مندرجات کا رخ کریں

"حدیث شد رحال" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 32: سطر 32:


==مسلمانوں کا نظریہ==
==مسلمانوں کا نظریہ==
بعض علمائے مذاہب اسلامی نے حدیث شد رحال کے سلسلے میں ابن تیمیہ کے جواب اور اس کے دعوے کو ردّ کرنے کے لئے کتابیں لکھی ہیں۔<ref>عباسی‌مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳۔</ref> عالم اہل سنت خلیل احمد کے مطابق یہ حدیث، مسجد نبوی کی زیارت کے ممنوع ہونے پر دلالت نہیں کر رہی بلکہ نصّ روایت شدّ رحال کے جواز پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ جس سبب کی بنیاد پر تینوں مسجدیں دیگر تمام مساجد یا اماکن مشرفہ سے جدا ہوئی ہیں وہ خاص فضیلت ہے جو ان تینوں مساجد سے مخصوص ہے۔<ref>خلیل احمد، مباحث فی عقائد أہل السنۃ ، ۱۴۲۵ھ، ص۴۷۔</ref> جصاص جو اہل سنت کے مفسر ہیں ان کے مطابق یہ حدیث فقط ان تین مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ھ،ج۱، ص۳۰۲۔</ref>
بعض علمائے مذاہب اسلامی نے حدیث شد رحال کے سلسلے میں [[ابن تیمیہ]] کے جواب اور اس کے دعوے کو ردّ کرنے کے لئے کتابیں لکھی ہیں۔<ref> عباسی‌مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳۔</ref> عالم [[اہل سنت]] خلیل احمد کے مطابق یہ حدیث، [[مسجد نبوی]] کی [[زیارت]] کے ممنوع ہونے پر دلالت نہیں کر رہی بلکہ نصّ روایت شدّ رحال کے جواز پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ جس سبب کی بنیاد پر تینوں مسجدیں دیگر تمام مساجد یا اماکن مشرفہ سے جدا ہوئی ہیں وہ خاص فضیلت ہے جو ان تینوں مساجد سے مخصوص ہے۔<ref> خلیل احمد، مباحث فی عقائد أہل السنۃ ، ۱۴۲۵ھ، ص۴۷۔</ref> جصاص جو اہل سنت کے مفسر ہیں ان کے مطابق یہ حدیث فقط ان تین مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref> جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ھ،ج۱، ص۳۰۲۔</ref>


چاروں مذاہب کے بعض علمائے اہل سنت نے شرح [[صحیح بخار]]، [[صحیح مسلم]] اور بعض دوسری کتابوں میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: یہ حدیث صرف تینوں مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref>نووی، صحیح مسلم مع شرح الامام النووی، ج۴، ص۳۲۶۔</ref> علمائے شافعی میں سے ابن حجر عسقلانی،<ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دارالمعرفہ، ج۳، ص۶۵۔</ref> ملا علی قاری حنفی،<ref>محمد قاری، مرقات المفاتیح، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۷۱۔</ref> ابن عابدین فقیہ حنفی،<ref>ابن عابدین، حاشیہ رد المختار على الدر المختار، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۶۲۷۔</ref> زرقانی فقیہ مالکی<ref>زرقانی، شرح الزرقانی،۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref> اور ابن قدامہ حنبلی<ref>ابن قدامہ، المغنی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۵۲۔</ref>  کا بھی یہی نظریہ ہے۔
چاروں مذاہب کے بعض علمائے اہل سنت نے شرح [[صحیح بخاری]]، [[صحیح مسلم]] اور بعض دوسری کتابوں میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: یہ حدیث صرف تینوں مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref> نووی، صحیح مسلم مع شرح الامام النووی، ج۴، ص۳۲۶۔</ref> علمائے شافعی میں سے ابن حجر عسقلانی،<ref> ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دارالمعرفہ، ج۳، ص۶۵۔</ref> ملا علی قاری حنفی،<ref> محمد قاری، مرقات المفاتیح، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۷۱۔</ref> ابن عابدین فقیہ حنفی،<ref> ابن عابدین، حاشیہ رد المختار على الدر المختار، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۶۲۷۔</ref> زرقانی فقیہ مالکی<ref>زرقانی، شرح الزرقانی،۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref> اور ابن قدامہ حنبلی<ref> ابن قدامہ، المغنی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۵۲۔</ref>  کا بھی یہی نظریہ ہے۔


==شیعوں کا نظریہ==
==شیعوں کا نظریہ==
گمنام صارف