"حدیث قرب نوافل" کے نسخوں کے درمیان فرق
←عرفا کا نظریہ
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 29: | سطر 29: | ||
==تفسیر حدیث == | ==تفسیر حدیث == | ||
===عرفا کا نظریہ=== | ===عرفا کا نظریہ=== | ||
مسلم عرفا نے اس حدیث کو بعض عرفانی مباحث کے لیے مستند قرار دیا ہے۔<ref>آذرخشی، «جایگاه حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت به آن»، ص۱۸.</ref> [[ابن عربی]] نے اس حدیث کے الفاظ سے ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہوئے اسے وحدت الوجود پر شاہد قرار دیا ہے۔<ref>ابن عربی، الفتوحات | مسلم عرفا نے اس حدیث کو بعض عرفانی مباحث کے لیے مستند قرار دیا ہے۔<ref>آذرخشی، «جایگاه حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت به آن»، ص۱۸.</ref> [[ابن عربی]] نے اس حدیث کے الفاظ سے ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہوئے اسے وحدت الوجود پر شاہد قرار دیا ہے۔<ref>ابن عربی، الفتوحات المکیہ، دارصادر، ج۲، ص۳۲۲-۳۲۳؛ ابن ترکه، شرح فصوص الحکم، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۱۹.</ref>ان کے نظرئے کے مطابق اللہ تعالی مومن کی آنکھ اور کان بنے سے مراد انسان کا اللہ تعالی کی صفات میں فنا ہونا ہے۔<ref>قیصرى، شرح فصوص الحکم، ۱۳۷۵ش، ص۳۵۰ و ۳۵۱.</ref> | ||
سید حیدر آملی نے اسے «فنا فی اللہ» اور محبوب اور حبیب کا ایک ہونے پر شاہد لیا ہے۔<ref>آملی، المقدمات من کتاب نص النصوص، ۱۳۵۲ش، ص۲۶۹</ref> عرفا کی نظر میں [[سیر و سلوک]]، دو مرحلوں یعنی «قرب فرایض» و «قرب نوافل» میں انجام پاتا ہے۔ [[امام خمینی]]، قرب نوافل کو اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں فنا ہونے پر ناظر سمجھتا ہے اور قرب فرائض کو فنا کے بعد والی بقا پر تطبیق دیتا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنها بر مقامات عرفانی»، ص۱۱.</ref> | سید حیدر آملی نے اسے «فنا فی اللہ» اور محبوب اور حبیب کا ایک ہونے پر شاہد لیا ہے۔<ref>آملی، المقدمات من کتاب نص النصوص، ۱۳۵۲ش، ص۲۶۹</ref> عرفا کی نظر میں [[سیر و سلوک]]، دو مرحلوں یعنی «قرب فرایض» و «قرب نوافل» میں انجام پاتا ہے۔ [[امام خمینی]]، قرب نوافل کو اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں فنا ہونے پر ناظر سمجھتا ہے اور قرب فرائض کو فنا کے بعد والی بقا پر تطبیق دیتا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنها بر مقامات عرفانی»، ص۱۱.</ref> | ||
بعض عرفا قرب فرائض کو قرب نوافل سے مرتبے میں اعلی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں قرب فرائض کا نتیجہ [[اللہ]] کی ذات میں فنا ہونا ہے اور قرب نوافل کا نتیجہ صفات الہی میں فنا ہونے کا نام ہے۔ اسی طرح ان کے عقیدے کے مطابق قرب فرائض کے مرحلے میں انسان عروج تک پہنچتا ہے لیکن قرب نوافل کے مرحلے میں اللہ تعالی نزول کرتا ہے۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامه حسن زاده آملی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۴۵ تا ۳۴۸.</ref> | بعض عرفا قرب فرائض کو قرب نوافل سے مرتبے میں اعلی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں قرب فرائض کا نتیجہ [[اللہ]] کی ذات میں فنا ہونا ہے اور قرب نوافل کا نتیجہ صفات الہی میں فنا ہونے کا نام ہے۔ اسی طرح ان کے عقیدے کے مطابق قرب فرائض کے مرحلے میں انسان عروج تک پہنچتا ہے لیکن قرب نوافل کے مرحلے میں اللہ تعالی نزول کرتا ہے۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامه حسن زاده آملی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۴۵ تا ۳۴۸.</ref> | ||
===فقہا اور محدثین کا نظریہ=== | ===فقہا اور محدثین کا نظریہ=== | ||
بعض فقہا اور محدثین کا کہنا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ کنایہ اور مجاز ہیں لہذا ان الفاظ کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ وحدت الوجود، حلول اور فنا کی بات پیش نہ آئے۔<ref>موحدی، «نردبان عروج؛ گذری بر حدیث قرب نوافل»، ص۱۷۴-۱۷۷؛ غزالی، احیاء العلوم، دارالکتاب العربی، ج۱۴، ص۶۱-۶۲.</ref>اسی لئے حدیث کے ان الفاظ کے لئے مختلف وجوہات پیش کئے ہیں؛<ref>مراجعہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۳۱-۳۲؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰-۳۹۳؛ حر عاملی، الفوائد الطوسیه، ۱۴۰۳ق، ص۸۱-۸۲.</ref>من جملہ [[شیخ حر عاملی]] نے مندرجہ ذیل وجوہات ذکر کیا ہے: | بعض فقہا اور محدثین کا کہنا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ کنایہ اور مجاز ہیں لہذا ان الفاظ کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ وحدت الوجود، حلول اور فنا کی بات پیش نہ آئے۔<ref>موحدی، «نردبان عروج؛ گذری بر حدیث قرب نوافل»، ص۱۷۴-۱۷۷؛ غزالی، احیاء العلوم، دارالکتاب العربی، ج۱۴، ص۶۱-۶۲.</ref>اسی لئے حدیث کے ان الفاظ کے لئے مختلف وجوہات پیش کئے ہیں؛<ref>مراجعہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۳۱-۳۲؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰-۳۹۳؛ حر عاملی، الفوائد الطوسیه، ۱۴۰۳ق، ص۸۱-۸۲.</ref>من جملہ [[شیخ حر عاملی]] نے مندرجہ ذیل وجوہات ذکر کیا ہے: |