مندرجات کا رخ کریں

"حضانت" کے نسخوں کے درمیان فرق

119 بائٹ کا اضافہ ،  2 نومبر 2018ء
م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:
==حضانت کی مدت==
==حضانت کی مدت==
جب تک والدین اکھٹے زندگی گزار رہے ہوں اسلامی [[فقہ]] میں بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی سرپرستی ان دونوں کی ذمے ہیں۔<ref>مؤسسہ دایرۃالمعارف اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۳۰۹۔</ref> لیکن ان دونوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کی صورت میں دو سال تک بچوں کی سرپرستی کا حق ان کی ماں کو ہے؛<ref>علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲۔</ref> دو سال کے بعد یہ ذمہ داری کس کی ذمے ہے، [[فقیہ|فقہا]] کے درمیان اختلاف‌ ہے۔ [[صاحب‌ جواہر]] کے مطابق اکثر فقہاء<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۰۔</ref> من جملہ [[محقق حلی]] اور [[علامہ حلی]] کا نظریہ ہے کہ لڑکی کی حضانت سات سال تک والدہ کے ذمہ ہے جبکہ لڑکے کی حضانت دو سال کے بعد ان کے والد کی طرف منتقل ہوتی ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۸۹؛علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲۔</ref>
جب تک والدین اکھٹے زندگی گزار رہے ہوں اسلامی [[فقہ]] میں بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی سرپرستی ان دونوں کی ذمے ہیں۔<ref>مؤسسہ دایرۃالمعارف اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۳۰۹۔</ref> لیکن ان دونوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کی صورت میں دو سال تک بچوں کی سرپرستی کا حق ان کی ماں کو ہے؛<ref>علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲۔</ref> دو سال کے بعد یہ ذمہ داری کس کی ذمے ہے، [[فقیہ|فقہا]] کے درمیان اختلاف‌ ہے۔ [[صاحب‌ جواہر]] کے مطابق اکثر فقہاء<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۰۔</ref> من جملہ [[محقق حلی]] اور [[علامہ حلی]] کا نظریہ ہے کہ لڑکی کی حضانت سات سال تک والدہ کے ذمہ ہے جبکہ لڑکے کی حضانت دو سال کے بعد ان کے والد کی طرف منتقل ہوتی ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۸۹؛علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲۔</ref>
<!--
برخی دیگر از فقیہان چون [[صاحب مدارک|صاحب‌مدارک]] و [[سیدابوالقاسم خوئی]] براین عقیدہ‌اند کہ حضانت کودک چہ دختر باشد و چہ پسر، تا ہفت سالگی بر عہدہ مادر و پس از آن بر عہدہ پدر است۔<ref>عاملی، نہایۃ المرام، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۶۸؛‌ خوئی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۲۸۵۔</ref> قانون مدنی [[جمہوری اسلامی ایران]]، مطابق این دیدگاہ فقہی تدوین شدہ است۔<ref>نگاہ کنید بہ منصور، قانون مدنی، ۱۳۹۱ش، ص۲۰۵۔</ref> بہ گفتہ علامہ حلی، [[شیخ مفید]] حضانت دختر را تا سن نُہ‌سالگی برعہدہ مادر دانستہ است۔<ref>علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲۔</ref>


ہنگامی کہ فرزند بہ سن [[بلوغ]] و رشد عقلی برسد، دختر باشد یا پسر، زمان حق حضانت پدر و مادر بہ پایان می‌رسد و اختیار زندگی‌اش با خود او است۔<ref>علامہ حلی، قواعدالاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۱و۱۰۲؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۳۱۳۔</ref>
بعض دوسرے فقہاء مانند [[صاحب مدارک|صاحب‌ مدارک]] اور [[سیدابوالقاسم خوئی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ بچے کی حضانت چاہے لڑکا ہو یا لڑکی سات سال تک ماں اس کے بعد باپ کے ذمے ہے۔<ref>عاملی، نہایۃ المرام، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۶۸؛‌ خوئی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۲۸۵۔</ref> [[اسلامی جمہوری ایران]] کی مدنی قانون بھی اسی دوسرے نظریے کے تحت تدوین کی گئی ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ منصور، قانون مدنی، ۱۳۹۱ش، ص۲۰۵۔</ref> علامہ حلی کے مطابق [[شیخ مفید]] لڑکی کی حضانت 9 سال تک اس کے ماں کا حق سمجھتے تھے۔<ref>علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲۔</ref>  


===ملاقات کودک===
جب بچے [[بلوغ|بالغ]] ہو جاتے ہیں تو چاہے لڑکا ہو یا لڑکی حضانت کی مدت ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد وہ خود اپنی زندگی کا صاحب اختیار ہے نہ کوئی اور۔<ref>علامہ حلی، قواعدالاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۱و۱۰۲؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۳۱۳۔</ref>
طبق فتوای [[مرجع تقلید|مراجع تقلیدی]] چون [[محمدتقی بہجت فومنی|محمدتقی بہجت]] و [[ناصر مکارم شیرازی]]، ہریک از پدر و مادر کہ سرپرست کودک شود، نمی‌تواند مانع از دیدار دیگری با فرزندش<ref>مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۳۶۲۔</ref>  و کمک‌کردن بہ او شود۔<ref>بہجت، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۳۰ق، ۳۹۳و۳۹۴۔</ref>


==واگذاری حضانت==
===بچوں کی ملاقات===
[[محمدتقی بہجت فومنی| آیت اللہ بہجت]] اور [[آیت اللہ مکارم شیرازی]] وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ والدین میں سے جو بھی بچے کی سرپستی اور حضانت کا ذمہ دار بن جاتا ہے، کو یہ حق نہیں ہے کہ و دوسرے کو جو اس حق سے محروم ہو گیا ہے بچے سے ملاقات<ref>مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۳۶۲۔</ref> اور بچے کی حضانت میں مدد کرنے سے روکے۔<ref>بہجت، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۳۰ق، ۳۹۳و۳۹۴۔</ref>
 
==حق حضانت کی انتقالی==<!--
بسیاری از فقہا ازجملہ [[شہید ثانی]]، [[صاحب‌ریاض]] و [[صاحب‌‌جواہر]] حضانت را از جنس حقوق می‌دانند و می‌گویند قابل واگذاری بہ دیگری است۔<ref>شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ۱۴۱۰ق، ج۵، ۴۶۴؛ طباطبایی، ریاض المسائل، ۱۴۱۸ق، ج۱۲، نجفی، جواہرالکلام، ج۱۴۰۴ق، ص۱۶۲؛ ج۳۱، ص۲۸۳و۲۸۴۔</ref>[[شہید اول]] در کتاب [[القواعد و الفوائد]] نوشتہ است: اگر مادر از حضانت امتناع کرد، حق حضانت بہ پدر واگذار می‌شود؛ اما اگر ہر دو امتناع کردند، پدر ملزَم می‌شود کہ حضانت را برعہدہ بگیرد۔<ref>شہید اول، القواعد و الفوائد، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۳۹۶۔ </ref>
بسیاری از فقہا ازجملہ [[شہید ثانی]]، [[صاحب‌ریاض]] و [[صاحب‌‌جواہر]] حضانت را از جنس حقوق می‌دانند و می‌گویند قابل واگذاری بہ دیگری است۔<ref>شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ۱۴۱۰ق، ج۵، ۴۶۴؛ طباطبایی، ریاض المسائل، ۱۴۱۸ق، ج۱۲، نجفی، جواہرالکلام، ج۱۴۰۴ق، ص۱۶۲؛ ج۳۱، ص۲۸۳و۲۸۴۔</ref>[[شہید اول]] در کتاب [[القواعد و الفوائد]] نوشتہ است: اگر مادر از حضانت امتناع کرد، حق حضانت بہ پدر واگذار می‌شود؛ اما اگر ہر دو امتناع کردند، پدر ملزَم می‌شود کہ حضانت را برعہدہ بگیرد۔<ref>شہید اول، القواعد و الفوائد، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۳۹۶۔ </ref>


confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم