مندرجات کا رخ کریں

"صارف:Hakimi/تختہ مشق" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 79: سطر 79:
انیس کا کلام شاعری کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ ساتھ نہایت سادہ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی تشبیہ اور استعارہ کا استعمال اس قاعدے سے کرتے ہیں کہ گویا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے۔ انیس نے اپنے درونی احساسات کو بھی ایمانداری سے بیان کیا ہے۔ منظر نگاری، لفظوں کا اختصار اور جزئیات پر نظر دیگر محاسن میں شمار ہوتی ہیں۔ انیس حد الامکان غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں۔<ref> ریحانہ خاتون، میر انیس کے کلام کے شعری محاسن، انیس و دبیر حیات و خدمات:ص 343 تا 356۔</ref>
انیس کا کلام شاعری کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ ساتھ نہایت سادہ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی تشبیہ اور استعارہ کا استعمال اس قاعدے سے کرتے ہیں کہ گویا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے۔ انیس نے اپنے درونی احساسات کو بھی ایمانداری سے بیان کیا ہے۔ منظر نگاری، لفظوں کا اختصار اور جزئیات پر نظر دیگر محاسن میں شمار ہوتی ہیں۔ انیس حد الامکان غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں۔<ref> ریحانہ خاتون، میر انیس کے کلام کے شعری محاسن، انیس و دبیر حیات و خدمات:ص 343 تا 356۔</ref>
==انیس اور دبیر==
==انیس اور دبیر==
میر انیس اور مرزا دبیر ہم عصر مرثیہ نگار تھے۔ میر انیس کے استاد میرخلیق اور دبیر کے استاد میر ضمیر تھے۔ انیس اور دبیر دونوں نے مرثیہ کی طرف توجہ دی اور اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔البتہ دونوں کے خاص عقیدتمند تھے اسی سبب بعض نے ان دونوں مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے<ref>حالی اور شبلی نعمانی کا موازنہ مشہور ہیں: ملاحظہ کریں: مجلہ پیام رافت، شمارہ 4 و 5۔</ref> اور ہر کسی نے اپنے مورد پسند مرثیہ نگار کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے: ذیل میں کچھ  
میر انیس اور مرزا دبیر ہم عصر مرثیہ نگار تھے۔ میر انیس کے استاد میرخلیق اور دبیر کے استاد میر ضمیر تھے۔ انیس اور دبیر دونوں نے مرثیہ کی طرف توجہ دی اور اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔البتہ دونوں کے خاص عقیدتمند تھے اسی سبب بعض نے ان دونوں مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے<ref>حالی اور شبلی نعمانی کا موازنہ مشہور ہیں: ملاحظہ کریں: مجلہ پیام رافت، شمارہ 4 و 5۔</ref> اور ہر کسی نے اپنے مورد پسند مرثیہ نگار کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں کچھ اشعار دونوں شاعروں کے پیش کرتے ہیں:


ان دونوں کے درمیان حالی اور شبلی نعمانی نے موازنہ پیش کیا ہے۔
حالی اور شبلی نعمانی دونوں نے میرانیس کو دبیر سے زیادہ بہتر مرثیہ نگار سمجھا ہے، اگرچہ بعض لوگ اس موازنہ کو درست نہیں سمجھتے ہیں
ربط و تسلسل، مضمون کی پیوستگی اور سلیس اور سادہ محاورہ، فصاحت و بلاغت میرانیس کے کلام کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ ذیل میں کچھ مناظر دونوں مرثیہ نگار کے پیش کرتے ہیں اور فیصلہ آپ قارئین پر چھوڑتے ہیں:


دبیر:  
دبیر:  
سطر 91: سطر 86:
ٹھنڈے چراغ کردئیے کافور صبح نے
ٹھنڈے چراغ کردئیے کافور صبح نے


انیس:     چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور
انیس:
چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور
یاد خدا میں زمزمہ پروازی طیور
یاد خدا میں زمزمہ پروازی طیور


دبیر: دریا میں آنکھ بیٹھ گئی ہے حباب کی
دبیر:
دریا میں آنکھ بیٹھ گئی ہے حباب کی
حدت تھی موج موج میں تیرِ شہاب کی
حدت تھی موج موج میں تیرِ شہاب کی


انیس:     خود نہر عقلمہ کے سوکھے ہوئے تھے لب
انیس:
خود نہر عقلمہ کے سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب


سطر 114: سطر 112:
کونین  میں  ملا  شرف  انما کسے
کونین  میں  ملا  شرف  انما کسے
کہتی ہے  خلق،  بادشہ قل کفی کسے
کہتی ہے  خلق،  بادشہ قل کفی کسے
ایک اور موازنہ الفاظ کی ترکیب، نشست اور بندش میں ہے
دبیر:
اے دبدبہ نظم دو عالم کو ہلا دے
اے طنطنہ طبع جزو کل کو ملا دے
اے معجزہ فکر فصاحت کو جلا دے
اے زمزمہ نطق بلاغت کا صلہ دے
انیس:
بیٹے بھی نہیں گود کا پالا بھی نہیں ہے
ان کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے
تشبیہات اور استعارات ایک اور موازنہ ہے
تشبیہات اور استعارات ایک اور موازنہ ہے


مرزا دبیر کے یہاں تشبیہات و استعارات کا بھی خاص جوہر ہے۔مرزا دبیر اپنی دقت آفرینی سے ایسے عجیب و غریب اور نادر تشبیہات و استعارات پیدا کرتے ہیں کہ کوئی اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔ لیکن وہ اکثر اس قدر بلند اڑتے ہیں کہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں میرانیس کے تشبیہات و استعارات کلام کو حسین بنا دیتے ہیں۔ اور اس میں معنی کی لچک بھی پیدا کرتے ہیں۔
مرزا دبیر کے یہاں تشبیہات و استعارات کا بھی خاص جوہر ہے۔ مرزا دبیر اپنی دقت آفرینی سے ایسے عجیب و غریب اور نادر تشبیہات و استعارات پیدا کرتے ہیں کہ کوئی اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔ لیکن وہ اکثر اس قدر بلند اڑتے ہیں کہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں میرانیس کے تشبیہات و استعارات کلام کو حسین بنا دیتے ہیں۔ اور اس میں معنی کی لچک بھی پیدا کرتے ہیں۔


دبیر:۔      شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف تا قاف
دبیر:
شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف تا قاف
پریاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا قاف
پریاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا قاف


انیس:         وہ گورے گورے جسم قبائیں و ہ تنگ تنگ
انیس:
وہ گورے گورے جسم قبائیں و ہ تنگ تنگ
زیور کی طرح  جسم  پہ  زیبا سلاخ جنگ
زیور کی طرح  جسم  پہ  زیبا سلاخ جنگ


دو شاعروں کے مابین خیال آفرینی، استعارات، تشبیہات، شاعرانہ استدلال اور تعقید و اغراق بعض دوسرے معیار ہیں جن سے شعر کی عظمت کو پرکھا جاسکتا ہے:
دو شاعروں کے مابین خیال آفرینی، استعارات، تشبیہات، شاعرانہ استدلال اور تعقید و اغراق بعض دوسرے معیار ہیں جن سے شعر کی عظمت کو پرکھا جاسکتا ہے:


دبیر :       جب  سرنگوں  ہوا  علم کہکشانِ شب
دبیر :
جب  سرنگوں  ہوا  علم کہکشانِ شب
خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان ِشب
خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان ِشب
تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب
تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب
سطر 145: سطر 134:
شب نے زرہ ستاروں کی رکھدی اتار کے
شب نے زرہ ستاروں کی رکھدی اتار کے


انیس:       خورشید  چھپا  گرد  اڑی  زلزلہ  آیا
انیس:
خورشید  چھپا  گرد  اڑی  زلزلہ  آیا
اک  ابر  سیاہ  دشت پر آشوب  میں چھایا
اک  ابر  سیاہ  دشت پر آشوب  میں چھایا
پھیلی  تھی  جہاں  دھوپ وہاں ہو گیا سایہ
پھیلی  تھی  جہاں  دھوپ وہاں ہو گیا سایہ
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,957

ترامیم