مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ عاشورا کے اعداد و شمار" کے نسخوں کے درمیان فرق

واقعۂ عاشورا کے اعداد و شمار سے رجوع مکرر ہٹایا
(واقعۂ عاشورا کے اعداد و شمار سے رجوع مکرر ہٹایا)
ٹیگ: رجوع مکرر ہٹایا
سطر 1: سطر 1:
#رجوع_مکرر [[واقعۂ عاشورا کے اعداد و شمار]]
{{محرم کی عزاداری}}
'''واقعۂ عاشورا کے اعداد و شمار''' سے مراد سنہ 61 ہجری قمری کی دس محرم الحرام کو [[حضرت امام حسین علیہ السلام]] اور [[یزید بن معاویہ]] کے  لشکر کے ساتھ ہونے والی جنگ  کو مختلف اعداد و شمار کی روشنی میں بیان کرنا ہے۔ یہ جنگ یزید بن معاویہ کی جانب سے حضرت امام حسین علیہ السلام سے [[بیعت]] کے مطالبے کے نتیجے میں عراق کے شہر [[کربلا]] میں ہوئی جس میں [[7 محرم|سات محرم]] کو پانی بند کر دیا گیا اور دس محرم کو امام حسین اور انکے ساتھیوں کو پیاسا [[شہید]] کر دیا گیا اور ان کے ساتھ آنے والی مستورات اور بچوں کو اسیر کر کے [[کوفہ]] و شام لے جایا گیا۔ہر سال اسی مناسبت سے [[اہل تشیع]]، [[محرم]] کے دس دن [[حضرت امام حسین علیہ السلام]] کی [[عزاداری]] برپا کرتے ہیں۔
 
==کوفیوں کے خطوط امام حسین(ع) کے نام==
مؤرخین نے [[مکہ]] میں کوفیوں کی جانب سے [[کوفیوں کے خطوط امام حسین(ع) کے نام|امام حسین(ع) کو ملنے والے خطوط]] کی تعداد مختلف بتائی ہے:
# ایک جماعت نے لکھا ہے کہ ہر خط ایک، دو یا چار افراد نے لکھا تھا.<ref>ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص29.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص38.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، 98.</ref>.<ref>ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج5 ص327.</ref>.<ref>خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص283.</ref>.<ref>اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253.</ref>.<ref>محمد بن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب الرسول(صلی اللہ علیہ وآلہ)، ج2، ص71.</ref>.<ref>سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمۃ(علیہم السلام)، ج2، ص146.</ref>.<ref>سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص24.</ref>.<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص162.</ref>.<ref>ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص302.</ref>
# طبری نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد 53 تھی<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص262.</ref> وہ لکھتے ہیں: "... فحملوا معہم نحواً من ثلاثۃ و خمسین صحیفۃ ... "، تا ہم بعض معاصر محققین نے لفظ "ثلاثہ" کو "مائہ" کی تصحیف<ref>تصحیف کے معنی لغت میں خطا کے ہیں، تصحیف تحریف ہی کا ایک حصہ ہے، جس میں الفاظ میں لفظی اور تحریری شباہت کی وجہ سے لفظ کی تبدیلی معرض وجود میں آتی ہے؛ فَراہیدی، العین، ج3، ص120. ذیل لفظ "صحف".</ref> قرار دیا ہے اور طبری کی روایت میں خطوط کی تعداد کو 150 قرار دیا ہے. انھوں نے [[شیخ مفید]]، [[احمد بن اعثم کوفی|ابن اعثم کوفی]]، [[موفق بن احمد خوارزمی|خوارزمی]] اور سبط بن جوزی کے قول کو اپنی اس توجیہ کی بنیاد قرار دیا ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد 150 ہے؛ اور انھوں نے بظاہر اپنا یہ قول [[ابو مخنف]] سے اخذ کیا ہے.<ref>محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص93.</ref> لیکن متن میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ بلاذری ـ جنہوں نے بظاہر اپنا قول [[ابو مخنف]] سے اخذ کیا ہے ـ خطوط کی تعداد 50 بتائی ہے؛ جبکہ [[سبط بن جوزی]] نے خطوط کی تعداد 150 بتائی ہے اور ان کا ماخذ [[ابن اسحق]] کا قول ہے نہ کہ ابومخنف کا قول.<ref>محمد ہادی یوسفی غروی، وہی ماخذ، ص244.</ref>
# بلاذری نے خطوط کی تعداد 50 بتائی ہے.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص370.</ref>
# ابن سعد نے خطوط لکھنے والے افراد کی تعداد 18000 ذکر کی ہے.<ref>محمد بن سعد، ترجمۃ الحسین(علیہ‌السلام)، ص174.</ref>
 
مؤرخین کے اقوال سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ عدد "150" حقیقت سے قریب تر ہے کیونکہ اس عدد کے قائلین کی تعداد کثیر اور نقل کرنے والے مآخذ قدیم ہیں.
 
== کوفہ  ==
===حضرت مسلم کےساتھ بیعت کرنے والے===
[[مسلم بن عقیل]] کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے کوفیوں کی تعداد مختلف تاریخی مآخذ میں مختلف، نقل ہوئی ہے:
# بہت سے مآخذ میں بیعت کرنے والے افراد کی تعداد 18000 بتائی گئی ہے،<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص275.</ref>.<ref>ابوحنیفہ دینوری، الاخبار الطوال، ص235.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص41.</ref>.<ref>ابن جوزی، وہی ماخذ، ج5، ص325.</ref>.<ref>سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص141.</ref>.<ref>ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص21.</ref>.<ref>سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص25.</ref>.<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص299.</ref>.<ref>ابن عنبہ، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص191ـ 192.</ref>
# بعض دیگر نے یہ تعداد 12000 ذکر کی ہے.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص259 بحوالہ از عمار دہنی.</ref>.<ref>ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص302.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص99.</ref>.<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص306.</ref>.<ref>احمد بن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، ص196.</ref> مسعودی .<ref>مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص65.</ref> اور سبط بن جوزی<ref>سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص141.</ref> نے عدد "18ہزار" کو "قول دیگر" کے عنوان سے ذکر کیا ہے،
# [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] سے منقولہ روایت کے حوالے سے بیعت کرنے والوں کی تعداد 20000 بیان ہوئی ہے.<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج11، ص43.</ref>.<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص68.</ref> لیکن بعض دیگر مآخذ میں یہ تعداد 20 ہزار کے بجائے، 18 ہزار نقل ہوئی ہے.<ref>سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص188.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج27، ص212.</ref>  [[خواند میر]]<ref>غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی المعروف بہ خواند میر.</ref> نے بھی اسی قول کی طرف اشارہ کیا ہے،<ref>تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، ج2، ص42.</ref>
# ابن اعثم اور موفق بن احمد خوارزمی  کے مطابق بیعت کنندگان کی تعداد 20ہزار سے زائد تھی،<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص40.</ref>.<ref>خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص290.</ref>
# [[ابن شہر آشوب]] کے بقول یہ تعداد 25000 تھی. انھوں نے [[مسلم بن عقیل]] کے [[ہانی بن عروہ]] کے گھر میں قیام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس عدد نقل کرنے کے بعد یہ اعداد و شمار بیان کئے ہیں.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص99.</ref>
# ابن قتیبہ دینوری <ref>ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج2، ص8.</ref> اور ابن عبدربہ<ref> احمدبن محمد بن عبد ربہ‌اندلسی، العقد الفرید، ج4، ص354.</ref> نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد 30000 تھی،
# ابن عساکر <ref>ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص284.</ref> اور [[ابن نما حلی]] نے (دوسرے حوالے سے) یہ تعداد 40000 بیان کی ہے.<ref>ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص16.</ref>
 
ایک روایت کے مطابق [[زید بن علی بن الحسین(ع)|زید بن علی]] نے "سلمہ بن کہیل" کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 80000 افراد نے ان کے جد امجد [[امام حسین علیہ السلام]] کے ساتھ بیعت کی تھی<ref>طبری، وہی ماخذ، ج5، ص489 (سنہ 121 ہجری کے واقعات).</ref> یہ تعداد اس تعداد کے قریب ہے جنہوں نے [[یزید بن معاویہ|یزیدی]] لشکر کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی.
 
طبری نے [[ابو مخنف]] کے حوالے سے لکھا ہے کہ 18000 افراد نے [[مسلم بن عقیل]] کے ہاتھ پر بیعت کی تھیں، اور روایت زیادہ معتبر ہے کیونکہ قدیم مآخذ میں اس کی تائید ملتی ہے.
 
=== جنگ کے لئے تیارکوفیوں کی تعداد===
بعض مآخذ میں منقول ہے کہ [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے خلاف لڑنے کے لئے تیار اور پا بہ رکاب افراد کی تعداد 100000 تھی.<ref>ابن سعد، ترجمۃ الحسین ومقتلہ، ص174.</ref>.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص422.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص294.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص71.</ref>.<ref>ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص16.</ref>.<ref>سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص133.</ref>.<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص299.</ref>
 
===مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد===
ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں: [[مسلم بن عقیل]] کے قیام کے وقت کوفی ان کے گرد جمع ہوئے یہاں تک کہ [[کوفہ]] کا بازار اور [[مسجد]] میں سوئی برابر جگہ نہ رہی.<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص70ـ71.</ref>
# ابن سعد <ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص175.</ref> اور ذہبی <ref>ذہبی، سیراعلام النبلاء، ج3، ص299.</ref> لکھتے ہیں کہ مسلم کے ساتھ اٹھنے والے کوفیوں کی تعداد 400 تھی. طبری نے بھی یہ قول عمار دہنی سے بحوالۂ ابو مخنف<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص260.</ref> اور [[شیخ مفید]] <ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص52.</ref> نقل کیا ہے.
# [[ابن اعثم]]،<ref>ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص49.</ref> مسعودی<ref>مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج3، ص68.</ref> اور خوارزمی<ref>خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص297.</ref> نے یہ تعداد 18000 بیان کی ہے.
# [[ابن شہرآشوب]]، کے مطابق ان کی تعداد 8000 تھی.<ref>ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص101.</ref>
#و [[ابن حجر عسقلانی]] کے بقول مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد کی تعداد 40000 تھی.<ref>عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص303.</ref>
 
بايں حال، 4000 افراد کے حضرت مسلم کے ساتھ قیام کرنے کے حوالے سے طبری کا قول ـ جو انھوں نے [[ابو مخنف]] اور [[شیخ مفید]] سے نقل کیا ہے ـ زیادہ معتبر ہے.
 
===مسلم کے محاصرہ کنندگان===
[[مسلم بن عقیل]] کی گرفتاری کے لئے [[کوفہ|کوفی]] پولیس کے سربراہ کے ساتھ جانے والے افراد کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں؛ بعض مآخذ نے ان افراد کی تعداد 60 اور بعض نے 70 بتائی ہے<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص279.</ref>.<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص69.</ref>.<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص69.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص57.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص443.</ref>.<ref>ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص24.</ref> اور بعض کے مطابق ان کی تعداد 100<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص240.</ref> یا 300<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص53.</ref> تھی.
 
==امام کے سفر کی مدت==
[[امام حسین کا قیام|امام حسین(ع)  کا قیام]]، ـ [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] سے انکار سے [[عاشورا]] کے دن آپ(ع) کی شہادت تک ـ 175 دن تک جاری رہا:
* [[بیعت]] سے انکار سے [[مکہ]] کی طرف [[ہجرت]] تک 12 دن [[مدینہ]] میں رہے؛
* 4 مہینے اور 10 دن مکہ میں قیام کیا؛
* 23 دن کی مدت مکہ سے [[کربلا]] تک سفر میں صرف ہوئی؛
* 2 محرم الحرام سے 10 [[محرم الحرام|محرم]] تک [[کربلا]] میں قیام کیا.
 
===منازل کی تعداد===
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے [[مکہ]] سے [[کوفہ]] تک 18 منزلیں طے کیں. ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا.
 
== اصحاب امام حسین(ع) کےاعداد و شمار==
{{اصلی|شہدائے کربلا}}
افسوسناک امر ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے اصحاب کے اصحاب کے صحیح اعداد و شمار کے تعین کے لئے کوئی بھی روش موجود نہیں ہے اور درجہ اول کے مستندات و شواہد ـ یعنی عینی شاہدین نے اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی ہیں؛ نیز [[تاریخ]] و [[حدیث]] کے مآخذ میں اصحاب کے ناموں کے ثبت و ضبط کرنے میں بھی کسی جانے پہچانے قاعدے اور نظم کو بروئے کار نہیں لایا گیا ہے. مثال کے طور پر ایک فرد کے نام، کنیت، والد یا والدہ کے نام، حتی کہ نسل اور قبیلے کے مد نظر رکھ کر مختلف ناموں سے متعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف سے اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|سیدالشہداء(ع)]] کے اصحاب کی تعداد بھی تمام مراحل میں ایک جیسی نہیں تھی.
 
چنانچہ امکان کی حد تک واضح اور روشن اعداد و شمار پیش کرنے کے لئے، اوقات اور مقامات کے لحاظ سے قیام [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) کے چار مراحل کو مدن نظر رکھ کر اعداد و شمار کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
 
===مدینہ سے ہجرت کے وقت===
بہت سے مآخذ نے اس مرحلے میں [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے ساتھیوں کی تعداد کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے.<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص228.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص253.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص34.</ref>.<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص22.</ref>.<ref>فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص171.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص435.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص273.</ref>.<ref>سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ص236.</ref>
 
واحد روایت جو آپ(ع) کے ساتھ [[مدینہ]] سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد پر دلالت کرتی ہے وہی ہے جو [[شیخ صدوق]] نے [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق علیہ السلام]] سے نقل کی ہے. اس روایت کے مطابق اس ہجرت کے دوران [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے ساتھ روانہ ہونے والے افراد کی تعداد 19 تھی جن میں اہل خانہ اور [[اصحاب امام حسین علیہ السلام|اصحاب]] شامل تھے.<ref>شیخ صدوق، الامالی، مجلس30، ح1، ص217.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج44، ص313.</ref>
 
=== مکہ سے کربلا روانہ ہوتے وقت ===
# '''ابن سعد کی  روایت''': <br/> ابن سعد کا کہنا ہے کہ [[مکہ]] سے [[عراق]] عزیمت کرتے وقت [[امام حسین علیہ السلام]] کے ہمراہ اصحاب میں سے 60 اور [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] میں سے (مردوں، خواتین اور بچوں سمیت) 19 افراد تھے.<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص170.</ref>
# '''ابن عساکر اور ابن کثیر کی روایت''': <br/> ان دو مؤرخین نے [[امام حسین|امام علیہ السلام]] کے خاندان کے افراد کی تعداد بیان کئے بغیر لکھا ہے کہ [[کوفہ]] کے 60 مرد آپ(ع) کے ہمراہ تھے.<ref>ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص299.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص178.</ref>
# '''ابن قتیبہ دینوری اور ابن عبد ربہ کی روایت''': <br/> ان دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ [[مسلم بن عقیل]] کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی شہادت کے وقت ـ جو [[مکہ]] سے [[امام حسین|امام(ع)]] کی روانگی کے وقت واقع ہوئی ـ بیان کیا تھا کہ کہ 90 افراد [[امام حسین|امام(ع)]] کے ساتھ آرہے ہیں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں.<ref>ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، ج2، ص10.</ref>.<ref>ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج4، ص355.</ref>
# '''ابن اعثم، ابن طلحہ، اربلی اور ابن صباغ کی روایت''': <br/> ابن اعثم، خوارزمی، محمد بن طلحہ شافعی، اربلی اور ابن صباغ مالکی نے لکھا ہے کہ [[امام حسین|امام علیہ السلام]] کی [[مکہ]] سے روانگی کے وقت آپ کے ساتھ 82 افراد تھے.<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص69.</ref>.<ref>خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص317.</ref>.<ref>محمد بن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، ج2، ص73.</ref>.<ref>اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253.</ref>.<ref>ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ج2، ص6.</ref> <br/> البتہ ان مآخذ نے لکھا ہے کہ امام(ع) کے تمام ساتھیوں کی تعداد اتنی تھی اور ان میں خواتین اور بچے اور افراد خاندان اور اصحاب، سب شامل تھے.
# '''ابن کثیر کا دوسرا قول''': <br/> ابن کثیر ایک دوسری روایت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد تقریبا 300 تھی.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج6، ص259.</ref>
 
===کربلا میں (عاشورا سے قبل)===
اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے اقوال مختلف ہیں؛ جیسے:
# '''145 افراد''': <br/> [[عمار دہنی|عمّار دہنی]]  نے [[امام باقر(ع)|امام باقر علیہ السلام]] کے حوالے سے لکھا ہے کہ [[کربلائے معلی|کربلا]] میں داخلے کے وقت 145 افراد [[امام حسین علیہ السلام]] کے ہمراہ تھے، (100 پیادے اور 45 سوار).<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص292.</ref>.<ref>یحیی بن حسین بن اسماعیل جرجانی شجری، الامالی الخمیسیہ، ج1، ص191ـ 192.</ref>.<ref>سید ابن طاووس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص60.</ref>.<ref>ذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج3، ص308.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص214.</ref>.<ref>عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص71.</ref>.<ref>عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص304.</ref> گوکہ [[ابن نما حلی]] کا کہنا ہے کہ [[امام باقر(ع)]] سے [[عمار دہنی]] کی منقولہ روایت کا تعلق روز [[عاشورا]] سے ہے.<ref>ابن نما، مثیر الاحزان، ص39.</ref>
# '''89 افراد''': <br/> بعض مؤرخین نے [[امام حسین]] علیہ السلام کے ساتھ [[کربلائے معلی|کربلا]] میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد 89 بیان کی ہے؛ تفصیل یہ کہ 50 افراد [[امام حسین|امام(ع)]] کے اصحاب تھے، دشمن کی سپاہ سے 20 افراد آپ(ع) سے جاملے، اور 19 افراد کا تعلق آپ(ع) کے اپنے خاندان سے تھا.<ref>وہی ماخذ، ص178.</ref>.<ref>ابن عساکر، وہی ماخذ، ص329.</ref>.<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص298 و 300.</ref> ذہبی نے اس سے قبل اسی کتاب کی اسی جلد میں لکھا ہے کہ [[امام حسین]] علیہ السلام کے ساتھ سواروں کی تعداد 32 تھی.<ref>وہی ماخذ، ص177.</ref>
# '''62 یا 72 افراد''': <br/> یعقوبی لکھتے ہیں کہ اصحاب اور خاندان [[امام حسین|امام(ع) سے مجموعی طور پر 62 یا 72 افراد آپ(ع) کے ساتھ کربلا آئے تھے.<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص243.</ref>
# '''500 افراد''': <br/> مسعودی وہ واحد مؤرخ ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ [[حر بن یزید ریاحی|حُرّ]] کے لشکر کے ساتھ [[کربلا]] روانہ ہوتے وقت 500 سوار اور 100 پیدل افراد [[امام حسین|امام(ع)]] کے ہمراہ تھے. [[سبط بن جوزی|ابن جوزی]] <ref>ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص161.</ref> اور [[علامہ محمد باقر مجلسی|مجلسی]]<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص74.</ref> نے یہ روایت مسعودی سے نقل کی ہے<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص71.</ref> لیکن امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 500 سواروں کے بجائے 1000 سوار بیان کی ہے.
# '''82 افراد''': <br/> [[ابن شہر آشوب]] نے [[امام حسین|امام علیہ السلام]] کے ساتھیوں کی تعداد (عاشورا سے قبل) 82، بیان کی ہے.<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص107.</ref>
#'''70 افراد''': <br/> ابن أبار بَلَنْسی (متوفٰی 658ہجری<ref>بَلَنسیہ، ایک علاقے اور شہر کا نام ہے جو اسپانیا کے مشرق میں واقع ہے اور اس وقت "ویلنسیا" (València) کہلاتا ہے.</ref> لکھتے ہیں کہ سواروں اور پیادوں کی تعداد 70 سے زیادہ تھی.<ref>ابن ابار، محمد بن عبداللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، ص104.</ref>
 
مندرجہ بالا روایات اور دیگر روایات سے بحیثیت مجموعی یہی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ [[امام حسین|امام حسین علیہ السلام]] کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے 90 تک تھی.
 
=== روز عاشورا ===
{{ستون آ|2}}
# '''72 افراد''': <br/> مشہور ترین ـ اور سب سے زیادہ نقل ہونے والے ـ کے قول کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]]  کے ساتھی 72 تھے. [[ابو مخنف]] نے [[ضحاک بن عبداللہ مشرقی|ضحّاک بن عبداللہ مشرقی]]، کے حوالے سے لکھا ہے کہ [[عاشورا]] کے دن [[امام حسین علیہ السلام]] کے ساتھیوں کی تعداد 72 تھی (32 سوار اور 40 پیادے).<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص320.</ref>.<ref>شیخ مفید، وہی ماخذ، ج2، ص95.</ref> بہت سے مؤرخین اس قول کے قائل ہوئے ہیں: <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج3، 395.</ref>.<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص256.</ref>.<ref>ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص101.</ref>.<ref>قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار، ج3، ص155.</ref>.<ref>طبری، دلائل الامامہ، ص178.</ref>.<ref>فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص184.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص457.</ref>.<ref>خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج2، ص6.</ref>.<ref>ابن جوزی، المنتظم، ج5، ص339.</ref>.<ref>عماد الدین طبری، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، ج2، ص281.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص192.</ref>
# '''100 افراد''': <br/> "حصین بن عبدالرحمن" نے "سعد بن عبیدہ" کے حوالے سے کہا ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کی سپاہ [[عاشورا]] کے دن 100 کے قریب تھی.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص295.</ref>.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص424.</ref>.<ref>شمس الدین ذہبی، تاریخ الاسلام، ج5، ص15.</ref>
# '''300 افراد''': <br/> طبری نے [[زید بن علی]] کے حوالے سے [[امام حسین علیہ السلام]] کے ساتھیوں کی تعداد 300 بیان کی ہے.<ref>شمس الدین ذہبی، ج5، ص489. (ذیل حوادث سال 121).</ref>.
# '''70 افراد''': <br/> [[قاضی نعمان مغربی]] لکھتے ہیں کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے کم تھی.<ref>وہی ماخذ، ج3، ص154.</ref>.<ref>ابوزید احمد بن سہل بلخی، البدء والتاریخ، ج2، ص241.</ref>
# '''61 افراد''': <br/> کتاب [[اثبات الوصیہ]] کے مؤلف [[علی بن حسین مسعودی]] کے مطابق اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کی تعداد 61 تھی.<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص166.</ref>
# '''114 افراد''': <br/> خوارزمی ایک روایت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|مام(ع)]] کی تعداد 114 تھی.<ref>محمد بن ابی طالب حسینی موسوی، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، ج2، ص275</ref>.<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص4.</ref>
# '''145 افراد''': <br/> [[سبط بن جوزی]] لکھتے ہیں کہ روز [[عاشورا]] [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے ساتھیوں کی تعداد 145 تھی جن میں سے 45 سوار اور 100 پیادے تھے.<ref>تذکرۃ الخواص، ج2، ص160.</ref>
# '''80 افراد''': <br/> [[ابن حجر ہیتمی]] (متوفٰی 974 ہجری) کے قول کے مطابق 80 افراد [[عاشورا]] کے دن [[امام حسین علیہ السلام]] کے ساتھ تھے.<ref> الصواعق المحرقہ، ص197.</ref>
{{ستون خ}}
بہرصورت عدد 72 افراد والی روایت چونکہ قدیم اور معتبر کتب میں نقل ہوئی ہے اور اس کے راویوں کی تعداد بھی کثیر ہے چنانچہ یہ روایت زیادہ قابل اعتماد اور قابل قبول ہے.
 
==عمر سعد کا لشکر==
 
===لشکر کی تعداد===
{{ستون آ|2}}
# '''22000 افراد''': <br/> بعض مؤرخین نے دشمنان [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) کے سپہ سالاروں اور ان کے ماتحت افراد کی تعداد 22000 افراد بیان کی ہے.<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص84 ـ 90 و ص101.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص341ـ 345.</ref>.<ref>ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ج1، ص67.</ref>.<ref>مجلسی، وہی ماخذ، ج44، ص386.</ref>
# '''30000 افراد''': <br/> [[شیخ صدوق]] [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجاد(ع)]] اور [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق(ع)]] سے منقولہ روایات کے مطابق، [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لشکر کی تعداد 30000 بیان کرتے ہیں.<ref>شیخ صدوق، الامالی، مجلس 24، ص177، ح 3 و مجلس 70، ص547، ح 10.</ref>.<ref>سید ابن طاووس، اللہوف، ص70.</ref>
# '''28000 افراد''': <br/> صاحب کتاب [[اثبات الوصیہ]] نے یہ کتاب 28000 افراد نقل کی ہے.<ref> علی بن حسین مسعودی، اثبات الوصیہ، ص166.</ref>
# '''14000 افراد''': <br/> [[محمد بن جریر طبری شیعی]] <ref>ابوجعفر، محمّد بن جرير بن رستم طبرى آملى مازندرانى المعروف بہ طبری شیعی کتاب "دلائل الامامہ" کے مؤلف ہیں اور وہ محمد بن جریر بن یزید طبری (متوفی 923ہجری) سے بھی مختلف ہیں جو جو اہل سنت کے علماء میں سے ہیں اور مشہور تفسیر اور تاریخ کے مالک ہیں. وہ شیعہ عالم دین محمد بن جریر طبری (چوتھی صدی ہجری کے ابتدائی برسوں میں وفات پاچکے ہیں اور) کتاب "المسترشد" کے مؤلف ہیں، سے بھی مختلف ہیں جن کو شیخ طوسی نے "کبیر" کا لقب دیا ہے. [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A8%D9%86_%D8%AC%D8%B1%DB%8C%D8%B1_%D8%A8%D9%86_%D8%B1%D8%B3%D8%AA%D9%85_%D8%B7%D8%A8%D8%B1%DB%8C محمد بن جریر بن رستم طبری].</ref> نے لکھا ہے کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص]] کے لشکر کی تعداد 14000 تھی.<ref>ابي جعفر محمد بن جرير بن رستم الطبري، دلائل الامامہ، ص178.</ref>
# '''35000 افراد''': <br/> [[ابن شہر آشوب]] نے لکھا ہے کہ [[یزید بن معاویہ|یزیدی]] لشکر کی تعداد 35000 تھی لیکن وہ لشکر کے ہر حصے کے سالاروں اور ان کے زیر فرمان افراد کا ذکر کرتے ہوئے یہ تعداد 25000 تک گھٹا دیتے ہیں.<ref>مناقب آل ابی طالب، ج4، ص106.</ref>
# '''6000 افراد''': <br/> [[سبط ابن جوزی]] نے لشکر ابن سعد کی تعداد 6000 بیان کی ہے.<ref>تذکرۃ الخواص، ج2، ص161.</ref>
# '''20000 افراد''': <br/> [[ابن صباغ مالکی]] لکھتے ہیں کہ چھ [[محرم الحرام]] تک دشمن کی سپاہ کی تعداد 20 تک پہنچ چکی تھی.<ref>ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص191.</ref>
# '''31000 افراد''': <br/> [[ابن عنبہ]] کے مطابق لشکر یزید کی تعداد 31000 تھی.<ref>عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص192.</ref>
# '''32000 یا 17000 افراد''': <br/> [[ملاحسین کاشفی]] 32 ہزار اور 17 ہزار  تعداد بیان کی ہے۔<ref>ملاحسین کاشفی، روضۃ الشہداء، ص346.</ref>
# '''56000''':حسین بن حمدان خصیبی نے سوار اور پیادہ ملا کر چھپن ہزار(56000) تعداد بیان کی ہے<ref>خصیبی ،الہدایۃ الکبری202</ref>
{{ستون خ}}
معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں قابل اعتماد روایت [[شیخ طوسی]] کی ہے جس میں لشکر یزید کی تعداد 30000 بیان کی گئی ہے.
 
===ہالکین کی تعداد===
[[شیخ صدوق]] (متوفی 381 ہجری) ـ اور ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے [[محمد بن فتال نیشابوری]] (متوفی 508 ہجری) ـ لکھتے ہیں کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے بعض ساتھیوں نے یزیدی لشکر کے متعدد افراد کو ہلاک کردیا تھا:
 
{{ستون آ|2}}
* [[حر بن یزید ریاحی|حُرّ بن یزید]]: 18 افراد،
* [[زہیر بن قین]]: 19 افراد،
* [[حبیب بن مظاہر]]: 31 افراد،
* [[عبداللہ بن ابی عروہ غِفاری]]: 20 افراد،
* [[بریر بن خضیر ہمدانی|بُریر بن خُضَیر]]: 30 افراد،
* [[مالک بن انس کاہلی]]: 18 افراد،
* [[یزید بن زیاد بن مہاصر کندی]] (ابوالشعثاء): 9 افراد،[[بلاذری]]<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص405.</ref> اور [[ابن جریر طبری|طبری]] <ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص340.</ref> نے ان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اشقیاء کی تعداد 5 بتائی ہے.
*[[وہب بن وہب|وَہْب بن وَہْب]] (یا عبداللہ بن عمیر کلبی): 7 (یا 8) افراد،
*[[نافع بن ہلال|نافع بن ہلال بن حجاج]]: 13 افراد،<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص404.</ref> طبری<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص336.</ref> نے [[نافع بن ہلال]] کے ہاتھوں ہلاک شدگان کی تعداد 12 بیان کی ہے.
*[[عبداللہ بن مسلم بن عقیل]]: 3 افراد،
*[[علی اکبر علیہ السلام]]: 54 افراد،
*[[قاسم بن حسن|قاسم بن حسن علیہ السلام]]: 3 افراد.<ref>الامالی، مجلس 30، ح1، ص223ـ226.</ref>.<ref>فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص186ـ 188.</ref>
{{ستون خ}}
 
ان اعداد و شمار کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کے بعض اصحاب کے ہاتھوں دشمن کے 225 یا 226 افراد ہلاک ہوچکے ہیں.
 
[[ابن شہر آشوب]]، نے [[شیخ صدوق]] کی بیان کردہ تعداد کی نسبت زیادہ تعداد بیان کی ہے اور بعض اصحاب کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دشمن کے سپاہیوں کی تعداد یوں بیان کی ہے:
{{ستون آ|2}}
* [[حر بن یزید ریاحی|حُرّ بن یزید ریاحی]]: 40 افراد سے زائد،
* [[حبیب بن مظاہر اسدی]]: 62 افراد،
* [[زہیر بن قین]]: 120 افراد،
*[[حجاج بن مسروق]]: 25 افراد،
*[[عون بن عبداللہ بن جعفر]]: 21 افراد،
*[[علی اکبر علیہ السلام]] 70 افراد،
* [[عبداللہ بن مسلم بن عقیل]]: 98 افراد.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص109ـ114.</ref>
{{ستون خ}}
 
==وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے==
اصحاب [[امام حسین علیہ السلام]] کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:
{{ستون آ|2}}
* [[علی اکبر علیہ السلام]]
* [[علی اصغر]](ع)
* [[عمرو بن جنادہ]]
* [[عبداللہ بن یزید]]
* [[مجمع بن عائذ]]
* [[عبدالرحمن بن مسعود]]
{{ستون خ}}
 
==شہدائے کربلا کی تعداد==
بعض مؤرخین نے [[شہدائے کربلا]] کی صحیح فہرست پیش کرنے کی کوشش کی ہے تحقیقی مآخذ محدود ہونے کے بموجب حقیقی اعداد و شمار پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں.
 
===تمام شہداء===
# مشہور ترین قول یہ ہے کہ [[شہدائے کربلا]] کی تعداد 72 ہے.<ref>ابن سعد، ترجمۃ الحسین و مقتلہ، ص184.</ref>.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص411.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص348.</ref>.<ref>ابوعلی مسکویہ رازی، تجارب الامم و تعاقب الہمم، ج2، ص73.</ref>.<ref>طبرسی، تاج الموالید، ص31.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص44.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.</ref>
#  [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر]] اور [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]] علیہما السلام میں سے [[فضیل بن زبیر]] نے روایت کی ہے کہ قیام کے آغاز سے آخر تک تمام شہداء کی تعداد 106 ہے جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو زخمی تھے اور بعد میں شہید ہوئے ہیں: 86 اصحاب اور 20 [[بنو ہاشم|ہاشمی]]،<ref>فضیل بن زبیر کوفی اسدی، "تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)"، بحوالہ فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، ص149ـ 156.</ref>
# [[ابو مخنف]] [[زحر بن قیس]] کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے سوا باقی شہدا کی تعداد 78 ہے.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص351.</ref>.<ref>دینوری، وہی ماخذ، ص260.</ref>.<ref>شیخ مفید، وہی ماخذ، ج2، ص118.</ref>.<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج18، ص445.</ref>..<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص208.</ref>.<ref>صفدی، الوافی بالوفیات، ج14، ص189.</ref>.<ref>ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص193.</ref>.<ref>میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، ج5، ص2270.</ref> لیکن دوسرے مؤرخین نے [[زحر بن قیس]] ہی کے حوالے سے شہداء کی تعداد 32،<ref> ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص127.</ref> 70 سوار<ref>سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص193.</ref> نیز 77،<ref>ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج4، ص328.</ref> یا 82،<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص62.</ref> اور 88<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص190.</ref> بیان کی ہے.
# ابوزید احمد بن سہل بلخی (متوفی 322 ہجری قمری) اور<ref>ابوزید احمد بن سہل بلخی، البدء والتاریخ، ج2، ص241.</ref> مسعودی نے [[شہدائے کربلا کی تعداد 87 بیان کی ہے.<ref>مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج3، ص72.</ref>
# علامہ [[سید محسن امین عاملی]]، نے قیام [[عاشورا]] کی ابتداء سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 139 لکھی ہے.<ref>سید محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج1، ص610ـ612.</ref>
# شیخ [[محمد مہدی شمس الدین]] نے اس سلسلے میں ایک تجزیاتی بحث پیش کی ہے اور شہداء کی تعداد 100 سے کچھ زیادہ بیان کی ہے.<ref>شیخ مہدی شمس الدین، انصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص49 و 52.</ref>
# شیخ [[ذبیح اللہ محلاتی]] نے ابتدائے قیام سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 228 بیان کی ہے. انھوں نے [[اسیران اہل بیت]] کی [[کوفہ]] میں موجودگی کے وقت [[عبداللہ بن عفیف]] کو شہدائے کربل میں شمار کیا ہے.<ref>ذبیح اللہ محلاتی، فرسان الہیجاء، ج2، ص154.</ref>
# ایک مؤلف نے ابتدائے قیام سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 182 بیان کی ہے.<ref>غلامحسین زرگری نژاد، نہضت امام حسین(علیہ‌السلام) و قیام کربلا، ص291ـ386.</ref>
 
تاہم وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ [[شہدائے کربلا]] کی تعداد 72 ہے، قدیم مآخذ میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ شہرت رکھتی ہیں چنانچہ یہ روایات زيادہ معتبر اور قابل قبول ہیں.
 
===بنی ہاشم===
[[شہدائے کربلا]] میں [[بنو ہاشم]] کے شہداء کی تعداد کے بارے میں واردہ روایات بہت مختلف ہیں حتی کہ ان کی تعداد 9 سے 30 تک بتائی گئی ہے.
 
مشہورترین روایت کے مطابق ان کی شہدائے [[بنو ہاشم|بنی ہاشم]] کی تعداد 17 ہے.<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص196، ح 305.</ref>.<ref>خلیفۃ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص179.</ref>.<ref>سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص104 و 119.</ref>.<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ص533.</ref>.<ref>ہمو، الامالی، مجلس 87، ص694.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص125ـ126.</ref>.<ref>محمد بن حسن طوسی، الامالی، ص162، ح 268.</ref>.<ref>عماد الدین طبری، بشارۃ المصطفی، ص426.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص53.</ref>.<ref>اربلی، وہی ماخذ، ج2، ص267.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.</ref> البتہ ان میں سے زیادہ تر مآخذ میں [[امام حسین علیہ السلام]] کو شمار کئے بغیر، شہداء کی تعداد 17 بیان ہوئی ہے اور بعض اعداد و شمار  [[ائمۂ معصومین علیہم السلام]] سے منقولہ روایات کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں.
 
قدیم ترین تاریخ نصوص میں ہے کہ شہدائے [[بنو ہاشم|بنی ہاشم]] کی تعداد 20 بتائی گئی ہے اور ان میں [[امام حسین علیہ السلام]] اور [[مسلم بن عقیل]] کے نام بھی دکھائی دیتے ہیں.<ref>تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)، ص149ـ151.</ref> نیز [[شیخ صدوق]]،<ref>شیخ صدوق، الخصال، ص519.</ref> [[ابن شہر آشوب]]،<ref>مناقب آل ابی طالب، اخذ، ج4، ص179.</ref> اور [[ابن ابی الحدید]] .<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج15، ص251.</ref> نے یہ یہی اعداد و شمار پیش کئے ہیں جن میں [[مسلم بن عقیل]] کو شامل نہیں کیا گیا ہے.
 
دوسرے اعداد و شمار بھی ہیں جن میں یہ تعداد 9 سے 30 تک متغیر بتائی گئی ہے.<ref>ابن ابی حاتم رازی، السیرۃ النبویہ، ص588.</ref>
 
تمام متعلقہ روایات کو مد نظر رکھا جائے تو وہ روایات، جو [[بنو ہاشم]] کے شہداء کی تعداد 17 بتاتی ہیں، زیادہ قابل قبول ہیں کیونکہ یہ روایات قدیم اور کثیر بھی ہیں اور پھر یہ تعداد [[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمہ علیہم السلام]] سے منقولہ روایات میں بھی بیان ہوئی ہے.
 
==شہداء کی مائیں==
[[شہدائے کربلا]] میں سے آٹھ افراد کی مائیں [[کربلا]] میں حاضر و موجود تھیں اور اپنے بچوں کی شہادت کی عینی شاہد تھیں:
{{ستون آ|2}}
* حضرت [[علی اصغر]] کی والدہ، [[رباب بنت امرؤ القیس]]،
* [[عون بن عبداللہ بن جعفر]] کی والدہ [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا]]،
* [[قاسم بن حسن]](ع) کی والدہ [[رملہ]]،
* [[عبداللہ بن حسن]] کی والدہ [[بنت شلیل الجلیلیہ]]،
* [[عبد اللہ بن مسلم بن عقیل|عبداللہ بن مسلم]] کی والدہ [[رقیہ بنت علی]](ع)،
* [[محمد بن ابی سعید بن عقیل]] کی والدہ [[عبدہ بنت عمرو بن جنادہ]]،
* [[عبداللہ بن وہب کلبی]] کی والدہ، [[ام وہب]].
{{ستون خ}}
نیز بعض روایات کے مطابق [[علی اکبر علیہ السلام]] کی والدہ [[لیلا بنت ابی مرہ|ليلی بنت ابي مرّہ]] بن عروہ بن مسعود ثقفی، بھی [[کربلا]] میں تھیں لیکن ان کی [[کربلا]] میں ان کی موجودگی ثابت نہیں ہے.
 
== شہید ہونے والے قیدی==
[[امام حسین علیہ السلام]] کے اصحاب و انصار میں سے 2 افراد ابتداء میں [[یزید بن معاویہ|یزیدی]] لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میں [[شہادت|شہید]] ہوئے:
# [[سوار بن منعم ہمدانی]] ([[زیارت رجبیہ]] میں ان کا نام "سوار بن ابي عمير نہمی‏" ہے).
# [[موقع بن ثمامہ صیداوی]] (ألمُوَقَّع یا "المُرَقَّع" بن ثمامہ الأسدي).
 
==اصحاب جو امام حسین(ع) کے بعد شہید ہوئے==
[[امام حسین علیہ السلام]] کے چار اصحاب آپ(ع) کی شہادت کے بعد جام شہادت نوش کرگئے:
{{ستون آ|2}}
# [[سعد بن حرث انصاری|سعد بن الحرث]] اور ان کے بھائی
# [[ابو الحتوف بن الحرث]]،
# [[سوید بن ابی مطاع]] جو زخمی ہوگئے تھے،
# [[محمد بن ابی سعید بن عقیل]]
{{ستون خ}}
 
==وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے==
 
اصحاب [[امام حسین علیہ السلام]] کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:
{{ستون آ|2}}
* [[علی اکبر علیہ السلام]]
* [[علی اصغر]](ع)
* [[عمرو بن جنادہ]]
* [[عبداللہ بن یزید]]
* [[مجمع بن عائذ]]
* [[عبدالرحمن بن مسعود]]
{{ستون خ}}
 
==امام حسین(ع) کی سپاہ کا ڈھانچہ بلحاظ قبائل==
ایک معاصر محقق نے 113 شہداء کی فہرست تیار کی ہے جن کا تعلق [[بنو ہاشم]] اور دوسرے قبائل سے ہے:
{{ستون آ|4}}
# [[بنو ہاشم|ہاشمی]] اور ان کے موالی (بمع [[مسلم بن عقیل]]): 26 افراد،
# [[بنو اسد|اسدی]] : 7 افراد،
# [[بنو ہمدان|ہَمْدانی]]: 14 افراد،
# [[بنو مذحج|مَذْحِجی]]: 8 افراد،
# [[انصار|انصاری]]: 7 افراد،
# بَجَلی اور خثعمی: 4 افراد،
# [[بنو کندہ|کندی]]: 5 افراد،
# [[بنو غفار|غِفاری]]: 3 افراد،
# [[بنو کلب|کلبی]]: 3 افراد،
# [[بنو ازد|اَزْدی]]: 7 افراد،
# [[بنو عبدیان: 7 افراد،
# [[بنو تمیم|تیمی]]: 7 افراد،
# [[بنو طی|طائی]]: 2 افراد،
# [[بنو تغلب|تغلبی]] : 5 افراد،
# جُہَنی: 3 افراد،
# [[بنو تمیم|تمیمی]]: 2 افراد،
# متفرقہ: 3 افراد.<ref>محمد سماوی، اِبصار العین فی انصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص49 اور بعد کے صفحات.</ref>
{{ستون خ}}
 
==پہلے حملے کے شہدا==
بعض مآخذوں نے لکھا ہے کہ [[یزید بن معاویہ|یزیدی]] لشکر کے ابتدائی حملے میں [[امام حسین علیہ السلام]] کے 50 ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص11.</ref>
 
==پامالی  کے گھوڑوں کی تعداد==
مآخذوں میں صرف [[امام حسین علیہ السلام]] کے جسم شریف پر گھوڑے دوڑائے جانے کا واقعہ بیان ہے اور اس قبیح اور بزدلانہ فعل میں شریک افراد کا نام نہیں لیا ہے،<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص73.</ref> لیکن زیادہ تر مآخذوں نے ان کی تعداد 10 بیان کی ہے.<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص410.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص347.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص113.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، 470.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص44.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص121.</ref>.<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص59.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص59.</ref>ان میں سے دو افراد إِسْحَاق بْن حياة حَضْرَمِی  اور اخنس بن مرثد کے نام ملتے  ہیں۔<ref>مسعودي،مروج الذہب،1/375۔طبری،تاريخ الأمم والرسل والملوك3/335۔بَلَاذُري،جمل من أنساب الأشراف،دار الفكر - بيروت،1417،3/204۔</ref>
 
== امام حسین کے زخموں کی تعداد==
مؤرخین نے [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء علیہ السلام]] کے بدن مطہر پر وارد ہونے والے زخموں کی تعداد بھی بیان کی ہے اور ان کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے:
# [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]](ع) سے منقولہ روایت کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کے جسم مطہر پر نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 34 زخم وارد ہوئے<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص346.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص42.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص58.</ref>.<ref>سید ابن طاووس، وہی ماخذ، ص76.</ref>.<ref>حمید بن احمد مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص212.</ref> اور [[امام جعفر صادق علیہ السلام]] ہی سے مروی ایک روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں اور تیروں کے 44 زخم بیان کئے گئے ہیں<ref>قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص164.</ref>.<ref>طبری، دلائل الامامہ، ص178.</ref> طبری کی روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 44 زخم بیان ہوئے ہیں اور ایک روایت میں [[امام صادق(ع)]] سے مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء]] کے جسم شریف پر صرف تلواروں کے ستر زخم وارد ہوئے تھے.<ref>شیخ طوسی، الامالی، ص677، ح 10.</ref>
# [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] سے منقولہ ایک روایت میں آپ(ع) کے جسم مطہر پر وارد ہونے والے زخموں کی تعداد 320<ref>شیخ صدوق، الامالی، مجلس 31، ح 1، ص228.</ref>.<ref>فتال نیشابوری، وہی ماخذ، ص189.</ref>.<ref>طبرسی، تاج الموالید، ص31.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص82.</ref> ابن شہرآشوب اقوال دیگری نیز آوردہ است: 1ـ360 زخم؛ 2ـ1900 زخم؛ 3ـ33 ضربہ شمشیر بہ جز تیرہا<ref>(وہی ماخذ، ص120).</ref> اور ایک روایت میں منقول ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء]] کے جسم مطہر کو تلواروں، نیزوں اور تیروں کے 63 زخم لگے تھے.<ref>شیخ کلینی، الکافی، ج6، ص452، ح 9.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص92، ح 36.</ref>
# در روایتی از [[امام سجاد]](ع) تعداد جراحات 40 ضربہ شمشیر و زخم نیزہ نقل شدہ است. <ref>قاضی نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ج2، ص154.</ref>
# بعض مآخذ میں منقول ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء]](ع) کے جسم مطہر اور لباس میں تیروں، نیزوں اور تلواروں کے 110 نشانات پائے گئے.<ref>قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج3، ص164.</ref>.<ref>طبری، دلائل الامامہ، ص178.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص42.</ref>.<ref>ابوالفرج عبدالرحمن بن جوزی، الرد علی المتعصّب العنید، ص39.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص57 ـ 58.</ref>.<ref>حمید بن احمد مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص213.</ref> اسی طرح کی روایت ابن سعد نے بھی نقل کی ہے.<ref> ابن سعد، وہی ماخذ، ص184.</ref>
# بعض مآخذ نے تلواروں، تیروں اور پتھروں کے 120 زخم نقل کئے ہیں.<ref>مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص213.</ref>
# ابن سعد 33 زخم نوشتہ است.<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص184.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص57 ـ 58.</ref> قاضی نعمان نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے.<ref>قاضی نعمان، وہی ماخذ، ج3، ص164.</ref>
#علی بن محمد عَمری اور ابن عنبہ (متوفی 828 ہجری قمری) نے زخموں کی تعداد 70<ref>محمد بن علی عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص13.</ref>.<ref>جمال الدین حسینی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص192.</ref> اور [[سید ابن طاؤس]] نے 72، بیان کی ہے.<ref> سید بن طاؤس، وہی ماخذ، ص71.</ref>
 
لگتا ہے کہ جسم مطہر کو لگنے والے زخموں کی تعداد 100 سے زائد تھی. وہ روایات جو ظاہر کرتی ہیں کہ آپ(ع) کو اس قدر تیر لگے تھے کہ آپ(ع) کا جسم مطہر تیروں میں چھپا ہوا تھا، اسی قول کی تائید کرتی ہیں.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص469.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.</ref>
 
==کربلا میں آنے والے خاندان==
بعض معاصر قلمکاروں نے لکھا ہے کہ [[کربلا]] کے تین شہداء اپنے خاندان بھی ساتھ لائے تھے:<ref>محمد بن طاہر سماوی، إبصار العین فی أنصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص220ـ221.</ref>
# [[جنادہ بن کعب بن حرث]] (یا حارث) سلمانی انصاری،<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص25.</ref>
# [[عبداللہ بن عمیر کلبی]]،<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص334.</ref>
# [[مسلم بن عوسجہ]].
 
اس موضوع کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ [[مسلم بن عوسجہ]] کے خاندان کی کربلا آمد کی کوئی تاریخی سند موجود نہیں ہے گوکہ بعض مآخذ میں ہے کہ ان کی ایک کنیز [[عاشورا]] کے دن [[کربلا]] میں حاضر تھی.<ref>طبری، وہی ماخذ، ص332.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص19.</ref>.<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص20.</ref>
 
==کربلا میں اصحاب رسول==
اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء]](ع) میں [[رسول اللہ|رسول صلی اللہ علیہ و آلہ]] کے کئی [[صحابہ]] بھی تھے:
[[فضیل بن زبیر]] کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں [[صحابہ]] [[رسول اللہ|رسول]](ص) کی تعداد 6<ref>فضیل بن زبیر، "تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)"، بحوالہ فصلنامہ تراثنا، ص153ـ154.</ref> اور مسعودی کے بقول 4 تھی<ref>مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص72.</ref> اور یہ افراد [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے اصحاب و انصار میں سے تھے اور [[عاشورا]] کے دن [[کربلا]] میں شہید ہوئے. بعض معاصر مؤرخین و محققین نے [[صحابہ]] کی تعداد 5 بیان کی ہے:<ref>سماوی، وہی ماخذ، ص221.</ref> از 5 نفر دیگر، یعنی:
# [[انس بن حارث]] کاہلی،<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص152.</ref>.<ref>شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص21.</ref>.<ref>ابن شہر آشوب، وہی ماخذ، ج1، ص184.</ref>.<ref>محب الدین احمد بن عبداللہ الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص146.</ref>
# [[حبیب بن مظاہر اسدی]]،<ref>ابن حجر، تبصیر المنتبہ، ج4، ص1296.</ref>
# [[مسلم بن عوسجہ اسدی]]،<ref>عبداللہ مامقانی، تنقیح المقال، ج3، ص214.</ref>
# [[ہانی بن عروہ مرادی]]،<ref>ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج6، ص445، ش 9051.</ref>.<ref>خواند میر، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد البشر، ج2، ص43.</ref>.<ref>مامقانی، وہی ماخذ، ج3، ص288.</ref>
# [[عبداللہ بن يقطر]] حمیری<ref>ابن حجر، وہی ماخذ، ج5، ص8.</ref> جو [[امام حسین علیہ السلام]] کے رضاعی بھائی تھے.<ref>سماوی، ابصار العین ص93.</ref>
 
==سروں کی تعداد==
[[یزید بن معاویہ|یزید]] کے لشکر کے ہاتھوں [[شہدائے کربلا]] کے جسموں سے جدا کئے جانے والے سروں کے  تعداد کے بارے میں بھی مؤرخین کا موقف یکسان نہیں ہے:
# بلاذری، دینوری، طبری، [[شیخ مفید]]، خوارزمی اور ابن نما، نے سروں کی تعداد ([[امام حسین علیہ السلام]] کے سر مبارک کو شامل کئے بغیر) 72 لکھی ہے..<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص349.</ref>.<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص412.</ref>.<ref>دینوری، وہی ماخذ، ص259.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص113.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص45.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص65.</ref> البتہ طبری<ref>طبری، وہی ماخذ، ص348.</ref>  اور خوارزمی<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ص44.</ref> نے [[امام حسین علیہ السلام]] کے سر مبارک کے تن سے جدا ہونے کا واقعہ بیان کیا ہے اور اگلے صفحے میں لکھا ہے کہ "باقی شہداء کے سر قلم کردیئے گئے"، چنانچہ ظاہر ہے کہ "باقی شہداء" سے [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء]] علیہ السلام کے سوا دوسرے شہداء مراد ہیں اور اس اعداد و شمار کے مطابق شہداء کے قلم ہونے والے سروں کی تعداد 73 بنتی ہے. دینوری، [[شیخ مفید]] اور [[ابن نما حلی|ابن نما]] کے اقوال بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں کہ سروں کی تعداد 73 تھی.
# دینوری نے کہا ہے کہ <ref>دینوری، وہی ماخذ، ص259.</ref> قبائل کے درمیان سروں کی تقسیم کے لحاظ سے سروں کی تعداد 75 تھی اور بلاذری<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص412.</ref>  [[ابو مخنف]] کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شہداء (اور ان کے قلم شدہ سروں) کی تعداد 82 تھی.
# سبط ابن جوزی ہشام کلبی کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ قلم شدہ سروں کی تعداد 92 تھی.<ref>سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص256.</ref>
# [[سید ابن طاؤس]]،<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص85.</ref> محمد بن ابی طالب موسوی<ref>تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، ج2، ص331.</ref> اور [[علامہ محمد باقر مجلسی|مجلسی]]<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص62.</ref> کے مطابق، سروں کی تعداد 78 تھی.
# طبری،<ref> طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص358.</ref> اور [[ابن شہر آشوب]]<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص121.</ref> [[ابو مخنف]] اور [[ابن صباغ مالکی]]<ref>ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص198.</ref> کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ [[کوفہ]] میں [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے والی [[عبیداللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کے پاس لائے جانے والے سروں کی تعداد 70 تھی.
 
مندرجہ بالا اقوال میں، اول الذکر قول اپنے قدیم راویوں کے پیش نظر زیادہ معتبر ہے: سروں کی تعداد 72.
 
==قبائل کو ملنے والے سرہائے مبارک==
 
شہداء کے سروں کو لشکر [[یزید بن معاویہ|یزید]] میں شامل قبائل میں ـ ذیل کی ترتیب سے ـ تقسیم کیا گیا:
 
* [[بنو کندہ]] کا رئیس [[قیس بن اشعث|قیس بن الاشعث]]: 13 سر،
* [[بنو ہوازن]] کا رئیس، [[شمر بن ذی الجوشن]]: 12 سر،
* [[بنو تمیم]]، 17 سر،
* [[بنو اسد]]، 17 سر،
* [[بنو مذحج]] 6 سر،
* دوسرے قبائل کے افراد: 13 سر.
 
وہ شہداء کے سروں کو غنیمت کے عنوان سے (!) لیتے تھے تا کہ انہیں [[ابن زیاد]] کی تحویل میں دے کر انعام حاصل کریں.
 
==موالی جو شہید ہوئے==
[[فضیل بن زبیر]] کہتے ہیں کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے 3 موالی.<ref>موالی جمع ہے مولی کی، مولٰی کے معنی متضاد ہیں: مثلا سرور و آقا کو مولٰی کہا جاتا ہے جیسا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: '''من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ'''؛ جس کا میں مولٰی (مولا) ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولٰی ہیں. نیز بندہ، غلام اور مطیع کو بھی مولٰی کہا جاتا ہے. مولا "ولاء" سے مشتق ہے جس کے معنی پیوند اور قرابت کے ہیں چنانچہ اس کے معانی مختلف ہیں. وہ بھی مولا ہے جو حامی ہے اور وہ بھی مولا ہے جو حمایت یافتہ ہے. اس ولاء کے ایک معنی ولائے عتق کے ہیں؛ '''وہ افراد جو پہلے کبھی غلام تھے اور بعد میں آزاد ہوجاتے ہیں انہیں اور ان کی اولاد کو موالی کہا جاتا ہے''' (یہاں بھی موالی سے یہی مراد ہے). جیسا کہ آزاد کرنے والے کو بھی مولٰی کہا جاتا ہے. [http://tahoor.com/fa/Article/View/21962 دو معنای متضاد برای کلمہ مولٰی].</ref> [[کربلا]] میں شہید ہوئے،<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص152.</ref> لیکن ابن سعد<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص186.</ref> اور طبری<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص359.</ref> کے مطابق ان کی تعداد 2 تھی. فضیل نے لکھا ہے کہ [[حمزہ بن عبدالمطلب]] کا ایک غلام بھی [[شہدائے کربلا]] میں شامل تھا.<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ.</ref>
 
[[ابن شہر آشوب]]  اس سلسلے میں لکھتے ہیں: کہ [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام]] کے 10 اور [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] کے 2 موالی شہید ہوئے.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، 122.</ref>
 
سماوی کے مطابق شہید ہونے والے موالی کی تعداد 15 تھی.<ref>سماوی، وہی ماخذ، ص221ـ222.</ref>
 
==امام(ع) کے زخمی اصحاب ==
 
الف ـ وہ واحد زخمی جو میدان جنگ سے زندہ بچ کر نکلے، مؤرخین کے مطابق وہ [[حسن بن حسن بن علی]](ع) ([[حسن مثنی|حسن مُثَنّٰی]]) تھے.<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص150.</ref>.<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص186.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص359.</ref>.<ref>ابن حبان، الثقات، ج2، ص310.</ref>.<ref>ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص122؛ وہ لکھتے ہیں کہ ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا.</ref>
 
ب ـ وہ 3 زخمی جو شہید ہوئے:
# [[سوار بن ابی حمیر جابری|سوار بن حمیر جابری]]،<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص156 و محلّی، الحدائق الوردیہ، ج1، ص212.</ref>
# [[عمرو بن عبداللہ ہمدانی جندعی|عمرو بن عبداللہ ہَمْدانی جنُدُعی]]،<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ و محلی، وہی ماخذ.</ref>
# [[مرقع بن ثمامہ اسدی|مُرَقَّع بن ثمامہ اسدی]]،<ref>بلاذری نے انہیں مرقع بن قمامہ بن خویلد لکھا ہے: انساب الاشراف، ج11، ص183.</ref>.<ref>ابن کثیر نے مرقع بن یمانہ لکھا ہے:وہی ماخذ، ج8، ص205.</ref> لیکن طبری.<ref>وہی ماخذ، ج4، ص347.</ref> اور بلاذری نے دوسری نقل کے ضمن میں.<ref>وہی ماخذ، ج3، ص411.</ref> نیز دینوری نے<ref>الاخبار الطوال، ص259.</ref> لکھا ہے کہ مرقع کے قبیلے کے ایک فرد نے ان کے لئے امان نامہ حاصل کیا اور وہ اپنے قبیلے سے جاملے اور ابن زیادہ نے انہیں زرارہ جلا وطن کیا لیکن ان کی شہادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے.
 
==زندہ بچنے والے اسیر==
 
===مرد===
تاریخ کے قدیم مآخذ کی ورق گردانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ [[واقعۂ عاشورا]] کے پسماندگان میں کئی مرد بھی تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:
{{ستون آ|2}}
# [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجادعلیہ السلام]]،
# [[امام محمد باقر علیہ السلام|حضرت باقرعلیہ السلام]]،
# [[عمر بن حسین]] علیہ ‌السلام،<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص259.</ref>.<ref>و ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص212.</ref>
# [[محمد بن حسین بن علی]](علیہما السلام)،<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص411.</ref>.<ref>ابن عبد ربہ‌اندلسی، العقد الفرید، ج4، ص360.</ref>
# [[زید بن حسن بن علی|زید بن حسن]]،<ref>ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص86.</ref>
# [[عمرو بن حسن]]،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص186.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص353 و 359.</ref>.<ref>ابن حبان، وہی ماخذ، ج2، ص310.</ref>.<ref>ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص41.</ref>.<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج45، ص484.</ref>.<ref>سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص178.</ref>.<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص86.</ref> [[شیخ مفید]] نے انہیں [[شہدائے کربلا]] کے زمرے میں شمار کیا ہے.<ref>الارشاد، ج2، ص26.</ref>
# [[محمد بن عمرو بن حسن]]،<ref>فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص150 و 157.</ref>.<ref>ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، ص252.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.</ref>
# [[جعفر بن ابی طالب|جعفر طیار]] کے دو بیٹے،<ref>ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، ج2، ص8.</ref>
# [[عبداللہ بن عباس بن علی]] (علیہما السلام)،<ref>قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص198.</ref>
# [[قاسم بن عبداللہ بن جعفر]]، <ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص187 و ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303.</ref>
# [[قاسم بن محمد بن جعفر]]،<ref>قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص197.</ref>
# [[محمد بن عقیل اصغر]]،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ.</ref>.<ref>ابن عساکر، وہی ماخذ، ج54، ص226.</ref>.<ref>و ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303.</ref>
# [[رَباب بنت امرؤ القیس ]] کا غلام [[عقبہ بن سمعان]]،<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص411.</ref>.<ref>دینوری، وہی ماخذ، ص259.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص347.</ref>
# [[عبدالرحمن بن عبد رب انصاری ]] کا غلام،<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص321.</ref>
# [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] کا غلام [[مسلم بن رباح]]،<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج14، ص223.</ref>
# [[علی بن عثمان مغربی]].<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ص546.</ref>
{{ستون خ}}
 
===خواتین===
ابن سعد کے مطابق، [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت(ع)]] کی 6 خواتین،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.</ref>.<ref>ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303.</ref> [[قاضی نعمان مغربی]] کے مطابق 4 خواتین،<ref>قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج3، ص198ـ 199.</ref> اور ابو الفرج اصفہانی کے مطابق 3 خواتین<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص79.</ref> [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئیں جن کے نام درج ذیل ہیں:
 
'''[[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] کی بیٹیاں''':
{{ستون آ|2}}
* [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب بنت علی سلام اللہ علیہا]]،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.</ref>.<ref>ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>شیخ صدوق، الامالی، مجلس 31، ص229.</ref>
* [[فاطمہ بنت علی]](ع)،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ.</ref>.<ref>شیخ صدوق، الامالی، ص231.</ref>
* [[ام کلثوم بنت علی]](ع)،<ref>ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار، ج3، ص198.</ref>
* [[ام حسن بنت علی]](ع).<ref>قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص198.</ref>
{{ستون خ}}
 
'''[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین بن علی علیہما السلام]] کی بیٹیاں''':
{{ستون آ|2}}
* [[فاطمہ بنت حسین]]‎،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.</ref>.<ref>طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، 104.</ref>.<ref>قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ص198.</ref>.<ref>شیخ صدوق، الامالی، ص228.</ref>
* [[سکینہ بنت حسین ]]،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ؛ ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.</ref>.<ref>طبرانی، وہی ماخذ، ص104.</ref>.<ref> قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ص199.</ref>.<ref>شیخ صدوق، وہی ماخذ، ص230.</ref>
* [[فاطمہ  بنت حسین]]<ref>طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص27.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص105.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص67.</ref>.<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص88.</ref>
{{ستون خ}}
 
'''دیگر خواتین''':
 
* [[رباب بنت امرؤ القیس]]<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.</ref> جو [[امام حسین علیہ السلام|سید الشہداء علیہ السلام]] کی زوجۂ مکرمہ اور [[سکینہ بنت حسین]] اور [[عبداللہ رضیع]] ([[علی اصغر علیہ السلام|علی اصغر]]ع) کی والدہ تھیں؛
* امّ محمد <ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.</ref> بنت [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]] بن [[امام علی علیہ السلام|علی]].
 
== تحریک حسینی میں شریک خواتین==
* [[ماریہ بنت سعد]] یا [[ماریہ بنت منقذ|بنت منقذ]] عبدیہ، جن کا گھر [[شیعہ|شیعیان]] [[بصرہ]] کے اجتماع کا مقام تھا<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص263.</ref>،
* طوعہ، جو [[اشعث بن قیس]] کی کنیز تھیں اور جب [[مسلم بن عقیل]] تنہا رہ گئے تو انھوں نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی<ref>طبری، وہی ماخذ، ص277ـ278.</ref>،
* دیلم، جو [[زہیر بن قین]] کی زوجہ تھیں اور انھوں نے اپنے شوہر کو [[امام حسین علیہ السلام]] کی سپاہ سے جا ملنے کی ترغیب دلائی<ref>بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص378ـ379.</ref>،
* ایک کوفی خاتون جنہوں نے اسرائے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کے لئے لباس اور مقنعے فراہم کئے.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص66.</ref>.<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص190.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص108.</ref>
 
== اعتراض کرنے والی خواتین==
پانچ خواتین نے [[تحریک عاشورا]] کے دوران سپاہ [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے اعمال پر اعتراض و احتجاج کیا:
# ام عبداللہ (بنت حرّ بدی کندی، زوجۂ مالک بن نُسَیر)،<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص342.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص57.</ref> ان کے اعتراض و احتجاج کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر نے [[امام حسین علیہ السلام]] کا ایک بُرْنُس (=ٹوپی والا جبہ یا چغہ) لوٹ لیا تھا،
# [[عبداللہ بن عفیف کندی]] کی بیٹی، جن کے والد کو جب یزیدی سپاہیوں نے گھیر لیا تو انھوں نے اپنے والد کا ساتھ دیا اور ان کا دفاع کیا<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص73.</ref>.<ref>سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص205.</ref>.<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص120.</ref>،
# قبیلہ بکر بن وائل کی ایک خاتون، کہ جب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص]] کے لشکر نے خیام آل رسول(ص) کو لوٹنا شروع کیا تو اس نے اس عمل پر اعتراض کیا<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص58 و سید ابن طاؤس، ص180.</ref>،
# نوار، جو کعب بن جابر بن عمرو ازدی کی بیوی یا بیٹی تھیں اور ان کے اعتراض کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص]] کا ساتھ دیا تھا اور [[بریر بن خضیر ہمدانی]] کو [[شہید]] کیا تھا،
# نوار بنت مالک بن عقرب حضرمی، جو [[خولی بن یزید اصبحی]] کی زوجہ تھی. ان کے اعتراض کا سبب یہ تھا کہ ان کا شوہر [[امام حسین علیہ السلام]] کا سر مبارک گھر لایا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ ایسی چیز گھر لایا ہے جس میں پورے زمانے سے بےنیازی مضمر ہے<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص411.</ref>.<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص348.</ref>.<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص114.</ref>.<ref>ابن نما، وہی ماخذ، ص65ـ66.</ref>.<ref>ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص206.</ref>،
 
== شہید خواتیں==
[[کربلا]] میں ایک خاتون بھی [[امام حسین علیہ السلام|ابا عبداللہ(ع)]] کے رکاب میں شہید ہوئیں. اس خاتون کا نام [[ام وہب]] تھا اور وہ شہید [[کربلا]] [[وہب بن وہب|وَہْب بن وَہْب]] کی والدہ اور [[عبداللہ بن عمیر کلبی]] کی زوجہ تھیں.
 
==کوفہ سے شام تک کی منزلیں==
[[کوفہ]] سے [[شام]] تک کی ان منزلوں کی تعداد 14 تھی جنہیں [[اہل بیت علیہم السلام]] نے اسیری کی حالت میں طے کیا.
 
==شام میں قیام اور عزاداری کی مدت==
* ابن اعثم،<ref>ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص133.</ref> اور [[شیخ مفید]]<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص122.</ref> اور ان کی پیروی کرتے ہوئے [[شیخ طبرسی]]<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص475.</ref> نے اجمالی طور پر لکھا ہے کہ اسیران [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] نے چند دن [[شام]] میں بسر کئے.
* محمد بن سعد،<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص192.</ref> محمد بن جریر طبری،<ref>طبری، وہی ماخذ، ج4، ص353.</ref> موفق بن احمد خوارزمی (بحوالۂ ابو مخنف)،<ref>خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص81.</ref> ابن عساکر،<ref>ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص338.</ref> سبط ابن جوزی،<ref>سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص199.</ref> ابوالفداء اسماعیل بن کثیر دمشقی<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص212.</ref> اور [[علامہ محمد باقر مجلسی]]<ref>محمد باقر مجلسی، جلاء العیون، ص405.</ref> کا کہنا ہے کہ [[شام]] میں [[اہل بیت علیہم السلام]] نے تین دن تک عزاداری کی اور معاویہ کے خاندان کی عورتوں میں بھی عزاداری میں شرکت کی.
* قاضی نعمان مغربی (متوفی سنہ 363 ہجری قمری) لکھتے ہیں کہ [[اہل بیت علیہم السلام]] نے [[شام]] میں 45 دن تک قیام کیا.<ref>ابوحنیفہ نعمان بن محمد تمیمی مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، ج3، ص269.</ref>
* [[سید ابن طاؤس]] (متوفی سنہ 664 ہجری قمری) نے لکھا ہے کہ [[اہل بیت علیہم السلام]] ایک مہینے تک [[دمشق]] کے قید خانے میں مقیم رہے.<ref> سید بن طاؤس، الاقبال بالأعمال، ج3، ص101.</ref>
* عمادالدین طبری (زندہ تا سنہ 701 ہجری قمری) نیز مجلسی (دوسری روایت کے ضمن میں) لکھتے ہیں: [[اہل بیت علیہم السلام]] نے 7 دن تک عزاداری کی. [[علامہ محمد باقر مجلسی|مجلسی]] مزید لکھتے ہیں کہ آٹھویں دن [[یزید بن معاویہ|یزید]] نے انہیں بلوایا اور ان کی دلجوئی کی اور ان کی [[مدینہ]] واپسی کا انتظام کیا.<ref>طبری، الکامل للبہائی فی السقیفہ، ج2، ص302.</ref>.<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص196.</ref>.<ref>مجلسی، جلاء العیون، ص409.</ref>
 
:[[شام]] میں ایک مہینہ یا 45 دن تک قیام پر مبنی روایات میں کچھ زیادہ قوت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال کے قائلین متفرد (اور تنہا) ہیں اور چونکہ خاندان معاویہ کی عورتوں نے [[اہل بیت علیہم السلام]] کی عزاداری کو دیکھا تو ان کی حقانیت کا ادراک کیا تو وہی بھی پانچویں دن عزاداری کی اس مجلس میں شرکت کرنا شروع کردی چنانچہ یہی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ [[اہل بیت علیہم السلام]] نے [[دمشق]] پہنچنے سے لے کر [[مدینہ]] واپسی تک، [[شام]] میں 10 روز سے زیادہ قیام نہیں کیا.
 
==حوالہ جات==
 
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
{{حوالہ جات|2}}
</div>
 
== مآخذ ==
<div class="reflist4" style="height: 200px; overflow: auto; padding: 3px" >
* ابن اَبّار، محمد بن عبداللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، تحقیق عزالدین عمر موسی، چاپ اول: بیروت، دارالغرب الاسلامی، 1407ہجری قمری.
* ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، داراحیاء الکتب العربیہ، 1378 ہجری قمری.
* ابن اعثم، أبو محمد أحمد، الکوفی الکندی، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1411 ہجری قمری.
* ابن جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1412ہجری قمری.
* ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری.
* ابن حجر عسقلانی، تبصیر المنتبہ، قاہرہ، دارالقومیۃ العربیہ.
* ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، چاپ اول: بیروت، دارالفکر، 1404 ہجری قمری.
* ابن سعد، «ترجمۃ الحسین و مقتلہ»، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، فصلنامہ تراثنا، سال سوم، شمارہ 10، 1408 ہجری قمری.
* ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق یوسف بقاعی، بیروت، افست دارالاضواء، 1421ہجری قمری.
* ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تہران، مؤسسۃ الاعلمی، [بی تا].
* ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، چاپ اول: بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1409 ہجری قمری.
* ابن عبد ربہ، العقد الفرید، مطبعۃ اللجنۃ التألیف و الترجمۃ و النشر، 1365 ہجری قمری.
* ابن عبدالبرّ قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری.
* ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415 ہجری قمری.
* ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین، تحقیق محمد باقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1414 ہجری قمری.
* ابن عنبہ، سید جمال الدین احمد بن علی حسنی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، تصحیح محمد حسن آل طالقانی، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1380ہجری قمری.
* ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1410ہجری قمری.
* ابن کثیر دمشقی، ابوالفداء اسماعیل، البدایۃ و النہایہ، تحقیق علی شیری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1408ہجری قمری.
* ابن نما حلی، مثیرالأحزان، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1369 ہجری قمری.
* ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، تحقیق فارس تبریزیان حسون، [بی جا ]، محقق، 1375ہجری شمسی.
* ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، قم، مؤسسہ دارالکتاب، 1385 ہجری قمری.
* ابوحنیفہ دینوری، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قاہرہ، داراحیاء الکتب العربیہ، 1960 عیسوی.
* اربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ، بیروت، دارالأضواء، 1405 ہجری قمری.
* ازدی غامدی کوفی، ابومخنف لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق محمد ہادی یوسفی غروی، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری.
* باعونی، محمد بن احمد، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابی طالب، تحقیق محمدباقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1415 ہجری قمری.
* بلاذری، احمد بن یحیی جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417 ہجری قمری.
* بلخی، ابوزید احمد بن سہل، البدء والتاریخ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری قمری.
* تستری، شیخ محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی.
* تمیمی بستی، محمد بن حبّان بن احمد، الثقات، چاپ اول: [بی جا]، مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1393 ہجری قمری.
* تمیمی مغربی، ابوحنیفہ نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق سید محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، [بی تا].
* جرجانی شجری، یحیی بن حسین بن اسماعیل، الامالی الخمیسیہ، بیروت، عالم الکتب.
* جعفریان، رسول، تأملی در نہضت عاشورا، چاپ دوم: قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی.
* حسینی موسوی، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، تحقیق فارس حسّون، چاپ اول: قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1418ہجری قمری.
* حلی، رضی الدین علی بن یوسف مطہر، العدد القویہ، تحقیق سید مہدی رجایی، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ * المرعشی النجفی، 1408ہجری قمری.
* خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، تحقیق محمد طاہر سماوی، قم، دارانوار الہدی، 1418 ہجری قمری.
* خواند میر، غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، تہران، انتشارات کتابخانہ خیام، 1333.
* دولابی، محمد بن احمد، الذریۃ الطاہرہ، تحقیق سعد مبارک حسن، کویت، دارالسلفیہ، 1407 ہجری قمری.
* ذہبی، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1413ہجری قمری.
* ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمُری، چاپ دوم: بیروت، دارالکتاب العربی، 1418ہجری قمری.
* زرگری نژاد، غلامحسین، نہضت امام حسین و قیام کربلا، چاپ اول: تہران، سمت، 1383ہجری شمسی.
* سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمہ، تحقیق حسین تقی زادہ، چاپ اول: [بی جا]، مرکز الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لأہل البیت، 1426 ہجری قمری.
* سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، قدّم لہ سید صادق بحرالعلوم، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، [بی تا].
* سپہر، محمدتقی، ناسخ التواریخ، چاپ سوم: تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1368ہجری شمسی.
* سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق محمد باقر انصاری زنجانی، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا].
* سماوی، محمد بن طاہر، إبصار العین فی أنصار الحسین، تحقیق محمد جعفر سماوی، قم، مرکز الدراسات الاسلامیۃ لحرس * الثورہ، 1377 ہجری شمسی.
* سید ابن طاؤس، الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنہ، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، [بی جا]، مکتب الاعلام الاسلامی، 1416 ہجری قمری.
* سید ابن طاؤس، الملہوف علی قتلی الطفوف، تحقیق فارس حسّون، چاپ چہارم: تہران، دارالاسوہ، 1383 ہجری شمسی.
* شافعی، محمد بن طلحہ، کفایۃ الطالب فی مناقب امیرالمؤمنین، تحقیق محمد ہادی امینی، تہران دار احیاء تراث اہل البیت، 1404 ہجری قمری.
* شافعی، محمد بن طلحہ، مطالب السؤول فی مناقب الرسول، تحقیق ماجد بن احمد العطیہ، بیروت، مؤسسۃ‌ام القری، 1420 ہجری قمری.
* شمس الدین، محمد مہدی، انصار الحسین، چاپ دوم:[بی جا]، الدار الاسلامیہ، 1401 ہجری قمری.
* شیخ صدوق، الأمالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1417 ہجری قمری.
* شیخ صدوق، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، منشورات جماعۃ المدرسین، 1362 ہجری شمسی.
* شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، تحقیق شیخ حسین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1404 ہجری قمری.
* شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1405ہجری قمری.
* شیخ طوسی، الامالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، دارالثقافہ، 1414 ہجری قمری.
* شیخ طوسی، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1415 ہجری قمری.
* شیخ کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1363 ہجری شمسی.
* شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم، دارالمفید، 1413 ہجری قمری.
* شیخ مفید، مسارّ الشیعہ، (چاپ شدہ در جلد 7 مؤلفات شیخ مفید)، تحقیق مہدی نجف، چاپ دوم: بیروت، دارالمفید، 1414ہجری قمری.
* صفدی، صلاح الدین خلیل بن أیبک، الوافی بالوفیات، بیروت، المعہد المانی.
* طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بی تا].
* طبرسی، ابومنصور احمدبن علی بن ابی طالب، الاحتجاج، سید محمّد باقر خرسان، نجف، دارالنعمان، 1386 ہجری قمری.
* طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ہجری قمری.
* طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1406ہجری قمری.
* طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1409 ہجری قمری.
* طبری، عماد الدین حسن بن علی، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، تہران، مکتبۃ المصطفوی، [بی تا].
* طبری، عماد الدین، بشارۃ المصطفی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1420 ہجری قمری.
* طبری، محب الدین احمد بن عبداللہ، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1356ہجری قمری.
* طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1413 ہجری قمری.
* طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، چاپ اول: بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، 1411 ہجری قمری.
* عاملی، سید محسن امین، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1406 ہجری قمری.
* عصفری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق سہیل زکار، بیروت، دارالفکر، 1414ہجری قمری.
* عمری، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1409 ہجری قمری.
* خلیل بن احمد الفراہیدی، ترتیب کتاب العین، تحقیق مہدی المخزومی،ابراہیم سامرائی؛ تصحیح اسعد الطبیب، ناشر: سازمان اوقاف و امور خیریہ،انتشارات اسوہ، چاپ اول، قم، 1414ہجری قمری.
* قزوینی، زکریا محمد بن محمود، عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات، چاپ شدہ در حاشیہ کتاب حیاۃ الحیوان دمیری، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا].
* کاشفی، ملاحسین، روضۃ الشہداء، قم، نوید اسلام، 1381 ہجری شمسی.
* کفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی، المصباح، قم، منشورات الشریف الرضی و زاہدی.
* کوفی اسدی، فضیل بن زبیر بن عمر بن درہم، «تسمیۃ من قتل مع الحسین»، تحقیق سید محمد رضا حسینی جلالی، فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، 1406ہجری قمری.
* مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، تہران، انتشارات جہان، [بی تا].
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، چاپ دوم: بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ہجری قمری.
* مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ اول: تہران، رشیدی، 1362 ہجری شمسی.
* محلاتی، ذبیح اللہ، فرسان الہیجاء، چاپ دوم: تہران، مرکز نشر کتاب، 1390ہجری قمری.
* مُحَلّی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیہ فی مناقب ائمۃ الزیدیہ، تحقیق مرتضی بن زید محطوری حسنی، چاپ اول: صنعاء، مکتبۃ بدر، 1423ہجری قمری.
* مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انتشارات انصاریان، 1417 ہجری قمری.
* مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق سعید محمد لحّام، بیروت، دارالفکر، 1421 ہجری قمری.
* مسکویہ رازی، ابوعلی، تجارب الامم وتعاقب الہمم، تحقیق ابوالقاسم امامی، چاپ اول: تہران، سروش، 1366 ہجری شمسی.
* مشہدی، المزار الکبیر، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419 ہجری قمری.
* معلوف، لوئیس، المنجد فی الاعلام، چاپ دوازدہم: بیروت، افست دارالمشرق، [بی تا].
* مغربی، قاضی نعمان، دعائم الاسلام، تحقیق آصف بن علی اصغر فیضی، قاہرہ، دارالمعارف، 1383 ہجری قمری.
* موسوی خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، چاپ پنجم: [بی جا، بی‌نا ]، 1413 ہجری قمری.
* میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، تصحیح جمشید کیان فر، چاپ اول: تہران، اساطیر، 1380ہجری شمسی.
* نویری، شہاب الدین احمد بن عبدالوہّاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، مکتبۃ العربیہ، 1395 ہجری قمری.
* نیشابوری، محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، تحقیق سید محمد مہدی خرسان، قم، منشورات الشریف الرضی، [بی تا].
* ہادی بن ابراہیم وزیر، نہایۃ التنویہ فی ازہاق التمویہ، تحقیق احمد بن درہم ابن عبداللہ حوریہ و ابراہیم بن مجد الدین بن محمد مؤیدی، چاپ اول: یمن، منشورات مرکز اہل البیت للدراسات الاسلامیہ، 1421 ہجری قمری.
* ہیتمی، احمد بن حجر، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، تعلیق عبدالوہاب عبداللطیف، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ القاہرہ، 1385ہجری قمری.
* یوسفی غروی، محمدہادی، وقعۃ الطف، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری.
</div>
 
{{واقعہ کربلا}}
 
[[زمرہ:واقعہ کربلا]]
[[زمرہ:غیر حائز اہمیت مقالات]]
confirmed، انٹرفیس منتظمین، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
2,063

ترامیم