مندرجات کا رخ کریں

"ابو طالب علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17: سطر 17:
| مدفن              =[[قبرستان حجون]] یا قبرستان ابی طالب یا جنت المعلی (المعلاة)
| مدفن              =[[قبرستان حجون]] یا قبرستان ابی طالب یا جنت المعلی (المعلاة)
| اصحاب              =
| اصحاب              =
| دینی              =پشت پناہی [[رسول اکرم (ص)]]
| دینی              =پشت پناہی [[رسول اکرمؐ]]
| سماجی              =
| سماجی              =
| علمی              =
| علمی              =
سطر 46: سطر 46:
[[حلبی]] کہتے ہیں: ابو طالب(ع) نے اپنے والد ماجد [[عبد المطلب علیہ السلام|حضرت عبد المطلب بن ہاشم(ع)]] کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔<ref>سیره حلبی، ج 1، ص 184۔</ref>
[[حلبی]] کہتے ہیں: ابو طالب(ع) نے اپنے والد ماجد [[عبد المطلب علیہ السلام|حضرت عبد المطلب بن ہاشم(ع)]] کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔<ref>سیره حلبی، ج 1، ص 184۔</ref>


== رسول اکرم (ص) کی کفالت اور سرپرستی ==
== رسول اکرمؐ کی کفالت اور سرپرستی ==
ابو طالب (ع) نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد (ص)]] کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا۔<ref>سیره ابن‌هشام، ج 1، ص 116، دلائل النبوه، ج 2، ص 22۔</ref>
ابو طالبؑ نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا۔<ref>سیره ابن‌هشام، ج 1، ص 116، دلائل النبوه، ج 2، ص 22۔</ref>


[[ابن شہرآشوب]] کہتے ہیں: جناب [[عبد المطلب علیہ السلام|عبد المطلب]] نے وقت وصال ابو طالب (ع) کو بلوایا اور کہا:
[[ابن شہرآشوب]] کہتے ہیں: جناب [[عبد المطلب علیہ السلام|عبد المطلب]] نے وقت وصال ابو طالبؑ کو بلوایا اور کہا:
:"بیٹا! تم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدؐ]] کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھونگا کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو"۔ ابو طالب (ع) نے جوابا کہا:
:"بیٹا! تم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدؐ]] کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھونگا کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو"۔ ابو طالبؑ نے جوابا کہا:
:"ابا جان! مجھے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدؐ]] کے بارے میں سفارش کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔
:"ابا جان! مجھے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدؐ]] کے بارے میں سفارش کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔


[[ابن شہر آشوب]] مزید کہتے ہیں:  "[[عبد المطلب علیہ السلام|عبد المطلب]] (ع)" کا انتقال ہوا تو ابو طالب (ع) نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا (ص)]] کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا۔<ref>مناقب، ج 1، ص 36۔</ref> [[ابن ہشام]] لکھتے ہیں: "ابو طالب (ع) رسول خدا (ص) کو خاص توجہ دیتے تھے؛ اور آپ (ص) پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپ (ص) کے لئے فراہم کرتے تھے اور آپ (ص) کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھا دیتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے"۔<ref>طبقات ابن‌ سعد، ج  1، ص 119۔</ref>
[[ابن شہر آشوب]] مزید کہتے ہیں:  "[[عبد المطلب علیہ السلام|عبد المطلب]]ؑ" کا انتقال ہوا تو ابو طالبؑ نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا۔<ref>مناقب، ج 1، ص 36۔</ref> [[ابن ہشام]] لکھتے ہیں: "ابو طالبؑ رسول خداؐ کو خاص توجہ دیتے تھے؛ اور آپؐ پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپؐ کے لئے فراہم کرتے تھے اور آپؐ کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھا دیتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے"۔<ref>طبقات ابن‌ سعد، ج  1، ص 119۔</ref>


ابو طالب (ع) جب بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لئے دسترخوان بچھاکر کہا کرتے تھے کہ "رک جاؤ کہ میرا بیٹا (رسول خدا(ص)) آ جائے۔<ref>ابن شہر آشوب، مناقب، ج 1، ص 37۔</ref>
ابو طالبؑ جب بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لئے دسترخوان بچھاکر کہا کرتے تھے کہ "رک جاؤ کہ میرا بیٹا (رسول خدا(ص)) آ جائے۔<ref>ابن شہر آشوب، مناقب، ج 1، ص 37۔</ref>


== رسول اللہ (ص) کے حامی و پشت پناہ ==
== رسول اللہؐ کے حامی و پشت پناہ ==
تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالب(ع) نے [[قریش]] کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرم(ص) کے بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالب(ع) کی عمر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے آپ(ص) کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کرکھ ے دکھایا۔ انھوں نے قریش کے عمائدین کے سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہ(ص) کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا۔<ref>سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173۔</ref> قریشیوں نے کہا: [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا(ص)]] کو ہمارے حوالے کریں تا کہ ہم انہیں قتل کریں؛ ہم ان کے بدلے [[مکہ]] کا انتہائی خوبصورت نوجوان "عماره بن ولید مخزومی" آپ کے سپرد کریں گے؛ تو مؤمن قریش نے جواب دیا: "اچھا تو تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور کھلاؤنگا اور پلاؤنگا؟"۔ ابو طالب(ع) نے فریشیوں پر لعنت ملامت کی اور انہيں دھمکی دی کہ اگر رسول اللہ(ص) کے خلاف اپنی سازشوں سے باز نہ آئیں تو انہيں ہلاک کردیں گے۔<ref>سیره ابن هشام، ج1، ص173۔</ref>۔<ref>انساب الاشراف، ج 1، ص 31۔</ref>
تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالب(ع) نے [[قریش]] کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرم(ص) کے بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالب(ع) کی عمر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے آپ(ص) کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کرکھ ے دکھایا۔ انھوں نے قریش کے عمائدین کے سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہ(ص) کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا۔<ref>سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173۔</ref> قریشیوں نے کہا: [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا(ص)]] کو ہمارے حوالے کریں تا کہ ہم انہیں قتل کریں؛ ہم ان کے بدلے [[مکہ]] کا انتہائی خوبصورت نوجوان "عماره بن ولید مخزومی" آپ کے سپرد کریں گے؛ تو مؤمن قریش نے جواب دیا: "اچھا تو تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور کھلاؤنگا اور پلاؤنگا؟"۔ ابو طالب(ع) نے فریشیوں پر لعنت ملامت کی اور انہيں دھمکی دی کہ اگر رسول اللہ(ص) کے خلاف اپنی سازشوں سے باز نہ آئیں تو انہيں ہلاک کردیں گے۔<ref>سیره ابن هشام، ج1، ص173۔</ref>۔<ref>انساب الاشراف، ج 1، ص 31۔</ref>


سطر 73: سطر 73:
== اشعار ==
== اشعار ==
{{اصلی|دیوان ابوطالب}}
{{اصلی|دیوان ابوطالب}}
ابو طالب (ع) کے قصائد اور منظوم کلام اور حکیمانہ اور ادیبانہ منظوم اقوال تقریبا ایک ہزار ابیات (اشعار) پر مشتمل ہیں اور یہ مجموعہ [[دیوان ابو طالب]] کے نام سے مشہور ہے۔ جو کچھ ان اشعار اور اقوال میں آیا ہے سب [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا (ص)]] کی رسالت و نبوت کی تصدیق و تائید پر مبنی ہے۔ ان کا مشہور ترین قصیدہ قصیدہ لامیہ کے عنوان سے مشہور ہے۔<ref>شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18۔</ref>
ابو طالبؑ کے قصائد اور منظوم کلام اور حکیمانہ اور ادیبانہ منظوم اقوال تقریبا ایک ہزار ابیات (اشعار) پر مشتمل ہیں اور یہ مجموعہ [[دیوان ابو طالب]] کے نام سے مشہور ہے۔ جو کچھ ان اشعار اور اقوال میں آیا ہے سب [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] کی رسالت و نبوت کی تصدیق و تائید پر مبنی ہے۔ ان کا مشہور ترین قصیدہ قصیدہ لامیہ کے عنوان سے مشہور ہے۔<ref>شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18۔</ref>


== ایمان ==
== ایمان ==
سطر 96: سطر 96:


== وفات اور عام الحزن ==
== وفات اور عام الحزن ==
ابو طالب (ع) کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی مختلف اقوال پائے جاتے ہیں لیکن بعض شیعہ منابع میں ان کی تاریخ وفات 26 [[رجب المرجب|رجب]] ہے جب کہ اس سے صرف تین روز قبل [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ(س)]] وفات پا چکی تھیں۔ ابو طالب (ع) 85 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔<ref>جنات الخلود، ص 16۔</ref>۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 35.</ref>
ابو طالبؑ کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی مختلف اقوال پائے جاتے ہیں لیکن بعض شیعہ منابع میں ان کی تاریخ وفات 26 [[رجب المرجب|رجب]] ہے جب کہ اس سے صرف تین روز قبل [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ(س)]] وفات پا چکی تھیں۔ ابو طالبؑ 85 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔<ref>جنات الخلود، ص 16۔</ref>۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 35.</ref>
بعض منابع میں مروی ہے کہ ابو طالب (ع) پندرہ [[شوال المکرم|شوال]] یا یکم [[ذوالقعدۃ الحرام|ذوالقعدہ]] کو دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا (ص)]] نے [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ (س)]] اور حضرت ابو طالب (ع) کے سال وفات کو [[عام الحزن]] (دکھوں کا سال) قرار دیا۔<ref>امتاع الاسماع، ج 1، ص 45۔</ref>
بعض منابع میں مروی ہے کہ ابو طالبؑ پندرہ [[شوال المکرم|شوال]] یا یکم [[ذوالقعدۃ الحرام|ذوالقعدہ]] کو دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] نے [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ(س)]] اور حضرت ابو طالبؑ کے سال وفات کو [[عام الحزن]] (دکھوں کا سال) قرار دیا۔<ref>امتاع الاسماع، ج 1، ص 45۔</ref>


[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ (ص)]] ابو طالب (ع) کی وفات کے دن شدت سے مغموم و محزون تھے اور رو رہے تھے؛ اور حضرت ابو طالب(ع) کے لئے طلب رحمت و مغفرت کر رہے تھے۔<ref>بحارالانوار، ج 35، ص 163۔</ref>۔<ref>تذکره الخواص، ج 1، ص 145۔</ref> اور جب ان کے مدفن میں پہنچے تو ان سے مخاطب ہوکر اپنے ساتھ ان کے حسن سلوک اور مدد و حمایت کا ذکر کیا اور کہا: "چچا جان! میں اطرح سے آپ کے لئے استغفار کرون اور آپ کی شفاعت کروں گا کہ [[جن]] و [[انس]] حیرت زدہ ہوجائیں گے"۔<ref>شرح نهج البلاغه، ج 7، ص 76.</ref> ابو طالب (ع) کو [[قبرستان حجون]] یا قبرستان ابی طالب یا جنت المعلی (المعلاة) میں اپنے والد [[عبد المطلب علیہ السلام|عبد المطلب]] (ع) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔<ref>انساب الاشراف، ج 1، ص 29۔</ref>
[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] ابو طالبؑ کی وفات کے دن شدت سے مغموم و محزون تھے اور رو رہے تھے؛ اور حضرت ابو طالب(ع) کے لئے طلب رحمت و مغفرت کر رہے تھے۔<ref>بحارالانوار، ج 35، ص 163۔</ref>۔<ref>تذکره الخواص، ج 1، ص 145۔</ref> اور جب ان کے مدفن میں پہنچے تو ان سے مخاطب ہوکر اپنے ساتھ ان کے حسن سلوک اور مدد و حمایت کا ذکر کیا اور کہا: "چچا جان! میں اطرح سے آپ کے لئے استغفار کرون اور آپ کی شفاعت کروں گا کہ [[جن]] و [[انس]] حیرت زدہ ہوجائیں گے"۔<ref>شرح نهج البلاغه، ج 7، ص 76.</ref> ابو طالبؑ کو [[قبرستان حجون]] یا قبرستان ابی طالب یا جنت المعلی (المعلاة) میں اپنے والد [[عبد المطلب علیہ السلام|عبد المطلب]]ؑ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔<ref>انساب الاشراف، ج 1، ص 29۔</ref>


شاید ماہ [[رمضان المبارک]] سنہ 10 بعد از [[بعثت]] کو دوران [[رسالت]] یا حتی کہ حیات [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسالت مآب (ص)]] کا سخت ترین اور دشوار ترین سال قرار دیا جاسکے۔ کیونکہ اس سال اور اس ماہ میں آپ (ص) اپنے مؤثرترین حامی حضرت ابوطالب(ع) کے وجود سے محروم ہوئے جو [[قریش]] کے مقابلے میں شجاعت کے ساتھ آپ(ص) کا دفاع و تحفظ کرتے رہے تھے اور قریشیوں کی دشمنیوں کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے۔ کچھ دن بعد<ref>وفات ابو طالب (ع) کی تاریخ مختلف منابع میں مختلف بتائی گئی ہے؛ ایک قول یہ ہے کہ ان کا انتقال 26 رجب المرجب، کو ہوا اور روایات مختلفہ کی بنیاد پر [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ(س)]] ان کی وفات کے 35، 25، 5 یا 3 دن بعد دنیا سے رخصت ہوئیں؛ رجوع کریں: جعفریان، رسول، تاريخ سياسى اسلام، ص304۔</ref>  [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ (س)]] کا انتقال ہوا جو قبل ازاں آپ (ص) کی مالی اور معاشی لحاظ سے حمایت کرتی رہیں تھیں اور آپ (ص) کے سکون و آسائش کے اسباب فراہم کرتی تھیں۔<ref>العسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، ج8، ص103۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ج5، ص438۔</ref>
شاید ماہ [[رمضان المبارک]] سنہ 10 بعد از [[بعثت]] کو دوران [[رسالت]] یا حتی کہ حیات [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسالت مآبؐ]] کا سخت ترین اور دشوار ترین سال قرار دیا جاسکے۔ کیونکہ اس سال اور اس ماہ میں آپؐ اپنے مؤثرترین حامی حضرت ابوطالب(ع) کے وجود سے محروم ہوئے جو [[قریش]] کے مقابلے میں شجاعت کے ساتھ آپ(ص) کا دفاع و تحفظ کرتے رہے تھے اور قریشیوں کی دشمنیوں کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے۔ کچھ دن بعد<ref>وفات ابو طالبؑ کی تاریخ مختلف منابع میں مختلف بتائی گئی ہے؛ ایک قول یہ ہے کہ ان کا انتقال 26 رجب المرجب، کو ہوا اور روایات مختلفہ کی بنیاد پر [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ(س)]] ان کی وفات کے 35، 25، 5 یا 3 دن بعد دنیا سے رخصت ہوئیں؛ رجوع کریں: جعفریان، رسول، تاريخ سياسى اسلام، ص304۔</ref>  [[خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہ(س)]] کا انتقال ہوا جو قبل ازاں آپؐ کی مالی اور معاشی لحاظ سے حمایت کرتی رہیں تھیں اور آپؐ کے سکون و آسائش کے اسباب فراہم کرتی تھیں۔<ref>العسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، ج8، ص103۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ج5، ص438۔</ref>


==متعلقہ مآخذ==
==متعلقہ مآخذ==
confirmed، templateeditor
8,275

ترامیم