=49}}"<ref>سوره توبہ، آیہ 49۔</ref> | ||
سطر 143: | سطر 143: | ||
[[منافقین]] نے جنگ [[تبوک]] میں شرکت سے انکار کیا اور گھروں میں بیٹھ گئے چنانچہ وہ اگلی جنگوں میں شرکت کے اہل نہیں تھے۔ چنانچہ خداوند متعال نے آپؐ کو حکم دیا کہ اگر [[مدینہ]] پلٹنے کے بعد پھر کبھی انھوں نے آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی تو آپ اجازت نہ دیں: | [[منافقین]] نے جنگ [[تبوک]] میں شرکت سے انکار کیا اور گھروں میں بیٹھ گئے چنانچہ وہ اگلی جنگوں میں شرکت کے اہل نہیں تھے۔ چنانچہ خداوند متعال نے آپؐ کو حکم دیا کہ اگر [[مدینہ]] پلٹنے کے بعد پھر کبھی انھوں نے آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی تو آپ اجازت نہ دیں: | ||
{{عربی|'''فَإِن رَّجَعَكَ اللّهُ إِلَى طَآئِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُواْ مَعِيَ أَبَداً وَلَن تُقَاتِلُواْ مَعِيَ عَدُوّاً إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُواْ مَعَ الْخَالِفِينَ'''|ترجمہ=پس (اے حبیب!) اگر اللہ آپ کو (غزوۂ تبوک سے فارغ ہونے کے بعد) ان (منافقین) میں سے کسی گروہ کی طرف دوبارہ واپس لے جائے اور وہ آپ سے (آئندہ جہاد کے لئے) نکلنے کی اجازت چاہیں تو ان سے فرما دیجئے گا کہ (اب) تم میرے ساتھ کبھی بھی ہرگز نہ نکلنا اور تم میرے ساتھ ہو کر کبھی بھی ہرگز دشمن سے جنگ نہ کرنا (کیونکہ) تم پہلی مرتبہ (جہاد چھوڑ کر) پیچھے بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے تھے سو (اب بھی) پیچھے بیٹھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔|سورت=9|آیت=83}}<ref>سوره توبہ، آیات 83۔</ref> | |||
===منافقین کی معذرت نامنظور=== | ===منافقین کی معذرت نامنظور=== | ||
جنگ [[تبوک]] میں شرکت کرنے سے انکار کرنے والے [[منافقین]] [[رسول اللہؐ]] کی خدمت میں آکر بہانے پیش کرنے لگے تھے چنانچہ خداوند متعال نے [[منافقین]] کے اسرار اور سازشوں کو طشت از بام کرتے ہوئے آپؐ کو ان کے اقدامات سے آگاہ فرمایا: | جنگ [[تبوک]] میں شرکت کرنے سے انکار کرنے والے [[منافقین]] [[رسول اللہؐ]] کی خدمت میں آکر بہانے پیش کرنے لگے تھے چنانچہ خداوند متعال نے [[منافقین]] کے اسرار اور سازشوں کو طشت از بام کرتے ہوئے آپؐ کو ان کے اقدامات سے آگاہ فرمایا: | ||
{{عربی|'''يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُل لاَّ تَعْتَذِرُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ'''|ترجمہ=وہ عذر خواہی کریں گے تم سے جب تم لوگ ان کی طرف واپس آؤ گے ، کہئے کہ تم عذر خواہی نہ کرو۔ ہم کبھی تمہارا یقین نہیں مانیں گے۔ ہمیں اللہ نے تمہارے حالات کی اطلاع دی ہے اور اللہ اور اس کا پیغمبر تمہارے اعمال کو دیکھے گا پھر تم پلٹا کر لے جائے جاؤ گے اس کی طرف جو حاضر و غائب کا جاننے والا ہے، وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کرتے تھے۔|سورت=9|آیت=94}}<ref>سوره توبہ، آیہ 94۔</ref> | |||
===جنگ تبوک کے مجاہدین کی تعریف=== | ===جنگ تبوک کے مجاہدین کی تعریف=== | ||
{{عربی|'''لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ'''|ترجمہ=اللہ نے رحمت کی نظر ڈالی پیغمبر اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے سختی کے وقت پر ان کا ساتھ دیا۔ جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے کچھ کے دلوں میں کجی آجائے۔ پھر اللہ نے ان پر نظر رحمت ڈالی۔ یقینا وہ ان کے ساتھ شفیق ہے، بڑا مہربان۔|سورت=9|آیت=117}}<ref>سوره توبہ، آیہ 117۔</ref> | |||
===مدینہ میں رہنے والے تین افراد=== | ===مدینہ میں رہنے والے تین افراد=== | ||
سطر 160: | سطر 160: | ||
مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت [[روم]] کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ [[روم]] کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔ | مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت [[روم]] کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ [[روم]] کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔ | ||
{{عربی|'''وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ'''|ترجمہ=اور ان تینوں پر کہ جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ یہ عالم ہوا کہ زمین ان پر باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنے سے تنگ ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ سے بچاؤ کے لیے کوئی جائے پناہ سوا خود اسی کے نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ ہی وہ ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان|سورت=9|آیت=117}}<ref>سوره توبہ، آیہ 117۔</ref>۔646۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، ص179۔،ابن حنبل، مسند احمد، ج6، ص389۔، سبل الہدی والرشاد، ج9، ص379۔</ref> | |||
==سپاہ کے لئے وسائل کی فراہمی میں دشواریاں== | ==سپاہ کے لئے وسائل کی فراہمی میں دشواریاں== | ||
سطر 170: | سطر 170: | ||
[[قرآن]] نے اس جنگ کے سوا کسی بھی جنگ میں شرکت کرنے پر اتنا زور نہيں دیا تھا۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref> [[قرآن]] نے ہر قسم کے لب و لہجے سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شرکت کی ترغیب دلائی ہے جس کو [[سورہ توبہ]] کی آیات 38 اور 39 سمیت کئی دوسری آیات میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے؛ بطور مثال: | [[قرآن]] نے اس جنگ کے سوا کسی بھی جنگ میں شرکت کرنے پر اتنا زور نہيں دیا تھا۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref> [[قرآن]] نے ہر قسم کے لب و لہجے سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شرکت کی ترغیب دلائی ہے جس کو [[سورہ توبہ]] کی آیات 38 اور 39 سمیت کئی دوسری آیات میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے؛ بطور مثال: | ||
"'''{{حدیث|اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ}}'''" کیا زمین سے چپکے ہوئے ہو اور جہاد کے لئے نہیں نکلتے ہو یا کیا تم اس فانی دنیا کی چمک دمک پر راضي ہوچکے ہو جہاد اور شہادت کے مقابلے میں؟ "'''{{حدیث|أَ رَضِیتُمْ بِالْحَیاةِ الدُّنْیا مِنَ الْآخِرَة}}'''"؛ یا کیا دنیاوی زندی کی متاع آخرت کی ابدی زندگی کے سامنے ناچیز نہیں ہے؟ "'''{{حدیث|فَما مَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ}}'''" کیا ایک عقلمند انسان کے لئے اس قسم کا سودا پسند کرنا ممکن ہے؟ پھر دھمکی کے لب و لہجے میں ارشاد فرماتا ہے: "'''{{حدیث|إِلَّا تَنْفِرُوا یُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِیماً}}'''"، یا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر نہیں جاؤگے تو [[اسلام]] کی بسط لپٹ جائے گی؟ یاد رکھو کہ اس صورت میں دوسروں کو تمہاری جگہ لے کر آئے گا؛ "'''{{حدیث|وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَكُمْ}}'''" جو تم سے زيادہ جرئت کے مالک ہونگے اور تم خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے؛ "'''{{حدیث|وَلا تَضُرُّوهُ شَیْئاً}}'''"؛ یہ ایک خیال گفتگو نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جب وہ اپنے دین پاک کی حفاظت کا ارادہ فرماتا ہے کر گذرتا ہے: "'''{{حدیث|وَاللَّهُ عَلى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ}}'''" اس آیت میں دوسری قوم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ایرانی ہیں اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ یہ اہلیان [[یمن]] ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل اور جان نثاریوں سے [[اسلام]] کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔<ref>مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ج7، ص: 414۔</ref> | |||
===خطبہ تبوک=== | ===خطبہ تبوک=== |