"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (عصمت سے رجوع مکرر ہٹایا) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 5: | سطر 5: | ||
انبیاء کی عصمت کے مخالفین بھی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہیں جو تمام انبیاء کی عصمت یا کم از کم بعض انبیاء کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات [[متشابہ]] آیات ہیں جن کی [[تأویل]] و [[تفسیر]] کے لئے ان کو [[محکمات]] کی طرف ارجاع دینا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ آیات جو انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار ہیں ان کو [[ترک اولی]] پر حمل کیا جاتا ہے جو گناہ اور خطا کی متعارف معانی سے متفاوت معانی پر دلالت کرتا ہے۔ | انبیاء کی عصمت کے مخالفین بھی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہیں جو تمام انبیاء کی عصمت یا کم از کم بعض انبیاء کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات [[متشابہ]] آیات ہیں جن کی [[تأویل]] و [[تفسیر]] کے لئے ان کو [[محکمات]] کی طرف ارجاع دینا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ آیات جو انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار ہیں ان کو [[ترک اولی]] پر حمل کیا جاتا ہے جو گناہ اور خطا کی متعارف معانی سے متفاوت معانی پر دلالت کرتا ہے۔ | ||
<!-- | <!-- | ||
مفہومشناسی | == مفہومشناسی == | ||
عصمت انبیاء سے مراد انبیاء کا ہر قسم کی گناہ اور بدی [1] نیز وحی کے دریافت اور ابلاغ میں ان کا خطا سے منزہ ہونا ہے۔[2] عصمت انبیاء کی اندرونی صفت ہے جس کے باعث وہ نیک اعمال کو برے اعمال سے واضح اور آشکار طور پر تشخیص دے سکتے ہیں۔[3] | عصمت انبیاء سے مراد انبیاء کا ہر قسم کی گناہ اور بدی [1] نیز وحی کے دریافت اور ابلاغ میں ان کا خطا سے منزہ ہونا ہے۔[2] عصمت انبیاء کی اندرونی صفت ہے جس کے باعث وہ نیک اعمال کو برے اعمال سے واضح اور آشکار طور پر تشخیص دے سکتے ہیں۔[3] | ||
اسلامی تعلیمات میں انبیاء کی عصمت کو مختلف کلمات کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے جن میں تنزیہ انبیاء،[نوٹ 1] توفیق، صدق اور امانت وغیرہ شامل ہیں۔[4] | اسلامی تعلیمات میں انبیاء کی عصمت کو مختلف کلمات کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے جن میں تنزیہ انبیاء،[نوٹ 1] توفیق، صدق اور امانت وغیرہ شامل ہیں۔[4] | ||
اہمیت | == اہمیت == | ||
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کے معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛[5] اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ [6] | وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کے معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛[5] اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ [6] | ||
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اول نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔[7] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔[8] ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح علم کلام کے دوسرے بہت سارے اصطلاحات کی طرح علم کلام کی پیدائش کے بعد اور امام صادقؑ کی امامت کے دوران وجود میں آیا ہے۔[9] | بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اول نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔[7] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔[8] ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح علم کلام کے دوسرے بہت سارے اصطلاحات کی طرح علم کلام کی پیدائش کے بعد اور امام صادقؑ کی امامت کے دوران وجود میں آیا ہے۔[9] | ||
قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛[10] لیکن مفسرین قرآن کی بعض آیات کی تفسیر میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں سورہ بقرہ کی آیت نمیر 36،[11] سورہ اعراف کی آیت نمیر 32 اور سورہ طہ کی آیت نمیر 121 جو حضرت آدم و حوا کی داستان اور ان کا شیطان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور سورہ نجم کی آیت نمبر 3 سے 5 جو پیغمبر اسلامؐ کا وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔[12] | قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛[10] لیکن مفسرین قرآن کی بعض آیات کی تفسیر میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں سورہ بقرہ کی آیت نمیر 36،[11] سورہ اعراف کی آیت نمیر 32 اور سورہ طہ کی آیت نمیر 121 جو حضرت آدم و حوا کی داستان اور ان کا شیطان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور سورہ نجم کی آیت نمبر 3 سے 5 جو پیغمبر اسلامؐ کا وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔[12] | ||
منشأ | == منشأ == | ||
عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: شیخ مفید اور سیدِ مرتَضی عصمت انبیاء کو ان کے حق میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[13] سیدِ مرتضی ایک اور قول میں شیخ طوسی اور ابنمیثم بَحرانی کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد ¬نہیں ہوتا ہے۔[14] علامہ طباطبایی طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ علم قابل تعلیم نہیں ہی بلکہ خدا کی عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔[15] ملاصدرا بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلا جاتا ہے۔[16] | عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: شیخ مفید اور سیدِ مرتَضی عصمت انبیاء کو ان کے حق میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[13] سیدِ مرتضی ایک اور قول میں شیخ طوسی اور ابنمیثم بَحرانی کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد ¬نہیں ہوتا ہے۔[14] علامہ طباطبایی طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ علم قابل تعلیم نہیں ہی بلکہ خدا کی عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔[15] ملاصدرا بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلا جاتا ہے۔[16] | ||
دائرہ | == دائرہ == | ||
عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، گناہ کبیرہ و صغیرہ نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نبوت پر فائل ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔[17] اسی طرح شیعہ اور سنی متکلمین اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ انبیاء وحی کے دریافت، حفظ اور ابلاغ میں عمدا،[18] اور سہوا کسی گناہ یا خطا[19] سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے معتزلی رہنما قاضی عبدالجبار تبلیغ رسالت میں کذب سہوی کو جائز قرار دیتے ہیں۔[20] | عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، گناہ کبیرہ و صغیرہ نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نبوت پر فائل ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔[17] اسی طرح شیعہ اور سنی متکلمین اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ انبیاء وحی کے دریافت، حفظ اور ابلاغ میں عمدا،[18] اور سہوا کسی گناہ یا خطا[19] سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے معتزلی رہنما قاضی عبدالجبار تبلیغ رسالت میں کذب سہوی کو جائز قرار دیتے ہیں۔[20] | ||
عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق نظر رکھتے؛[21] یعنی ان کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔[22] اس بارے میں صرف شیخ مفید سہوا گناہ صغیرہ کی انجام دہی کو انبیاء کے لئے بعثت سے پہلے ممکن قرار دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ یہ گناہ بھی نفس کی پستی کی وجہ سے سرزد نہ ہوا ہو۔[23] | عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق نظر رکھتے؛[21] یعنی ان کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔[22] اس بارے میں صرف شیخ مفید سہوا گناہ صغیرہ کی انجام دہی کو انبیاء کے لئے بعثت سے پہلے ممکن قرار دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ یہ گناہ بھی نفس کی پستی کی وجہ سے سرزد نہ ہوا ہو۔[23] | ||
چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛[24] لیکن ان میں سے بعض جیسے کلینی اور شیخ صدوق اس نظریے کے مخالف ہیں۔ کلینی اس بات کے معتقد ہیں کہ روزمرہ امور میں انبیاء کا چھوٹی چھوٹی خطاوں سے بھی معصوم ہونا جن کے سرزد ہونے جس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچتا، نہ اس حوالے سے کوئی عقلی دلیل ہے، بلکہ بعض احادیث بھی موجود ہیں کہ جو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ اس طرح کے خطائیں انبیاء سے سرزد ہوئی ہیں۔[25] شیخ صدوق ہم با استناد بہ روایت ذوالشمالین[26] سہو النبی را پذیرفتہ و اعتقاد بہ عصمت انبیاء کو خطا اور اشتباہ سے بھی معصوم سمجھنے کو غلو اور تفویض سمجھتے ہیں۔[27] | چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛[24] لیکن ان میں سے بعض جیسے کلینی اور شیخ صدوق اس نظریے کے مخالف ہیں۔ کلینی اس بات کے معتقد ہیں کہ روزمرہ امور میں انبیاء کا چھوٹی چھوٹی خطاوں سے بھی معصوم ہونا جن کے سرزد ہونے جس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچتا، نہ اس حوالے سے کوئی عقلی دلیل ہے، بلکہ بعض احادیث بھی موجود ہیں کہ جو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ اس طرح کے خطائیں انبیاء سے سرزد ہوئی ہیں۔[25] شیخ صدوق ہم با استناد بہ روایت ذوالشمالین[26] سہو النبی را پذیرفتہ و اعتقاد بہ عصمت انبیاء کو خطا اور اشتباہ سے بھی معصوم سمجھنے کو غلو اور تفویض سمجھتے ہیں۔[27] | ||
علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں وه عصمت کے موضوع سے خارج ہیں۔ آپ کے مطابق پیغمبر اسلامؐ خدا کے خاص لطف و کرم کی بنا پر، کے علاوہ دوسرے انبیاء سے روزمرہ امور میں خطا اور اشتباہ کے مرتکب ہونے میں قرآن کی بعض آیات دلالت کرتی ہیں مثلا: حضرت آدم کا اپنے عہد و پیمان کو فراموش کرنا، حضرت نوح کا اپنے گناہگار بیٹے کو طوفان نجات دینے کی درخواست کرنا، حضرت یونس کا عصے کی حالت میں اپنی قوم سے باہر جانا اور حضرت موسی کا بنیاسرائیل کی گوسالہ پرستی سے متعلق حضرت ہارون کے بارے میں بےجا قضاوت۔[28] | علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں وه عصمت کے موضوع سے خارج ہیں۔ آپ کے مطابق پیغمبر اسلامؐ خدا کے خاص لطف و کرم کی بنا پر، کے علاوہ دوسرے انبیاء سے روزمرہ امور میں خطا اور اشتباہ کے مرتکب ہونے میں قرآن کی بعض آیات دلالت کرتی ہیں مثلا: حضرت آدم کا اپنے عہد و پیمان کو فراموش کرنا، حضرت نوح کا اپنے گناہگار بیٹے کو طوفان نجات دینے کی درخواست کرنا، حضرت یونس کا عصے کی حالت میں اپنی قوم سے باہر جانا اور حضرت موسی کا بنیاسرائیل کی گوسالہ پرستی سے متعلق حضرت ہارون کے بارے میں بےجا قضاوت۔[28] | ||
== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار == | |||
ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔[29] دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[30] | ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔[29] دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[30] | ||
من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ ص کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناهم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح آیت تطہیر (سورہ احزاب کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ کیا ہے۔[31] | من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ ص کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناهم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح آیت تطہیر (سورہ احزاب کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ کیا ہے۔[31] | ||
اس نظریے کے مقابلے میں علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے ابیناء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔[32] | اس نظریے کے مقابلے میں علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے ابیناء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔[32] | ||
آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسانی کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل جمع ہے۔[33] | آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسانی کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل جمع ہے۔[33] | ||
دلائل | == دلائل == | ||
انبیاء کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں: | انبیاء کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں: | ||
عقلی دلائل | === عقلی دلائل === | ||
عصمت ا¬نبیاء پر سب سے اہم عقلی دلیل انبیاء پر لوگوں کے اعتماد کی بحالی ہے۔[34] اسی بنا پر اس دلیل کو "دلیل اعتماد" کا نام دیا گیا ہے،[35] اگر انبیاء کا کردار ان کے گفتار کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو لوگ ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے۔[36] | عصمت ا¬نبیاء پر سب سے اہم عقلی دلیل انبیاء پر لوگوں کے اعتماد کی بحالی ہے۔[34] اسی بنا پر اس دلیل کو "دلیل اعتماد" کا نام دیا گیا ہے،[35] اگر انبیاء کا کردار ان کے گفتار کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو لوگ ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے۔[36] | ||
اس سلسلے کی دیگر عقلی دلائل میں سے ایک رسالت کے اہداف کا پایمال ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ انبیاء کی اطاعت واجب ہے، اس صورت میں اگر انبیاء گناہ کے مرتکب ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان گناہ میں بھی ان کی پیروی واجب ہے یا نہیں؟ اگر اس میں بھی ان کی پیروی کرنے کو واجب قرار دیں تو ان کے بھیجنے کا مقصد ختم ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ان کہا جائے کہ ان کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ ایک قسم سے ان کی تحقیر شمار ہو گی۔[37] | اس سلسلے کی دیگر عقلی دلائل میں سے ایک رسالت کے اہداف کا پایمال ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ انبیاء کی اطاعت واجب ہے، اس صورت میں اگر انبیاء گناہ کے مرتکب ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان گناہ میں بھی ان کی پیروی واجب ہے یا نہیں؟ اگر اس میں بھی ان کی پیروی کرنے کو واجب قرار دیں تو ان کے بھیجنے کا مقصد ختم ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ان کہا جائے کہ ان کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ ایک قسم سے ان کی تحقیر شمار ہو گی۔[37] | ||
نقلی دلائل | === نقلی دلائل === | ||
نقلی دلائل میں قرآن کی آیات اور احادیث شامل ہیں۔ مفسرین کے مطابق قرآن کی بعض آیات انبیاء کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ طباطبایی سورہ نساء کی آیت نمیر 64، 69 اور 165، سورہ انعام کی آیت نمیر 90 اور سورہ کہف کی آیت نمبر 17 کو من جملہ ان آیات میں سے قرار دیتے ہیں۔[38] | نقلی دلائل میں قرآن کی آیات اور احادیث شامل ہیں۔ مفسرین کے مطابق قرآن کی بعض آیات انبیاء کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ طباطبایی سورہ نساء کی آیت نمیر 64، 69 اور 165، سورہ انعام کی آیت نمیر 90 اور سورہ کہف کی آیت نمبر 17 کو من جملہ ان آیات میں سے قرار دیتے ہیں۔[38] | ||
سورہ کہف کی آیت نمیر 17 میں آیا ہے کہ: "جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے"۔ علامہ طباطبایی کے مطابق یہ آیت ہدایت یافتہ گان سے ہر قسم کی گمراہی کو نفی کرتی ہے اور چونکہ ہر گناہ ایک قسم کی گمراہی ہے، پس انبیاء کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔[39] | سورہ کہف کی آیت نمیر 17 میں آیا ہے کہ: "جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے"۔ علامہ طباطبایی کے مطابق یہ آیت ہدایت یافتہ گان سے ہر قسم کی گمراہی کو نفی کرتی ہے اور چونکہ ہر گناہ ایک قسم کی گمراہی ہے، پس انبیاء کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔[39] | ||
متعدد احادیث میں عصمت کو انبیاء کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔[40] من جملہ ان احادیث میں سے ایک میں آیا ہے کہ امام باقرؑ نے فرمایا: "انبیاء گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؛ کیونکہ انبیاء سب کے سب معصوم اور پاک ہیں اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔"[41] | متعدد احادیث میں عصمت کو انبیاء کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔[40] من جملہ ان احادیث میں سے ایک میں آیا ہے کہ امام باقرؑ نے فرمایا: "انبیاء گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؛ کیونکہ انبیاء سب کے سب معصوم اور پاک ہیں اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔"[41] | ||
اعتراضات اور ان کا جواب | == اعتراضات اور ان کا جواب == | ||
عصمت انبیاء کے مخالفین بعض آیات سے تمسک کرتے ہوئے انبیاء کی عصمت کے منکر ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض دوسری آیات سے استناد کرتے ہوئے بعض انبیاء کی عصمت پر اعتراضات بھی کئے گئے ہیں؛ من جملہ ان میں حضرت آدم،[42] حضرت نوح،[43] حضرت ابراہیم،[44] حضرت موسی،[45] حضرت یوسف،[46] حضرت یونس،[47] اور پیغمبر اسلامؐ۔[48] شامل ہیں۔ | عصمت انبیاء کے مخالفین بعض آیات سے تمسک کرتے ہوئے انبیاء کی عصمت کے منکر ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض دوسری آیات سے استناد کرتے ہوئے بعض انبیاء کی عصمت پر اعتراضات بھی کئے گئے ہیں؛ من جملہ ان میں حضرت آدم،[42] حضرت نوح،[43] حضرت ابراہیم،[44] حضرت موسی،[45] حضرت یوسف،[46] حضرت یونس،[47] اور پیغمبر اسلامؐ۔[48] شامل ہیں۔ | ||
آیتاللہ سبحانی عصمت انبیاء کے منکرین کی جانب سے اس موضوع پر کئے جانے والے سب سے اہم اعتراضات کا سرچشمہ انہی آیات کو قرار دیتے ہیں۔[49] احمد امین مصری انہی آیات سے استناد کرتے ہوئے[50] نبوت سے پہلے اور بعد میں انبیاء کو گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم قرار دینے کو غلو اور قرآن کی صریح آیات کے منافی قرار دیتے ہیں۔[51] | آیتاللہ سبحانی عصمت انبیاء کے منکرین کی جانب سے اس موضوع پر کئے جانے والے سب سے اہم اعتراضات کا سرچشمہ انہی آیات کو قرار دیتے ہیں۔[49] احمد امین مصری انہی آیات سے استناد کرتے ہوئے[50] نبوت سے پہلے اور بعد میں انبیاء کو گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم قرار دینے کو غلو اور قرآن کی صریح آیات کے منافی قرار دیتے ہیں۔[51] | ||
اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں: | اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں: | ||
وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی | === وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی === | ||
سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی...۔) [52] کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں وعدہ الہی کی نسبت انبیاء کی ناامیدی اور بدگمانی (وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا) کے بارے میں بحث ہوئی ہے یہ چیز انیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا تھا کہ خدا نے ان کی مدد اور نصرت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔[53] | سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی...۔) [52] کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں وعدہ الہی کی نسبت انبیاء کی ناامیدی اور بدگمانی (وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا) کے بارے میں بحث ہوئی ہے یہ چیز انیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا تھا کہ خدا نے ان کی مدد اور نصرت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔[53] | ||
علامہ طباطبایی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔[54] [نوٹ 2] | علامہ طباطبایی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔[54] [نوٹ 2] | ||
انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا | === انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا === | ||
سورہ حج کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔[56] | سورہ حج کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔[56] | ||
اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ لینا قرآن کی دوسری آیات کے منافی ہیں، جیسے سورہ حجر کی آیت نمبر 42، سورہ اسراء کی آیت نمبر 45 اور سورہ ص کی آیت نمبر 82 اور 83۔ ان آیات کے مطابق شیطان خدا کے خاص بندوں کے ارادوں میں کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں کرتا ہے اور خدا کے خالص بندوں میں انبیاء سر فہرست ہیں۔[57] بعض کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں شیطان کی مداخلت سے مراد لوگوں کو انبیاء کی مخالفت پر وادار کرنے کے لئے کئے جانے والا وسوسہ ہے۔[58] | اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ لینا قرآن کی دوسری آیات کے منافی ہیں، جیسے سورہ حجر کی آیت نمبر 42، سورہ اسراء کی آیت نمبر 45 اور سورہ ص کی آیت نمبر 82 اور 83۔ ان آیات کے مطابق شیطان خدا کے خاص بندوں کے ارادوں میں کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں کرتا ہے اور خدا کے خالص بندوں میں انبیاء سر فہرست ہیں۔[57] بعض کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں شیطان کی مداخلت سے مراد لوگوں کو انبیاء کی مخالفت پر وادار کرنے کے لئے کئے جانے والا وسوسہ ہے۔[58] | ||
انبیاء کا گناہگار ہونا | === انبیاء کا گناہگار ہونا === | ||
سورہ نحل کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ظلم کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔[59] | سورہ نحل کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ظلم کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔[59] | ||
فخررازی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ سورہ فاطر کی آیت نمبر 32 اور اس طرح کے دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگ ظالم نہیں ہیں۔ پس مذکورہ آیت میں "الناس" سے مراد یا وہ تمام افراد مراد ہیں جو عذاب کے مستحق ہیں یااس سے مراد مشرکین ہیں جن کا ذکر مذکورہ آیت سے پہلی والی آیت میں آیا ہے۔[60] علامہ طباطبایی کے مطابق ظلم سے مراد اس آیت میں عام ہے جس میں معصیت اور ترک اولی دونوں شامل ہیں اور انبیاء سے ترک اولیٰ کا صادر ہونا ممکن ہے۔[61] | فخررازی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ سورہ فاطر کی آیت نمبر 32 اور اس طرح کے دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگ ظالم نہیں ہیں۔ پس مذکورہ آیت میں "الناس" سے مراد یا وہ تمام افراد مراد ہیں جو عذاب کے مستحق ہیں یااس سے مراد مشرکین ہیں جن کا ذکر مذکورہ آیت سے پہلی والی آیت میں آیا ہے۔[60] علامہ طباطبایی کے مطابق ظلم سے مراد اس آیت میں عام ہے جس میں معصیت اور ترک اولی دونوں شامل ہیں اور انبیاء سے ترک اولیٰ کا صادر ہونا ممکن ہے۔[61] | ||
عمومی جوابات | === عمومی جوابات === | ||
عصمت انبیاء پر کئے گئے اعتراضات کا عمومی جوابات بھی دئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | عصمت انبیاء پر کئے گئے اعتراضات کا عمومی جوابات بھی دئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | ||
• جن آیات سے عصمت انبیاء کو استخراج کیا جاتا ہے وہ محکمات میں سے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں جن آیات سے انبیاء کا معصوم نہ ہونا استخراج کیا جاتا ہے وہ متشابہات میں سے ہیں۔ پس متشابہات کی تفسیر کے لئے ان کو محکمات کی طرف ارجاع دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔[62] | • جن آیات سے عصمت انبیاء کو استخراج کیا جاتا ہے وہ محکمات میں سے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں جن آیات سے انبیاء کا معصوم نہ ہونا استخراج کیا جاتا ہے وہ متشابہات میں سے ہیں۔ پس متشابہات کی تفسیر کے لئے ان کو محکمات کی طرف ارجاع دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔[62] | ||
• اگر کسی یقینی دلیل کے خلاف کوئی اور دلائل قائم ہوں تو یا ان کو ترک کیا جاتا ہے یا ان کی تأویل کی جاتی ہے۔ اور چونکہ انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار آیات یقینی دلائل کے مقابلے میں ہیں لہذا ان کی تأویل کرنا ضروری ہے۔[63] | • اگر کسی یقینی دلیل کے خلاف کوئی اور دلائل قائم ہوں تو یا ان کو ترک کیا جاتا ہے یا ان کی تأویل کی جاتی ہے۔ اور چونکہ انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار آیات یقینی دلائل کے مقابلے میں ہیں لہذا ان کی تأویل کرنا ضروری ہے۔[63] | ||
• اگر ترک اولی کو انبیاء کے حق میں جائز قرار دیں، تو انبیاء کی عصمت سے متصادم تمام آیات کو ترک اولی پر حمل کی جا سکتی ہے؛ لیکن اگر ترک اولی کو انبیاء کے حق میں جائز قرار نہ دیں، تو ضرور یہ کہنا پڑے گا کہ ان مسائل میں حتما کوئی مصلحت تھی جنہیں ہم درک کرنے سے قاصر ہیں؛ جیسے حضرت موسی اور حضرت خضر کی داستان وغیرہ۔[64] | • اگر ترک اولی کو انبیاء کے حق میں جائز قرار دیں، تو انبیاء کی عصمت سے متصادم تمام آیات کو ترک اولی پر حمل کی جا سکتی ہے؛ لیکن اگر ترک اولی کو انبیاء کے حق میں جائز قرار نہ دیں، تو ضرور یہ کہنا پڑے گا کہ ان مسائل میں حتما کوئی مصلحت تھی جنہیں ہم درک کرنے سے قاصر ہیں؛ جیسے حضرت موسی اور حضرت خضر کی داستان وغیرہ۔[64] | ||
کتابیات | == کتابیات == | ||
عصمت انبیاء کے بارے میں اکثر کلامی کتابوں میں بحث ہوئی ہیں۔[65] ان کے علاوہ بعض کتابیں مستقل طور پر اس بارے میں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں: | عصمت انبیاء کے بارے میں اکثر کلامی کتابوں میں بحث ہوئی ہیں۔[65] ان کے علاوہ بعض کتابیں مستقل طور پر اس بارے میں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں: | ||
• تنزیہالانبیاء۔ اس کتاب میں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم سیدِ مرتضَی(۳۵۵-۴۳۶ق) نے انبیاء اور ائمہؑ کی عصمت کو زیر بحث لایا ہے اور اس سلسلے میں موجود اعتراضات نیز ان آیات اور احادیث کا جواب دیا ہے جو ظاہرا انبیاء کی عصمت کے منافی ہیں۔[66] یہ کتاب "تنزیہ الانبیاء: پژوہشی قرآنی دربارہ عصمت پیامران و امامان(ع)" کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ | • تنزیہالانبیاء۔ اس کتاب میں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم سیدِ مرتضَی(۳۵۵-۴۳۶ق) نے انبیاء اور ائمہؑ کی عصمت کو زیر بحث لایا ہے اور اس سلسلے میں موجود اعتراضات نیز ان آیات اور احادیث کا جواب دیا ہے جو ظاہرا انبیاء کی عصمت کے منافی ہیں۔[66] یہ کتاب "تنزیہ الانبیاء: پژوہشی قرآنی دربارہ عصمت پیامران و امامان(ع)" کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ | ||
سطر 65: | سطر 65: | ||
• مراجعاتٌ فی عصمۃ الانبیاء مِن منظور القرآنی، تحریر عبدالسلام زین العابدین | • مراجعاتٌ فی عصمۃ الانبیاء مِن منظور القرآنی، تحریر عبدالسلام زین العابدین | ||
• نور عصمت بر سیمای نبوت؛ پاسخ بہ شبہات قرآنی عصمت، تحریر جعفر انواری۔ | • نور عصمت بر سیمای نبوت؛ پاسخ بہ شبہات قرآنی عصمت، تحریر جعفر انواری۔ | ||
حوالہ جات | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات2}} | |||
== مآخذ == | |||
{{مآخذ}} | |||
مآخذ | |||
• ابنخمیر، علی بن احمد، تنزیہ الانبیاء عن ما نسب حثالۃ الاغنیاء، دمشق، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۲۰ق۔ | • ابنخمیر، علی بن احمد، تنزیہ الانبیاء عن ما نسب حثالۃ الاغنیاء، دمشق، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۲۰ق۔ | ||
• احمد امین، ضحیالاسلام، قاہرہ، مکتبۃالاسرہ، ۲۰۰۳م۔ | • احمد امین، ضحیالاسلام، قاہرہ، مکتبۃالاسرہ، ۲۰۰۳م۔ | ||
سطر 184: | سطر 111: | ||
• نقیپورفر، ولیاللہ، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، تہران، اسوہ، ۱۳۸۱ش۔ | • نقیپورفر، ولیاللہ، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، تہران، اسوہ، ۱۳۸۱ش۔ | ||
• یوسفیان، حسن و احمدحسین شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان علیہم السلام، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۸ش۔ | • یوسفیان، حسن و احمدحسین شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان علیہم السلام، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۸ش۔ | ||
{{خاتمہ}} |