مندرجات کا رخ کریں

"میر انیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

242 بائٹ کا اضافہ ،  29 جنوری 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 36: سطر 36:
== سوانح حیات ==
== سوانح حیات ==
میر ببر علی انیس ولد میر مُستحسن خلیق سنہ 1803ء میں ہندوستان، اترپردیش میں فیض آباد کے محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> آپ کے باپ نے آپ کا نام سید ببرعلی رضوی رکھا۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، ۲۰۱۱م ص۲۷–۲۸</ref>
میر ببر علی انیس ولد میر مُستحسن خلیق سنہ 1803ء میں ہندوستان، اترپردیش میں فیض آباد کے محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> آپ کے باپ نے آپ کا نام سید ببرعلی رضوی رکھا۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، ۲۰۱۱م ص۲۷–۲۸</ref>
آپ کا خاندانی سلسلہ [[امام رضاؑ]]  سے ملتا ہے۔<ref>[https://azadmail.com/monthly-naya-daur-lucknow-meer-anis-special-issue/ نیا دور اور میر انیس،] آزاد میل حق کی آواز ویب سائٹ۔</ref> انیس کے اجداد میں سے  «میر امامی»، شاہ جہان(حکومت: 1628-1656ء){{یادداشت|گورکانیان کی سلطنت کا پانچواں حاکم جس نے ہندوستان کے بہت سارے علاقوں پر حکومت کی}} کے عہد سلطنت میں ایران سے ہندوستان آئے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref> میر انیس تعلیم فیض آباد میں حاصل کی اور صرف و نحو، معنی و بیان اور دیگر علوم سیکھے۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، 2011ء،  ص27–28</ref> آپ کو فارسی اور عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص 11۔</ref> انیس نے 19 سال کی عمر میں شادی کی اور آپ کی 6 اولاد تھی۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، 2011ء،  ص27–28</ref> بعض نے  میر انیس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ذکر کی ہیں۔<ref> نقوش، انیس نمبر، شمارہ 128 ص633</ref>
میر انیس قدرے دراز قامت، ٹھوس، اور متناسب جسامت کے مالک تھے، خوبصورت کتابی چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، صراحی دار گردن، ذرا بڑی مونچھیں اور باریک داڑھی کہ جو دور سے تراشی ہوئی محسوس ہو۔<ref>[http://www.urduchannel.in/meer-anees-by-mohammad-raza/ میر انیس از دیدگاہ بزرگان]، اردو چینل ویب سائٹ۔</ref> انیس کا پسندہ لباس دو پلی ٹوپی، لمبا گھیردار کرتا اور شکن دار پاجامہ تھے کہ یہی اس زمانے کے شرفاء اور ذی علم افراد کا لباس ہوا کرتا تھا۔<ref>[http://www.urduchannel.in/meer-anees-by-mohammad-raza/ میر انیس از دیدگاہ بزرگان]، اردو چینل ویب سائٹ۔</ref>
 
آپ کا خاندانی سلسلہ [[امام رضاؑ]]  سے ملتا ہے۔<ref>[https://azadmail.com/monthly-naya-daur-lucknow-meer-anis-special-issue/ نیا دور اور میر انیس،] آزاد میل حق کی آواز ویب سائٹ۔</ref> انیس کے اجداد میں سے  «میر امامی»، شاہ جہان(حکومت: 1628-1656ء){{یادداشت|گورکانیان کی سلطنت کا پانچواں حاکم جس نے ہندوستان کے بہت سارے علاقوں پر حکومت کی}} کے عہد سلطنت میں ایران سے ہندوستان آئے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref> میر انیس تعلیم فیض آباد میں حاصل کی اور صرف و نحو، معنی و بیان اور دیگر علوم سیکھے۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، 2011ء،  ص27–28</ref> آپ کو فارسی اور عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص 11۔</ref>  
آپ کے اساتذہ میں «میر نجف علی» اس دور کے شیعہ عالم دین، «مولوی حید علی فیض آبادی» اس دور کے حنفی عالم اور «حکیم میرکلو» شامل ہیں۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، 2011ء،  ص29</ref> کہا جاتا ہے کہ انیس نے تعلیم اور شاعر اپنے والد اور اساتذہ سے سیکھا لیکن آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کا بڑا کردار تھا۔<ref>صالحہ عابدہ حسین، خواتین کربلا:کلام انیس کی آئینی میں، ص4</ref> چونکہ والدہ دینی مسائل سے آگاہ تھیں اور فارسی زبان پر بھی کسی حد تک عبور تھا اور [[جامع عباسی]] کی تدریس کرتی تھیں۔<ref>احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref>
 
انیس نے 19 سال کی عمر میں شادی کی اور آپ کی 6 اولاد تھی۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، 2011ء،  ص27–28</ref> بعض نے  میر انیس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ذکر کی ہیں۔<ref> نقوش، انیس نمبر، شمارہ 128 ص633</ref>
چالیس سال کی عمر میں لکھنؤ چلے گئے۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref>


«میر نجف علی» اس دور کے شیعہ عالم دین، «مولوی حید علی فیض آبادی» اس دور کے حنفی عالم اور «حکیم میرکلو» انیس کے اساتذہ میں سے تھے۔<ref>نیر مسعود، میرانیس، 2011ء،  ص29</ref> کہا جاتا ہے کہ انیس نے تعلیم اور شاعر اپنے والد اور اساتذہ سے سیکھا لیکن آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کا بڑا کردار تھا۔<ref>صالحہ عابدہ حسین، خواتین کربلا:کلام انیس کی آئینی میں، ص4</ref> چونکہ والدہ دینی مسائل سے آگاہ تھیں اور فارسی زبان پر بھی کسی حد تک عبور تھا اور [[جامع عباسی]] کی تدریس کرتی تھیں۔<ref>احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref>
انیس کو نماز اول وقت کا پابند کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات و جلسات میں شاعری چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے اور پھر دوبارہ سے شاعری شروع کرتے تھے۔<ref>فضل امام، انیس شخصت اور فن ص72</ref>
انیس کو نماز اول وقت کا پابند کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات و جلسات میں شاعری چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے اور پھر دوبارہ سے شاعری شروع کرتے تھے۔<ref>فضل امام، انیس شخصت اور فن ص72</ref>
میر انیس [[29 شوال]] 1291ھ مطابق [[10 دسمبر]] 1874ء کو 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال کر گئے<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> اور لکھنؤ میں اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref>
میر انیس [[29 شوال]] 1291ھ مطابق [[10 دسمبر]] 1874ء کو 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال کر گئے<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> اور لکھنؤ میں اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref>


==شعر و مرثیہ نگاری==
انیس کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔<ref>[https://urdunotes.com/lesson/meer-anees-biography-in-urdu-%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3/ میر انیس]، اردو نوٹس ویب سائٹ۔</ref> آپ نے شاعری کو اپنے والد  اور «شیخ امام بخش ناسخ» (لکھنؤ کے ایک مشہور مرثیہ نگار» سے سیکھا۔<ref>نیر مسعود، میرانیس،2011ء  ص 32۔</ref> کہا جاتا ہے کہ آپ کا تخلص «حزین» تھا جسے استاد «ناسخ» نے «انیس» میں بدل دیا۔<ref>نیر مسعود، میرانیس،2011ء  ص 32۔</ref>


انیس کو ابتدا میں غزل کا بڑا شوق تھا اور کسی مشاعرے میں آپ کی غزل کو بڑی داد ملی تو آپ کے والد سن کر باغ باغ ہوئے اور میر انیس سے وہ غزل سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا: اب غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں وقت دو جہاں دین اور دنیا کا سرمایہ ہے۔<ref> محمد حسین آزاد، آب حیات ص519۔</ref> والد کی نصیحت اور امام حسینؑ سے محبت کی بنا پر غزل کو ترک کیا اور مرثیہ نگاری شروع کی اور پھر کبھی غزل کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔<ref> محمد حسین آزاد، آب حیات ص519۔</ref> انیس کا دور مرثیے کا سنہرا دور تھا۔ اس میں مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کے فن کو بھی عروج حاصل ہوا۔<ref>[https://dailypakistan.com.pk/10-Sep-2019/1019145 اُردو مرثیہ نگاری .... ایک تاریخی جائزہ]، روزنامہ پاکستان۔</ref>


[[میر ضحاک]] کے فرزند دہلی میں پیدا ہوئے اور جوانی میں اپنے والد کے ساتھ فیض آباد چلے گئے۔ جب نواب آصف الدولہ نے فیض آباد کی جگہ لکھنؤ کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تو میر حسن لکھنؤ چلے آئے۔ یکم محرم 1201ھ میں انتقال کر گئے اور سینکڑوں مثنویاں کہیں لیکن میر حسن کی مثنوی سحر البیان کا جواب نہ ہوسکا۔ [[میر حسن]] کے تین بیٹے خلق، [[میر خلیق|خلیق]] اور مخلوق شاعر تھے۔ اور خلق و خلیق صاحب دیوان تھے۔۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref> انیس کے والد خلیق فیض آباد میں پیدا ہوئے اور آخر عمر میں لکھنؤ چلے آئے۔ شروع میں غزل کا دیوان کہہ ڈالا بعد میں مرثیہ گوئی کی طرف توجہ کی اور تا حیات اسی سے منسلک رہے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref>
انیس کے مشہور مرثیوں میں «جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے» والا مرثیہ اور «جب لشکر خدا کا علم سرنگوں ہوا» والا مرثیہ بہت مشہور ہیں۔<ref> محمد حسین آزاد، آب حیات ص519۔</ref>
==اشعار کی تعداد==
انیس کے مرثیوں کی تعداد کو لک بھگ 1200 بیان کی جاتی ہے۔ اور کئی مرثیے غیر مطبوعہ ہیں اور مختلف بیاضوں کے صفحات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ مرثیوں کے علاوہ قصیدے، سلام، نوحے اور رباعیات کا کثیر ذخیرہ بھی چھوڑا ہے۔ رباعیات<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref> کی تعداد کو 600 تک بتایا گیا ہے۔ میر انیس کے نواسے کے بقول، 1857ء کے اواخر میں انیس نے 157 بند یعنی 1182 مصرعے کا مرثیہ ایک ہی رات میں لکھا۔<ref>[https://www.karbobala.com/news/info/6157 شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود]، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام</ref> یہ انیس کے مشہور و معروف مرثیوں میں سے ایک ہے جو '''«جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے''' سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں شہدائے کربلا کا میدان کی طرف جانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:<ref>[https://www.rekhta.org/marsiya/jab-qata-kii-masaafat-e-shab-aaftaab-ne-meer-anees-marsiya?lang=ur جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے]، ریختہ ویب سائٹ۔</ref>


 
انیس نے ایک مرثیہ بغیر نقطے کے بھی لکھا۔<ref> مجلہ نقوش انیس نمبر</ref> محمد حسین آزاد نے تذکرہ آب حیات میں لکھتے ہیں کہ میر انیس نے مرثیے کے کم سے کم دس ہزار مصرعے پڑھے ہیں۔{{حوالہ درکار}}
چالیس سال کی عمر میں لکھنؤ چلے گئے۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> آپ کو منقولات سے زیادہ معقولات میں دلچسپی تھی۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> آپ کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ فنون سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی اور فن شہسواری سے واقف تھے۔ شاعری کو اپنے والد سے سیکھا۔<ref>[https://urdunotes.com/lesson/meer-anees-biography-in-urdu-%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3/ میر انیس]، اردو نوٹس ویب سائٹ۔</ref> میر انیس کی والدہ دینی مسائل سے آگاہ تھیں اور فارسی زبان پر بھی کسی حد تک عبور تھا اور [[جامع عباسی]] کی تدریس کرتی تھیں۔<ref>احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> اسی وجہ سے انیس کی تربیت میں ان کی والدہ کا کردار زیادہ مؤثر رہا ہے۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref>
انیس مرثیہ نگاری کے علاوہ مرثیہ خوانی بھی کرتے تھے۔<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref> میر انیسؔ کا کلام پانچ (5) جلدوں میں نول کشور پریس لکھنو سے شائع ہوا۔
===خد و خال===
آپ کے مرثیوں کے مجموعے مختلف ناموں سے چھپ چکے ہیں۔<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref>
میر انیس قدرے دراز قامت، ٹھوس، اور متناسب جسامت کے مالک تھے، خوبصورت کتابی چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، صراحی دار گردن، ذرا بڑی مونچھیں اور باریک داڑھی کہ جو دور سے تراشی ہوئی محسوس ہو۔<ref>[http://www.urduchannel.in/meer-anees-by-mohammad-raza/ میر انیس از دیدگاہ بزرگان]، اردو چینل ویب سائٹ۔</ref> انیس کا پسندہ لباس دو پلی ٹوپی، لمبا گھیردار کرتا اور شکن دار پاجامہ تھے کہ یہی اس زمانے کے شرفاء اور ذی علم افراد کا لباس ہوا کرتا تھا۔<ref>[http://www.urduchannel.in/meer-anees-by-mohammad-raza/ میر انیس از دیدگاہ بزرگان]، اردو چینل ویب سائٹ۔</ref>
 
 
===انیس کا شاعرانہ خاندان===
میر انیس کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے رثائی شاعری کو معراج بخشا۔<ref> نکہت فاطمہ، [https://adbimiras.com/urdu-marsiya-nigari-mei-meer-anis-ka-darja-nikhat-fatima/ اردو مرثیہ نگاری میں میر انیس کا درجہ]،  ادبی میراث ویب سائٹ۔</ref> میر انیس نے یہ ثابت کر دیا کہ شاعری صرف غزل میں نہیں بلکہ مرثیہ میں بھی کی جا سکتی ہے۔ انیس اردو شاعری میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شعرا میں سے ایک ہیں۔<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref>
 
انیس ایک خاندانی شاعر ہے جس کی کئی پشتوں سے شاعری چلتی آ رہی ہے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12۔</ref> میر انیس کے پردادا میر ضاحک، دادا میر حسن، والد میر خلیق اور دو چچا میر خلق اور میر مخلوق نیز دو بھائی انس اور مونس سب شاعر تھے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12۔</ref> ان کے دادا میر حسن، مثنوی کے مشہور شاعر تھے اور «مثنوی سحر البیان» کے مولف ہیں۔<ref>[https://archive.urdu.siasat.com/news/%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A8%D8%A8%D8%B1-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3%D8%94-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85-%D8%A2%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1-%D9%88-939814/ میر ببر علی انیسؔ (اردو کے نام آور شاعر و مرثیہ نگار)]، سیاست ویب سائٹ۔</ref> یوں شاعری آپ کو وراثت میں ملی ہے۔<ref>[https://urdunotes.com/lesson/meer-anees-biography-in-urdu-%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3/ میر انیس]، اردو نوٹس ویب سائٹ۔</ref> اسی سبب انیس نے یہ شعر پڑھا
{{شعر آغاز}}
{{شعر|عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں|پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں}}
{{شعر اختتام}}
[[فائل:Indan_post_stemp_Meer_Anis.jpg|250px|تصغیر|انیس کے نام ہندوستان میں ڈاک ٹکٹ]]
 
==فنون شہسواری==
انیس کو عربی اور فارسی علوم و ادب کے علاوہ سپہ گری، ورزش اور گڑسواری کا بھی بڑا شوق تھا۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظرحوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> اور سپہ گری کو دہلی کے ایک استاد سے سیکھا۔<ref>احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> ہندوستان کی قدیم رسم کے مطابق کھیل کے دوران بدن کے بعض حصے کو لباس سے باہر نکالنا ضروری ہوتا تھا لیکن میر انیس نے کھیل کے لئے ایک مخصوص لباس بنوایا اور کبھی نیم عریان نہیں ہوئے۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> انیس کے گھرانے میں اکثر ورزش کرنے والے تھے اسی سبب انیس کو بھی ورزش سے دلی لگاؤ تھا۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref>


==انیس کا پہلا اور آخری شعر==
==انیس کا پہلا اور آخری شعر==
سطر 85: سطر 81:
{{شعر اختتام}}
{{شعر اختتام}}
[[فائل:Book of Miranees.png|200px|تصغیر|مجموعہ مرثیہ میر انیس کی تیسری جلد]]
[[فائل:Book of Miranees.png|200px|تصغیر|مجموعہ مرثیہ میر انیس کی تیسری جلد]]
== غزل سے مرثیہ تک ==
برصغیر میں اردو مرثیے کا آغاز دکن سے ہوا، اور وہاں سے شمالی ہند اور دہلی تک پہنچ گیا اور دکن سے دہلی آتے آتے مرثیہ اور مستحکم ہوگیا۔ میر اور سودا نے مرثیہ کو اور پروان چڑھایا، پھر ضمیر، دلگیر اور میر خلیق نے مزید اس میں ترقی دی۔ بالاخر انیس اور دبیر کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچا۔
یہ دور مرثیے کا سنہرا دور تھا۔ اس میں مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کے فن کو بھی عروج حاصل ہوا۔<ref>[https://dailypakistan.com.pk/10-Sep-2019/1019145 اُردو مرثیہ نگاری .... ایک تاریخی جائزہ]، روزنامہ پاکستان۔</ref>
انیس کو ابتدا میں غزل کا بڑا شوق تھا اور کسی مشاعرے میں آپ کی غزل کو بڑی داد ملی تو آپ کے والد سن کر باغ باغ ہوئے اور میر انیس سے وہ غزل سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا: اب غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں وقت دو جہاں دین اور دنیا کا سرمایہ ہے۔<ref> محمد حسین آزاد، آب حیات ص519۔</ref> والد کی نصیحت پر غزل کو ترک کیا اور مرثیہ نگاری شروع کی اور پھر کبھی غزل کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔<ref> محمد حسین آزاد، آب حیات ص519۔</ref>
انیس کے مشہور مرثیوں میں «جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے» والا مرثیہ اور «جب لشکر خدا کا علم سرنگوں ہوا» والا مرثیہ بہت مشہور ہیں۔


==سبک شعر==
==سبک شعر==
سطر 102: سطر 91:
میر انیس نے اپنے اشعار میں قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کا اشارہ کرتے ہیں۔<ref>سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص16،17۔</ref>
میر انیس نے اپنے اشعار میں قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کا اشارہ کرتے ہیں۔<ref>سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص16،17۔</ref>


[[فائل:Mir Anees handwriting.jpg|تصغیر|میر انیس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ]]
==انیس کے کلام کے محاسن==
 
انیس نے اپنی شاعری میں صرف واقعہ کربلا ہی بیان نہیں کیا بلکہ واقعہ کربلا کے بہادروں کے بارے میں بھی کہا اور ہر ایک کو خاص تشبیہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔<ref>[https://www.karbobala.com/news/info/6157 شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرودکرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام</ref> اور واقعہ کربلا کےکرداروں اور ان ذوات مقدسہ کے احترام میں کمی کاستی کے بغیر مقامی رنگ میں انہیں پیش کرتے ہیں۔<ref> ریحانہ خاتون، «میر انیس کے کلام کے شعری محاسن»، انیس و دبیر حیات و خدمات:ص 343 تا 356۔</ref>
==اشعار کی تعداد==
انیس کے مرثیوں کی تعداد کو لک بھگ 1200 بیان کی جاتی ہے۔ اور کئی مرثیے غیر مطبوعہ ہیں اور مختلف بیاضوں کے صفحات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ مرثیوں کے علاوہ قصیدے، سلام، نوحے اور رباعیات کا کثیر ذخیرہ بھی چھوڑا ہے۔ رباعیات<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیسپنجند ڈاٹ کام۔</ref> کی تعداد کو 600 تک بتایا گیا ہے۔ میر انیس کے نواسے کے بقول، 1857ء کے اواخر میں انیس نے 157 بند یعنی 1182 مصرعے کا مرثیہ «جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے»، ایک ہی رات میں لکھا۔ انیس نے ایک مرثیہ بغیر نقطے کے بھی لکھا۔<ref> مجلہ نقوش انیس نمبر</ref> محمد حسین آزاد نے تذکرہ آب حیات میں لکھتے ہیں کہ میر انیس نے مرثیے کے کم سے کم دس ہزار مصرعے پڑھے ہیں۔{{حوالہ درکار}}
انیس مرثیہ نگاری کے علاوہ مرثیہ خوانی بھی کرتے تھے۔<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref> میر انیسؔ کا کلام پانچ (5) جلدوں میں نول کشور پریس لکھنو سے شائع ہوا۔
آپ کے مرثیوں کے مجموعے مختلف ناموں سے چھپ چکے ہیں۔<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref>


==انیس کے کلام کے محاسن==
آپ ہمیشہ امام حسینؑ کے اصحاب کو شجاعت او ربہادری سے توصیف کرتا ہے۔<ref>[https://www.karbobala.com/news/info/6157 شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود]، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام</ref> اپنے مرثیوں میں صرف عزاداری ہی نہیں بلکہ نماز، جہاد اور محبت اہلبیتؑ جیسی دینی تعلیمات کو بھی بیان کرتا ہے۔<ref>[https://www.karbobala.com/news/info/6157 شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود]، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام</ref> مرثیوں میں عربی اور فارسی ادبی ترکییبات کو بھی بیان کیا ہے۔<ref>[https://www.karbobala.com/news/info/6157 شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود]، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام</ref>آپ غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ کے استعمال سے گریز کرتا ہے۔<ref>ریحانہ خاتون، میر انیس کی کلام کی شعری محاسن، انیس و دبیر حیات و خدمات:ص ۳۴۳ تا ۳۵۶.</ref>
انیس کا کلام شاعری کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ ساتھ نہایت سادہ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی تشبیہ اور استعارہ کا استعمال اس قاعدے سے کرتے ہیں کہ گویا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے۔ انیس نے اپنے درونی احساسات کو بھی ایمانداری سے بیان کیا ہے۔ منظر نگاری، لفظوں کا اختصار اور جزئیات پر نظر دیگر محاسن میں شمار ہوتی ہیں۔ انیس حد الامکان غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں۔<ref> ریحانہ خاتون، میر انیس کے کلام کے شعری محاسن، انیس و دبیر حیات و خدمات:ص 343 تا 356۔</ref> انیس کے کلام کے محاسن میں سے ایک اپنے کلام کو برصغیر کی ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے [[واقعہ کربلا|کربلا کے واقعہ]] کو اپنے ماحول سے مدغم کرتے اور ذیل کے شعر میں صندل اور مانگ کو برصغیر کے تہذیب سے لیا ہے اور عربی ماحول کو اپنے معاشرے سے پیوست کرتے ہیں:
شاعری کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ ساتھ سادہ الفاظ کا انتخاب،تشبیہ و استعارے کا مناسب استعمال، منظر نگاری، لفظوں کا اختصار اور جزئیات پر نظر،غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ سے اجتناب اور واقعہ کربلا کو برصغیر کی ثقافت میں بیان کرناانیس کے کلام کے محاسن میں ذکر کئے گئے ہیں۔<ref> ریحانہ خاتون، «میر انیس کے کلام کے شعری محاسن»، انیس و دبیر حیات و خدمات:ص 343 تا 356۔</ref> ذیل کے شعر میں صندل اور مانگ کو برصغیر کے تہذیب سے لیتے ہوئے عربی ماحول کو اپنے معاشرے سے پیوست کرتے ہیں:
{{شعر آغاز}}
{{شعر آغاز}}
{{شعر|[[حضرت زینب|زینب]] کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال|بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال}}
{{شعر|[[حضرت زینب|زینب]] کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال|بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال}}
{{شعر|بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے|صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے}}
{{شعر|بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے|صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے}}
{{شعر اختتام}}
{{شعر اختتام}}
اس کے علاوہ انیس کے کلام میں مقامی رنگ پائے جاتے ہیں جو مرثیے کو مسلکی محدودیتوں سے نکال کر وسیع میدان میں لے آتا ہے۔ ایک اور خصوصیت جو انیس کے کلام میں نظر آتی ہے وہ واقعے کے کرداروں اور ان ذوات مقدسہ کے احترام میں کمی کاستی کے بغیر ان کو زمان اور مکان کے قید سے آزاد کر کے پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے ان سے ہماری اجنبیت ختم ہوتی ہے۔ انیس کے کلام کا ایک اور حسن اردو زبان اور مقامی تہذیب کا تحفظ ہے جو انیس نے اپنی زبان، محاورے اور مراثیوں کی شکل میں کیا ہے۔


==تشبیہ و تمثیل واقعہ کربلا==
کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی شعرا اور خطباء آپ کے اشعار کو عزاداری میں بیان کرتے ہیں۔<ref>[https://www.karbobala.com/news/info/6157 شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود]، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام</ref>
انیس نے کسی حکمران کی مدحت میں شعر نہیں کہا بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس سے بچے رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔<ref>فضل امام، انیس شخصت اور فن ص67–68</ref>
 
===تشبیہ و تمثیل واقعہ کربلا===
[[واقعہ کربلا]] کے کرداروں کی بڑی کمال کی تشبیہ دی ہے۔ اور [[ذوالجناح]] کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں:
[[واقعہ کربلا]] کے کرداروں کی بڑی کمال کی تشبیہ دی ہے۔ اور [[ذوالجناح]] کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں:
{{شعر آغاز}}
{{شعر آغاز}}
سطر 131: سطر 118:
{{شعر اختتام}}
{{شعر اختتام}}


انیس کے مشہور و معروف مرثیوں میں سے ایک '''«جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے''' سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں شہدائے کربلا کا میدان کی طرف جانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:<ref>[https://www.rekhta.org/marsiya/jab-qata-kii-masaafat-e-shab-aaftaab-ne-meer-anees-marsiya?lang=ur جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے]، ریختہ ویب سائٹ۔</ref>
[[فائل:Grave of Meer Anis.jpg|300px|تصغیر|میر انیس کی قبر]]
[[فائل:Grave of Meer Anis.jpg|300px|تصغیر|میر انیس کی قبر]]
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال___________جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال  
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال___________جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال  
سطر 147: سطر 133:
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں ___________ مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں ___________ مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں


===انیس کا شاعرانہ خاندان===
میر انیس کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے رثائی شاعری کو معراج بخشا۔<ref> نکہت فاطمہ، [https://adbimiras.com/urdu-marsiya-nigari-mei-meer-anis-ka-darja-nikhat-fatima/ اردو مرثیہ نگاری میں میر انیس کا درجہ]،  ادبی میراث ویب سائٹ۔</ref> میر انیس نے یہ ثابت کر دیا کہ شاعری صرف غزل میں نہیں بلکہ مرثیہ میں بھی کی جا سکتی ہے۔ انیس اردو شاعری میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شعرا میں سے ایک ہیں۔<ref>[https://www.punjnud.com/authors/mir-babar-ali-anis میر ببر علی انیس]، پنجند ڈاٹ کام۔</ref>
انیس ایک خاندانی شاعر ہے جس کی کئی پشتوں سے شاعری چلتی آ رہی ہے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12۔</ref> میر انیس کے پردادا میر ضاحک، دادا میر حسن، والد میر خلیق، دو چچے میر خلق اور میر مخلوق نیز دو بھائی انس اور مونس سب شاعر تھے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12۔</ref> میرضحاک نے بہت ساری مثنویاں لکھیں۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref> انیس کے دادا میر حسن، مثنوی کے مشہور شاعر تھے اور «مثنوی سحر البیان» کے مولف ہیں۔<ref>[https://archive.urdu.siasat.com/news/%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A8%D8%A8%D8%B1-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3%D8%94-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85-%D8%A2%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1-%D9%88-939814/ میر ببر علی انیسؔ (اردو کے نام آور شاعر و مرثیہ نگار)]، سیاست ویب سائٹ۔</ref> آپ کے چچا «خلق» اور والد میرخلیق دونوں صاحبِ دیوان تھے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref> انیس کے والد نےشروع میں غزل کا دیوان کہہ ڈالا بعد میں مرثیہ گوئی کی طرف توجہ کی اور تا حیات اسی سے منسلک رہے۔<ref> سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات ص5 تا 12</ref>
یوں شاعری انیس کو وراثت میں ملی ہے۔<ref>[https://urdunotes.com/lesson/meer-anees-biography-in-urdu-%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B3/ میر انیس]، اردو نوٹس ویب سائٹ۔</ref> اسی سبب انیس نے یہ شعر پڑھا
{{شعر آغاز}}
{{شعر|عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں|پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں}}
{{شعر اختتام}}
[[فائل:Indan_post_stemp_Meer_Anis.jpg|250px|تصغیر|انیس کے نام ہندوستان میں ڈاک ٹکٹ]]
==فنون شہسواری==
انیس کو عربی اور فارسی علوم و ادب کے علاوہ سپہ گری، ورزش اور گڑسواری کا بھی بڑا شوق تھا۔<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/361054/اردو-زبان-کے-فردوسی-میر-ببر-علی-انیس-کی-وفات-ایک-نظر اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر]، حوزہ نیوز ایجنسی۔</ref> اور سپہ گری کو دہلی کے ایک استاد سے سیکھا۔<ref>احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> ہندوستان کی قدیم رسم کے مطابق کھیل کے دوران بدن کے بعض حصے کو لباس سے باہر نکالنا ضروری ہوتا تھا لیکن میر انیس نے کھیل کے لئے ایک مخصوص لباس بنوایا اور کبھی نیم عریان نہیں ہوئے۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref> انیس کے گھرانے میں اکثر ورزش کرنے والے تھے اسی سبب انیس کو بھی ورزش سے دلی لگاؤ تھا۔<ref> احمد تمیم داری، [http://icro.ir/index.aspx?pageid=32738&p=34&showitem=13052 انیس]، مجلہ دانش، شمارہ 23۔</ref>
[[فائل:Mir Anees handwriting.jpg|تصغیر|میر انیس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ]]
==انیس اور دبیر==
==انیس اور دبیر==
میر انیس اور مرزا دبیر ہم عصر مرثیہ نگار تھے۔ میر انیس کے استاد میرخلیق اور دبیر کے استاد [[میر ضمیر]] تھے۔ انیس اور دبیر دونوں نے مرثیہ کی طرف توجہ دی اور اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔ البتہ دونوں کے خاص عقیدت مند تھے اسی سبب بعض نے ان دونوں مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے<ref> حالی اور شبلی نعمانی کا موازنہ مشہور ہیں: ملاحظہ کریں: مجلہ پیام رافت، شمارہ 4 و 5۔</ref> اور ہر کسی نے اپنے مورد پسند مرثیہ نگار کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں کچھ اشعار دبیر کے پیش کرتے ہیں اور اسی مضمون کو انیس کے کلام میں بھی دیکھ لیتے ہیں:
میر انیس اور مرزا دبیر ہم عصر مرثیہ نگار تھے۔ میر انیس کے استاد میرخلیق اور دبیر کے استاد [[میر ضمیر]] تھے۔ انیس اور دبیر دونوں نے مرثیہ کی طرف توجہ دی اور اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔ البتہ دونوں کے خاص عقیدت مند تھے اسی سبب بعض نے ان دونوں مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے<ref> حالی اور شبلی نعمانی کا موازنہ مشہور ہیں: ملاحظہ کریں: مجلہ پیام رافت، شمارہ 4 و 5۔</ref> اور ہر کسی نے اپنے مورد پسند مرثیہ نگار کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں کچھ اشعار دبیر کے پیش کرتے ہیں اور اسی مضمون کو انیس کے کلام میں بھی دیکھ لیتے ہیں:
سطر 223: سطر 224:
* [https://dailypakistan.com.pk/10-Sep-2019/1019145 اُردو مرثیہ نگاری .... ایک تاریخی جائزہ]، روزنامہ پاکستان، تاریخ درج: 10 ستمبر 2019، تاریخ اخذ: 16 جون 2021ء۔
* [https://dailypakistan.com.pk/10-Sep-2019/1019145 اُردو مرثیہ نگاری .... ایک تاریخی جائزہ]، روزنامہ پاکستان، تاریخ درج: 10 ستمبر 2019، تاریخ اخذ: 16 جون 2021ء۔
* محمد حسین آزاد، آب حیات، بےتا، بےنا۔
* محمد حسین آزاد، آب حیات، بےتا، بےنا۔
* ریحانہ خاتون، میر انیس کے کلام کے شعری محاسن، انیس و دبیر حیات و خدمات
* ریحانہ خاتون، «میر انیس کے کلام کے شعری محاسن»،  کتاب انیس و دبیر حیات و خدمات میں، مرتبہ،  پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، غالب اسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، 2007ء
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
==بیرونی روابط==
==بیرونی روابط==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم