مندرجات کا رخ کریں

"تفویض" کے نسخوں کے درمیان فرق

13 بائٹ کا اضافہ ،  18 دسمبر 2023ء
سطر 46: سطر 46:
ائمہؑ کی بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ نے کائنات کے امور مثلا تخلیق، روزی دینا، زندہ کرنا اور موت دینا وغیرہ کا اختیار پیغمبر خداؐ اور امام علیؑ کو تفویض نہیں کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97.</ref> اس کے مقابلے میں بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ اس کائنات پر نازل ہونے والے فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، ص20-25.</ref> علمائے شیعہ اس مسئلے کو "ولایت تکوینی" کا نام دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں:
ائمہؑ کی بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ نے کائنات کے امور مثلا تخلیق، روزی دینا، زندہ کرنا اور موت دینا وغیرہ کا اختیار پیغمبر خداؐ اور امام علیؑ کو تفویض نہیں کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97.</ref> اس کے مقابلے میں بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ اس کائنات پر نازل ہونے والے فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، ص20-25.</ref> علمائے شیعہ اس مسئلے کو "ولایت تکوینی" کا نام دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں:


بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول خداؐ اور ائمہؑ کو سوائے چند موارد کے باقی امور میں ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ [[مرتضی مطہری]]، [[لطف‌ اللہ صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] اور [[جعفر سبحانی]] اس نظریے کے قائل ہیں۔ <ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص51.</ref> [[شیخ صدوق]] اور [[شیخ مفید]]  مخلوقات کے امور کو پیغمبرخداؐ اور ائمہؑ پر تفویض کیے جانے کو رد کرتے ہیں اور اسے غالیوں کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97، 100؛ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج5، ص134.</ref> اس کے مقابلے میں بعض دیگر علما جیسے [[محمد حسین غروی اصفہانی]] اور [[سید محمد حسین حسینی طہرانی|سید محمد حسین حسینی تہرانی]] کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کو کائنات کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل ہے اور وہ عالم ہستی میں فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج5، 1418ھ، ص114.</ref>
بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول خداؐ اور ائمہؑ کو سوائے چند موارد کے باقی امور میں ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ [[مرتضی مطہری]]، [[لطف‌ اللہ صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] اور [[جعفر سبحانی]] اس نظریے کے قائل ہیں۔ <ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص51.</ref> [[شیخ صدوق]] اور [[شیخ مفید]]  مخلوقات کے امور کو پیغمبرخداؐ اور ائمہؑ پر تفویض کیے جانے کو رد کرتے ہیں اور اسے غالیوں کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97، 100؛ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج5، ص134.</ref> اس کے مقابلے میں بعض دیگر علما جیسے [[محمد حسین غروی اصفہانی]] اور [[سید محمد حسین حسینی طہرانی|سید محمد حسین حسینی تہرانی]] کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کو کائنات کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل ہے اور یہ ہستیاں عالم ہستی میں فیض الہی کے واسطے ہیں۔<ref>غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج5، 1418ھ، ص114.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم