مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن امام علی نقیؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
سطر 39: سطر 39:


==مقام و منزلت==
==مقام و منزلت==
شیعہ محقق [[باقر شریف قرشی]](متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔<ref>قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> اسی بنا پر بعض [[شیعہ]] حضرات کا خیال تھا ک [[امام ہادیؑ]] کے بعد [[امامت]] کا منصب سید محمد کو ملے گا۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۱؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی [[امام حسن عسکریؑ]] کے ساتھ ہوا کرتے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص۲۱۔</ref> اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔<ref> قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> [[شیخ عباس قمی]] کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں [[حضرت موسی]] کا اپنے بھائی [[حضرت ہارون]] کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔<ref> قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۱۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۵۔</ref>
شیعہ محقق [[باقر شریف قرشی]](متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔<ref>قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> اسی بنا پر بعض [[شیعہ]] حضرات کا خیال تھا ک [[امام ہادیؑ]] کے بعد [[امامت]] کا منصب سید محمد کو ملے گا۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۱؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی [[امام حسن عسکریؑ]] کے ساتھ ہوا کرتے تھے<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص۲۱۔</ref> اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔<ref> قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> [[شیخ عباس قمی]] کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں [[حضرت موسی]] کا اپنے بھائی [[حضرت ہارون]] کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔<ref> قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۱۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۵۔</ref>


تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌طالب]]، [[بنی‌ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔</ref>
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌ طالب]]، [[بنی‌ ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔</ref>


شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>
[[شیعہ]] [[محدث]] میرزا حسین نوری (متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمد علی اردوبادی (1312-1380ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>


== روضہ==
== روضہ==
گمنام صارف