"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (پیوند میان ویکی و حذف از مبدا ویرایش) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''واقعۂ اِفک''' | '''واقعۂ اِفک''' صدر [[اسلام]] میں وقوع پذیر ایک ایسے واقعے کو کہا جاتا ہے جس کی طرف [[سورہ نور]] کی بعض [[آیت|آیات]] (11-26) میں اشارہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ [[سنہ 5 ہجری قمری]] کو [[مدینہ]] میں پیش آیا۔ [[مسلمانوں]] کے ایک گروہ نے [[پیغمبر اکرمؐ]] کی [[ازواج رسول خدا|زوجات]] میں سے کسی ایک (ظاہرا مشہور یہی ہے کہ یہ واقعہ [[حضرت عائشہ]] کے ساتھ پیش آیا ہے) پر فحاشی کی [[تہمت]] لگائی۔ [[خدا]] نے مذکورہ آیات کے ذریعے تہمت لگانے اور شائعات پھیلانے والوں کی مذمت کی ہے۔ [[شیعہ]] منابع میں نقل ہونے والی ایک اور [[روایت]] کے مطابق جس پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ زوجہ رسول اکرمؐ اور مادر [[ابراہیم بن رسول خدا|ابراہیم]]، [[ماریہ قبطیہ]] تھیں۔ | ||
==مفہوم | ==معنی و مفہوم== | ||
"اِفک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی اصلی اور طبیعی حالت میں تبدیلی آگئی ہو۔ تہمت اور جھوٹ میں چونکہ حق سے انحراف کر کے کسی واقعے کو اس کی اصلی حالت | "اِفک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی اصلی اور طبیعی حالت میں تبدیلی آگئی ہو۔ تہمت اور جھوٹ میں چونکہ حق سے انحراف کر کے کسی واقعے کو اس کی اصلی حالت تبدیل کی جاتی ہے اس لئے اسے بھی افک کہا جاتا ہے۔<ref>قرشی بنایی، قاموس قرآن، ج1، ص89۔</ref> | ||
==آیات افک== | ==آیات افک== | ||
{{اصلی|آیات افک}} | {{اصلی|آیات افک}} | ||
[[قرآن|قرآن کریم]] | [[قرآن|قرآن کریم]] کے [[سورہ نور]] کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں مذکورہ واقعے میں کسی مسلمان پر لگائی گئی [[تہمت]] کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ناروا عمل کی سرزنش کی گئی ہے۔ مذکورہ آیات کی تفسیر میں مفسرین نے جو [[اسباب نزول|شأن نزول]] بیان کیا ہے اس سے قطع نظر؛ خود آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس فرد پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کا تعلق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے گھرانے سے تھا اور تہمت لگانے والے بھی ایک یا دو شخص نہیں تھے بلکہ پورا ایک گروہ تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 89۔</ref> | ||
مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ [[ایمان|مومنین]] کو بھی اس قسم کی | مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ [[ایمان|مومنین]] کو بھی اس قسم کی افواہ کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 46۔</ref> مذکورہ آیات کے آخری حصے میں [[خدا|خداوندعالم]] نے لوگوں کو کسی [[پاکدامن]] عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔<ref>سورہ نور، آیات 20 تا 26۔</ref> | ||
==تفصیلات== | ==تفصیلات== | ||
=== پہلا احتمال === | === پہلا احتمال === | ||
اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان آیات میں سنہ 5 ہجری | اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان قرآنی [[آیات]] میں سنہ 5 صدی ہجری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عائشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] میں مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والوں کے اس ناروا عمل کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عائشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج23، ص 173؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج5، ص504۔</ref> | ||
مشہور روایت خود حضرت | مشہور روایت خود حضرت عائشہ کے نقل کے مطابق جسے تقریبا تمام منابع میں یکساں ذکر کیا گیا ہے، واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے: [[غزوہ بنی مصطلق|غزوہ بنی مُصطَلِق]] سے واپسی پر قافلہ کسی جگہ آرام کی خاطر ٹھہر گیا، اس وقت [[حضرت عائشہ]] رفع حاجت کی نیت سے لشکر سے کہیں دور چلی گئی اس دوران آپ کے گلے کا ہار کہیں گر کر ٹوٹ گیا ہے جس کی تلاش میں وقت لگا۔ جب واپس آئی تو قافلہ وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔ قافلہ والوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں موجود ہونگی، اس لیے آگے کی طرف چل پڑے۔ حضرت عائشہ اسی جگہ بیٹھ گئی اس خیال سے کہ جب قافلہ والے انہیں ہودج میں نہیں پائیں گے تو دوبارہ یہیں پلٹ آئیں گے، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔ اس روایت کے مطابق اس سفر سے واپسی پر حضرت عائشہ بیمار ہو گئیں۔ اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپ اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ افواہیں لوگوں کے درمیان گردش کررہی ہیں۔ اس واقعے کے کچھ مدت بعد [[قرآن]] کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی جسے [[پیغمبر اکرمؐ]] نے لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔<ref>ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص 297-302 واقدی، المغازی، 1414ھ، ص426-435۔ </ref> | ||
====تہمت لگانے والے==== | ====تہمت لگانے والے==== | ||
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے | قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے میں تہمت لگانے والوں کا تعلق ایک گروہ سے تھا، لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام لیا گیاہے۔ منجملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں [[منافقین]] کا سردار تھا۔ افواہ پھیلانے میں اس کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ،ج2، ص 614۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری کی گئی۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص 616۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا گیا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص 53۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص 302۔</ref> | ||
===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات=== | ===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات=== | ||
یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے | یہ [[حدیث]] اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ [[شیعہ]] محققین [[ازواج رسول|ازواج مطہرات]] کو ناروا تہمتوں سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عائشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے [[آیات افک]] کو کسی اور واقعے سے متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عائشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ منجملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف ہے، تمام روایات کا سلسلہ سند خود حضرت عائشہ تک منتہی ہوتا ہے، جبکہ روایات کی سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، 1426ھ، ج12، ص 77-78، 81، 97۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عائشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائے دی۔ حالانکہ اس وقت اسامہ چھوٹا تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص307۔</ref> | ||
اسی طرح ایک اور اشکال یہ کہ ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شروع میں اس | اسی طرح ایک اور اشکال یہ کہ ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شروع میں اس افواہوں سے متأثر ہوئے تھے۔ اگر اس بات کو قبول کریں تو یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی [[عصمت]] کے منافی ہو گی کیوکہ یہ بالکل قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کسی بے گناہ شخص کی بنسبت سوء ظن کرے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص101؛ مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص40۔</ref> | ||
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا | دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر [[زنا]] کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر [[قذف]] کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور [[سورہ نور]] کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کی گئی؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 102-130؛ مکارم شیرازی، 1421ھ، ج11، ص 41۔</ref> | ||
==دوسرا احتمال== | ==دوسرا احتمال== | ||
[[شیعہ]] منابع میں نقل ہونے والی بعض روایات کے مطابق آیات افک اس وقت نازل ہو گئی | [[شیعہ]] منابع میں نقل ہونے والی بعض روایات کے مطابق آیات افک اس وقت نازل ہو گئی تھیں جب [[حضرت عائشہ]] نے [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر جریح قبطی نامی شخص کے ساتھ غلط رابطہ رکھنے کی تہمت لگائی تھی۔ اس روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے جس وقت آپ اپنے بیٹے [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] کی موت کی وجہ سے غمگین تھے، کہا آپ ان کی موت پر کیوں غمگین ہیں؟ حالانکہ وہ تو آپ کی نسل میں سے نہیں تھا بلکہ وہ تو جریح کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد [[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] کو جریح قتل کرنے کیلئے بھیجا لیکن جب حضرت علیؑ نے دیکھا کہ اس شخص کی تو آلت تناسل ہی نہیں ہے، اس کے قتل سے منصرف ہوئے، یوں ماریہ پر لگائی گئی تہمت سرے سے ہی ختم ہو گئی۔ یہ روایت پہلی بار [[تفسیر علی بن ابراہیم قمی]] میں نقل ہوئی ہے اور اسے [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقرؑ]] کی ایک روایت سے استناد کیا گیا ہے۔<ref>قمی، تفسیر قمی، 1367ہجری شمسی، ج2، ص 99۔</ref> ان سب کے باوجود بہت سارے شیعہ [[تفسیر قرآن|مفسرین]] نے اس واقعے کو نقل نہیں کیا ہے اور [[اہل سنت]] مفسرین کے ساتھ دیتے ہوئے اس واقعے کو حضرت عائشہ سے متعلق سمجھا ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص 166-167۔</ref> | ||
[[شیعہ]] معاصر محققین اور مؤلفین نیز ان آیات | [[شیعہ]] معاصر محققین اور مؤلفین نیز ان آیات کی شأن نزول میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض ان آیات کو [[ماریہ بنت شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تہمت سے مربوط قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، 1423ھ، ج 3، ص350۔</ref> علامہ [[جعفر مرتضی عاملی]] منجملہ ان محققین میں سے ہیں جو اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے بعض شواہد کو ذکر کرتے ہیں اور بعض تاریخی روایات کا اس شأن نزول کے ساتھ مطابقت ہونا ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، 1426ھ، ج12، ص 320، 326۔</ref> | ||
===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات=== | ===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات=== | ||
دوسری طرف سے بعض معاصر شیعہ محققین نے آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی رد کئے ہیں۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، | دوسری طرف سے بعض معاصر شیعہ محققین نے آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی رد کئے ہیں۔<ref>سبحانی، فروغ ابدیت، 1384ہجری شمسی، ص 666؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص 172۔</ref> ان کا کہنا ہے کہ اس احتمال پر سب سے اہم ااعتراض یہ ہے کہ اس واقعہ اور مذکورہ آیات کے مضامین آپس میں سازگاری نہیں رکھتے، وہ یہ کہ ان آیات میں تہمت لگانے والوں کو ایک گروہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جبکہ ماریہ قبطیہ کے واقعے میں تہمت لگانے والی صرف حضرت عائشہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس [[حدیث|روایت]] کے مطابق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے صرف حضرت عائشہ کے کہنے پر بغیر کسی تحقیق اور اس کے جرم کو شرعی قوانین کے مطابق ثابت کئے بغیر اس فرد کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، یہ کام پیغمبر اکرمؐ سے محال ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 41۔</ref> | ||
==کتابیں اور مقالہ جات== | ==کتابیں اور مقالہ جات== | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
اس واقعے کے بارے میں شیعہ اور سنی علماء نے مختلف کتابیں اور مقالہ جات لکھے ہیں جن میں سے بعض نے اس واقعے کو حضرت | اس واقعے کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت و الجماعت|سنی]] علماء نے مختلف کتابیں اور مقالہ جات لکھے ہیں جن میں سے بعض نے اس واقعے کو حضرت عائشہ کی فضیلت شمار کی ہیں تو دوسرے گروہ نے اس واقعے کو آپ سے مربوط ہونے سے انکار کیا ہے: | ||
*'''خبر الافک'''؛ علی بن محمد مدائنی (متوفی 225ھ) | *'''خبر الافک'''؛ علی بن محمد مدائنی (متوفی 225ھ) | ||
*'''الرد علی اہل الافک'''؛ ابوسلیمان اصفہانی (متوفی 270ھ) | *'''الرد علی اہل الافک'''؛ ابوسلیمان اصفہانی (متوفی 270ھ) | ||
سطر 46: | سطر 46: | ||
*'''حدیث الافک'''؛ [[جعفر مرتضی عاملی]] | *'''حدیث الافک'''؛ [[جعفر مرتضی عاملی]] | ||
*'''حدیث الافک'''؛ ابراہیم بن حسین کسائی | *'''حدیث الافک'''؛ ابراہیم بن حسین کسائی | ||
*'''شرح حدیث الافک'''؛ عبداللہ بن سعد بن ابی جمرہ ازدی۔<ref>حسینیان مقدم، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، | *'''شرح حدیث الافک'''؛ عبداللہ بن سعد بن ابی جمرہ ازدی۔<ref>حسینیان مقدم، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، 1384ہجری شمسی۔</ref> | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
سطر 55: | سطر 55: | ||
* ابن اثیر، علیبن ابی الکرم، اسدالغابہ، بیروت، دار احیا التراث العربی، بی تا۔ | * ابن اثیر، علیبن ابی الکرم، اسدالغابہ، بیروت، دار احیا التراث العربی، بی تا۔ | ||
* ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت،دار المعرفۃ، بیتا۔ | * ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت،دار المعرفۃ، بیتا۔ | ||
* حسینیان مقدم، حسین، «بررسی تفسیری تاریخی حادثہ افک»، مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش،شمارہ | * حسینیان مقدم، حسین، «بررسی تفسیری تاریخی حادثہ افک»، مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش،شمارہ 7، پاییز 1384ہجری شمسی۔ | ||
* سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، | * سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، 1384ہجری شمسی۔ | ||
* طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، | * طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔ | ||
* طبری،أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،دار التراث، ط الثانیۃ، | * طبری،أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،دار التراث، ط الثانیۃ، 1387ھ/1967ء۔ | ||
* عاملی، جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، | * عاملی، جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔ | ||
* فخررازی، محمدبن عمر قرشی طبرستانی، التفسیر الکبیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بیتا۔ | * فخررازی، محمدبن عمر قرشی طبرستانی، التفسیر الکبیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بیتا۔ | ||
* قرشی بنایی، علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب اسلامیہ۔ چاپ چہاردہم، | * قرشی بنایی، علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب اسلامیہ۔ چاپ چہاردہم، 1384ہجری شمسی۔ | ||
* قمی، علی ابن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، درالکتاب، | * قمی، علی ابن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، درالکتاب، 1367ہجری شمسی۔ | ||
* مکارم شیرازی، ناصر، الأمثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب، | * مکارم شیرازی، ناصر، الأمثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1421ھ۔ | ||
* واقدی، محمد بن عمر، المعازی، تحقیق مارسدن جونس،مرکز النشر مکتب الاعلام اسلامی، | * واقدی، محمد بن عمر، المعازی، تحقیق مارسدن جونس،مرکز النشر مکتب الاعلام اسلامی، 1414ھ۔ | ||
* یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی،، بیروت،دار صادر، بیتا۔ | * یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی،، بیروت،دار صادر، بیتا۔ | ||
* یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، قمع مجمع الفکر الاسلامی، | * یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، قمع مجمع الفکر الاسلامی، 1423ھ۔ | ||
* حسینیان مقدم، حسین، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، تاریخ اسلام درآینہ پژوہش، پاییز | * حسینیان مقدم، حسین، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، تاریخ اسلام درآینہ پژوہش، پاییز 1384ہجری شمسی- شمارہ 7۔ | ||
{{پیغمبر اسلام}} | {{پیغمبر اسلام}} |