مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن امام علی نقیؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  1 اگست 2020ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 43: سطر 43:
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌طالب]]، [[بنی‌ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔</ref>
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌طالب]]، [[بنی‌ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔</ref>


شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یهاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>
شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>


==وفات==
==وفات==
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم