مندرجات کا رخ کریں

"استخارہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

323 بائٹ کا اضافہ ،  6 نومبر 2019ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 30: سطر 30:
ظہور اسلام سے پہلے استخارہ کی ایک قسم "استقسام بہ ازلام" کے نام سے رایج تھی<ref>ابن‌حبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص۱۹۶۔</ref> جو تیرِ و کمان کے ذریعے انجام دیا جاتا تھا۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۳۰۶۔</ref> بعض علماء من جملہ سنی عالم دین [[محمود شلتوت|شیخ شلتوت]] نے [[سورہ مائدہ]] کی [[آیہ]] نمبر 3 سے استناد کرتے ہوئے استخارہ کی اس قسم کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ایک نا مشروع عمل قرار دیا ہے؛<ref> عباسی‌مقدم، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، ص۳۲۔</ref> لیکن شیعہ مرجمع تقلید [[آیت‌اللہ صافی گلپایگانی]] استسقام اور استخارہ کے درمیان تفاوت قائل ہوتے ہوئے شیخ شلتوت کی بات کو رد کرتے ہیں<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۸-۱۔</ref> اور استخارہ کی [[استحباب]] کو متعدد احادیث سے ثابت کرتے ہیں۔<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۷تا۹۔</ref>
ظہور اسلام سے پہلے استخارہ کی ایک قسم "استقسام بہ ازلام" کے نام سے رایج تھی<ref>ابن‌حبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص۱۹۶۔</ref> جو تیرِ و کمان کے ذریعے انجام دیا جاتا تھا۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۳۰۶۔</ref> بعض علماء من جملہ سنی عالم دین [[محمود شلتوت|شیخ شلتوت]] نے [[سورہ مائدہ]] کی [[آیہ]] نمبر 3 سے استناد کرتے ہوئے استخارہ کی اس قسم کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ایک نا مشروع عمل قرار دیا ہے؛<ref> عباسی‌مقدم، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، ص۳۲۔</ref> لیکن شیعہ مرجمع تقلید [[آیت‌اللہ صافی گلپایگانی]] استسقام اور استخارہ کے درمیان تفاوت قائل ہوتے ہوئے شیخ شلتوت کی بات کو رد کرتے ہیں<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۸-۱۔</ref> اور استخارہ کی [[استحباب]] کو متعدد احادیث سے ثابت کرتے ہیں۔<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۷تا۹۔</ref>


== آداب و شرایط==<!--
== آداب و شرایط==
برای‌ استخارہ، آداب و شرایطی بیان‌ شدہ کہ برخی از آنہا بہ‌شرح زیر است:
استخارہ کے آداب و شرایط بھی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
* مباح‌بودن کاری کہ برای آن استخارہ می‌شود: استخارہ برای رفع تردید در کارہای [[مباح]] است، نہ در کارہای خیر۔<ref>«دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔</ref>
* جس کام کے لئے استخارہ کر رہا ہو اس کا [[مباح‌]] ہونا: استخارہ مباح کاموں میں تردید کو ختم کرنے کے لئے ہے، نہ نیک کاموں کے لئے۔
* استخارہ برای خود: بہ‌گفتہ [[علامہ مجلسی]] حدیثی نیست کہ در آن شخصی بہ‌وکالت از دیگری استخارہ کردہ باشد۔ بنابراین سزاوارتر آن است کہ ہرکس برای خودش استخارہ کند۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۸، ص ۲۸۵۔</ref>البتہ او ہمچنین از [[سید ابن طاووس]] نقل کردہ کہ استخارہ برای دیگری را جایز می‌دانست۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۸، ص ۲۸۵۔</ref>
* استخارہ خود لئے انجام دے: [[علامہ مجلسی]] کے مطابق کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں کسی اور شخص کی وکالت میں استخارہ کرنے کی بات ہوئی ہو۔ اس بنا پر بہتر یہ ہے کہ ہر انسان اپنے لئے خود استخارہ انجام دے۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۸، ص ۲۸۵۔</ref>البتہ علامہ مجلسی [[سید ابن طاووس]] سے نقل کرتے ہیں کہ انسان کسی دوسرے کے لئے بھی استخارہ کر سکتا ہے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۸، ص ۲۸۵۔</ref>
* استخارہ پس از مشورت: یعنی پیش از استخارہ مشورت شود و اگر نتیجہ نداد سراغ استخارہ رفت۔<ref>«دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔</ref>
* استخارہ مشورت کے بعد ہے: یعنی استخارہ سے پہلے مشورت کرنا چاہئے، اگر مشورت کے ذریعے کسی نتیجے تک نہ پہنچ پائے تو پھر استخارہ کرنا چاہئے۔<ref>«دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔</ref>
* مکان استخارہ: از نظر [[شہید اول]] بہتر است کہ استخارہ با دعا در [[مسجد]] و [[حرم|حرم‌ہا]] باشد۔<ref>شہید اول، ذکری‌الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۷۔</ref> در برخی روایات از استخارہ در [[حرم امام حسین(ع)]] سخن آمدہ است۔<ref>شہید اول، ذکری‌الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۷۔ </ref>
* استخارہ کرنے کی جگہ: [[شہید اول]] کے مطابق بہتر یہ ہے کہ استخارہ دعا کے ہمراہ [[مسجد]] اور [[حرم|حرموں]] میں کرنا چاہئے۔<ref>شہید اول، ذکری‌الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۷۔</ref> بعض احادیث میں [[حرم امام حسین]] میں استخارہ کرنے کے بارے میں آیا ہے۔<ref>شہید اول، ذکری‌الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۷۔ </ref>
* زمان: [[فیض کاشانی]] در کتاب تقویم المحسنین برای استخارہ بہ قرآن، در ہر روز ہفتہ ساعاتی را ذکر کردہ است؛‌ اما گفتہ است ساعات مذکور بین اہل‌ایمان شہرت دارد و در احادیث نیامدہ است۔<ref>فیض کاشانی، تقویم‌المحسنین، ۱۳۱۵ق، ص۵۸و۵۹۔</ref> بہ‌گفتہ صاحب‌جواہر، برای نماز استخارہ زمان خاصی وجود ندارد۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق‌، ج۱۲، ص۱۵۵۔</ref> البتہ دربارہ استخارہ بہ قرآن  نقل شدہ کہ وقت نماز انجام شود۔<ref>طوسی‌، تہذیب‌ الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔</ref>
* استخارہ کا وقت: [[فیض کاشانی]] نے کتاب تقویم المحسنین میں قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کے لئے ہر روز مخصوص اوقات ذکر کئے ہیں؛‌ لیکن بعض میں انہوں نے خود اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ اوقات اہل‌ ایمان کے یہاں مشہور ہے کسی حدیث میں نہیں آیا ہے۔<ref>فیض کاشانی، تقویم‌المحسنین، ۱۳۱۵ق، ص۵۸و۵۹۔</ref> صاحب‌ جواہر کے مطابق نماز استخارہ کے لئے کوئی خاص وقت معین نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق‌، ج۱۲، ص۱۵۵۔</ref> البتہ قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کے لئے اوقات نماز میں استخارہ کرنا چاہئے۔<ref>طوسی‌، تہذیب‌ الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔</ref>
* عمل بہ استخارہ: عمل بہ استخارہ الزام شرعی ندارد، اما بہتر است بہ آن عمل شود۔<ref>«دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔</ref>
* استخارہ پر عمل کرنا: استخارہ پر عمل کرنا ضروری نہیں، لیکن بہتر ہے اس پر عمل کیا جائے۔<ref>«دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔</ref>


خواندن دعاہای مخصوص،<ref> کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۳۔</ref> قرائت برخی از سورہ‌ہای قرآن<ref>شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹-۲۷۰۔</ref> و فرستادن صلوات<ref>کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۲۔</ref> نیز از آدابی است کہ پیش از استخارہ سفارش شدہ است۔
مخصوص دعاوں کا پڑھنا،<ref> کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۳۔</ref> قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرنا<ref>شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹-۲۷۰۔</ref> اور صلوات بھیجنا<ref>کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۲۔</ref> نیز استخارہ کے آداب میں ذکر ہوا ہے جنہیں استخارہ سے پہلے انجام دینے کی سفارش ہوئی ہے۔


==استخارہ‌ہای معروف==
==معروف استخارے==<!--
برخی از استخارہ‌ہای معروف عبارت‌اند از:
برخی از استخارہ‌ہای معروف عبارت‌اند از:
* استخارہ‌ہای [[محمدعلی شاہ قاجار]]: او برای امور مختلف از جملہ بہ‌توپ بستن مجلس شورای ملی در سال ۱۲۸۷ش و تبعید برخی از افراد استخارہ می‌کرد۔<ref> توکلی، «ورقی از تاریخ مشروطہ، چند استخارہ از محمدعلی شاہ با جواب‌ہای آنہا»، ص۵۷۔</ref>  
* استخارہ‌ہای [[محمدعلی شاہ قاجار]]: او برای امور مختلف از جملہ بہ‌توپ بستن مجلس شورای ملی در سال ۱۲۸۷ش و تبعید برخی از افراد استخارہ می‌کرد۔<ref> توکلی، «ورقی از تاریخ مشروطہ، چند استخارہ از محمدعلی شاہ با جواب‌ہای آنہا»، ص۵۷۔</ref>  
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم