confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (واقعہ ماریہ) |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
[[اهل سنت و جماعت|اهلسنت]] آیات افک کو عائشہ کی شان میں نازل ہونے کو ایک فضیلت سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۳، ص۳۳۸؛ ابناثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۹۱.</ref> یہ بات اگرچہ اہل سنت کی مختلف روایات میں ذکر ہوئی ہے لیکن شیعہ مورخ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] کا کہنا ہے کہ ان تمام روایتوں کی روای عائشہ ہی ہیں۔<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۰.</ref> بعض محققین کا کہنا ہے کہ عائشہ نے اس حادثے کو شخصی مسئلے میں تبدیل کیا ہے۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲.</ref> اور حد سے زیادہ اپنے پر توجہ دے کر اسے اپنے لئے ایک فضیلت بنایا ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی وجہ سے شیعہ اس واقعے کی صحت میں تردید کرتے ہیں۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آیات افک اگر عائشہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہوں بھی تو یہ صرف عائشہ کی پاکدامنی پر دلالت ہے اس کے لئے کوئی اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.</ref> | [[اهل سنت و جماعت|اهلسنت]] آیات افک کو عائشہ کی شان میں نازل ہونے کو ایک فضیلت سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۳، ص۳۳۸؛ ابناثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۹۱.</ref> یہ بات اگرچہ اہل سنت کی مختلف روایات میں ذکر ہوئی ہے لیکن شیعہ مورخ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] کا کہنا ہے کہ ان تمام روایتوں کی روای عائشہ ہی ہیں۔<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۰.</ref> بعض محققین کا کہنا ہے کہ عائشہ نے اس حادثے کو شخصی مسئلے میں تبدیل کیا ہے۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲.</ref> اور حد سے زیادہ اپنے پر توجہ دے کر اسے اپنے لئے ایک فضیلت بنایا ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی وجہ سے شیعہ اس واقعے کی صحت میں تردید کرتے ہیں۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارشهای حادثه افک»، ص۵۲؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.</ref> اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آیات افک اگر عائشہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہوں بھی تو یہ صرف عائشہ کی پاکدامنی پر دلالت ہے اس کے لئے کوئی اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.</ref> | ||
===اس | ==دوسرا قول: ماریہ قبطیہ پر تہمت== | ||
آیات افک کا ماریہ قبطیہ سے مربوط ہونظ کی روایت روایت پہلی بار [[تفسیر علی بن ابراہیم قمی]] میں نقل ہوئی ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخیـتفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.</ref> [[علی بن ابراہیم قمی]] کی [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقرؑ]] سے منقول روایت کے مطابق [[عایشہ]] نے [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر جریح قبطی نامی شخص کے ساتھ غلط رابطہ رکھنے کی تہمت لگائی تھی۔<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> اس روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے جس وقت آپ اپنے بیٹے [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] کی موت کی وجہ سے غمگین تھے، کہا آپ ان کی موت پر کیوں غمگین ہیں؟ حالانکہ وہ تو آپ کی نسل میں سے نہیں تھا بلکہ وہ تو جریح کا بیٹا تھا۔<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> اس کے بعد [[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] کو جریح قتل کرنے کیلئے بھیجا۔<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> جریح کو جب حضرت علیؑ کے ارادے کا پتہ چلا تو جان بچانے کے لئے کسی درخت پر چڑھ گیا<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> اس دوران اس کا لباس بدن سے ہٹ گیا تو امام علیؑ کو پتہ چلا کہ اس شخص کا تو آلت تناسل ہی نہیں ہے۔<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> یوں ماریہ پر لگائی گئی تہمت سرے سے ہی ختم ہو گئی اور پھر آیات افک نازل ہوئیں۔<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> | |||
کہا جاتا ہے کہ صرف [[شیعہ]] معاصر علما نے آیات افک کو ماریہ قبطیہ سے مربوط سمجھا ہے۔<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> ان علما میں [[سید ابوالقاسم خویی]]،<ref>خویی، صراطالنجاة، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۶۳.</ref> [[سید جعفر مرتضی عاملی]]<ref>عاملی، حدیثالافک، ۱۴۳۹ق، ص۳۸۱-۳۸۲.</ref> اور [[سید مرتضی عسکری]]<ref>عسکری، احادیث امالمؤمنین عایشه، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۸۶-۱۸۷.</ref> قابل ذکر ہیں۔ [[شیخ مفید]] نے حدیث ماریہ کے نام سے ایک رسالہ [[رسالة حول خبر ماریة (کتاب)|رِسالةٌ حَولَ خَبَرِ ماریة]] کے نام سے لکھآ ہے اس میں اس حدیث کو مسلم سمجھتے ہوئے سب علما کے ہاں اس حدیث کا ثابت ہونے کو ذکر کیا ہے؛<ref>شیخ مفید، رسالة حول خبر ماریه، ۱۴۱۳ق، ص۱۸.</ref> لیکن جس حدیث کو نقل کیا ہے اس میں آیات افک کے نزول کا ذکر نہیں ہے؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۴.</ref> اسی طرح بعض دیگر منابع میں بھی آیات افک کے نزول کا تذکرہ کئے بغیر واقعہ ماریہ قبطیہ ذکر ہوا ہے ان منابع میں [[الامالی (سید مرتضی)|امالی سیدِ مرتضی]]،<ref>سید مرتضی، امالیالمرتضی، ۱۹۹۸م، ج۱، ص۷۷.</ref> [[الهدایة الکبری (کتاب)|الهدایة الکبری]]،<ref>خصیبی، الهدایة الکبری، ۱۴۱۹ق، ص۲۹۷-۲۹۸.</ref> [[دلائل الامامة (کتاب)|دلائلالامامه]]<ref>طبری، دلائلالامامه، ۱۴۱۳ق، ص۳۸۶-۳۸۷.</ref> اور [[مناقب آل ابیطالب (کتاب)|المناقب]]<ref>ابنشهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۲۵.</ref> شامل ہیں۔ اہل سنت علما نے آیات افک کے ذیل میں منافقین کی طرف سے عائشہ پر تہمت لگانے کا تذکرہ کیا ہے البتہ ماریہ پر تہمت کا واقعہ بھی اہل سنت مآخذ میں ذکر ہوا ہے۔ ان مآخذ میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۳۹.</ref> الطبقات الکبری،<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۱۷۲.</ref> اَنسابالاَشراف،<ref>بلاذری، انسابالاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۵۰.</ref> [[المستدرک علی الصحیحین|المُستدرَکُ علی الصَّحیحَین]]<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق ج۴، ص۴۱.</ref> اور صَفوة الصَّفوة<ref>ابنجوزی، صفوةالصفوة، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۳۴۵.</ref> شامل ہیں۔ | |||
===عائشہ سے مربوط قول پر اعتراضات=== | |||
یہ [[حدیث]] اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ [[شیعہ]] محققین [[ازواج رسول|ازواج مطہرات]] کو ناروا تہمتوں سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عائشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے [[آیات افک]] کو کسی اور واقعے سے متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عائشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ منجملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف ہے، تمام روایات کا سلسلہ سند خود حضرت عائشہ تک منتہی ہوتا ہے، جبکہ روایات کی سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، 1426ھ، ج12، ص 77-78، 81، 97۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عائشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائے دی۔ حالانکہ اس وقت اسامہ چھوٹا تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص307۔</ref> | یہ [[حدیث]] اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ [[شیعہ]] محققین [[ازواج رسول|ازواج مطہرات]] کو ناروا تہمتوں سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عائشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے [[آیات افک]] کو کسی اور واقعے سے متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عائشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ منجملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف ہے، تمام روایات کا سلسلہ سند خود حضرت عائشہ تک منتہی ہوتا ہے، جبکہ روایات کی سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، 1426ھ، ج12، ص 77-78، 81، 97۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عائشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائے دی۔ حالانکہ اس وقت اسامہ چھوٹا تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص307۔</ref> | ||
سطر 37: | سطر 42: | ||
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر [[قذف]] کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور [[سورہ نور]] کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کی گئی؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 102-130؛ مکارم شیرازی، 1421ھ، ج11، ص 41۔</ref> | دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر [[قذف]] کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور [[سورہ نور]] کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کی گئی؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 102-130؛ مکارم شیرازی، 1421ھ، ج11، ص 41۔</ref> | ||
=== | ===ماریہ سے مربوط قول پر اعتراضات=== | ||
دوسری طرف سے بعض معاصر شیعہ محققین نے آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی رد کئے ہیں۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، 1384ہجری شمسی، ص 666؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص 172۔</ref> ان کا کہنا ہے کہ اس احتمال پر سب سے اہم ااعتراض یہ ہے کہ اس واقعہ اور مذکورہ آیات کے مضامین آپس میں سازگاری نہیں رکھتے، وہ یہ کہ ان آیات میں تہمت لگانے والوں کو ایک گروہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جبکہ ماریہ قبطیہ کے واقعے میں تہمت لگانے والی صرف حضرت عائشہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس [[حدیث|روایت]] کے مطابق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے صرف حضرت عائشہ کے کہنے پر بغیر کسی تحقیق اور اس کے جرم کو شرعی قوانین کے مطابق ثابت کئے بغیر اس فرد کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، یہ کام پیغمبر اکرمؐ سے محال ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 41۔</ref> | دوسری طرف سے بعض معاصر شیعہ محققین نے آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی رد کئے ہیں۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، 1384ہجری شمسی، ص 666؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص 172۔</ref> ان کا کہنا ہے کہ اس احتمال پر سب سے اہم ااعتراض یہ ہے کہ اس واقعہ اور مذکورہ آیات کے مضامین آپس میں سازگاری نہیں رکھتے، وہ یہ کہ ان آیات میں تہمت لگانے والوں کو ایک گروہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جبکہ ماریہ قبطیہ کے واقعے میں تہمت لگانے والی صرف حضرت عائشہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس [[حدیث|روایت]] کے مطابق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے صرف حضرت عائشہ کے کہنے پر بغیر کسی تحقیق اور اس کے جرم کو شرعی قوانین کے مطابق ثابت کئے بغیر اس فرد کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، یہ کام پیغمبر اکرمؐ سے محال ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 41۔</ref> | ||