confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (واقعہ ماریہ) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 20: | سطر 20: | ||
واقعہ افک میں جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسشهای دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> بعض شیعہ اقوال کے مطابق یہ تہمت [[ماریه دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تھی؛ لیکن اہل سنت روایات اور بعض شیعوں کے مطابق یہ الزام عائشہ پر لگائی گئی تھی۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسشهای دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> [[تفسیر علی بن ابراهیم قمی (کتاب)|تفسیرالقمی]] کے مؤلف [[علی بن ابراهیم قمی]]<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> کی باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان آیات کا ماریہ قبطیہ کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یا کم سے کم مشہور یہی ہے کہ یہ آیات ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.</ref> لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان آیتوں کا ماریہ کے بارے میں نازل ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ قدیم علما کے ہاں آیات کا عائشہ کے بارے میں نازل ہونا مشہور تھا؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> جیسے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[علامہ حلی]] ان آیات کے نزول کو عائشہ سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی اور نظریہ ہونے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، اجوبۃ المسائل المهنّائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۱.</ref> | واقعہ افک میں جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسشهای دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> بعض شیعہ اقوال کے مطابق یہ تہمت [[ماریه دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تھی؛ لیکن اہل سنت روایات اور بعض شیعوں کے مطابق یہ الزام عائشہ پر لگائی گئی تھی۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسشهای دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> [[تفسیر علی بن ابراهیم قمی (کتاب)|تفسیرالقمی]] کے مؤلف [[علی بن ابراهیم قمی]]<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> کی باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان آیات کا ماریہ قبطیہ کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یا کم سے کم مشہور یہی ہے کہ یہ آیات ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.</ref> لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان آیتوں کا ماریہ کے بارے میں نازل ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ قدیم علما کے ہاں آیات کا عائشہ کے بارے میں نازل ہونا مشہور تھا؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> جیسے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[علامہ حلی]] ان آیات کے نزول کو عائشہ سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی اور نظریہ ہونے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، اجوبۃ المسائل المهنّائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۱.</ref> | ||
== پہلا قول: عائشہ پر تہمت== | |||
چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر [[محمدجواد مغنیه]] اور اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق [[آیات افک]] اس واقعے سے مربوط ہیں جو [[سنہ 5 ہجری|5ھ]]<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۸-۵۰؛ مسعودی، التنبیه و الاشراف، مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیه، ص۲۱۵.</ref> یا [[سنہ 6 ہجری|6ھ]]<ref>ابناثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹.</ref> کو رسول اللہؐ کی [[بنیمصطلق (غزوه)|غزوہ بنی مُصطَلِق]] سے واپسی پر پیش آیا۔<ref>مغنیه، تفسیرالکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۰۳.</ref> | چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر [[محمدجواد مغنیه]] اور اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق [[آیات افک]] اس واقعے سے مربوط ہیں جو [[سنہ 5 ہجری|5ھ]]<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۸-۵۰؛ مسعودی، التنبیه و الاشراف، مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیه، ص۲۱۵.</ref> یا [[سنہ 6 ہجری|6ھ]]<ref>ابناثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹.</ref> کو رسول اللہؐ کی [[بنیمصطلق (غزوه)|غزوہ بنی مُصطَلِق]] سے واپسی پر پیش آیا۔<ref>مغنیه، تفسیرالکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۰۳.</ref> | ||
عائشہ کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ہر جنگ میں کسی ایک زوجہ کو ساتھ لے جاتے تھے اور غزوہ بنی مصطلق میں عائشہ کو ہمراہ لے گئے تھے۔<ref>بخاری، صحیحالبخاری، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۱۰۱.</ref> جنگ سے واپسی پر لشکر جب استراحت کے لئے رک گیا عائشہ رفع حاجت کے لئے لشکرگاہ سے فاصلے پر گئی اور چونکہ ان کے گلے کا ہار اسی وقت گم ہوگیا تھا اس لئے اسے ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ گیا۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۸.</ref> قافلہ والوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں موجود ہونگی، اس لیے آگے کی طرف چل پڑے۔<ref>ابنهشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ج۲، ص۲۹۸.</ref> | عائشہ کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ہر جنگ میں کسی ایک زوجہ کو ساتھ لے جاتے تھے اور غزوہ بنی مصطلق میں عائشہ کو ہمراہ لے گئے تھے۔<ref>بخاری، صحیحالبخاری، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۱۰۱.</ref> جنگ سے واپسی پر لشکر جب استراحت کے لئے رک گیا عائشہ رفع حاجت کے لئے لشکرگاہ سے فاصلے پر گئی اور چونکہ ان کے گلے کا ہار اسی وقت گم ہوگیا تھا اس لئے اسے ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ گیا۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۸.</ref> قافلہ والوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں موجود ہونگی، اس لیے آگے کی طرف چل پڑے۔<ref>ابنهشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ج۲، ص۲۹۸.</ref> | ||
جب واپس آئی تو قافلہ وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔ آپ اسی جگہ بیٹھ گئی، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔<ref>مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۲۹.</ref> سفر سے واپسی پر عائشہ بیمار ہو گئیں اور اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ افواہیں لوگوں کے درمیان گردش کررہی ہیں۔<ref>صنعانی، المصنف، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۴۱۰.</ref> اس واقعے کے کچھ مدت بعد [[قرآن]] کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی۔<ref>واحدی نیشابوری، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۳۲.</ref> | جب واپس آئی تو قافلہ وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔ آپ اسی جگہ بیٹھ گئی، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔<ref>مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۲۹.</ref> سفر سے واپسی پر عائشہ بیمار ہو گئیں اور اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ افواہیں لوگوں کے درمیان گردش کررہی ہیں۔<ref>صنعانی، المصنف، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۴۱۰.</ref> اس واقعے کے کچھ مدت بعد [[قرآن]] کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی۔<ref>واحدی نیشابوری، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۳۲.</ref> | ||
بعض شیعہ علما نے واقعہ افک کو عائشہ پر تہمت لگانے سے مربوط جانا ہے۔ انہی علما میں سے [[نصر بن مزاحم]] نے اپنی کتاب [[وقعة صفین (کتاب)|وَقْعَةُ صِفّین]] میں،<ref>ابنمزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۵۲۳.</ref> [[نعمانی|نُعمانی]] نے [[تفسیر نعمانی (کتاب)|ان سے منسوب تفسیر]] میں،<ref>نعمانی، رسالة المحکم و المتشابه، ۱۳۸۴ش، ص۱۵۶.</ref> [[شیخ مفید]] نے [[الجمل|الجَمَل]] میں،<ref>شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۶ق، ص۱۵۷.</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[التبیان|التِّبیان]] میں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، ج۷، ص۴۱۵.</ref> [[طبرسی|طَبرِسی]] نے [[اعلام الوری|اِعلامالوَری]] میں،<ref>طبرسی، اعلامالوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۹۷.</ref> [[قطبالدین راوندی]] نے [[فقه القرآن (کتاب)|فقهالقرآن]] میں<ref>راوندی، فقهالقرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۸۸.</ref> اور [[مقدس اردبیلی]] نے [[زبدة البیان|زُبدةالبیان]] میں<ref>مقدس اردبیلی، زبدةالبیان، مکتبةالمرتضویة، ص۳۸۸.</ref> بیان کیا ہے۔ | بعض شیعہ علما نے واقعہ افک کو عائشہ پر تہمت لگانے سے مربوط جانا ہے۔ انہی علما میں سے [[نصر بن مزاحم]] نے اپنی کتاب [[وقعة صفین (کتاب)|وَقْعَةُ صِفّین]] میں،<ref>ابنمزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۵۲۳.</ref> [[نعمانی|نُعمانی]] نے [[تفسیر نعمانی (کتاب)|ان سے منسوب تفسیر]] میں،<ref>نعمانی، رسالة المحکم و المتشابه، ۱۳۸۴ش، ص۱۵۶.</ref> [[شیخ مفید]] نے [[الجمل|الجَمَل]] میں،<ref>شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۶ق، ص۱۵۷.</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[التبیان|التِّبیان]] میں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، ج۷، ص۴۱۵.</ref> [[طبرسی|طَبرِسی]] نے [[اعلام الوری|اِعلامالوَری]] میں،<ref>طبرسی، اعلامالوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۹۷.</ref> [[قطبالدین راوندی]] نے [[فقه القرآن (کتاب)|فقهالقرآن]] میں<ref>راوندی، فقهالقرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۸۸.</ref> اور [[مقدس اردبیلی]] نے [[زبدة البیان|زُبدةالبیان]] میں<ref>مقدس اردبیلی، زبدةالبیان، مکتبةالمرتضویة، ص۳۸۸.</ref> بیان کیا ہے۔ | ||
===تہمت لگانے والے=== | |||
قرآن کریم کی مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو گروہ کہا گیا ہے لیکن ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے؛<ref>سوره نور، آیه ۱۱.</ref> لیکن بعض مآخذ میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]]، [[حسان بن ثابت]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] جیسے منافقوں کو واقعہ افک کے سرغنوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخالیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۵۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۶۱۴-۶۱۶.</ref> | قرآن کریم کی مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو گروہ کہا گیا ہے لیکن ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے؛<ref>سوره نور، آیه ۱۱.</ref> لیکن بعض مآخذ میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]]، [[حسان بن ثابت]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] جیسے منافقوں کو واقعہ افک کے سرغنوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخالیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۵۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۶۱۴-۶۱۶.</ref> | ||
=== عائشہ کے لئے فضیلت کی تخلیق=== | |||
[[اهل سنت و جماعت|اهلسنت]] آیات افک کو عائشہ کی شان میں نازل ہونے کو ایک فضیلت سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۳، ص۳۳۸؛ ابناثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۹۱.</ref> یہ بات اگرچہ اہل سنت کی مختلف روایات میں ذکر ہوئی ہے لیکن شیعہ مورخ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] کا کہنا ہے کہ ان تمام روایتوں کی روای عائشہ ہی ہیں۔<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۰.</ref> بعض محققین کا کہنا ہے کہ عائشہ نے اس حادثے کو شخصی مسئلے میں تبدیل کیا ہے۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲.</ref> اور حد سے زیادہ اپنے پر توجہ دے کر اسے اپنے لئے ایک فضیلت بنایا ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی وجہ سے شیعہ اس واقعے کی صحت میں تردید کرتے ہیں۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آیات افک اگر عائشہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہوں بھی تو یہ صرف عائشہ کی پاکدامنی پر دلالت ہے اس کے لئے کوئی اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.</ref> | [[اهل سنت و جماعت|اهلسنت]] آیات افک کو عائشہ کی شان میں نازل ہونے کو ایک فضیلت سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۳، ص۳۳۸؛ ابناثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۹۱.</ref> یہ بات اگرچہ اہل سنت کی مختلف روایات میں ذکر ہوئی ہے لیکن شیعہ مورخ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] کا کہنا ہے کہ ان تمام روایتوں کی روای عائشہ ہی ہیں۔<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۰.</ref> بعض محققین کا کہنا ہے کہ عائشہ نے اس حادثے کو شخصی مسئلے میں تبدیل کیا ہے۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲.</ref> اور حد سے زیادہ اپنے پر توجہ دے کر اسے اپنے لئے ایک فضیلت بنایا ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی وجہ سے شیعہ اس واقعے کی صحت میں تردید کرتے ہیں۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آیات افک اگر عائشہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہوں بھی تو یہ صرف عائشہ کی پاکدامنی پر دلالت ہے اس کے لئے کوئی اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.</ref> | ||
سطر 34: | سطر 34: | ||
کہا جاتا ہے کہ صرف [[شیعہ]] معاصر علما نے آیات افک کو ماریہ قبطیہ سے مربوط سمجھا ہے۔<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> ان علما میں [[سید ابوالقاسم خویی]]،<ref>خویی، صراطالنجاة، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۶۳.</ref> [[سید جعفر مرتضی عاملی]]<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۳۸۱-۳۸۲.</ref> اور [[سید مرتضی عسکری]]<ref>عسکری، احادیث امالمؤمنین عایشه، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۸۶-۱۸۷.</ref> قابل ذکر ہیں۔ [[شیخ مفید]] نے حدیث ماریہ کے نام سے ایک رسالہ [[رسالة حول خبر ماریة (کتاب)|رِسالةٌ حَولَ خَبَرِ ماریة]] کے نام سے لکھآ ہے اس میں اس حدیث کو مسلم سمجھتے ہوئے سب علما کے ہاں اس حدیث کا ثابت ہونے کو ذکر کیا ہے؛<ref>شیخ مفید، رسالة حول خبر ماریه، ۱۴۱۳ق، ص۱۸.</ref> لیکن جس حدیث کو نقل کیا ہے اس میں آیات افک کے نزول کا ذکر نہیں ہے؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۴.</ref> اسی طرح بعض دیگر منابع میں بھی آیات افک کے نزول کا تذکرہ کئے بغیر واقعہ ماریہ قبطیہ ذکر ہوا ہے ان منابع میں [[الامالی (سید مرتضی)|امالی سیدِ مرتضی]]،<ref>سید مرتضی، امالیالمرتضی، ۱۹۹۸م، ج۱، ص۷۷.</ref> [[الهدایة الکبری (کتاب)|الهدایة الکبری]]،<ref>خصیبی، الهدایة الکبری، ۱۴۱۹ق، ص۲۹۷-۲۹۸.</ref> [[دلائل الامامة (کتاب)|دلائلالامامه]]<ref>طبری، دلائلالامامه، ۱۴۱۳ق، ص۳۸۶-۳۸۷.</ref> اور [[مناقب آل ابیطالب (کتاب)|المناقب]]<ref>ابنشهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۲۵.</ref> شامل ہیں۔ اہل سنت علما نے آیات افک کے ذیل میں منافقین کی طرف سے عائشہ پر تہمت لگانے کا تذکرہ کیا ہے البتہ ماریہ پر تہمت کا واقعہ بھی اہل سنت مآخذ میں ذکر ہوا ہے۔ ان مآخذ میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۳۹.</ref> الطبقات الکبری،<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۱۷۲.</ref> اَنسابالاَشراف،<ref>بلاذری، انسابالاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۵۰.</ref> [[المستدرک علی الصحیحین|المُستدرَکُ علی الصَّحیحَین]]<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق ج۴، ص۴۱.</ref> اور صَفوة الصَّفوة<ref>ابنجوزی، صفوةالصفوة، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۳۴۵.</ref> شامل ہیں۔ | کہا جاتا ہے کہ صرف [[شیعہ]] معاصر علما نے آیات افک کو ماریہ قبطیہ سے مربوط سمجھا ہے۔<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> ان علما میں [[سید ابوالقاسم خویی]]،<ref>خویی، صراطالنجاة، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۶۳.</ref> [[سید جعفر مرتضی عاملی]]<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۳۸۱-۳۸۲.</ref> اور [[سید مرتضی عسکری]]<ref>عسکری، احادیث امالمؤمنین عایشه، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۸۶-۱۸۷.</ref> قابل ذکر ہیں۔ [[شیخ مفید]] نے حدیث ماریہ کے نام سے ایک رسالہ [[رسالة حول خبر ماریة (کتاب)|رِسالةٌ حَولَ خَبَرِ ماریة]] کے نام سے لکھآ ہے اس میں اس حدیث کو مسلم سمجھتے ہوئے سب علما کے ہاں اس حدیث کا ثابت ہونے کو ذکر کیا ہے؛<ref>شیخ مفید، رسالة حول خبر ماریه، ۱۴۱۳ق، ص۱۸.</ref> لیکن جس حدیث کو نقل کیا ہے اس میں آیات افک کے نزول کا ذکر نہیں ہے؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۴.</ref> اسی طرح بعض دیگر منابع میں بھی آیات افک کے نزول کا تذکرہ کئے بغیر واقعہ ماریہ قبطیہ ذکر ہوا ہے ان منابع میں [[الامالی (سید مرتضی)|امالی سیدِ مرتضی]]،<ref>سید مرتضی، امالیالمرتضی، ۱۹۹۸م، ج۱، ص۷۷.</ref> [[الهدایة الکبری (کتاب)|الهدایة الکبری]]،<ref>خصیبی، الهدایة الکبری، ۱۴۱۹ق، ص۲۹۷-۲۹۸.</ref> [[دلائل الامامة (کتاب)|دلائلالامامه]]<ref>طبری، دلائلالامامه، ۱۴۱۳ق، ص۳۸۶-۳۸۷.</ref> اور [[مناقب آل ابیطالب (کتاب)|المناقب]]<ref>ابنشهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۲۵.</ref> شامل ہیں۔ اہل سنت علما نے آیات افک کے ذیل میں منافقین کی طرف سے عائشہ پر تہمت لگانے کا تذکرہ کیا ہے البتہ ماریہ پر تہمت کا واقعہ بھی اہل سنت مآخذ میں ذکر ہوا ہے۔ ان مآخذ میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۳۹.</ref> الطبقات الکبری،<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۱۷۲.</ref> اَنسابالاَشراف،<ref>بلاذری، انسابالاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۵۰.</ref> [[المستدرک علی الصحیحین|المُستدرَکُ علی الصَّحیحَین]]<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق ج۴، ص۴۱.</ref> اور صَفوة الصَّفوة<ref>ابنجوزی، صفوةالصفوة، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۳۴۵.</ref> شامل ہیں۔ | ||
==دونوں اقوال پر اعتراضات== | |||
===عائشہ سے مربوط قول پر اعتراضات=== | ===عائشہ سے مربوط قول پر اعتراضات=== | ||
یہ [[حدیث]] اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ [[شیعہ]] محققین [[ازواج رسول|ازواج مطہرات]] کو ناروا تہمتوں سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عائشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے [[آیات افک]] کو کسی اور واقعے سے متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عائشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ منجملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف ہے، تمام روایات کا سلسلہ سند خود حضرت عائشہ تک منتہی ہوتا ہے، جبکہ روایات کی سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، 1426ھ، ج12، ص 77-78، 81، 97۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عائشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائے دی۔ حالانکہ اس وقت اسامہ چھوٹا تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص307۔</ref> | یہ [[حدیث]] اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ [[شیعہ]] محققین [[ازواج رسول|ازواج مطہرات]] کو ناروا تہمتوں سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عائشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے [[آیات افک]] کو کسی اور واقعے سے متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عائشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ منجملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف ہے، تمام روایات کا سلسلہ سند خود حضرت عائشہ تک منتہی ہوتا ہے، جبکہ روایات کی سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، 1426ھ، ج12، ص 77-78، 81، 97۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عائشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائے دی۔ حالانکہ اس وقت اسامہ چھوٹا تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص307۔</ref> |