مندرجات کا رخ کریں

"قرائت حفص از عاصم" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت کب اسلامی ممالک میں مشہور ہوئی اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے: [[محمد ہادی معرفت]] اس قرائت کو ابتدا ہی سے رائج شدہ قرائت سمجھتے ہیں جو سب کے لئے قابل قبول تھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ عاصم کی قرائت دسویں صدی ہجری میں عثمانی حکومت میں رائج ہوئی ہے
عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت کب اسلامی ممالک میں مشہور ہوئی اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے: [[محمد ہادی معرفت]] اس قرائت کو ابتدا ہی سے رائج شدہ قرائت سمجھتے ہیں جو سب کے لئے قابل قبول تھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ عاصم کی قرائت دسویں صدی ہجری میں عثمانی حکومت میں رائج ہوئی ہے
==اہمیت==
==اہمیت==
عاصم سے حفص کی قرائت وہ روایت ہے جسے [[حفص بن سلیمان اسدی]] نے اپنے استاد [[عاصم بن ابی النجود کوفی|عاصم بن ابی‌النجود کوفی]] سے روایت کی ہے جو  [[قرآن]] کے مشہور قراء سبعہ میں سے ایک تھے۔<ref>ذہبی، معرفۃ القراء الکبار، 1417ق، ص53؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص195.</ref> اس قرائت کو متواتر قرائتوں میں سے قرار دیا گیا ہے جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص81.</ref> موصل یونیورسٹی میں قرائت کے محقق اور استاد محمد اسماعیل محمد المشہدانی کا کہنا ہے کہ آج کل تقریبا اسلامی ممالک میں سے 95 فیصد ممالک میں حفص کی عاصم سے روایت شدہ قرائت رائج ہے اور 5 فیصد ممالک میں دیگر قراء سبعہ کی قرائت رائج ہے۔<ref>اسماعیل محمد المشہدانی، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، 1430ق، ص26.</ref>
عاصم سے حفص کی قرائت وہ روایت ہے جسے [[حفص بن سلیمان اسدی]] نے اپنے استاد [[عاصم بن ابی النجود کوفی|عاصم بن ابی‌النجود کوفی]] سے روایت کی ہے جو  [[قرآن]] کے مشہور قراء سبعہ میں سے ایک تھے۔<ref>ذہبی، معرفۃ القراء الکبار، 1417ھ، ص53؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص195.</ref> اس قرائت کو متواتر قرائتوں میں سے قرار دیا گیا ہے جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص81.</ref> موصل یونیورسٹی میں قرائت کے محقق اور استاد محمد اسماعیل محمد المشہدانی کا کہنا ہے کہ آج کل تقریبا اسلامی ممالک میں سے 95 فیصد ممالک میں حفص کی عاصم سے روایت شدہ قرائت رائج ہے اور 5 فیصد ممالک میں دیگر قراء سبعہ کی قرائت رائج ہے۔<ref>اسماعیل محمد المشہدانی، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، 1430ھ، ص26.</ref>


البتہ بہت ساروں نے عاصم کی قرائت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روایت کیا ہے؛<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ش، ص794.</ref> لیکن حفص کی روایت اور [[ابوبکر بن عیاش]] کی روایت زیادہ مشہور ہیں۔<ref>شاطبی، متن الشاطبیۃ، 1431ق، ص3.</ref>
البتہ بہت ساروں نے عاصم کی قرائت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روایت کیا ہے؛<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص794.</ref> لیکن حفص کی روایت اور [[ابوبکر بن عیاش]] کی روایت زیادہ مشہور ہیں۔<ref>شاطبی، متن الشاطبیۃ، 1431ھ، ص3.</ref>


==قرائت حفص از عاصم کی سند ==
==قرائت حفص از عاصم کی سند ==
قرائت کے ماہرین، عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت اور اس کی سند کا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] سے متصل ہونے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔<ref>ابن‌جزری، النشر فی القرائات، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص156؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص85.</ref> کیونکہ عاصم نے اپنی قرائت [[ابوعبدالرحمن سلمی|ابوعبدالرحمن سُلَّمی]] سے اور اس نے [[امام علیؑ]] سے اخذ کیا ہے اور امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح عاصم نے اس روایت کو [[زر بن حبیش|زَر بن حَبیش]] سے انہوں نے [[عبداللہ بن مسعود]] سے اور انہوں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا ہے۔<ref>ذہبی، معرفۃ القراء الکبار، 1417ق، ص54؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص248؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص85.</ref> دوسری طرف اس قرائت کو عاصم کے سب سے عالم اور دانا شاگرد نے ان سے نقل کیا ہے۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص84-85.</ref>
قرائت کے ماہرین، عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت اور اس کی سند کا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] سے متصل ہونے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔<ref>ابن‌جزری، النشر فی القرائات، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص156؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص85.</ref> کیونکہ عاصم نے اپنی قرائت [[ابوعبدالرحمن سلمی|ابوعبدالرحمن سُلَّمی]] سے اور اس نے [[امام علیؑ]] سے اخذ کیا ہے اور امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح عاصم نے اس روایت کو [[زر بن حبیش|زَر بن حَبیش]] سے انہوں نے [[عبداللہ بن مسعود]] سے اور انہوں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا ہے۔<ref>ذہبی، معرفۃ القراء الکبار، 1417ھ، ص54؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص85.</ref> دوسری طرف اس قرائت کو عاصم کے سب سے عالم اور دانا شاگرد نے ان سے نقل کیا ہے۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص84-85.</ref>


قرآنیات کے ماہر اور شیعہ فقیہ [[محمد ہادی معرفت]] (متوفی2006ء) کا کہنا ہے کہ مختلف قرائتوں میں صرف عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت صحیح السند ہے اور شروع سے ہی مسلمان اسی قرائت کو مانتے تھے۔ اور کئی صدیوں سے اب تک نسل در نسل مسلمانوں میں یہی قرائت رائج رہی ہے۔<ref>معرفت، علوم قرآنی، 1381ش، ص235.</ref>
قرآنیات کے ماہر اور شیعہ فقیہ [[محمد ہادی معرفت]] (متوفی2006ء) کا کہنا ہے کہ مختلف قرائتوں میں صرف عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت صحیح السند ہے اور شروع سے ہی مسلمان اسی قرائت کو مانتے تھے۔ اور کئی صدیوں سے اب تک نسل در نسل مسلمانوں میں یہی قرائت رائج رہی ہے۔<ref>معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص235.</ref>


[[ابن‌ندیم]] کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت کو ابوعبدالرحمن سُلَّمی اور زَر بن حَبیش سے سیکھا ہے؛<ref>ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ق، ص47.</ref> لیکن عاصم کی قرائت کے دوسرے روای [[ابوبکر بن عیاش]] کا کہنا ہے کہ: «عاصم نے مجھ سے کہا: ابو عبد الرحمن سلمی کے علاوہ کسی اور نے مجھے قرآن نہیں سکھایا ہے اور جب میں ان کے ہاں سے واپس آتا تھا تو زر بن حبیش کو سناتا تھا»۔<ref>معرفت، التمہید من علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص246.</ref>
[[ابن‌ندیم]] کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت کو ابوعبدالرحمن سُلَّمی اور زَر بن حَبیش سے سیکھا ہے؛<ref>ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص47.</ref> لیکن عاصم کی قرائت کے دوسرے روای [[ابوبکر بن عیاش]] کا کہنا ہے کہ: «عاصم نے مجھ سے کہا: ابو عبد الرحمن سلمی کے علاوہ کسی اور نے مجھے قرآن نہیں سکھایا ہے اور جب میں ان کے ہاں سے واپس آتا تھا تو زر بن حبیش کو سناتا تھا»۔<ref>معرفت، التمہید من علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246.</ref>


لیکن سُلَّمی نے قرآن کو کس صحابی سے دریافت کیا ہے اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے:<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ق، ج1، ص27؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج2، ص43؛ ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص413؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص189.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]] اور [[عبداللہ بن مسعود]] سے سیکھا ہے۔<ref>ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ق، ج1، ص27.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ امام علیؑ سے قرآن سیکھا اور عثمان کو سنایا ہے۔<ref>ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ق، ج1، ص27.</ref> اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ عثمان سے سیکھا ہے اور امام علیؑ سے تائید کروائی ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص413.</ref> محمدہادی معرفت ذہبی سے نقل کرتے ہیں کہ سُلَّمی نے قرآن عبداللہ بن مسعود سے سیکھا اور امام علیؑ سے تائید کروائی۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص189.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے امام علیؑ سے سیکھا اور امام سے ہی تائید کروائی۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج2، ص43؛ ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ق، ص72؛ جمل، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن عاصم، مکتبۃ سمیر منصور، ص46.</ref>
لیکن سُلَّمی نے قرآن کو کس صحابی سے دریافت کیا ہے اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے:<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص27؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج2، ص43؛ ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص413؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص189.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]] اور [[عبداللہ بن مسعود]] سے سیکھا ہے۔<ref>ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص27.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ امام علیؑ سے قرآن سیکھا اور عثمان کو سنایا ہے۔<ref>ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص27.</ref> اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ عثمان سے سیکھا ہے اور امام علیؑ سے تائید کروائی ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص413.</ref> محمدہادی معرفت ذہبی سے نقل کرتے ہیں کہ سُلَّمی نے قرآن عبداللہ بن مسعود سے سیکھا اور امام علیؑ سے تائید کروائی۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص189.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے امام علیؑ سے سیکھا اور امام سے ہی تائید کروائی۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج2، ص43؛ ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ھ، ص72؛ جمل، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن عاصم، مکتبۃ سمیر منصور، ص46.</ref>


==قرائت حفص از عاصم کا رائج ہونا ==
==قرائت حفص از عاصم کا رائج ہونا ==
عاصم کی قرائت کا حفص کی روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت نے دسویں صدی ہجری میں اسی قرائت کے مطابق قرآن کو چھاپا اور نشر کیا اسی وجہ سے اسلامی معاشروں میں رائج اور ثابت ہوا۔<ref>مفلح القضاۃ و دیگران، مقدمات فی علم القرائات، 1422ق، ص63؛ جمل، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن العاصم، مکتبۃ سمیر منصور، ص32.</ref> مصر کے ماہر قرائت شناسی علی محمد الضباع (درگذشت: [[سال 1380 ہجری قمری|1380ق]]) لکھتے ہیں کہ حفص کی روایت کے مطابق عاصم کی قرائت کو اسلامی ممالک میں ماننا دسویں صدی ہجری کے اواسط سے شروع کیا ہے۔<ref>ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ق، ص72.</ref>
عاصم کی قرائت کا حفص کی روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت نے دسویں صدی ہجری میں اسی قرائت کے مطابق قرآن کو چھاپا اور نشر کیا اسی وجہ سے اسلامی معاشروں میں رائج اور ثابت ہوا۔<ref>مفلح القضاۃ و دیگران، مقدمات فی علم القرائات، 1422ھ، ص63؛ جمل، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن العاصم، مکتبۃ سمیر منصور، ص32.</ref> مصر کے ماہر قرائت شناسی علی محمد الضباع (درگذشت: [[سال 1380 ہجری قمری|1380ق]]) لکھتے ہیں کہ حفص کی روایت کے مطابق عاصم کی قرائت کو اسلامی ممالک میں ماننا دسویں صدی ہجری کے اواسط سے شروع کیا ہے۔<ref>ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ھ، ص72.</ref>


==راویوں کی معرف==
==راویوں کی معرف==
{{اصلی|حفص بن سلیمان اسدی|عاصم بن ابی‌النجود کوفی|ابوعبدالرحمن سلمی}}
{{اصلی|حفص بن سلیمان اسدی|عاصم بن ابی‌النجود کوفی|ابوعبدالرحمن سلمی}}
[[ملف:سند قرآن به روایت حفص از عاصم.png|تصغیر| [[سنہ 1441ھ]] میں سعودی عرب سے چھپنے والے قرآن مجید کا پہلا صفحہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حفص کی عاصم سے روایت شدہ قرائت کے مطابق لکھا گیا ہے۔]]
[[ملف:سند قرآن به روایت حفص از عاصم.png|تصغیر| [[سنہ 1441ھ]] میں سعودی عرب سے چھپنے والے قرآن مجید کا پہلا صفحہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حفص کی عاصم سے روایت شدہ قرائت کے مطابق لکھا گیا ہے۔]]
'''ابوعبدالرحمن سُلَّمی''': کوفہ کے [[تابعین]] اور قاریوں میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بعض اصحاب سے قرآن سیکھا ہے۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص189.</ref> علماء رجال [[ابوعبدالرحمن سلمی|ابو عبدالرحمن سُلَّمی]] کو  [[ثقہ]] اور «عظیم‌الشأن» قرار دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ق، ج1، ص30؛ ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص414.</ref>
'''ابوعبدالرحمن سُلَّمی''': کوفہ کے [[تابعین]] اور قاریوں میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بعض اصحاب سے قرآن سیکھا ہے۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص189.</ref> علماء رجال [[ابوعبدالرحمن سلمی|ابو عبدالرحمن سُلَّمی]] کو  [[ثقہ]] اور «عظیم‌الشأن» قرار دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص30؛ ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص414.</ref>


'''زَر بن حَبیش''': یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں ابن ندیم کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت ان کو سنایا۔<ref>ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ق، ص47.</ref> آپ کوفہ کے [[تابعین]] اور تیسرے درجے کے قاریوں میں سے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص190.</ref> آپ نے [[عبداللہ بن مسعود]] سے قرائت سیکھی<ref>ابن‌مجاہد، السبعۃ فی القرائات، 1400ق، ص70.</ref> ایک اور نقل کے مطابق آپ نے [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]] اور عبداللہ بن مسعود سے سیکھی۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص190.</ref>
'''زَر بن حَبیش''': یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں ابن ندیم کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت ان کو سنایا۔<ref>ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص47.</ref> آپ کوفہ کے [[تابعین]] اور تیسرے درجے کے قاریوں میں سے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص190.</ref> آپ نے [[عبداللہ بن مسعود]] سے قرائت سیکھی<ref>ابن‌مجاہد، السبعۃ فی القرائات، 1400ھ، ص70.</ref> ایک اور نقل کے مطابق آپ نے [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]] اور عبداللہ بن مسعود سے سیکھی۔<ref>معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص190.</ref>


'''عاصم بن بَہْدَلہ ابی‌النَّجُود''': قراء سبعہ میں سے ایک قاری ہیں جن کا تعلق کوفہ سے ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص346؛ خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الامام الخوئی الاسلامیۃ، ج10، ص195.</ref> علماء رجال میں سے بہت سارے عاصم کو ثقہ اور متقی<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ق، ج2، ص357-358؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1427ق، ج1، ص153؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155؛ الدانی، جامع البیان فی القرائات السبع، 1428ق، ج1، ص196؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390ش، ج5، ص4.</ref> اور ان کی قرائت کو سب سے فصیح قرائت<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات و الاعصار، 1417ق، ج1، ص52؛ ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص347؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155؛ الدانی، جامع البیان فی القرائات السبع، 1428ق، ج1، ص195؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390ش، ج5، ص4.</ref> سمجھتے ہیں۔ بعض سے منقول ہے کہ عاصم قرائت کو حفظ کرنے میں دقیق اور محتاط تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص246؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155.</ref>
'''عاصم بن بَہْدَلہ ابی‌النَّجُود''': قراء سبعہ میں سے ایک قاری ہیں جن کا تعلق کوفہ سے ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص346؛ خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الامام الخوئی الاسلامیۃ، ج10، ص195.</ref> علماء رجال میں سے بہت سارے عاصم کو ثقہ اور متقی<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ھ، ج2، ص357-358؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1427ھ، ج1، ص153؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155؛ الدانی، جامع البیان فی القرائات السبع، 1428ھ، ج1، ص196؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390شمسی، ج5، ص4.</ref> اور ان کی قرائت کو سب سے فصیح قرائت<ref>ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات و الاعصار، 1417ھ، ج1، ص52؛ ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص347؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155؛ الدانی، جامع البیان فی القرائات السبع، 1428ھ، ج1، ص195؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390شمسی، ج5، ص4.</ref> سمجھتے ہیں۔ بعض سے منقول ہے کہ عاصم قرائت کو حفظ کرنے میں دقیق اور محتاط تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155.</ref>


'''حَفْص بن سلیمان''': آپ کوفہ کے ہیں اور عاصم کے بیٹے۔ آپ نے اپنے باپ سے قرآئت قرآن سیکھا اور متعدد مرتبہ ان کی تائید لی اور اسلامی ممالک من جملہ بغداد اور مکہ میں نشر کیا۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص254؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص248.</ref> بعض قرائت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفص عاصم کے شاگردوں میں سب سے زیادہ دانا اور عالم تھے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص254؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص156؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص248.</ref> بہت سارے رجال کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفص قرائت میں ثقہ اور قرائت کے حفظ اور ضبط کرنظ میں دقیق اور قابل اطمینان تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص248؛ ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ق، ج1، ص558؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ق، ج9، ص64.</ref>
'''حَفْص بن سلیمان''': آپ کوفہ کے ہیں اور عاصم کے بیٹے۔ آپ نے اپنے باپ سے قرآئت قرآن سیکھا اور متعدد مرتبہ ان کی تائید لی اور اسلامی ممالک من جملہ بغداد اور مکہ میں نشر کیا۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248.</ref> بعض قرائت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفص عاصم کے شاگردوں میں سب سے زیادہ دانا اور عالم تھے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص156؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248.</ref> بہت سارے رجال کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفص قرائت میں ثقہ اور قرائت کے حفظ اور ضبط کرنظ میں دقیق اور قابل اطمینان تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248؛ ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ھ، ج1، ص558؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج9، ص64.</ref>


==قرائت حفص اور قرائت عاصم کے مابین فرق==
==قرائت حفص اور قرائت عاصم کے مابین فرق==
کہا جاتا ہے کہ حفص کی قرائت صرف ایک مورد میں عاصم کی قرائت سے مختلف ہے اور وہ [[سورہ روم]] کی آیت 54 میں «ضعف» کا لفظ ہے عاصم نے اسے «ض» کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ حفص نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔<ref>ابن‌مجاہد، السبعہ في القراءات، 1400ق، ص96.</ref> جبکہ حفص کی قرائت اور ابوبکر بن عیاش کی قرائت میں 500 سے زیادہ فرق پائے جاتے ہیں جبکہ ابوبکر نے بھی عاصم سے ہی روایت کی ہے اور انہی کو پیش بھی کیا ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص254.</ref> ان کے مابین فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عاصم نے ایک قرائت زر بن حبیش سے سیکھا تھا جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے دریافت کیا تھا اسے ابن عیاس کو سکھایا ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ق، ج1، ص254.</ref>
کہا جاتا ہے کہ حفص کی قرائت صرف ایک مورد میں عاصم کی قرائت سے مختلف ہے اور وہ [[سورہ روم]] کی آیت 54 میں «ضعف» کا لفظ ہے عاصم نے اسے «ض» کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ حفص نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔<ref>ابن‌مجاہد، السبعہ في القراءات، 1400ھ، ص96.</ref> جبکہ حفص کی قرائت اور ابوبکر بن عیاش کی قرائت میں 500 سے زیادہ فرق پائے جاتے ہیں جبکہ ابوبکر نے بھی عاصم سے ہی روایت کی ہے اور انہی کو پیش بھی کیا ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254.</ref> ان کے مابین فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عاصم نے ایک قرائت زر بن حبیش سے سیکھا تھا جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے دریافت کیا تھا اسے ابن عیاس کو سکھایا ہے۔<ref>ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254.</ref>


==خصوصیات==
==خصوصیات==
روایت حفص کے مطابق عاصم کی قرائت کی بعض خصوصیات اور اصول درج ذیل ہیں:
روایت حفص کے مطابق عاصم کی قرائت کی بعض خصوصیات اور اصول درج ذیل ہیں:
*عاصم [[سورہ انفال|سورہ اَنفال]] اور [[سورہ توبہ]] کے مابین فاصلے کے علاوہ باقی تمام سورتوں میں [[بسم اللہ الرحمن الرحیم]] کو دو سورتوں کے درمیان؛ یعنی ہر سورت کے آخر اور بعد والی سورت کے ابتدا میں تلاوت کرتے تھے۔<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص86.</ref> ان جیسے موارد میں ان کی قرائت میں تین طرح سے وقف، وصل و سَکْت (الفاظ کے مابین مختصر ٹھہراؤ) نقل ہوئے ہیں.<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ش، ص795.</ref>
*عاصم [[سورہ انفال|سورہ اَنفال]] اور [[سورہ توبہ]] کے مابین فاصلے کے علاوہ باقی تمام سورتوں میں [[بسم اللہ الرحمن الرحیم]] کو دو سورتوں کے درمیان؛ یعنی ہر سورت کے آخر اور بعد والی سورت کے ابتدا میں تلاوت کرتے تھے۔<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص86.</ref> ان جیسے موارد میں ان کی قرائت میں تین طرح سے وقف، وصل و سَکْت (الفاظ کے مابین مختصر ٹھہراؤ) نقل ہوئے ہیں.<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.</ref>


*پورے قرآن مجید میں حفص کی روایت کے مطابق عاصم کی قرائت کے مطابق صرف چہار جگہوں پر سَکْت روایت ہوا ہے جن میں
*پورے قرآن مجید میں حفص کی روایت کے مطابق عاصم کی قرائت کے مطابق صرف چہار جگہوں پر سَکْت روایت ہوا ہے جن میں
[[سورہ کہف]]  کی پہلی آیت کا آخری لفظ (عِوَجا) اور اسی سورت کی دوسری آیت کا پہلا لفظ (قَیماً) کے مابین، سورہ یس کی آیت 52 میں «مَرقَدِنا» اور «ہذا» کے درمیان [[سورہ قیامت]] کی 27ویں آیت میں «مَنْ» اور «رَاقٍ» کے درمیان، [[سورہ مطففین]] کی 14ویں آیت میں «بَلْ» اور «رَانَ» کے درمیان سکت روایت ہوا ہے۔<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص88.</ref> {{یادداشت|الفاظ کے مابین سکت یا مختصر وقف اس صورت میں ضروری ہوتا ہے کہ دو الفاظ کو آپس میں ملانے سے جملے کا معنی تبدیل ہوجاتا ہے اور ایک غلط معنی سمجھ میں آتا ہے (جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ش، ص587). مثلاً [[سورہ مطففین]] کی 14ویں آیت میں «بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہم مَّا کَانوا یَکْسَبون؛ بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔»، قاعدے کے مطابق، حرف «لام» ساکن ہے اور «راء» ادغام ہونا چاہئے؛ اگر «بلْ» اور «رَانَ» کے درمیان سکت نہ ہو تو دونوں الفاظ ادغام ہو کر «بَرّانَ» بن جائے گا جس سے آیت کے معنی میں تبدیلی آئے گی۔ (روحانی اصفہانی، تجوید قرآن و اختلاف قرائات در نظم شاطبیہ، 1396ش، ص43).}}
[[سورہ کہف]]  کی پہلی آیت کا آخری لفظ (عِوَجا) اور اسی سورت کی دوسری آیت کا پہلا لفظ (قَیماً) کے مابین، سورہ یس کی آیت 52 میں «مَرقَدِنا» اور «ہذا» کے درمیان [[سورہ قیامت]] کی 27ویں آیت میں «مَنْ» اور «رَاقٍ» کے درمیان، [[سورہ مطففین]] کی 14ویں آیت میں «بَلْ» اور «رَانَ» کے درمیان سکت روایت ہوا ہے۔<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص88.</ref> {{یادداشت|الفاظ کے مابین سکت یا مختصر وقف اس صورت میں ضروری ہوتا ہے کہ دو الفاظ کو آپس میں ملانے سے جملے کا معنی تبدیل ہوجاتا ہے اور ایک غلط معنی سمجھ میں آتا ہے (جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص587). مثلاً [[سورہ مطففین]] کی 14ویں آیت میں «بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہم مَّا کَانوا یَکْسَبون؛ بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔»، قاعدے کے مطابق، حرف «لام» ساکن ہے اور «راء» ادغام ہونا چاہئے؛ اگر «بلْ» اور «رَانَ» کے درمیان سکت نہ ہو تو دونوں الفاظ ادغام ہو کر «بَرّانَ» بن جائے گا جس سے آیت کے معنی میں تبدیلی آئے گی۔ (روحانی اصفہانی، تجوید قرآن و اختلاف قرائات در نظم شاطبیہ، 1396شمسی، ص43).}}
*عاصم کی قرائت میں صرف ایک مورد میں اِمالہ (فتحہ کو کسرہ کی طرف اور الف کو یاء کی طرف میل دیا جاتا ہے تاکہ آسانی سے تلفظ ہوسکے) پایا جاتا ہے۔ وہ [[سورہ ہود]] کی آیت 41 میں «مَجْراہا» میں «راء»  ہے جسے کسرہ کی صورت میں پڑھا جاتا ہے۔<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص88.</ref>
*عاصم کی قرائت میں صرف ایک مورد میں اِمالہ (فتحہ کو کسرہ کی طرف اور الف کو یاء کی طرف میل دیا جاتا ہے تاکہ آسانی سے تلفظ ہوسکے) پایا جاتا ہے۔ وہ [[سورہ ہود]] کی آیت 41 میں «مَجْراہا» میں «راء»  ہے جسے کسرہ کی صورت میں پڑھا جاتا ہے۔<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص88.</ref>
*عاصم کی قرائت کے مطابق قرآن میں موجود تمام ہمزہ «تحقیق» کے ساتھ قرائت ہوئے ہیں؛<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ش، ص795.</ref> «تحقیق ہمزہ» علم تجوید میں اس کا معنی یہ ہے کہ ہمزہ کو تمام صفات کے ساتھ اپنے مخرج سے ادا کرنا ہے۔<ref>ستودہ‌نیا، دانش تجوید (سطح 2)، 1396ش، ص149.</ref> صرف «کُفُواً» اور «ہُزُواً» کے لفظ اس قاعدے سے استثنا ہیں۔<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ش، ص795.</ref> [[سورہ فصلت|سورہ فُصِّلت]] کی 44ویں آیت میں «ءأعجَمیٌ» کے لفظ میں دو ہمزہ ایک ساتھ آئے ہیں اور قرائت میں آسانی کے لئے دوسرا ہمزہ آسانی اور تسہیل سے پڑھا جاتا ہے؛ یعنی نرمی سے اور ہمزہ اور الف کے مابین کی آواز نکالنی ہوتی ہے۔<ref>ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ق، ص74؛ مرصفی، ہدایۃ القاری الی تجوید کلام الباری، مکتبۃ طیبۃ، ج2، ص579.</ref>
*عاصم کی قرائت کے مطابق قرآن میں موجود تمام ہمزہ «تحقیق» کے ساتھ قرائت ہوئے ہیں؛<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.</ref> «تحقیق ہمزہ» علم تجوید میں اس کا معنی یہ ہے کہ ہمزہ کو تمام صفات کے ساتھ اپنے مخرج سے ادا کرنا ہے۔<ref>ستودہ‌نیا، دانش تجوید (سطح 2)، 1396شمسی، ص149.</ref> صرف «کُفُواً» اور «ہُزُواً» کے لفظ اس قاعدے سے استثنا ہیں۔<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.</ref> [[سورہ فصلت|سورہ فُصِّلت]] کی 44ویں آیت میں «ءأعجَمیٌ» کے لفظ میں دو ہمزہ ایک ساتھ آئے ہیں اور قرائت میں آسانی کے لئے دوسرا ہمزہ آسانی اور تسہیل سے پڑھا جاتا ہے؛ یعنی نرمی سے اور ہمزہ اور الف کے مابین کی آواز نکالنی ہوتی ہے۔<ref>ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ھ، ص74؛ مرصفی، ہدایۃ القاری الی تجوید کلام الباری، مکتبۃ طیبۃ، ج2، ص579.</ref>
*عاصم کی قرائت کے طریقہ کار کو آرام اور پے درپے اور خوش الحان پڑھنا قرار دیا گیا ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ش، ص795.</ref>
*عاصم کی قرائت کے طریقہ کار کو آرام اور پے درپے اور خوش الحان پڑھنا قرار دیا گیا ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.</ref>


==مونوگراف==
==مونوگراف==
عاصم کی قرائت بروایت حفص کے متعلق بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:  
عاصم کی قرائت بروایت حفص کے متعلق بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:  
*اہمیت قرائت عاصم بہ روایت حفص، بقلم اکرم خدایی اصفہانی.<ref>خدایی اصفہانی، اہمیت قرائت عاصم بہ روایت حفص، 1378ش، ص115.</ref>
*اہمیت قرائت عاصم بہ روایت حفص، بقلم اکرم خدایی اصفہانی.<ref>خدایی اصفہانی، اہمیت قرائت عاصم بہ روایت حفص، 1378شمسی، ص115.</ref>
*مباحثٌ فی علمِ القِرائات مَعَ بیانِ اُصولِ روایۃِ حفص بقلم محمد بن عباس باز<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ق، ص14-15.</ref>
*مباحثٌ فی علمِ القِرائات مَعَ بیانِ اُصولِ روایۃِ حفص بقلم محمد بن عباس باز<ref>باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص14-15.</ref>
*القیمۃُ الدَّلالیّۃُ لِقرائۃِ عاصم بروایۃِ حفص، تالیف محمد اسماعیل محمد المشہدانی<ref>اسماعیل محمد، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، 1430ق، ص19.</ref>
*القیمۃُ الدَّلالیّۃُ لِقرائۃِ عاصم بروایۃِ حفص، تالیف محمد اسماعیل محمد المشہدانی<ref>اسماعیل محمد، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، 1430ھ، ص19.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099

ترامیم