مندرجات کا رخ کریں

"تفویض" کے نسخوں کے درمیان فرق

65 بائٹ کا اضافہ ،  18 دسمبر 2023ء
م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:


== اختیار ==
== اختیار ==
{{مزید|امر بین الامرین|جبر و اختیار}}
[[علم کلام|کلام اسلامی]] میں تفویض جبر و اختیار کے مسئلے میں زیر بحث آتی ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج23، ص307.</ref> [[معتزلہ]] کا عقیدہ ہے کہ [[اللہ تعالیٰ]] انسان کے افعال و اعمال میں کوئی دخالت نہیں کرتا؛ یعنی اللہ نے انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے لہذا وہ اپنے اعمال میں مکمل اختیار رکھتا ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج6، ص628.</ref> تفویض کے مقابلے میں جبر مطلق کا نظریہ ہے جس کا [[اشاعرہ]] دفاع کرتے ہیں۔<ref>مطهری، مجموعه آثار،1384ہجری شمسی، ج23، ج307.</ref>
[[علم کلام|کلام اسلامی]] میں تفویض جبر و اختیار کے مسئلے میں زیر بحث آتی ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج23، ص307.</ref> [[معتزلہ]] کا عقیدہ ہے کہ [[اللہ تعالیٰ]] انسان کے افعال و اعمال میں کوئی دخالت نہیں کرتا؛ یعنی اللہ نے انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے لہذا وہ اپنے اعمال میں مکمل اختیار رکھتا ہے۔<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج6، ص628.</ref> تفویض کے مقابلے میں جبر مطلق کا نظریہ ہے جس کا [[اشاعرہ]] دفاع کرتے ہیں۔<ref>مطهری، مجموعه آثار،1384ہجری شمسی، ج23، ج307.</ref>


شیعه حضرات [[ائمہ معصومینؑ]] کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص431-432.</ref>
شیعہ حضرات [[ائمہ معصومینؑ]] کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص431-432.</ref>


شیعہ منابع حدیثی، جیسے [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص155.</ref> [[التوحید (کتاب)|توحید]]،<ref>شیخ صدوھ، توحید، ص359.</ref> [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]<ref>شیخ صدوھ، اعتقادات الامامیه، 1414ھ، ص29.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] وغیرہ<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص2.</ref> میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ [[شیخ کلینی]] کی کتاب الکافی اور [[شیخ صدوق]] کی کتاب التوحید میں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام جعفرصادقؑ]] سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: {{حدیث| "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن}}؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوھ، توحید، ص362.</ref>
شیعہ منابع حدیثی، جیسے [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص155.</ref> [[التوحید (کتاب)|توحید]]،<ref>شیخ صدوق، توحید، ص359.</ref> [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]<ref>شیخ صدوق، اعتقادات الامامیه، 1414ھ، ص29.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] وغیرہ<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص2.</ref> میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ [[شیخ کلینی]] کی کتاب الکافی اور [[شیخ صدوق]] کی کتاب التوحید میں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام جعفرصادقؑ]] سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: {{حدیث| "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن}}؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوھ، توحید، ص362.</ref>


== امور کو اللہ کے سپرد کرنا ==
== امور کو اللہ کے سپرد کرنا ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم