مندرجات کا رخ کریں

"گلگت" کے نسخوں کے درمیان فرق

151 بائٹ کا اضافہ ،  5 فروری 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35: سطر 35:
| سیاسی            =
| سیاسی            =
}}
}}
'''گلگت''' پاکستان کے صوبہ گلگت [[بلتستان]] کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ گلگت میں صدیوں سے شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہی۔ گلگت میں اکثریتی آبادی شیعوں کی ہے۔ اور صوبے کے دو حصوں میں سے ایک ہے۔ گلگت میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ شیعوں کے علاوہ اہل سنت اور اسماعیلیہ آبادی بھی گلگت میں بستی ہے۔ نگر، استور، ہنزہ اور چلاس کے اضلاع میں شمار ہوتے ہیں۔ یکم نومبر 1947ء کو گلگت ڈوگرا راج سے گلگت آزاد ہوکر پاکستان سے ملحق ہوا۔ گلگت میں شیعوں کے خلاف متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سانحہ 1988ء اور سانحہ چلاس شامل ہیں۔
'''گلگت''' پاکستان کے صوبہ[[ گلگت بلتستان]] کا دارالحکومت اور صوبے کاسب سے بڑا شہر ہے۔ گلگت میں صدیوں سے شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہی۔ گلگت میں اکثریتی آبادی [[شیعہ|شیعوں]] کی ہے۔ اور صوبے کے دو حصوں میں سے ایک ہے۔ گلگت میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ شیعوں کے علاوہ [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] اور [[اسماعیلیہ]] آبادی بھی گلگت میں بستی ہے۔ نگر، استور، ہنزہ اور چلاس کے اضلاع میں شمار ہوتے ہیں۔ [[1 نومبر|یکم نومبر]] 1947ء کو گلگت ڈوگرا راج سے گلگت آزاد ہوکر پاکستان سے ملحق ہوا۔ گلگت میں شیعوں کے خلاف متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سانحہ 1988ء اور سانحہ چلاس شامل ہیں۔


==تعارف==
==تعارف==
سطر 41: سطر 41:
گلگت کے مشرق میں [[کارگل]]، جنوب مشرق میں [[بلتستان]]، مغرب میں صوبہ خیبرپختونخواہ کا علاقہ [[چترال]]، شمال میں [[چین]] اور شمال مغرب میں [[افغانستان]] واقع ہیں۔<ref>سبوخ سید، [https://ibcurdu.com/news/114493/ شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون]، آئی بی سی اردو۔</ref>
گلگت کے مشرق میں [[کارگل]]، جنوب مشرق میں [[بلتستان]]، مغرب میں صوبہ خیبرپختونخواہ کا علاقہ [[چترال]]، شمال میں [[چین]] اور شمال مغرب میں [[افغانستان]] واقع ہیں۔<ref>سبوخ سید، [https://ibcurdu.com/news/114493/ شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون]، آئی بی سی اردو۔</ref>
گلگت کا پرانہ نام سارگین تھا۔ سار کے معنی جھیل اور گن سے مراد راستہ ہے۔<ref>بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220</ref> قدیم دور میں اسے گری گرت بھی کہا جاتا تھا۔<ref>بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220</ref> گری کا مطلب ہرن، اور گرت کا مطلب ناچنا ہے۔ یعنی ہرن ناچنے کی جگہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دور میں یہاں پر ہرنوں کی رفت و آمد زیادہ تھی۔<ref>بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220</ref> سنہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت کی آبادی 2 لاکھ 90 ہزار ہے<ref>[https://www.citypopulation.de/en/pakistan/cities/gilgitbaltistan/ Gilgit Baltistan]</ref> جس میں ضلع گلگت کے علاوہ نگر ہنزہ اور دیگر علاقے شامل نہیں ہیں۔<ref>[https://www.citypopulation.de/en/pakistan/cities/gilgitbaltistan/ Gilgit Baltistan]</ref> گلگت سطح سمندر سے 1463 میٹر اونچا ہے۔  
گلگت کا پرانہ نام سارگین تھا۔ سار کے معنی جھیل اور گن سے مراد راستہ ہے۔<ref>بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220</ref> قدیم دور میں اسے گری گرت بھی کہا جاتا تھا۔<ref>بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220</ref> گری کا مطلب ہرن، اور گرت کا مطلب ناچنا ہے۔ یعنی ہرن ناچنے کی جگہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دور میں یہاں پر ہرنوں کی رفت و آمد زیادہ تھی۔<ref>بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،2014 ء، ص220</ref> سنہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت کی آبادی 2 لاکھ 90 ہزار ہے<ref>[https://www.citypopulation.de/en/pakistan/cities/gilgitbaltistan/ Gilgit Baltistan]</ref> جس میں ضلع گلگت کے علاوہ نگر ہنزہ اور دیگر علاقے شامل نہیں ہیں۔<ref>[https://www.citypopulation.de/en/pakistan/cities/gilgitbaltistan/ Gilgit Baltistan]</ref> گلگت سطح سمندر سے 1463 میٹر اونچا ہے۔  
دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم بھی گلگت میں واقع ہے۔<ref>سبوخ سید، [https://ibcurdu.com/news/114493/ شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون]، آئی بی سی اردو۔</ref>
دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم بھی گلگت میں واقع ہے۔<ref>سبوخ سید، [https://ibcurdu.com/news/114493/ شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون]، آئی بی سی اردو۔</ref> ضلع گلگت کے علاقوں میں شیعہ، سنی اور اسماعیلیہ بستے ہیں جبکہ شیعہ نشین علاقوں میں  دنیور، جلال آباد، اوشکھنداس اور بگروٹ جیسے علاقے شامل ہیں اور ضلع نگر کی پوری آبادی شیعہ ہے۔ ضلع غذر، استور اور ہنزہ میں بھی کم و بیش شیعہ رہتے ہیں۔ضلع دیامر میں اہل سنت بستے ہیں۔


==شیعیت کی آمد==
==شیعیت کی آمد==
دانشنامہ جہان اسلام کے مطابق گلگت میں پہلی شیعہ حکومت  958ھ میں ناصرالدین محمد غازی خان نے قائم کیا اور دسویں صدی کے آخر تک قائم رہی۔<ref>دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، ج 1 ص 4406۔</ref> جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ 105 ہجری میں گلگت میں شیعیت آگئی ہے۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> سنہ 725ء بمطابق سنہ 105ھ کو سید شاہ افضل نامی عالم دین تبلیغ کی غرض سے بدخشان سے گلگت آیا<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> اور اس وقت کا حاکم «راجہ سو ملک اول» ان کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> سید شاہ افضل کی قبر کشمیری بازار گلگت کے عقب میں دریا کی طرف موجود ہے۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص35۔</ref> مصر میں فاطمیوں کی حکومت آنے کے بعد ان کی دربار کا مقرب، پیر ناصر خسرو علوی نے 444ھ میں بدخشان آکر اسماعیلیہ مذہب پھیلایا۔ بدخشان کے راجہ شاہ تاج مغل نے اسماعیلیہ مذہب کی ترویج کے لئے گلگت پر حملہ کیا اور کنجوت ہنزہ میں اسماعلیہ مذہب پہنچایا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> سنہ 1525ء میں «شاہ بریا ولی» نے گلگت اور اس کے اطراف میں مکتب اہلبیت کی ترویج کی۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص135۔</ref> «سید سلطان علی شاہ حسینی عارف جلالی» 1689ء میں کشمیر کے راستے سے گلگت آئے اور تعلیمات اہل بیت کی ترویج کی۔ آپ دنیور گلگت میں مدفون ہیں اور اب بھی لوگ زیارت پر آتے ہیں۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref>
دانشنامہ جہان اسلام کے مطابق گلگت میں پہلی [[شیعہ]] حکومت  958ھ میں ناصرالدین محمد غازی خان نے قائم کیا اور دسویں صدی کے آخر تک قائم رہی۔<ref>دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، ج 1 ص 4406۔</ref> جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ 105 ہجری میں گلگت میں شیعیت آگئی ہے۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> سنہ 725ء بمطابق سنہ 105ھ کو سید شاہ افضل نامی عالم دین تبلیغ کی غرض سے بدخشان سے گلگت آیا<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> اور اس وقت کا حاکم «راجہ سو ملک اول» ان کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> سید شاہ افضل کی قبر کشمیری بازار گلگت کے عقب میں دریا کی طرف موجود ہے۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص35۔</ref> مصر میں فاطمیوں کی حکومت آنے کے بعد ان کی دربار کا مقرب، پیر ناصر خسرو علوی نے 444ھ میں بدخشان آکر اسماعیلیہ مذہب پھیلایا۔ بدخشان کے راجہ شاہ تاج مغل نے اسماعیلیہ مذہب کی ترویج کے لئے گلگت پر حملہ کیا اور کنجوت ہنزہ میں اسماعلیہ مذہب پہنچایا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> سنہ 1525ء میں «شاہ بریا ولی» نے گلگت اور اس کے اطراف میں مکتب [[اہل بیت علیہم السلام|اہلبیت]] کی ترویج کی۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص135۔</ref> «سید سلطان علی شاہ حسینی عارف جلالی» 1689ء میں [[کشمیر]] کے راستے سے گلگت آئے اور تعلیمات اہل بیت کی ترویج کی۔ آپ دنیور گلگت میں مدفون ہیں اور اب بھی لوگ زیارت پر آتے ہیں۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref>
1802ء میں سید شاہ ولی تقوی بن سید شاہ زمان تقوی گلگت آئے اور کنجوت، نگر اور دیگر علاقوں میں مکتب اہل بیت کو پھیلایا۔ آپ غلمت نگر نمبر2 میں دفن ہیں۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref>
1802ء میں سید شاہ ولی تقوی بن سید شاہ زمان تقوی گلگت آئے اور کنجوت، نگر اور دیگر علاقوں میں مکتب اہل بیت کو پھیلایا۔ آپ غلمت نگر نمبر2 میں دفن ہیں۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔</ref> 1905 میں سید سلام شاہ المعروف پنجابی سید نے شیعہ مکتب کی ترویج کے لئے کام کیا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص136۔</ref> گلگت میں باقاعدہ طریقے سے محرم الحرام میں عاشورا کا جلوس سنہ 1951ء میں بلتستان کے بعض فوجیوں نے نکالا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص172۔</ref>
1905 میں سید سلام شاہ المعروف پنجابی سید نے شیعہ مکتب کی ترویج کے لئے کام کیا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص136۔</ref>


==شیعہ حکمران==
==شیعہ حکمران==
گلگت میں سنہ 723ء سے 1848ء تک شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہتی ہے۔ پہلا مسلمان اور شیعہ حاکم راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذر جمشید کیانی تھے جس نے گلگت اور اس کی ریاستوں پر 70 سال حکومت کی۔ آذر جمشید کیانی ایران کا ایک آوارہ وطن شاہزادہ تھا جو 642ء میں کشمیر سے ہوتا ہوا دنیور آیا۔جہاں شاہزادی نوربخت سے شادی ہوتی ہے۔ اور 643ء میں آذرجمشیدی نے رعایا کو بادشاہ کے ظلم سے نجات دینے کے لئے اسکو قتل کیا اور 643ء میں وہ خود تخت نشین ہوگیا۔ یوں گلگت میں بدھ ازم کا خاتمہ ہوگیا اور آتش پرستوں کا دور حکومت کا آغاز ہوا۔ اب بھی گلگت کے بعض علاقوں میں آتش پرستی کے بعض رسومات پائے جاتے ہیں۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص43</ref> آذر جمشید نے 16 سال حکومت کی۔ پہاڑی علاقوں سے تنگ آکر گلگت سے روپوش ہوگیا اور اس کا کمسن شاہزادہ کرک تخت نشین ہوا اور 55 سال تک حکومت کی اور 80 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص۴۳</ref>
گلگت میں سنہ 723ء سے 1848ء تک شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہتی ہے۔ پہلا [[اسلام|مسلمان]] اور شیعہ حاکم راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذر جمشید کیانی تھے جس نے گلگت اور اس کی ریاستوں پر 70 سال حکومت کی۔ آذر جمشید کیانی ایران کا ایک آوارہ وطن شاہزادہ تھا جو 642ء میں کشمیر سے ہوتا ہوا دنیور آیا۔جہاں شاہزادی نوربخت سے شادی ہوتی ہے۔ اور 643ء میں آذرجمشیدی نے رعایا کو بادشاہ کے ظلم سے نجات دینے کے لئے اسکو قتل کیا اور 643ء میں وہ خود تخت نشین ہوگیا۔ یوں گلگت میں بدھ ازم کا خاتمہ ہوگیا اور آتش پرستوں کا دور حکومت کا آغاز ہوا۔ اب بھی گلگت کے بعض علاقوں میں آتش پرستی کے بعض رسومات پائے جاتے ہیں۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص43</ref> آذر جمشید نے 16 سال حکومت کی۔ پہاڑی علاقوں سے تنگ آکر گلگت سے روپوش ہوگیا اور اس کا کمسن شاہزادہ کرک تخت نشین ہوا اور 55 سال تک حکومت کی اور 80 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص۴۳</ref>
گلگت کا پہلا مسلمان اور شیعہ بادشاہ راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذرجمشید کیانی تھے جس نے 70 سال حکومت کی۔راجہ سوملک (حکومت:723-793ء) کا دور عدل و انصاف کا دور تھا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص43</ref>ان کے دور میں پہلا مبلغ اسلام سیدشاہ افضل کی تبلیغ کے اثر سے بادشاہ مسلمان ہوگیا۔ ان کے بعد اس کا بیٹا شاہ ملک کیانی حاکم بنا جو 122 سال کی عمر میں 793 میں وفات پاگیا اور قلعہ فردوسیہ میں دفن ہوا۔ حکمرانی یہ سلسلہ جاری رہا اور دوسرا شیعہ بادشاہ راجہ شاہ ملک کیانی المعروف گلیت ملیکا بنا جس نے 793 تا 878 تک حکومت کی۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص47</ref>  انکے بعد راجہ دینگ ملک کیانی (حکومت:878-932ء)، راجہ خسروخان کیانی (حکومت:932-997ء)، راجہ حیدرخان کیانی (حکومت:997-1075ء) راجہ نورخان کیانی (حکومت:1075-1127ء) راجہ شاہ مرزہ خان اول کیانی (حکومت:1127-1205ء)، راجہ طرطرہ خان کیانی(حکومت:1205-1236ء)، راجہ طرہ خان اول بن راجہ طرطرہ خان کیانی (حکومت:1241-1275ء) راجہ سوملک دوم بن راجہ طرہ خان کیانی (حکومت:1275-1345ء)، راجہ چلس خان کیانی (حکومت:1345-1395ء)، راجہ شاہ فردوس علی خان کیانی طرہ خانی (حکومت:1395-1397ء)، راجہ خسروخان کیانی دوم (حکومت:1397-1422ء)، راجہ ملک شاہ (حکومت:1422-1449ء)،  راجہ طرہ خان دوم کیانی (حکومت:1449-1479ء)، راجہ چلس خان دوم بن راجہ طرہ خان دوم (حکومت:1479-1497ء)، راجہ سو ملک سوم بن راجہ چلس خان دوم کیانی (حکومت:1497-1522ء)،  راجہ شاریس خان دوم، (حکومت:1522-1561ء)،  راجہ صاحب قرآن طرہ خان کیانی (حکومت:1561-1567ء)، راجہ سلطان مرزہ (حکومت:1567-1600ء)،  راجہ علی شیرخان طرہ خان کیانی (حکومت:1600-1632ء)،  راجہ خاقان مرزہ (حکومت:1632-1635ء)،  ملکہ جوار خاتون طرہ خان کیانی (ددی جواری) (حکومت:1642-1667ء) نیز  (1689-1705ء)، راجہ شاہ جی خان کیانی (حکومت:1670-1689ء ) ، راجہ شاہ غوری تھم خان طرہ خان کیانی (حکومت:1705-1800ء)،  راجہ محمد خان کیانی (حکومت:1802-1824ء)، راجہ طاہر شاہ مغلوٹ کیانی (حکومت:1828-1836ء)، راجہ کریم خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1841-1844ء)،  راجہ محمد خان ثانی کیانی(حکومت: 1844-1848ء) شہزادہ علیداد خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1848-1879ء) شیعہ بادشاہ گزرے۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص39-119۔</ref>
گلگت کا پہلا مسلمان اور شیعہ بادشاہ راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذرجمشید کیانی تھے جس نے 70 سال حکومت کی۔راجہ سوملک (حکومت:723-793ء) کا دور عدل و انصاف کا دور تھا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص43</ref>ان کے دور میں پہلا مبلغ [[اسلام]] سیدشاہ افضل کی تبلیغ کے اثر سے بادشاہ مسلمان ہوگیا۔ ان کے بعد اس کا بیٹا شاہ ملک کیانی حاکم بنا جو 122 سال کی عمر میں 793 میں وفات پاگیا اور قلعہ فردوسیہ میں دفن ہوا۔ حکمرانی یہ سلسلہ جاری رہا اور دوسرا شیعہ بادشاہ راجہ شاہ ملک کیانی المعروف گلیت ملیکا بنا جس نے 793 تا 878 تک حکومت کی۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص47</ref>  انکے بعد راجہ دینگ ملک کیانی (حکومت:878-932ء)، راجہ خسروخان کیانی (حکومت:932-997ء)، راجہ حیدرخان کیانی (حکومت:997-1075ء) راجہ نورخان کیانی (حکومت:1075-1127ء) راجہ شاہ مرزہ خان اول کیانی (حکومت:1127-1205ء)، راجہ طرطرہ خان کیانی(حکومت:1205-1236ء)، راجہ طرہ خان اول بن راجہ طرطرہ خان کیانی (حکومت:1241-1275ء) راجہ سوملک دوم بن راجہ طرہ خان کیانی (حکومت:1275-1345ء)، راجہ چلس خان کیانی (حکومت:1345-1395ء)، راجہ شاہ فردوس علی خان کیانی طرہ خانی (حکومت:1395-1397ء)، راجہ خسروخان کیانی دوم (حکومت:1397-1422ء)، راجہ ملک شاہ (حکومت:1422-1449ء)،  راجہ طرہ خان دوم کیانی (حکومت:1449-1479ء)، راجہ چلس خان دوم بن راجہ طرہ خان دوم (حکومت:1479-1497ء)، راجہ سو ملک سوم بن راجہ چلس خان دوم کیانی (حکومت:1497-1522ء)،  راجہ شاریس خان دوم، (حکومت:1522-1561ء)،  راجہ صاحب قرآن طرہ خان کیانی (حکومت:1561-1567ء)، راجہ سلطان مرزہ (حکومت:1567-1600ء)،  راجہ علی شیرخان طرہ خان کیانی (حکومت:1600-1632ء)،  راجہ خاقان مرزہ (حکومت:1632-1635ء)،  ملکہ جوار خاتون طرہ خان کیانی (ددی جواری) (حکومت:1642-1667ء) نیز  (1689-1705ء)، راجہ شاہ جی خان کیانی (حکومت:1670-1689ء ) ، راجہ شاہ غوری تھم خان طرہ خان کیانی (حکومت:1705-1800ء)،  راجہ محمد خان کیانی (حکومت:1802-1824ء)، راجہ طاہر شاہ مغلوٹ کیانی (حکومت:1828-1836ء)، راجہ کریم خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1841-1844ء)،  راجہ محمد خان ثانی کیانی(حکومت: 1844-1848ء) شہزادہ علیداد خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1848-1879ء) شیعہ بادشاہ گزرے۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص39-119۔</ref>


==ڈوگروں کی حکمرانی==
==ڈوگروں کی حکمرانی==
سطر 60: سطر 59:
سنہ 1948ء میں پاکستان کی آزادی کے ایک سال بعد کرنل حسن خان، راجہ بابر خان مغلوٹ کیانی اور احسان علی خان وزیر نے ڈوگرہ افواج کے خلاف تحریک چلاکر ایک بار پھر سے علاقے کو آزاد کرایا۔<ref>انجم، شیعیت گلگت میں، ص43-119</ref> پاکستان سے نظریاتی قربت کی بناء پر پاکستان سے الحاق کیا اور پورا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام آگیا۔
سنہ 1948ء میں پاکستان کی آزادی کے ایک سال بعد کرنل حسن خان، راجہ بابر خان مغلوٹ کیانی اور احسان علی خان وزیر نے ڈوگرہ افواج کے خلاف تحریک چلاکر ایک بار پھر سے علاقے کو آزاد کرایا۔<ref>انجم، شیعیت گلگت میں، ص43-119</ref> پاکستان سے نظریاتی قربت کی بناء پر پاکستان سے الحاق کیا اور پورا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام آگیا۔


سنہ 1999ء میں گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان نے  ایک جامع فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے مطابق یہاں کی عوام کو حقِ حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے قیام کا آئینی حق حاصل ہے۔<ref>ڈاکٹر جابر حسین، [https://www.aikrozan.com/gilgit-baltistan-discontent/ گلگت بلتستان کا احساس محرومی]، ایک روزن ویب سائٹ۔</ref>
سنہ 1999ء میں گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے سے متعلق پاکستان کی اعلی عدلیه نے  ایک جامع فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے مطابق یہاں کی عوام کو حقِ حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے قیام کا آئینی حق حاصل ہے۔<ref>ڈاکٹر جابر حسین، [https://www.aikrozan.com/gilgit-baltistan-discontent/ گلگت بلتستان کا احساس محرومی]، ایک روزن ویب سائٹ۔</ref>


==زبان اور ادب==
==زبان اور ادب==
گلگت میں شینا سب سے زیادہ علاقوں میں بولی جاتی ہے جو سنسکرت کی ایک شاخ کہلاتی ہے۔<ref>غلام الدین، [https://www.independenturdu.com/node/29696/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%DA%BA-%D9%85% کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟]، انڈپنڈنٹ اردو</ref>
گلگت میں شینا زبان سب سے زیادہ علاقوں میں بولی جاتی ہے جو سنسکرت کی ایک شاخ کہلاتی ہے۔<ref>غلام الدین، [https://www.independenturdu.com/node/29696/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%DA%BA-%D9%85% کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟]، انڈپنڈنٹ اردو</ref>
یہ زبان ہندوستان میں کارگل، دراس اور لداخ میں بھی بولی جاتی ہے۔<ref>غلام الدین، [https://www.independenturdu.com/node/29696/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%DA%BA-%D9%85% کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟]، انڈپنڈنٹ اردو</ref>
یہ زبان [[ہندوستان]] میں کارگل، دراس اور لداخ میں بھی بولی جاتی ہے۔<ref>غلام الدین، [https://www.independenturdu.com/node/29696/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%DA%BA-%D9%85% کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟]، انڈپنڈنٹ اردو</ref>
گلگت کے ضلع غذر میں کھوار زبان، ہنزہ، نگر نیز غذر  اور گلگت کے بعض علاقوں میں بروشسکی اسی طرح غذر اور ہنزہ کے بالائی علاقوں میں وخی زبان بولی جاتی ہے۔<ref>غلام الدین، [https://www.independenturdu.com/node/29696/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%DA%BA-%D9%85% کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟]، انڈپنڈنٹ اردو</ref>
گلگت کے ضلع غذر میں کھوار زبان، ہنزہ، نگر نیز غذر  اور گلگت کے بعض علاقوں میں بروشسکی اسی طرح غذر اور ہنزہ کے بالائی علاقوں میں وخی زبان بولی جاتی ہے۔<ref>غلام الدین، [https://www.independenturdu.com/node/29696/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%DA%BA-%D9%85% کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟]، انڈپنڈنٹ اردو</ref>
==شیعہ شخصیات==
==شیعہ شخصیات==
سطر 70: سطر 69:
*سید ابوالقاسم خوانساری: آپ ایران کے شہر خوانسار میں متولد ہوئے۔ آپ ریاضی میں ماہر تھے۔ آپ [[سید ابوالحسن اصفہانی]] کے کہنے پر تبلیغ کیلئے گلگت آئے اور سنہ 1380ھ میں وفات پاگئے اور گلگت میں مدفون ہیں۔<ref>آقابزرگ طهرانی، طبقات، نقبا، قسم۱، ص۶۴، قسم۲، ص۶۴۵؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۲۶؛ موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱.</ref>
*سید ابوالقاسم خوانساری: آپ ایران کے شہر خوانسار میں متولد ہوئے۔ آپ ریاضی میں ماہر تھے۔ آپ [[سید ابوالحسن اصفہانی]] کے کہنے پر تبلیغ کیلئے گلگت آئے اور سنہ 1380ھ میں وفات پاگئے اور گلگت میں مدفون ہیں۔<ref>آقابزرگ طهرانی، طبقات، نقبا، قسم۱، ص۶۴، قسم۲، ص۶۴۵؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۲۶؛ موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱.</ref>
*[[سید ضیاء الدین رضوی|سید ضیاالدین رضوی]]:آپ 1960ء کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ گلگت جامع مسجد کے امام جمعہ اور گلگت میں شیعوں کے مذہبی سربراہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے سکول اور کالجز کے نصاب کی مختلف کتابوں میں شیعوں کے لئے غیر قابل قبول مواد کو حذف کرنے کی تحریک چلائی اور کئی بار اسی سلسلے میں جیل گئے۔ آپ [[9 جنوری]] [[2005ء]] کو اپنے گھر سے [[نماز ظہر]] پڑھانے کیلئے [[مسجد]] کی طرف جاتے ہوئے نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی ہوئے اور [[13 جنوری]] 2005ء کو [[شہادت]] کے درجے پر فائز ہوئے۔
*[[سید ضیاء الدین رضوی|سید ضیاالدین رضوی]]:آپ 1960ء کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ گلگت جامع مسجد کے امام جمعہ اور گلگت میں شیعوں کے مذہبی سربراہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے سکول اور کالجز کے نصاب کی مختلف کتابوں میں شیعوں کے لئے غیر قابل قبول مواد کو حذف کرنے کی تحریک چلائی اور کئی بار اسی سلسلے میں جیل گئے۔ آپ [[9 جنوری]] [[2005ء]] کو اپنے گھر سے [[نماز ظہر]] پڑھانے کیلئے [[مسجد]] کی طرف جاتے ہوئے نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی ہوئے اور [[13 جنوری]] 2005ء کو [[شہادت]] کے درجے پر فائز ہوئے۔
 
[[فائل:Gilgit Imamya Jame Masjid.jpg|200px|تصغیر|گلگت شیعہ جامع مسجد]]
==شیعہ مراکز==
*مرکزی جامع مسجد
*
==شیعہ علاقے==
ضلع گلگت کے علاقوں میں شیعہ، سنی اور اسماعیلیہ بستے ہیں جبکہ شیعہ نشین علاقوں میں  دنیور، جلال آباد، اوشکھنداس اور بگروٹ جیسے علاقے شامل ہیں اور ضلع نگر کی پوری آبادی شیعہ ہے۔ ضلع غذر، استور اور ہنزہ میں بھی کم و بیش شیعہ رہتے ہیں۔ضلع دیامر میں اہل سنت بستے ہیں۔
 
==مذہبی رسومات==
گلگت میں باقاعدہ طریقے سے محرم الحرام میں عاشورا کا جلوس سنہ 1951ء میں بلتستان کے بعض فوجیوں نے نکالا۔<ref>انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص172۔</ref>
==سانحات==
==سانحات==
گلگت میں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے واقعات وقتا فوقتا رونما ہوتے رہے ہیں۔<ref>رابعہ رحمن، [https://www.nawaiwaqt.com.pk/16-Aug-2013/231934 خطہ گلگت بلتستان]، نوائے وقت۔</ref>  اور گلگت کے سابقہ امام جمعہ سید ضیاء الدین رضوی سمیت مختلف افراد انہی فسادات کی نذر ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں سے بعض درج ذیل ہیں۔
گلگت میں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے واقعات وقتا فوقتا رونما ہوتے رہے ہیں۔<ref>رابعہ رحمن، [https://www.nawaiwaqt.com.pk/16-Aug-2013/231934 خطہ گلگت بلتستان]، نوائے وقت۔</ref>  اور گلگت کے سابقہ امام جمعہ سید ضیاء الدین رضوی سمیت مختلف افراد انہی فسادات کی نذر ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں سے بعض درج ذیل ہیں۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099

ترامیم