مندرجات کا رخ کریں

"عثمانیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

481 بائٹ کا اضافہ ،  11 دسمبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4: سطر 4:
| اندازہ تصویر    =
| اندازہ تصویر    =
| توضیح تصویر      =
| توضیح تصویر      =
|بانی              =[[طلحہ بن عبید اللہ|طلحہ]]- [[زبیر بن عوام|زبیر]]- [[عایشہ]]- [[معاویة بن ابی‌سفیان|معاویہ]]
|بانی              =[[طلحہ]]- [[زبیر بن عوام|زبیر]]- [[عایشہ]]- [[معاویة بن ابی‌سفیان|معاویہ]]
| مبداء            =[[سنہ 35 ہجری قمری|35ھ]]
| مبداء            =[[سنہ 35 ہجری قمری|35ھ]]
| قدمت            =
| قدمت            =
سطر 11: سطر 11:
| اہم شہریں        =
| اہم شہریں        =
| زیارت گاہیں      =
| زیارت گاہیں      =
| اہم واقعات      =امام علیؑ کی بیعت سے انکار یا بیعت شکنی، [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] کے لئے زمینہ سازی
| اہم واقعات      =[[امام علیؑ]] کی [[بیعت]] کرنے سے انکار کیا یا بیعت شکنی کی، [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] کے لئے ماحول فراہم کیا گیا
| حکومتیں          =[[بنی‌ امیہ]]
| حکومتیں          =[[بنی‌ امیہ]]
| علل پیدائش      =[[قتل عثمان]]
| علل پیدائش      =[[قتل عثمان]]
| دیگر اسامی      =دین عثمان- شیعہ عثمان
| دیگر اسامی      =دین عثمان- شیعہ عثمان
| از فرق          = اہل سنت
| از فرق          = [[اہل سنت]]
| عقائد            =خلافت عثمان کی حقانیت اور امام علی کی خلافت کی غیر مشروعیت
| عقائد            =خلافت عثمان کی حقانیت اور امام علیؑ کی خلافت کی غیر مشروعیت
| مدعیان          =
| مدعیان          =
| فرقے            =
| فرقے            =
سطر 31: سطر 31:
| سیاسی            =
| سیاسی            =
}}
}}
'''عثمانیہ''' یا '''عثمانیت''' اس فرقے کو کہا جاتا ہے جو [[عثمان]] کے قتل کے بعد [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی [[بیعت]] سے انکار یا بیعت کرنے کی بعد بیعت شکنی کر کے [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] کو اپنا خلیفہ مانتا ہے۔ فرقہ عثمانیہ کی بنیاد سیاسی، سماجی اور علمی میدان میں امام علیؑ اور [[اہل‌ بیتؑ]] کی دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ [[شیعہ|شیعیت]] کے مقابلے میں عثمانیت کی اصطلاح کا آغاز جنگ جمل سے ہوا ہے۔
'''عثمانیہ''' یا '''عثمانیت''' اس فرقے کو کہا جاتا ہے جس کے پیروکاروں نے [[عثمان]] کے قتل کے بعد [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی [[بیعت]] سے انکار کیا یا بیعت کرنے کی بعد بیعت شکنی کر کے [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] کو اپنا خلیفہ مان لیا۔ فرقہ عثمانیہ کی بنیاد سیاسی، سماجی اور علمی میدان میں امام علیؑ اور [[اہل‌ بیتؑ]] کی دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ [[شیعہ|شیعیت]] کے مقابلے میں عثمانیت کی اصطلاح کا آغاز [[جنگ جمل]] سے ہوا ہے۔


محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سیاسی اور عسکری میدان میں فرقہ عثمانیہ نے امام علیؑ اور آپ کے شیعوں پر [[جنگ جمل|جمل]] اور [[جنگ صفین|صفین]] کی دو جنگیں مسلط کیا۔ اسی طرح عثمان کے دور میں اس فرقے کی سیاسی عروج کے وقت شیعوں کے ساتھ براہ راست جنگ کے علاوہ اہل بیتؑ خاص کر امام علیؑ پر [[فحاشی|سب]] و [[لعن]] اور ان کے چاہنے والوں کو قتل کرنے، قید میں ڈالنے اور جلاوطن کرنے میں بھی یہ فرقہ پیش پیش تھا۔ فرقہ عثمانیہ کے بارے میں آخری معلومات [[چوتھی صدی ہجری]] سے مربوط ہیں۔  
محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سیاسی اور عسکری میدان میں فرقہ عثمانیہ نے امام علیؑ اور آپ کے شیعوں پر [[جنگ جمل|جمل]] اور [[جنگ صفین|صفین]] کی دو جنگیں مسلط کیں۔ اسی طرح عثمان کے دور میں اس فرقے کے سیاسی عروج کے وقت شیعوں کے ساتھ براہ راست جنگ کے علاوہ اہل بیتؑ؛ خاص کر امام علیؑ پر [[سبّ علی|سبّ]] و [[لعن]] اور ان کے چاہنے والوں کو قتل کرنے، قید میں ڈالنے اور انہیں جلاوطن کرنے میں بھی یہ فرقہ پیش پیش رہا۔ فرقہ عثمانیہ کے بارے میں آخری معلومات چوتھی صدی ہجری سے مربوط ہیں۔  


[[اسلامی]] دور حکومت میں علم کے مختلف شعبوں من جملہ [[حدیث]]، [[فقہ]]، [[کلام اسلامی|کلام]] اور تاریخ پر فرقہ عثمانیہ نے اپنا اثر چھوڑا ہے۔ ان علوم میں فرقہ عثمانیہ کا غالب رجحان خلفائے ثلاثہ اور معاویہ کے سیاسی رویے پر مبنی اسلام کی نئی تفسیر پیش کرنا تھا۔ [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علی‌ؑ]] اور [[اہل‌ بیتؑ]] سے دشمنی رکھنے والے دانشوروں کی تربیت فرقہ عثمانیہ کے علمی عروج کے زمانے کی اہم خصوصیات میں سے ایک جانا جاتا ہے۔
[[اسلامی]] دور حکومت میں علم و دانش کے مختلف شعبوں من جملہ [[حدیث]]، [[فقہ]]، [[کلام اسلامی|کلام]] اور تاریخ پر فرقہ عثمانیہ نے اپنا اثر چھوڑا ہے۔ ان علوم میں فرقہ عثمانیہ کا غالب رجحان [[خلفائے ثلاثہ]] اور معاویہ کے سیاسی رویے پر مبنی اسلام کی نئی تفسیر پیش کرنا تھا۔ [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علی‌ؑ]] اور [[اہل‌ بیتؑ]] سے دشمنی رکھنے والے دانشوروں کی تربیت فرقہ عثمانیہ کے علمی عروج کے زمانے کی اہم خصوصیات میں سے ایک جانا جاتا ہے۔


== عثمانیت امام علیؑ کے مقابلے میں ایک فرقہ==
== عثمانیت امام علیؑ کے مقابلے میں ایک فرقہ==
عثمانیت اس فرقہ‌ کو کہا جاتا ہے جس نے [[قتل عثمان]] کے بعد [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی [[بیعت]] سے انکار <ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص429-430۔</ref> یا بیعت کرنے کے بعد عہد شکنی کی۔<ref>ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص15-16۔</ref> کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ اور [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] کے درمیان مقابلے کے دوران یہ فرقہ معاویہ کی طرف مائل تھا۔<ref>ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص16۔</ref> یہ فرقہ [[طلحۃ بن عبیداللہ|طلحہ]]، [[زبیر بن عوام|زبیر]]، [[عایشہ]] اور معاویہ کے حامیوں پر مشتمل تھا۔<ref>ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص16۔</ref> [[ویلفرد مادلونگ|مادلونگ]] اور بعض دوسرے مورخین کے مطابق فرقہ عثمانیہ کے مروجہ رجحان کی اہم خصوصیت امام علیؑ کی مخالفت تھی<ref>مادلونگ، فرقہ‌ہای اسلامی، 1381ہجری شمسی، ص37۔</ref> اور ان کی اکثریت آپ کی امامت و خلافت کو غیر مشروع سمجھتے تھے۔<ref>خیرخواہ علوی و دیگران، «علی و خلافت وی از نگاہ مکتب تاریخ‌نگاری عثمانیہ»، ص51۔</ref> فرقہ عثمانیہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے بعد معاویہ کو خلیفہ مانتے تھے اور اس کی دلیل عثمان کے ساتھ معاویہ کی قرابت داری اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں دوسروں سے زیادہ معاویہ کا سزاوار ہونا قرار دیتے تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref>  
عثمانیت اس فرقہ‌ کو کہا جاتا ہے جس نے [[قتل عثمان]] کے بعد [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی [[بیعت]] سے انکار<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص429-430۔</ref> یا بیعت کرنے کے بعد عہد شکنی کی۔<ref>ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص15-16۔</ref> کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ اور [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] کے درمیان مقابلے کے دوران یہ فرقہ معاویہ کی طرف مائل تھا۔<ref>ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص16۔</ref> یہ فرقہ [[طلحۃ بن عبیداللہ|طلحہ]]، [[زبیر بن عوام|زبیر]]، [[عایشہ]] اور معاویہ کے حامیوں پر مشتمل تھا۔<ref>ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص16۔</ref> [[ویلفرد مادلونگ|مادلونگ]] اور بعض دوسرے مورخین کے مطابق فرقہ عثمانیہ کے مروجہ رجحان کی اہم خصوصیت امام علیؑ کی مخالفت تھی<ref>مادلونگ، فرقہ‌ہای اسلامی، 1381ہجری شمسی، ص37۔</ref> اور ان کی اکثریت آپ کی امامت و خلافت کو غیر مشروع سمجھتے تھے۔<ref>خیرخواہ علوی و دیگران، «علی و خلافت وی از نگاہ مکتب تاریخ‌نگاری عثمانیہ»، ص51۔</ref> فرقہ عثمانیہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے بعد معاویہ کو خلیفہ مانتے تھے اور اس کی دلیل عثمان کے ساتھ معاویہ کی قرابت داری اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں دوسروں سے زیادہ معاویہ کا سزاوار ہونا قرار دیتے تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref>  


کہا جاتا ہے کہ فرقہ عثمانیہ اپنی پوری کوشش سیاسی، عسکری اور علمی میدان میں امام علیؑ اور [[اہل‌ بیتؑ]] کے ساتھ دشمنی اور خصومت پر مرکوز تھی۔<ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص134۔</ref> [[رسول جعفریان]] اس بات کے معتقد ہیں کہ سیاسی میدان میں فرقہ عثمانیہ نے امام علیؑ اور آپ کے شیعوں پر [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] مسلط کیا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref> ان کے مطابق اگرچہ جنگ جمل میں فرقہ عثمانیہ کو شکست ہوئی لیکن [[بصرہ]] میں عثمانیت کو حفظ کرنے، جنگ صفین کے بعد پورے [[عراق عرب|عراق]] پر مسلط ہونے اور [[خلافت بنی‌ امیہ]] کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref>  
کہا جاتا ہے کہ فرقہ عثمانیہ اپنی پوری کوشش سیاسی، عسکری اور علمی میدان میں امام علیؑ اور [[اہل‌ بیتؑ]] کے ساتھ دشمنی اور خصومت پر مرکوز تھی۔<ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص134۔</ref> [[رسول جعفریان]] اس بات کے معتقد ہیں کہ سیاسی میدان میں فرقہ عثمانیہ نے امام علیؑ اور آپ کے شیعوں پر [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] مسلط کیا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref> ان کے مطابق اگرچہ جنگ جمل میں فرقہ عثمانیہ کو شکست ہوئی لیکن [[بصرہ]] میں عثمانیت کو حفظ کرنے، جنگ صفین کے بعد پورے [[عراق عرب|عراق]] پر مسلط ہونے اور [[خلافت بنی‌ امیہ]] کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref>  
سطر 55: سطر 55:


=== خلافت عثمان کی حقانیت اور انہیں بے گناہ قتل کئے جانے کا عقیدہ ===
=== خلافت عثمان کی حقانیت اور انہیں بے گناہ قتل کئے جانے کا عقیدہ ===
عثمانیت کے پہلے دور کی خصوصیات میں ان کی خلافت کی حقانیت اور بے گناہ قتل کئے جانے کا عقیدہ<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص449۔</ref>، عثمان کے قتل میں ملوث ہونے کی بنا پر [[حکومت امام علیؑ|امام علی کی خلافت]] کا مشروع نہ ہونا<ref>ابن‌قتیبہ دینوری، الاختلاف فی اللفظ، 1412ھ، ص54۔</ref> اور [[امت]] کے ساتھ مشورہ کئے بغیر امام علیؑ کا [[خلافت]] پر قبضہ کرنا<ref>ابن‌قتیبہ دینوری، الاختلاف فی اللفظ، 1412ھ، ص54۔</ref> شامل ہیں۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص227۔</ref> بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ عثمان کے خلاف شروع ہونے والی تحریک میں شرکت نہ کرنے والوں کی اکثریت عثمانی‌ مذہب کے پیروکار تھے۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص227۔</ref> محققین کے مطابق  [[سنہ 70 ہجری قمری|سنہ 70ھ]] تک [[اسلامی معاشرے]] پر عثمانی نظریے کی حکومت تھی<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص227۔</ref> اور عوام بھی اسی نظریے کی پیروی کرتے تھے۔<ref>جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص215۔</ref> [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین|صفین]]، <ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref> [[غصب خلافت]] اور [[خلافت بنی‌ امیہ]] کی بنیاد، <ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص134-135۔</ref> [[سب علیؑ|سَبّ امام علیؑ]]، <ref>خیرخواہ علوی، «عثمانیہ و شیعہ در دو قرن نخست ہجری»، ص108۔</ref> [[امام حسن مجتبی علیہ‌ السلام|امام حسنؑ]] کی شہادت، <ref>خیرخواہ علوی، «عثمانیہ و شیعہ در دو قرن نخست ہجری»، ص109۔</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے جوار میں امام حسنؑ کو دفن کرنے سے ممانعت، <ref>مردانی، «[http://pajoohe.ir/%D9%81%D8%B1%D9%82%D9%87-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C%D9%87__a-36094.aspx فرقہ عثمانیہ]»، تارنمای پژوہہ۔</ref> [[واقعہ کربلا|واقعہ عاشورا]]<ref>ہدایت‌پناہ، بازتاب تفکر عثمانی در واقعہ کربلا، 1388ہجری شمسی، ص149؛ جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص216؛ جعفریان، «[https://historylib.com/articles/1883/%D8%B4%DA%A9%D9%84+%DA%AF%DB%8C%D8%B1%DB%8C+%D9%85%D8%B0%D9%87%D8%A8+%D8%B4%DB%8C%D8%B9%DB%8C+%D9%88+%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C+%D9%88+%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D9%85%D9%87+%D8%A2%D9%86+%D8%A8%D8%A7+%D8%B1%D9%88%DB%8C+%DA%A9%D8%A7%D8%B1+%D8%A2%D9%85%D8%AF%D9%86+%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA+%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%B3%DB%8C شکل‌گیری مذہب شیعی و عثمانی و ادامہ آن با روی کار آمدن دولت عباسی]»۔</ref> اور [[شیعہ|شیعوں]] کا سخت اور کھٹن مراحل سے گزرنا<ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص134-135۔</ref> من جملہ اس دور کے اہم سیاسی واقعات میں شمار کئے جاتے ہیں۔
عثمانیت کے پہلے دور کی خصوصیات میں ان کی خلافت کی حقانیت اور بے گناہ قتل کئے جانے کا عقیدہ<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص449۔</ref>، عثمان کے قتل میں ملوث ہونے کی بنا پر [[حکومت امام علیؑ|امام علی کی خلافت]] کا مشروع نہ ہونا<ref>ابن‌قتیبہ دینوری، الاختلاف فی اللفظ، 1412ھ، ص54۔</ref> اور [[امت]] کے ساتھ مشورہ کئے بغیر امام علیؑ کا [[خلافت]] پر قبضہ کرنا<ref>ابن‌قتیبہ دینوری، الاختلاف فی اللفظ، 1412ھ، ص54۔</ref> شامل ہیں۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص227۔</ref> بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ عثمان کے خلاف شروع ہونے والی تحریک میں شرکت نہ کرنے والوں کی اکثریت عثمانی‌ مذہب کے پیروکار تھے۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص227۔</ref> محققین کے مطابق  [[سنہ 70 ہجری قمری|سنہ 70ھ]] تک [[اسلامی معاشرے]] پر عثمانی نظریے کی حکومت تھی<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص227۔</ref> اور عوام بھی اسی نظریے کی پیروی کرتے تھے۔<ref>جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص215۔</ref> [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین|صفین]]،<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص40۔</ref> [[غصب خلافت]] اور [[خلافت بنی‌ امیہ]] کی بنیاد، <ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص134-135۔</ref> [[سب علیؑ|سَبّ امام علیؑ]]، <ref>خیرخواہ علوی، «عثمانیہ و شیعہ در دو قرن نخست ہجری»، ص108۔</ref> [[امام حسن مجتبی علیہ‌ السلام|امام حسنؑ]] کی شہادت، <ref>خیرخواہ علوی، «عثمانیہ و شیعہ در دو قرن نخست ہجری»، ص109۔</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے جوار میں امام حسنؑ کو دفن کرنے سے ممانعت، <ref>مردانی، «[http://pajoohe.ir/%D9%81%D8%B1%D9%82%D9%87-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C%D9%87__a-36094.aspx فرقہ عثمانیہ]»، تارنمای پژوہہ۔</ref> [[واقعہ کربلا|واقعہ عاشورا]]<ref>ہدایت‌پناہ، بازتاب تفکر عثمانی در واقعہ کربلا، 1388ہجری شمسی، ص149؛ جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص216؛ جعفریان، «[https://historylib.com/articles/1883/%D8%B4%DA%A9%D9%84+%DA%AF%DB%8C%D8%B1%DB%8C+%D9%85%D8%B0%D9%87%D8%A8+%D8%B4%DB%8C%D8%B9%DB%8C+%D9%88+%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C+%D9%88+%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D9%85%D9%87+%D8%A2%D9%86+%D8%A8%D8%A7+%D8%B1%D9%88%DB%8C+%DA%A9%D8%A7%D8%B1+%D8%A2%D9%85%D8%AF%D9%86+%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA+%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%B3%DB%8C شکل‌گیری مذہب شیعی و عثمانی و ادامہ آن با روی کار آمدن دولت عباسی]»۔</ref> اور [[شیعہ|شیعوں]] کا سخت اور کھٹن مراحل سے گزرنا<ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص134-135۔</ref> من جملہ اس دور کے اہم سیاسی واقعات میں شمار کئے جاتے ہیں۔


اس دور میں عثمانیت کے موثر شخصیات میں [[طلحۃ بن عبیداللہ|طلحہ]]، [[زبیر بن عوام|زبیر]]، [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] اور [[عایشہ]] کے علاوہ عبداللَّہ بن سلام اور [[مغيرہ بن شعبہ|مغيرہ بن شُعْبَہ]] کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے [[شام]] معاویہ کے پاس چلے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص430۔</ref>[[انصار]] میں سے [[حسان بن ثابت|حَسّان بن ثابت]]، کعب بن مالک، [[ابو سعید خدری|ابو سعید خُدْری]]، محمد بن مسلمہ، [[نعمان بن بشیر]] اور [[زید بن ثابت]] کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے انصار کی اکثریت کے برخلاف امام علیؑ کی [[بیعت]] سے انکار کیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص429-430۔</ref>
اس دور میں عثمانیت کے موثر شخصیات میں [[طلحۃ بن عبیداللہ|طلحہ]]، [[زبیر بن عوام|زبیر]]، [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] اور [[عایشہ]] کے علاوہ عبداللَّہ بن سلام اور [[مغيرہ بن شعبہ|مغيرہ بن شُعْبَہ]] کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے [[شام]] معاویہ کے پاس چلے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص430۔</ref>[[انصار]] میں سے [[حسان بن ثابت|حَسّان بن ثابت]]، کعب بن مالک، [[ابو سعید خدری|ابو سعید خُدْری]]، محمد بن مسلمہ، [[نعمان بن بشیر]] اور [[زید بن ثابت]] کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے انصار کی اکثریت کے برخلاف امام علیؑ کی [[بیعت]] سے انکار کیا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص429-430۔</ref>
سطر 63: سطر 63:


=== خلفائے راشدین کا نظریہ ===
=== خلفائے راشدین کا نظریہ ===
تیسرے دور میں عثمانی‌ مذہب کا پیروکار اس شخص کو کہا جاتا تھا جو [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] پر عثمان اور ہر خلیفہ کو اپنے زمانے میں دوسروں سے افضل سمجھتا تھا اور فضیلت کے مراتب کو خلافت میں جانشینی کے ساتھ یکسان سمجھتا تھا۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref> اس دور میں عثمانیت معتدل شیعہ اور شیعہ کی طرف مائل اہل سنت جو [[عثمان بن عفان|عثمان]] کو فضلت میں امام علیؑ کے بعد چوتھے نمبر پر قبول کرتے تھے، کے مقابلے میں قرار پاتی۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref> [[تیسری صدی ہجری]] کے اواسط سے [[تربیع|نظریۂ تربیع]] (خلفائے اربعہ) کے رواج پانے کے بعد [[احمد بن حنبل]] کو اس نظریے کے لئے زمنیہ ہموار کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref>
تیسرے دور میں عثمانی‌ مذہب کا پیروکار اس شخص کو کہا جاتا تھا جو [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] پر عثمان اور ہر خلیفہ کو اپنے زمانے میں دوسروں سے افضل سمجھتا تھا اور فضیلت کے مراتب کو خلافت میں جانشینی کے ساتھ یکسان سمجھتا تھا۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref> اس دور میں عثمانیت سیاسی شیعہ{{نوٹ| سیاسی شیعہ یا عراقی شیعہ پہلی اور دوسری صدی کے اس شیعہ گروہ کو کہا جاتا تھا جو عقیدتی لحاظ سے ہٹ کر صرف سیاسی لحاظ سے امام علیؑ کو عثمان پر فوقیت دیتا تھا۔(جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1388ہجری شمسی، ص22-27).}} اور شیعہ کی طرف مائل اہل سنت جو [[عثمان بن عفان|عثمان]] کو فضلت میں امام علیؑ کے بعد چوتھے نمبر پر قبول کرتے تھے، کے مقابلے میں قرار پائی۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref> [[تیسری صدی ہجری]] کے اواسط سے [[تربیع|نظریۂ تربیع]] (خلفائے اربعہ) کے رواج پانے کے بعد [[احمد بن حنبل]] کو اس نظریے کے لئے ماحول سازگار کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref>
 
=== بنی امیہ کے پیروکار ===
=== بنی امیہ کے پیروکار ===
بعض کہتے ہیں کہ عثمانی‌ مذہب کے اصحاب حدیث کے ختم ہونے کے بعد تیسری صدی کے اواخر سے ایک گروہ عثمانیت کے نام سے مشہور ہو گئے جو [[خلافت بنی‌ امیہ]] کی حقانیت اور اندلس میں بنی امیہ کے خلافت کے امتداد پر یقین رکھتے تھے۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref> [[ابوالفرج اصفہانی]]<ref>ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1415ھ، ج11، ص167۔</ref> کے مطابق چوتھی صدی ہجری میں عثمانی مذہب کے پیروکار موجود تھے جن کا [[کوفہ]] میں اپنی مسجد تھی جہاں [[شیعہ|شیعہ]] نماز پڑھنے سے پرہیز کرتے تھے۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1415ھ، ج11، ص167۔</ref>
بعض کہتے ہیں کہ عثمانی‌ مذہب کے اصحاب حدیث کے ختم ہونے کے بعد تیسری صدی کے اواخر سے ایک گروہ عثمانیت کے نام سے مشہور ہو گیا جو [[خلافت بنی‌ امیہ]] کی حقانیت اور اندلس میں بنی امیہ کی خلافت کے استمرار پر یقین رکھتا تھا۔<ref>کرون، «عثمانیہ»، ص231۔</ref> [[ابوالفرج اصفہانی]]<ref>ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1415ھ، ج11، ص167۔</ref> کے مطابق چوتھی صدی ہجری میں عثمانی مذہب کے پیروکار موجود تھے جن کا [[کوفہ]] میں اپنی مسجد تھی جہاں [[شیعہ|شیعہ]] نماز پڑھنے سے پرہیز کرتے تھے۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1415ھ، ج11، ص167۔</ref>


== اسلامی علوم میں عثمانیوں کے آثار==
== اسلامی علوم میں عثمانیوں کے آثار==
عثمانیت کو اس اس کے پیدائش سے ہی اسلامی معاشرے کے مختلف علمی شعبوں من جملہ [[حدیث]]، [[فقہ]]، [[کلام اسلامی|کلام]] اور تاریخ میں أثرگذار مانے جاتے ہیں۔<ref>خیرخواہ علوی و دیگران، «علی و خلافت وی از نگاہ مکتب تاریخ‌نگاری عثمانیہ»، ص52؛ فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144؛ جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص215۔ </ref> رسول جعفریان کے مطابق ان تمام شعبوں میں عثمانی مذہب کے اکثر پیروکاروں کا غالب رجحان سیاسی اور عقیدتی میدان میں [[خلفائے ثلاثہ]] اور [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] کے سیاسی موقف کے مطابق اسلام کی نئی تفسیر پیش کرنا تھا۔<ref>جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص216۔</ref> [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علی‌ؑ]] اور [[اہل‌ بیتؑ]] سے دشمنی رکھنے والے محدثین، فقہاء، متکلمین اور مورخین کی تربیت اس دور کی اہم خصوصیت میں شمار کی جاتی ہے۔<ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص135۔</ref>
عثمانیت کو اس کی پیدائش سے ہی اسلامی معاشرے کے مختلف علمی شعبوں منجملہ [[حدیث]]، [[فقہ]]، [[کلام اسلامی|کلام]] اور تاریخ میں اثر گزار مانے جاتے ہیں۔<ref>خیرخواہ علوی و دیگران، «علی و خلافت وی از نگاہ مکتب تاریخ‌نگاری عثمانیہ»، ص52؛ فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144؛ جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص215۔ </ref> رسول جعفریان کے مطابق ان تمام شعبوں میں عثمانی مذہب کے اکثر پیروکاروں کا غالب رجحان سیاسی اور عقیدتی میدان میں [[خلفائے ثلاثہ]] اور [[معاویۃ بن ابی‌سفیان|معاویہ]] کے سیاسی موقف کے مطابق اسلام کی نئی تفسیر پیش کرنا تھا۔<ref>جعفریان، درس‌ہایی دربارہ فرق اسلامی، 1401ہجری شمسی، ص216۔</ref> [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علی‌ؑ]] اور [[اہل‌ بیتؑ]] سے دشمنی رکھنے والے محدثین، فقہاء، متکلمین اور مورخین کی تربیت اس دور کی اہم خصوصیت میں شمار کی جاتی ہے۔<ref>مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیتؑ»، ص135۔</ref>


=== حدیث اور فقہ ===
=== حدیث اور فقہ ===
تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق ہجری کے ابتدائی صدیوں میں اسلام کے اہم علمی مراکز میں [[علم حدیث]] اور [[علم فقہ]] جیسے اہم شعبوں میں عثمانی مفکرین سرگرم تھے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144۔</ref> ان علمی مراکز کو بالترتیب یوں ذکر کیا گیا ہے: [[مدینہ]]، [[بصرہ]]، [[کوفہ]]، [[مکہ]] اور [[شام]]۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144۔</ref>
تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق ہجری کے ابتدائی صدیوں میں [[اسلام]] کے اہم علمی مراکز میں [[علم حدیث]] اور [[فقہ|علم فقہ]] جیسے اہم شعبوں میں عثمانی مفکرین سرگرم تھے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144۔</ref> ان علمی مراکز کو بالترتیب یوں ذکر کیا گیا ہے: [[مدینہ]]، [[بصرہ]]، [[کوفہ]]، [[مکہ]] اور [[شام]]۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144۔</ref>


مدینہ میں [[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کے مورد اعتماد اہم اصحاب عثمانی مذہب کے پیروکار شمار کئے جاتے تھے؛<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144-145۔</ref> من جملہ ان میں [[عایشہ]]،<ref>ابن‌قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، 1410ھ، ج1، ص71-72۔</ref> [[عبداللہ بن عمر]]<ref>ثقفی کوفی، الغارات، 1395ھ، ج2، ص569۔</ref> اور [[ابوہریرہ]] کا نام لیا جا سکتا ہے۔<ref>ثقفی کوفی، الغارات، 1395ھ، ج2، ص569۔</ref> محققین کے مطابق مدینہ کے عثمانی مذہب فقہاء اور محدثین کا غالب رجحان [[خلفائے ثلاثہ]] کے مناقب بیان کرنا اور امام علیؑ کے ساتھ دشمنی تھا۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص149-150۔</ref> مدینہ کے ساتھ فقہاء میں سے بعض <ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص136۔</ref> {{نوٹ|[[مدینہ]] میں مقیم سات ہم عصر فقہاء [[تابعین]] میں سے ہیں: ابوبکر بن عبدالرحمان مخزومی (متوفی: 94ھ)، [[خارجۃ بن زید انصاری]] (متوفی: 99ھ)، [[سعید بن مسیب]] (متوفی: 91ھ)، سلیمان بن یسار، (متوفی: 107ھ)، عبیداللہ بن عبداللہ مخزومی (متوفی: 98ھ)، عروۃ بن زبیر (متوفی: 94ھ)، [[قاسم بن محمد بن ابی‌بکر]] (متوفی: 108ھ)۔ <ref>خلیل القطان، تاریخ التشریع الاسلامی، 1422ھ، ص294۔</ref>}} کم و بیش عثمانی مذہب کے پیروکار تھے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص145-146۔</ref>  
مدینہ میں [[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کے مورد اعتماد اہم اصحاب عثمانی مذہب کے پیروکار شمار کئے جاتے تھے؛<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص144-145۔</ref> من جملہ ان میں [[عایشہ]]،<ref>ابن‌قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، 1410ھ، ج1، ص71-72۔</ref> [[عبداللہ بن عمر]]<ref>ثقفی کوفی، الغارات، 1395ھ، ج2، ص569۔</ref> اور [[ابوہریرہ]] کا نام لیا جا سکتا ہے۔<ref>ثقفی کوفی، الغارات، 1395ھ، ج2، ص569۔</ref> محققین کے مطابق [[مدینہ]] کے عثمانی مذہب فقہاء اور محدثین کا غالب رجحان [[خلفائے ثلاثہ]] کے مناقب بیان کرنا اور امام علیؑ کے ساتھ دشمنی کرنا تھا۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص149-150۔</ref> مدینہ کے ساتھ فقہاء میں سے بعض <ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص136۔</ref> {{نوٹ|[[مدینہ]] میں مقیم سات ہم عصر فقہاء [[تابعین]] میں سے ہیں: ابوبکر بن عبدالرحمان مخزومی (متوفی: 94ھ)، [[خارجۃ بن زید انصاری]] (متوفی: 99ھ)، [[سعید بن مسیب]] (متوفی: 91ھ)، سلیمان بن یسار، (متوفی: 107ھ)، عبیداللہ بن عبداللہ مخزومی (متوفی: 98ھ)، عروۃ بن زبیر (متوفی: 94ھ)، [[قاسم بن محمد بن ابی‌بکر]] (متوفی: 108ھ)۔ <ref>خلیل القطان، تاریخ التشریع الاسلامی، 1422ھ، ص294۔</ref>}} کم و بیش عثمانی مذہب کے پیروکار تھے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص145-146۔</ref>  


[[بصرہ]] کی اکثریت کا رجحان عثمانیت کی طرف تھا۔<ref>ابن‌ عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، بیروت، 1999م، ج6، ص264۔</ref> [[انس بن مالک|اَنَس بن مالک]]<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص74۔</ref> اور محمد بن سیرین (متوفی: 110ھ)، <ref>ابن‌جوزی، الرد علی المتعصب العنید، 1403ھ، ص75۔</ref> بصرہ کے مشہور عثمانی مذہب فقہاء اور محدثین میں سے تھے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص150۔</ref> بصرہ کے اکثر عثمانی مذہب فقہاء اور محدثین کا غالب رجحان [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کے بارے میں خاموشی اور ان سے منحرف ہونا ہے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص156۔</ref>
[[بصرہ]] کی اکثریت کا رجحان عثمانیت کی طرف تھا۔<ref>ابن‌ عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، بیروت، 1999م، ج6، ص264۔</ref> [[انس بن مالک|اَنَس بن مالک]]<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص74۔</ref> اور محمد بن سیرین (متوفی: 110ھ)، <ref>ابن‌جوزی، الرد علی المتعصب العنید، 1403ھ، ص75۔</ref> بصرہ کے مشہور عثمانی مذہب فقہاء اور محدثین میں سے تھے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص150۔</ref> بصرہ کے اکثر عثمانی مذہب فقہاء اور محدثین کا غالب رجحان [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کے بارے میں خاموشی اور ان سے منحرف ہونا ہے۔<ref>فرمانیان، «عثمانیہ و اصحاب حدیث قرون نخستین تا ظہور احمد بن حنبل با تأکید بر سیر اعلام النبلاء ذہبی»، ص156۔</ref>
سطر 92: سطر 91:
==حوالہ جات ==
==حوالہ جات ==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
confirmed، movedable
3,764

ترامیم