مندرجات کا رخ کریں

"آیت تطہیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,145 بائٹ کا ازالہ ،  28 اکتوبر 2020ء
سطر 44: سطر 44:
*"الرِجسَ" (پلیدی) چونکہ "الف و لام جنس" کے ساتھ آیا ہے، لہذا ہر قسم کی فکری یا عملی پلیدی جیسے [[شرک]]، [[کفر|کُفر]]، [[نفاق]]، جہل اور [[گناہ]] سب کو شامل کرتا ہے۔<ref>راضی، سبیل النجاۃ فی تتمۃ المراجعات، بیروت، ص۷۔</ref>
*"الرِجسَ" (پلیدی) چونکہ "الف و لام جنس" کے ساتھ آیا ہے، لہذا ہر قسم کی فکری یا عملی پلیدی جیسے [[شرک]]، [[کفر|کُفر]]، [[نفاق]]، جہل اور [[گناہ]] سب کو شامل کرتا ہے۔<ref>راضی، سبیل النجاۃ فی تتمۃ المراجعات، بیروت، ص۷۔</ref>


==رجس کے معنا==
==رجس سے مراد==
معنائے رجس کے متعلق [[تفسیر|مفسرین]] اختلاف نظر رکھتے ہیں اور انہوں نے اس کے لئے مختلف معانی ذکر کئے ہیں۔ ان میں سے [[گناہ]]، [[فسق]]، [[شیطان]]، [[شرک]]، شک، [[بخل]]، [[طمع|لالچ]]، [[ہوائے نفس]] اور [[بدعت]] ہیں۔<ref>ابن بابویہ، ص138۔</ref> [[شیعہ]] علماء و مفسرین کا کہنا ہے کہ [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی گناہوں سے پاکیزگی کے معنا گناہوں سے [[عصمت]] اور طاعت و بندگی کی توفیق عطا ہونا ہیں۔<ref>مفید، ص27؛ شوشتری، ص147 و 148؛ طباطبائی، ج16، ص313۔</ref>
رجس کے معنی سے متعلق [[تفسیر|مفسرین]] کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اس بنا پر اس کے کئی معانی ذکر کئے گئے ہیں، من جملہ ان میں [[گناہ]]، [[فسق]]، [[شیطان]]، [[شرک]]، شک، [[بخل]]، [[طمع|لالچ]]، [[ہوائے نفس]] اور [[بدعت]] شامل ہیں۔<ref>صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۱۳۸۔</ref> [[شیعہ]] علماء اور مفسرین کا کہنا ہے کہ [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کو رجس سے پاک کرنے سے مراد گناہوں کی نسبت ان کی [[عصمت]] اور خدا کی اطاعت و بندگی کی توفیق ہے۔<ref>مفید، المسائل العُکبریۃ، ۱۴۱۳ق، ص۲۷؛ شوشتری، الصوارم المہرقۃ، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۷، ۱۴۸؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۳۱۳۔</ref>


رجس سے مراد ظاہری پلیدی نہیں ہے بلکہ یہ باطنی پلیدیوں کی طرف اشارہ ہے اور آیت مطلق ہے چنانچہ اس میں شرک و کفر اور عفت و پاکدامنی سے متصادم افعال اور ہر قسم کی معصیت و نافرمانی اور تمام اعتقادی، اخلاقی اور عملی آلودگیوں پر محیط ہے۔ اس نکتے کی طرف توجہ رکھنا نہایت ضروری کہ [[ارادہ|تکوینی ارادہ]] ـ جس کے معنی خلقت و آفرینش کے ہیں ـ یہاں مقدمہ اور متقاضی ہے اور علت تامہ یا سبب تام نہیں ہے چنانچہ یہ [[جبر]] کا سبب نہیں بنتا اور اختیار کو سلب نہیں کرتا۔ وضاحت یہ کہ [[عصمت|مقام عصمت]] تقوائے الہی کی ایک خاص کیفیت ہے جو اللہ کی مدد سے [[انبیاء]] اور [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہ]] علیہم السلام میں ودیعت کی جاتی ہے؛ تاہم اس کیفیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معصومین گناہ اور نافرمانی کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتے بلکہ وہ گناہ کرنے کی استعداد کے باوجود اپنے اختیار سے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت بعض منابع میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: " میں اور میری اہل بیت گناہ سے پاک ہیں۔"<ref>بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۹۵ق، ج۱، ص۱۷۱؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۲۰۸۔</ref> [[حضرت علیؑ]] نے بھی [[واقعہ فدک|فدک کے واقعے]] میں [[حضرت زہرا(س)]] کا گناہ سے پاک اور منزہ ہونے کو اسی آیت سے استناد کرتے ہوئے ثابت کئے ہیں۔<ref>طبری، کامل بہائی، ۱۳۸۳ش، ص:۲۵۶۔</ref>
جیسے زہر کے خواص سے اطلاع رکھنے والا ماہر و حذاق طبیب یا شخص  کبھی بھی زہریلے مادے کو تناول نہیں کرتا حالانکہ وہ اس زہریلے مادے کو کھا سکتا ہے لیکن اس کا علم اور اس کے فکری اور روحانی آگہیاں اسے ایسا نہیں کرنے دیتیں اور وہ اپنے [[ارادہ|ارادے]] اور اختیار کے ساتھ اس کام سے چشم پوشی کرتا ہے۔<ref>[http://www.hawzah.net/fa/article/articleview/2834?ParentID=78742 آیہ تطہیر(1)- تفسیر کلی آیہ, مکارم شیرازی]</ref>


==اہل بیت کا مصداق==
==اہل بیت کا مصداق==
confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم