مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{| class="infobox" style="text-align: right; font-size:۱۰۰٪;"
{| class="infobox" style="text-align: right; font-size:100٪;"
|style="text-align: center;"|'''قرآن'''
|style="text-align: center;"|'''قرآن'''
|-
|-
سطر 8: سطر 8:
'''اسامی مشہور''': <span style="color:black">قرآن، فرقان، الکتاب اور [[قرآن|مُصحَف شریف]]</span>
'''اسامی مشہور''': <span style="color:black">قرآن، فرقان، الکتاب اور [[قرآن|مُصحَف شریف]]</span>
<br />
<br />
'''سپاروں کی تعداد ''': <span style="color:black"> ۳۰ [[پارے]]</span>
'''سپاروں کی تعداد ''': <span style="color:black"> 30 [[پارے]]</span>
<br />
<br />
'''سوروں کی تعداد ''': <span style="color:black"> ۱۱۴ [[سورے]]</span>
'''سوروں کی تعداد ''': <span style="color:black"> 114 [[سورے]]</span>
<br />
<br />
'''آیتوں کی تعداد ''': <span style="color:black"> ۶۲۳۶ [[آیات]]</span>
'''آیتوں کی تعداد ''': <span style="color:black"> 6236 [[آیات]]</span>
|}
|}
{{اسلام-عمودی}}
{{اسلام-عمودی}}
'''قرآن کریم''' یا '''قرآن''' [عربی میں '''القرآن الکریم'''] دین [[اسلام]] کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ [[وحی]]، [[جبرائیل]] کے ذریعے [[حضرت محمدؐ]] پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔  
'''قرآن کریم''' یا '''قرآن''' [عربی میں '''القرآن الکریم'''] دین [[اسلام]] کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ [[وحی]]، [[جبرائیل]] کے ذریعے [[حضرت محمدؐ]] پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔  


قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں  قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو ۱۱۴ [[سورہ|سورتوں]]، تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]]، تیس [[جزء|سپاروں]] اور ۱۲۰ [[حزب|احزاب]] میں تقسیم کیا گیا ہے۔
قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں  قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو 114 [[سورہ|سورتوں]]، تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]]، تیس [[جزء|سپاروں]] اور 120 [[حزب|احزاب]] میں تقسیم کیا گیا ہے۔


چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں جس کی اصل وجہ قرآن کے مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مراحل میں ہونا اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں کی پیروی کرنا وغیرہ ہے۔ چوتھی صدی میں مختلف قرائتوں میں سے صرف سات قرائتوں ([[قراء سبعہ]]) کو  انتخاب کیا گیا۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت سب سے زیادہ مشہور اور رائج قرائت، [[قرائت عاصم]] بمطابق روایت [[حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی|حفص]] ہے۔
چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں جس کی اصل وجہ قرآن کے مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مراحل میں ہونا اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں کی پیروی کرنا وغیرہ ہے۔ چوتھی صدی میں مختلف قرائتوں میں سے صرف سات قرائتوں ([[قراء سبعہ]]) کو  انتخاب کیا گیا۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت سب سے زیادہ مشہور اور رائج قرائت، [[قرائت عاصم]] بمطابق روایت [[حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی|حفص]] ہے۔
سطر 27: سطر 27:
[[ختم قرآن]] پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا [[شب قدر]] کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خود خدا، قرآن اور معصومین ؑ کا واسطہ دے کر خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔
[[ختم قرآن]] پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا [[شب قدر]] کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خود خدا، قرآن اور معصومین ؑ کا واسطہ دے کر خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔
== کلام خدا ==
== کلام خدا ==
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے [[پیغمبر اسلامؐ]] پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔<ref>مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۱۵-۱۲۲.</ref> تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۴۴؛ مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۲۳.</ref>
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے [[پیغمبر اسلامؐ]] پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔<ref>مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  1389، ج1، ص115-122.</ref> تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1363ش، ص44؛ مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  1389، ج1، ص123.</ref>


قرآن پہلی بار [[غار حراء]] میں پیغمبر اکرمؐ پر [[وحی]] ہوا۔ <ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۷.</ref> کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی آیات [[سورہ علق]] کی ابتدائی آیات تھیں اور پہلی بار مکمل طور پر نازل ہونے والا سوره، [[سورہ فاتحہ]] ہے۔ <ref>معرفت، التمIید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۷.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ [[پیغمبر اسلام]] آخری نبی اور قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ۱۵۳.</ref>
قرآن پہلی بار [[غار حراء]] میں پیغمبر اکرمؐ پر [[وحی]] ہوا۔ <ref>معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص124-127.</ref> کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی آیات [[سورہ علق]] کی ابتدائی آیات تھیں اور پہلی بار مکمل طور پر نازل ہونے والا سوره، [[سورہ فاتحہ]] ہے۔ <ref>معرفت، التمIید، 1412ق، ج1، ص127.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ [[پیغمبر اسلام]] آخری نبی اور قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، 153.</ref>


=== کیفیت دریافت ===
=== کیفیت دریافت ===
قرآن میں [[انبیاء]] پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔<ref>قرآن، سورہ شورا، آیت۵۱.</ref> بعض سورہ بقرہ کی آیت <font color=green>{{حدیث|قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ|ترجمہ= اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔}}</font><ref>قرآن، بقره، ۹۷.</ref> سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف "جبرئیل" کے ذریعے انجام پایا ہے؛<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۷.</ref> لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمدؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۴۶؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ص۵۵و۵۶.</ref>
قرآن میں [[انبیاء]] پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔<ref>قرآن، سورہ شورا، آیت51.</ref> بعض سورہ بقرہ کی آیت <font color=green>{{حدیث|قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ|ترجمہ= اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔}}</font><ref>قرآن، بقره، 97.</ref> سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف "جبرئیل" کے ذریعے انجام پایا ہے؛<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1363ش، ص7.</ref> لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمدؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، 1393ش، ص46؛ معرفت، التمہید، 1412ق، ص55و56.</ref>


=== کیفیت نزول ===
=== کیفیت نزول ===
قرآن کی بعض آیات کے مطابق قرآن، [[رمضان المبارک]] کے مہینے میں [[شب قدر]] کو نازل ہوا ہے۔<ref>قرآن، بقرہ، ۱۸۵؛ قدر، ۱.</ref> اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا قرآن دفعتا(ایک ہی دفعہ) نازل ہوا ہے یا تدریجا(موقع محل اور حالات کی نزاکت کے مطابق کم کم ہوتے ہوئے) نازل ہوا ہے۔ <ref>اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۱.</ref> بعض کہتے ہیں: قرآن دفعی طور پر بھی نازل ہوا ہے اور تدریجی طور پر بھی؛<ref>مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۳۹؛ اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۱.</ref> اسی طرح بعض کا عقیدہ ہے کہ ہر سال جس مقدار میں نازل ہونا تھا وہ اسی سال شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوتا تھا؛<ref>اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۲.</ref> جبکہ اس کے مقابلے میں بعض یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف اور صرف تدریجی طور پر نازل ہوا ہے جس کا آغاز رمضان اور شب قدر میں ہوا تھا۔<ref>اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۲و۴۹.</ref>
قرآن کی بعض آیات کے مطابق قرآن، [[رمضان المبارک]] کے مہینے میں [[شب قدر]] کو نازل ہوا ہے۔<ref>قرآن، بقرہ، 185؛ قدر، 1.</ref> اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا قرآن دفعتا(ایک ہی دفعہ) نازل ہوا ہے یا تدریجا(موقع محل اور حالات کی نزاکت کے مطابق کم کم ہوتے ہوئے) نازل ہوا ہے۔ <ref>اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص41.</ref> بعض کہتے ہیں: قرآن دفعی طور پر بھی نازل ہوا ہے اور تدریجی طور پر بھی؛<ref>مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  1389، ج1، ص139؛ اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص41.</ref> اسی طرح بعض کا عقیدہ ہے کہ ہر سال جس مقدار میں نازل ہونا تھا وہ اسی سال شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوتا تھا؛<ref>اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص42.</ref> جبکہ اس کے مقابلے میں بعض یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف اور صرف تدریجی طور پر نازل ہوا ہے جس کا آغاز رمضان اور شب قدر میں ہوا تھا۔<ref>اسکندرلو، علوم قرآنی، 1379ش، ص42و49.</ref>


== قرآن کے اسماء اور صفات ==
== قرآن کے اسماء اور صفات ==
سطر 43: سطر 43:
===کتابت اور تدوین===
===کتابت اور تدوین===
[[File:قرآن خطی کتابت قرن 3ق.jpg|thumb|350 px]]
[[File:قرآن خطی کتابت قرن 3ق.jpg|thumb|350 px]]
[[پیغمبر اسلامؐ]] قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ بعثت کے ابتدائی سالوں میں پڑھے لکھے افراد کی کمی اور کتابت کی سہولیات با آسانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مبادا قرآن میں کوئی کلمہ بھول جائے یا اسے غلط محفوظ کیا جائے، قرآن کی [[آیت|آیات]] کو صحیح حفظ اور قرائت کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۲۱و۲۲۲.</ref> آپؐ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو [[کاتبان وحی]] کو بلا کر یہ آیت ان کے سامنے تلاوت فرماتے اور اسے لکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۵۷.</ref> قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ <ref>معرفت، التمهید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۰و۲۸۱.</ref>
[[پیغمبر اسلامؐ]] قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ بعثت کے ابتدائی سالوں میں پڑھے لکھے افراد کی کمی اور کتابت کی سہولیات با آسانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مبادا قرآن میں کوئی کلمہ بھول جائے یا اسے غلط محفوظ کیا جائے، قرآن کی [[آیت|آیات]] کو صحیح حفظ اور قرائت کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص221و222.</ref> آپؐ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو [[کاتبان وحی]] کو بلا کر یہ آیت ان کے سامنے تلاوت فرماتے اور اسے لکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص257.</ref> قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ <ref>معرفت، التمهید،  1412ق، ج1، ص280و281.</ref>


پیغمبر اکرمؐ خود قرآن کی کتابت کی نگرانی فرماتے تھے۔ آپؐ کاتبان وحی کے سامنے آیتوں کی تلاوت فرمانے اور لکھنے کے بعد ان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ لکھنے میں کوئی غلطی یا اشتباہ ہوئی ہو تو اسے رفع کیا جا سکے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۶۰.</ref>
پیغمبر اکرمؐ خود قرآن کی کتابت کی نگرانی فرماتے تھے۔ آپؐ کاتبان وحی کے سامنے آیتوں کی تلاوت فرمانے اور لکھنے کے بعد ان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ لکھنے میں کوئی غلطی یا اشتباہ ہوئی ہو تو اسے رفع کیا جا سکے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص260.</ref>
سیوطی لکھتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن اکھٹے اور سوروں کی ترتیب وغیرہ مشخص نهیں تھا۔ <ref>سیوطی، الإتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۰۲؛ سیوطی، ترجمہ الأتقان، ج۱، ص۲۰۱.</ref>
سیوطی لکھتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن اکھٹے اور سوروں کی ترتیب وغیرہ مشخص نهیں تھا۔ <ref>سیوطی، الإتقان، 1363ش، ج1، ص202؛ سیوطی، ترجمہ الأتقان، ج1، ص201.</ref>


پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ کتاب التمہید کے مطابق آپؐ کے زمانے میں قرآن کی آیات اور سورتوں کا نام آپؐ کے توسط سے ہی معین ہوئے تھے لیکن اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دینا اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ آپؐ کی وفات کے بعد [[صحابہ]] کرام کی صوابدید پر انجام پایا ہے۔ <ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۷۲-۲۸۲.</ref>
پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ کتاب التمہید کے مطابق آپؐ کے زمانے میں قرآن کی آیات اور سورتوں کا نام آپؐ کے توسط سے ہی معین ہوئے تھے لیکن اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دینا اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ آپؐ کی وفات کے بعد [[صحابہ]] کرام کی صوابدید پر انجام پایا ہے۔ <ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص272-282.</ref>
اس کتاب کے مطابق پہلی شخصیت جس نے قرآن کی تدوین کی، [[امام علیؑ]] تھے۔ آپؑ نے قرآن کی سورتوں کو ان کی تاریخ نزول کے مطابق ترتیب دے کر قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔ <ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۱.</ref>
اس کتاب کے مطابق پہلی شخصیت جس نے قرآن کی تدوین کی، [[امام علیؑ]] تھے۔ آپؑ نے قرآن کی سورتوں کو ان کی تاریخ نزول کے مطابق ترتیب دے کر قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔ <ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص281.</ref>


===مختلف نسخوں کو یکساں کرنا===
===مختلف نسخوں کو یکساں کرنا===
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد آپ کے نامور [[اصحاب]] میں سے ہر ایک نے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا یوں قرآن کے مختلف نسخے مختلف قرائت اور سورتوں کی مختلف ترتیب کے ساتھ تدوین ہوئے۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴.</ref> اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے سے متعلق نسخے کو صحیح اور دوسرے نسخوں کو غلط اور اشتباہ سمجھنے لگا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴-۳۳۷.</ref>
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد آپ کے نامور [[اصحاب]] میں سے ہر ایک نے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا یوں قرآن کے مختلف نسخے مختلف قرائت اور سورتوں کی مختلف ترتیب کے ساتھ تدوین ہوئے۔<ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص334.</ref> اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے سے متعلق نسخے کو صحیح اور دوسرے نسخوں کو غلط اور اشتباہ سمجھنے لگا۔<ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص334-337.</ref>


اس صورتحال کے پیش نظر [[حذیفۃ بن یمان]] کی تجویز پر [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے قرآن کے مختلف نسخوں کو یکساں کرنے کیلئے ایک گروہ تشکیل دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹.</ref> اس مقصد کیلئے اس نے مختلف گوشہ و کنار سے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کرکے انہیں یکساں کرنے کے بعد بقیہ نسخوں کو محو کرنے کا حکم دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۶.</ref>
اس صورتحال کے پیش نظر [[حذیفۃ بن یمان]] کی تجویز پر [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے قرآن کے مختلف نسخوں کو یکساں کرنے کیلئے ایک گروہ تشکیل دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص338و339.</ref> اس مقصد کیلئے اس نے مختلف گوشہ و کنار سے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کرکے انہیں یکساں کرنے کے بعد بقیہ نسخوں کو محو کرنے کا حکم دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص346.</ref>
کتاب التمہید کے مطابق احتمال غالب یہ ہے کہ قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے کا کام سنہ 25 ہجری میں انجام پایا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳-۳۴۶.</ref>
کتاب التمہید کے مطابق احتمال غالب یہ ہے کہ قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے کا کام سنہ 25 ہجری میں انجام پایا۔<ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص343-346.</ref>


===ائمہ معصومین اور موجودہ قرآن نسخہ ===
===ائمہ معصومین اور موجودہ قرآن نسخہ ===
[[احادیث]] کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ [[ائمہ معصومین]] قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے اور پوری اسلامی حکومت میں قرآن کے ایک ہی نسخے کو ترویج دینے کے ساتھ موافق تھے۔ سیوطی نے [[امام علی ؑ]] سے نقل کیا ہے کہ عثمان نے اس حوالے سے آپؑ سے مشورہ کیا جس پر آپؑ نے اپنی مواففت کا اعلان فرمایا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱.</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ [[امام صادقؑ]] نے آپ کے سامنے موجودہ قرآن کے برخلاف قرائت کرنے پر ایک شخص کو منع کیا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۸۲۱.</ref>
[[احادیث]] کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ [[ائمہ معصومین]] قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے اور پوری اسلامی حکومت میں قرآن کے ایک ہی نسخے کو ترویج دینے کے ساتھ موافق تھے۔ سیوطی نے [[امام علی ؑ]] سے نقل کیا ہے کہ عثمان نے اس حوالے سے آپؑ سے مشورہ کیا جس پر آپؑ نے اپنی مواففت کا اعلان فرمایا۔<ref>معرفت، التمہید،  1412ق، ج1، ص341.</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ [[امام صادقؑ]] نے آپ کے سامنے موجودہ قرآن کے برخلاف قرائت کرنے پر ایک شخص کو منع کیا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ق، ج4، ص821.</ref>
کتاب التمہید کے مطابق تمام [[شیعہ]] قرآن کے موجودہ نسخے کو صحیح اور کامل ماننتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲.</ref>
کتاب التمہید کے مطابق تمام [[شیعہ]] قرآن کے موجودہ نسخے کو صحیح اور کامل ماننتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص342.</ref>


===قرآن کی مختلف قرائتیں===
===قرآن کی مختلف قرائتیں===
{{اصلی| قراء سبعہ}}
{{اصلی| قراء سبعہ}}
چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۵.</ref> ان مختلف قرائتوں کے مختلف علل و اسباب تھے جن میں سے زیادہ اہم اسباب یہ ہیں: قرآن کی مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مرحلے میں ہونا، عربی حروف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا، مختلف لہجوں کی موجودگی اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۱۰، ۱۲، ۱۶، ۲۵.</ref>
چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص195.</ref> ان مختلف قرائتوں کے مختلف علل و اسباب تھے جن میں سے زیادہ اہم اسباب یہ ہیں: قرآن کی مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مرحلے میں ہونا، عربی حروف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا، مختلف لہجوں کی موجودگی اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونا۔<ref>معرفت، التمہید، 1411ق، ج2، ص10، 12، 16، 25.</ref>


چوتھی صدی ہجری میں [[بغداد]] کے قاریوں کے استاد ابن مجاہد نے مختلف قرائتوں میں سے سات قرائتوں کو انتخاب کیا۔ ان سات قرائتوں کے قاریوں کو [[قراء سبعہ]] (سات قراء) کہا جانے لگا۔ چونکہ ان سات قرائتوں میں سے ہر ایک دو طریقوں سے نقل ہوئی ہیں اس بنا پر مسلمانوں کے درمیاں چودہ قرائتیں رائج ہوئیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۵-۱۹۷.</ref>
چوتھی صدی ہجری میں [[بغداد]] کے قاریوں کے استاد ابن مجاہد نے مختلف قرائتوں میں سے سات قرائتوں کو انتخاب کیا۔ ان سات قرائتوں کے قاریوں کو [[قراء سبعہ]] (سات قراء) کہا جانے لگا۔ چونکہ ان سات قرائتوں میں سے ہر ایک دو طریقوں سے نقل ہوئی ہیں اس بنا پر مسلمانوں کے درمیاں چودہ قرائتیں رائج ہوئیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص195-197.</ref>


اہل سنت معتقد ہیں کہ قرآنی الفاظ کے مختلف ابعاد ہیں اس بنا پر ان جہات میں سے ہر ایک جہت کے مطابق قرآن کو پڑھا جا سکتا ہے۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۸.</ref> لیکن شیعہ علماء کہتے ہیں: قرآن صرف ایک قرائت کے ساتھ نازل ہوا ہے اور [[ائمہ معصومین]] نے قرآن کی تلاوت میں آسانی کی خاطر مختلف قرائتوں کی اجازت دی ہیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۹.</ref>
اہل سنت معتقد ہیں کہ قرآنی الفاظ کے مختلف ابعاد ہیں اس بنا پر ان جہات میں سے ہر ایک جہت کے مطابق قرآن کو پڑھا جا سکتا ہے۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص198.</ref> لیکن شیعہ علماء کہتے ہیں: قرآن صرف ایک قرائت کے ساتھ نازل ہوا ہے اور [[ائمہ معصومین]] نے قرآن کی تلاوت میں آسانی کی خاطر مختلف قرائتوں کی اجازت دی ہیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص199.</ref>


مسلمانوں کے درمیان اس وقت [[عاصم]] کی قرائت [[حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی|حفص]] کی روایت کے مطابق، سب سے زیادہ رائج ہے۔ شیعہ معاصر محققین کی ایک گروہ ان سات قرائتوں میں سے صرف اسی قرائت کو صحیح اور [[متواتر]] قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:‌ دوسری قرائتیں [[پیغمبر اکرم]] سے نہیں لی گئی بلکہ متعلقہ قراء کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں یہ قرائتیں وجود میں آئی ہیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۹، ۲۰۰.</ref>
مسلمانوں کے درمیان اس وقت [[عاصم]] کی قرائت [[حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی|حفص]] کی روایت کے مطابق، سب سے زیادہ رائج ہے۔ شیعہ معاصر محققین کی ایک گروہ ان سات قرائتوں میں سے صرف اسی قرائت کو صحیح اور [[متواتر]] قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:‌ دوسری قرائتیں [[پیغمبر اکرم]] سے نہیں لی گئی بلکہ متعلقہ قراء کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں یہ قرائتیں وجود میں آئی ہیں۔<ref>ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، 1389ش، ص199، 200.</ref>
[[ملف:نسخه طلاکوبی‌شده از قرآن در دوره تیموری.jpg|تصغیر|سلسلہ تیموریان سے متعلق قرآنی نسخہ فارسی ترجمہ کے ساتھ]]
[[ملف:نسخه طلاکوبی‌شده از قرآن در دوره تیموری.jpg|تصغیر|سلسلہ تیموریان سے متعلق قرآنی نسخہ فارسی ترجمہ کے ساتھ]]


===قرآن کا ترجمہ===
===قرآن کا ترجمہ===
{{اصلی|ترجمہ قرآن}}
{{اصلی|ترجمہ قرآن}}
قرآن کا ترجمہ بہت پرانے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس کی تاریخ صدر [[اسلام]] تک پہنچتی ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن،۱۳۶۹ش، ص۶۵۳.</ref> قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ فارسی زبان میں چوتھی صدی ہجری میں انجام پایا ہے۔<ref>آذرنوش، «ترجمہ قرآن بہ فارسی»، ص۷۹.</ref> کہا جاتا ہے کہ قرآن کا پہلے مترجم [[سلمان فارسی]] تھے جنہوں نے {{حدیث|[[بسم الله الرحمن الرحیم]]}} کا فارسی میں ترجمہ کیا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۶۵۳.</ref>  
قرآن کا ترجمہ بہت پرانے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس کی تاریخ صدر [[اسلام]] تک پہنچتی ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن،1369ش، ص653.</ref> قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ فارسی زبان میں چوتھی صدی ہجری میں انجام پایا ہے۔<ref>آذرنوش، «ترجمہ قرآن بہ فارسی»، ص79.</ref> کہا جاتا ہے کہ قرآن کا پہلے مترجم [[سلمان فارسی]] تھے جنہوں نے {{حدیث|[[بسم الله الرحمن الرحیم]]}} کا فارسی میں ترجمہ کیا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، 1369ش، ص653.</ref>  


لاتینی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شروع شروع میں عیسایی راہبوں کے ذریعہ سے انجام پایا۔ یہ لوگ کلامی مباحث میں اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے قرآن کے مختلف حصوں کا ترجمہ کرتے تھے۔<ref>رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، ۱۳۸۲ش، ص۸۴.</ref> لاتینی زبان میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ چھٹی صدی ہجری میں منظر عام پر آیا۔<ref>رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، ۱۳۸۲ش، ص۸۴.</ref>
لاتینی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شروع شروع میں عیسایی راہبوں کے ذریعہ سے انجام پایا۔ یہ لوگ کلامی مباحث میں اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے قرآن کے مختلف حصوں کا ترجمہ کرتے تھے۔<ref>رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، 1382ش، ص84.</ref> لاتینی زبان میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ چھٹی صدی ہجری میں منظر عام پر آیا۔<ref>رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، 1382ش، ص84.</ref>


===قرآن کی طباعت===
===قرآن کی طباعت===
قرآن سنہ 950 ہجری(1543ء) میں پہلی دفعہ اٹلی میں شایع ہوا۔ قرآن کی یہ طباعت کلیسا کے حکام کے حکم سے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1104 ہجری، پھر 1108 ہجری کو یورپ میں قرآن کو شایع کیا گیا۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ سنہ 1200 ہجری میں قرآن کو شایع کیا اور یہ کام مولاعثمان نے سن پیترزبورگ [[روس]] میں انجام دیا۔
قرآن سنہ 950 ہجری(1543ء) میں پہلی دفعہ اٹلی میں شایع ہوا۔ قرآن کی یہ طباعت کلیسا کے حکام کے حکم سے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1104 ہجری، پھر 1108 ہجری کو یورپ میں قرآن کو شایع کیا گیا۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ سنہ 1200 ہجری میں قرآن کو شایع کیا اور یہ کام مولاعثمان نے سن پیترزبورگ [[روس]] میں انجام دیا۔


پہلا اسلامی ملک جس نے قرآن کو شایع کیا [[ایران]] ہے۔ ایران نے سنہ۱۲۴۳ھ اور ۱۲۴۸ھ، میں قرآن کا دو خوبصورت لتھوگرافی نسخے شایع کیا۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ملکوں جیسے [[ترکی]]، [[مصر]] اور [[عراق]] وغیرہ میں قرآن کے مختلف نسخے شایع ہوئے۔<ref>[http://www.maarefquran.org/index.php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.]</ref>
پہلا اسلامی ملک جس نے قرآن کو شایع کیا [[ایران]] ہے۔ ایران نے سنہ1243ھ اور 1248ھ، میں قرآن کا دو خوبصورت لتھوگرافی نسخے شایع کیا۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ملکوں جیسے [[ترکی]]، [[مصر]] اور [[عراق]] وغیرہ میں قرآن کے مختلف نسخے شایع ہوئے۔<ref>[http://www.maarefquran.org/index.php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.]</ref>


مصر میں میں سنہ ۱۳۴۲ھ میں الازہر یونیورسٹی کے پروفیسروں کی نگرانی میں [[حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی|حفص]] کی روایت میں [[عاصم]] کی قرائت کے مطابق قرآن شایع ہوا جو پورے عالم اسلامی میں مورد قبول ٹھہرا۔
مصر میں میں سنہ 1342ھ میں الازہر یونیورسٹی کے پروفیسروں کی نگرانی میں [[حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی|حفص]] کی روایت میں [[عاصم]] کی قرائت کے مطابق قرآن شایع ہوا جو پورے عالم اسلامی میں مورد قبول ٹھہرا۔
آجکل جو قرآن عثمان طہ کے نام سے معروف ہے وہ شام کے ایک خوشنویس کے ہاتھوں لکھا گیا ہے جس کا نام عثمان طہ تھا۔ یہ قرآن اکثر اسلامی ممالک میں شایع ہوتا ہے۔ اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر صفحہ کسی آیت کے آغاز سے شروع اور کسی آیت کے اختتام پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کے مختلف حصوں جیسے احزاب اور پاروں کی منظم تقسیم بھی اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے ہے۔<ref>[http://www.maarefquran.org/index.php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.]</ref>
آجکل جو قرآن عثمان طہ کے نام سے معروف ہے وہ شام کے ایک خوشنویس کے ہاتھوں لکھا گیا ہے جس کا نام عثمان طہ تھا۔ یہ قرآن اکثر اسلامی ممالک میں شایع ہوتا ہے۔ اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر صفحہ کسی آیت کے آغاز سے شروع اور کسی آیت کے اختتام پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کے مختلف حصوں جیسے احزاب اور پاروں کی منظم تقسیم بھی اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے ہے۔<ref>[http://www.maarefquran.org/index.php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.]</ref>


سطر 89: سطر 89:


== قرآنی کریم کی ساخت ==
== قرآنی کریم کی ساخت ==
قرآن ۱۱۴ [[سورہ|سورتوں]] اور تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]] پر مشتمل ہے۔ قرآن کی آیتوں کی دقیق تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے امام علیؑ سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی ۶۲۳۶ آیت ہیں۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۳۲.</ref> قرآن 30 پاروں اور 120 احزاب میں تقسیم ہوا ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.</ref>
قرآن 114 [[سورہ|سورتوں]] اور تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]] پر مشتمل ہے۔ قرآن کی آیتوں کی دقیق تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے امام علیؑ سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی 6236 آیت ہیں۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، 1393ش، ص32.</ref> قرآن 30 پاروں اور 120 احزاب میں تقسیم ہوا ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص229، 230.</ref>
===سورہ===
===سورہ===
{{اصلی|سورہ}}
{{اصلی|سورہ}}
قرآن کی تقسیم میں ایک اکائی کا نام "سورة" (یا سورت یا سورہ) ہے۔ سورہ کے معنی لغت میں "منقطع شدہ" (کٹا ہوا) کے ہیں اور اصطلاح میں آیات کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص مواد اور مضمون پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سورتوں کی تعداد 114 ہے اور سوائے سورہ توبہ کے سب کا آغاز {{حدیث|[[بسم الله الرحمن الرحیم]]}} سے ہوتا ہے۔<ref>جمعی از محققان، «آیہ بسملہ»، ص۱۲۰.</ref>
قرآن کی تقسیم میں ایک اکائی کا نام "سورة" (یا سورت یا سورہ) ہے۔ سورہ کے معنی لغت میں "منقطع شدہ" (کٹا ہوا) کے ہیں اور اصطلاح میں آیات کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص مواد اور مضمون پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سورتوں کی تعداد 114 ہے اور سوائے سورہ توبہ کے سب کا آغاز {{حدیث|[[بسم الله الرحمن الرحیم]]}} سے ہوتا ہے۔<ref>جمعی از محققان، «آیہ بسملہ»، ص120.</ref>


قرآن کا آغاز [[سورہ حمد]] سے اور اختتام [[سورہ ناس]] پر ہوتا ہے۔ قرآن کی سورتوں کو ان کے نازل ہونے کے زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے [[مکی اور مدنی سورتیں|مکی اور مدنی]] میں تقسیم کیا جاتا ہے: اس طرح وہ سورتیں جو [[ہجرت مدینہ]] سے پہلے نازل ہوئی ہیں انہیں مکی اور وہ سورتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں کو مدنی کہا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۳۰.</ref>
قرآن کا آغاز [[سورہ حمد]] سے اور اختتام [[سورہ ناس]] پر ہوتا ہے۔ قرآن کی سورتوں کو ان کے نازل ہونے کے زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے [[مکی اور مدنی سورتیں|مکی اور مدنی]] میں تقسیم کیا جاتا ہے: اس طرح وہ سورتیں جو [[ہجرت مدینہ]] سے پہلے نازل ہوئی ہیں انہیں مکی اور وہ سورتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں کو مدنی کہا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص130.</ref>


===آیت===
===آیت===
{{اصلی|آیت}}
{{اصلی|آیت}}
قرآن کریم کے کلمات اور جملوں کو آیت کہا جاتا ہے اور مختلف آیات کے مجموعے سے سوره وجود میں آتا ہے۔<ref>مجتہد شبستری، آیت، ۱۳۷۰ش، ص۲۷۶.</ref> آیات حجم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں [[سورہ بقرہ]] کی آیت نمبر 282 قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جبکہ سورہ رحمان کی آیت نمبر 64 "مُدهامَّتان"، سورہ ضحی کی آیت نمبر 1  "والضُّحی" اور سورہ فجر کی آیت نمبر 1 "والفَجر" کو قرآن کی سب سے چھوٹی آیت قرار دیا جاتا ہے۔<ref>مجتہد شبستری، «آیت»، ص۲۷۶.</ref>  
قرآن کریم کے کلمات اور جملوں کو آیت کہا جاتا ہے اور مختلف آیات کے مجموعے سے سوره وجود میں آتا ہے۔<ref>مجتہد شبستری، آیت، 1370ش، ص276.</ref> آیات حجم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں [[سورہ بقرہ]] کی آیت نمبر 282 قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جبکہ سورہ رحمان کی آیت نمبر 64 "مُدهامَّتان"، سورہ ضحی کی آیت نمبر 1  "والضُّحی" اور سورہ فجر کی آیت نمبر 1 "والفَجر" کو قرآن کی سب سے چھوٹی آیت قرار دیا جاتا ہے۔<ref>مجتہد شبستری، «آیت»، ص276.</ref>  


قرآن کی آیتیں معنی کی وضاحت کے اعتبار سے [[محکم اور متشابہ]] میں تقسیم ہوتی ہیں۔ محکمات ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کے معنی اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان میں کسی قسم کی شک اور تردید کی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں بعض آیات ہیں جن کے معنی کے بارے میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں ان آیات کو متشابہ کہا جاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۱؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۴۳۳.</ref> یہ تقسیم بندی خود قرآن میں ہی موجود ہے۔<ref>سوره آل عمران، آیت ۷.</ref>
قرآن کی آیتیں معنی کی وضاحت کے اعتبار سے [[محکم اور متشابہ]] میں تقسیم ہوتی ہیں۔ محکمات ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کے معنی اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان میں کسی قسم کی شک اور تردید کی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں بعض آیات ہیں جن کے معنی کے بارے میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں ان آیات کو متشابہ کہا جاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج3، ص21؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص433.</ref> یہ تقسیم بندی خود قرآن میں ہی موجود ہے۔<ref>سوره آل عمران، آیت 7.</ref>


آیات کی ایک اور تقسیم بندی بھی ہے جس کے مطابق قرآن کی وہ آیت جو کسی اور آیت میں موجود حکم کو باطل قرار دے، [[ناسخ]] اور جس آیت کا حکم باطل قرار دیا گیا ہے کو [[منسوخ]] کہا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمIید، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹۴.</ref>  
آیات کی ایک اور تقسیم بندی بھی ہے جس کے مطابق قرآن کی وہ آیت جو کسی اور آیت میں موجود حکم کو باطل قرار دے، [[ناسخ]] اور جس آیت کا حکم باطل قرار دیا گیا ہے کو [[منسوخ]] کہا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمIید، 1411ق، ج2، ص294.</ref>  


===حزب اور پارہ===
===حزب اور پارہ===
حزب اور پارہ بھی قرآن کی تقسیم بندی کے دو معیار ہیں جو مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ احتمال دیا جاتا ہے کہ اس کام کو مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور اسے حفظ کرنے میں آسانی کی خاطر انجام دئے ہیں۔ اس طرح کی تقسیمات فردی سلیقوں کی بنیاد پر انجام دیجاتی تھی اس بنا پر ہر زمانے میں ان کی کمیت اور کیفیت میں تبدیلی نظر آتی ہیں۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۸، ۲۲۹.</ref> مثلا کہا جاتا ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے دور میں قرآن سات احزاب پر مشتمل تھا اور ہر حزب کئی سوروں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں قرآن کو دو یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قرآن کو تیس پاروں اور ہر پارے کو چار احزاب میں تقسیم کرنا رائج اور مرسوم ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.</ref>
حزب اور پارہ بھی قرآن کی تقسیم بندی کے دو معیار ہیں جو مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ احتمال دیا جاتا ہے کہ اس کام کو مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور اسے حفظ کرنے میں آسانی کی خاطر انجام دئے ہیں۔ اس طرح کی تقسیمات فردی سلیقوں کی بنیاد پر انجام دیجاتی تھی اس بنا پر ہر زمانے میں ان کی کمیت اور کیفیت میں تبدیلی نظر آتی ہیں۔<ref>مستفید، «جزء»، ص228، 229.</ref> مثلا کہا جاتا ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے دور میں قرآن سات احزاب پر مشتمل تھا اور ہر حزب کئی سوروں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں قرآن کو دو یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قرآن کو تیس پاروں اور ہر پارے کو چار احزاب میں تقسیم کرنا رائج اور مرسوم ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص229، 230.</ref>


== قرآن کے مضامین==
== قرآن کے مضامین==
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرمؐ کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرمؐ کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص1631، 1632.</ref>


==تحریف ناپذیری قرآن==
==تحریف ناپذیری قرآن==
{{اصلی| تحریف قرآن}}
{{اصلی| تحریف قرآن}}
جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی ہے۔ [[ابوالقاسم  خوئی|آیت الله خوئی]] لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۰.</ref> آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۱.</ref>
جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی ہے۔ [[ابوالقاسم  خوئی|آیت الله خوئی]] لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، 1430ق، ص200.</ref> آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، 1430ق، ص201.</ref>


== قرآن کا چیلنج ==
== قرآن کا چیلنج ==
{{اصلی|قرآن کا چیلنج}}
{{اصلی|قرآن کا چیلنج}}
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرمؐ]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرمؐ کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرمؐ کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت ۳۴.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.</ref>
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرمؐ]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرمؐ کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت 88؛ سورہ ہود، آیت 13؛ سورہ یونس، آیت 38.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، 1385ش، ص599.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرمؐ کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت 34.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، 1379ش، ج9، ص363.</ref>


== اعجاز القرآن ==
== اعجاز القرآن ==
سطر 136: سطر 136:
===تفسیر===
===تفسیر===
{{اصلی|تفسیر}}
{{اصلی|تفسیر}}
تفسیر سے مراد وہ علم ہے جس میں قرآن کی آیات کی شرح و تبیین ہوتی ہے۔<ref>عباسی، تفسیر، ۱۳۸۲ش، ج۷، ص۶۱۹.</ref> قرآن کی تفسیر پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے خود آپؐ کے توسط سے ہی شروع ہوا ہے۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۷۴.</ref> [[امام علیؑ]]، [[ابن عباس]]، [[عبدالله بن مسعود]] اور اُبیّ بن کعب پیغمبر اکرمؐ کے بعد سب سے پہلے مفسرین شمار ہوتے ہیں۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۲۱۰و۲۱۱.</ref>
تفسیر سے مراد وہ علم ہے جس میں قرآن کی آیات کی شرح و تبیین ہوتی ہے۔<ref>عباسی، تفسیر، 1382ش، ج7، ص619.</ref> قرآن کی تفسیر پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے خود آپؐ کے توسط سے ہی شروع ہوا ہے۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، 1418ق، ج1، ص174.</ref> [[امام علیؑ]]، [[ابن عباس]]، [[عبدالله بن مسعود]] اور اُبیّ بن کعب پیغمبر اکرمؐ کے بعد سب سے پہلے مفسرین شمار ہوتے ہیں۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، 1418ق، ج1، ص210و211.</ref>
قرآن کی مختلف طریقوں اور روشوں سے تفسیر ہوئی ہے۔ تفسیر کی بعض روشیں کچھ یوں ہیں: [[تفسیر موضوعی]]، [[تفسیر ترتیبی]]، [[قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر]]، [[تفسیر روایی]]، [[تفسیر علمی]]،  [[تفسیر فقہی]]، [[تفسیر فلسفی]] اور [[تفسیر عرفانی]]۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۴تا۲۰، ۲۲، ۲۵، ۳۵۴، ۴۴۳، ۵۲۶.</ref>
قرآن کی مختلف طریقوں اور روشوں سے تفسیر ہوئی ہے۔ تفسیر کی بعض روشیں کچھ یوں ہیں: [[تفسیر موضوعی]]، [[تفسیر ترتیبی]]، [[قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر]]، [[تفسیر روایی]]، [[تفسیر علمی]]،  [[تفسیر فقہی]]، [[تفسیر فلسفی]] اور [[تفسیر عرفانی]]۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، 1419ق، ج2، ص14تا20، 22، 25، 354، 443، 526.</ref>


===علوم قرآن===
===علوم قرآن===
{{اصلی|علوم قرآن}}
{{اصلی|علوم قرآن}}
قرآن کے بارے میں مختلف جہات سے بحث کی جا سکتی ہے ایسے علوم کو جو مختلف جہات سے قرآن کے بارے میں بحث کرتے ہیں، علوم قرآن کہا جاتا ہے۔ تاریخ قرآن، آیات الأحکام، علم لغات قرآن، علم اِعراب  و بلاغت قرآن، [[اسباب النزول]]، [[قصص القرآن]]، [[اعجاز القرآن]]، علم قرائات، علم [[مکی و مدنی]]، علم [[محکم و متشابہ]] اور علم [[ناسخ و منسوخ]] علوم قرآن کی شاخوں میں سے ہیں۔ <ref>اسکندرلو، علوم قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۱۲.</ref>
قرآن کے بارے میں مختلف جہات سے بحث کی جا سکتی ہے ایسے علوم کو جو مختلف جہات سے قرآن کے بارے میں بحث کرتے ہیں، علوم قرآن کہا جاتا ہے۔ تاریخ قرآن، آیات الأحکام، علم لغات قرآن، علم اِعراب  و بلاغت قرآن، [[اسباب النزول]]، [[قصص القرآن]]، [[اعجاز القرآن]]، علم قرائات، علم [[مکی و مدنی]]، علم [[محکم و متشابہ]] اور علم [[ناسخ و منسوخ]] علوم قرآن کی شاخوں میں سے ہیں۔ <ref>اسکندرلو، علوم قرآن، 1379ش، ص12.</ref>


علوم قرآن کے بعض اہم مآخذ درج ذیل ہیں:
علوم قرآن کے بعض اہم مآخذ درج ذیل ہیں:
{{ستون آ|3}}
{{ستون آ|3}}
*[[التبیان]] (مقدمہ کتاب) بقلم [[شیخ طوسی]] (۴۵۶ق)
*[[التبیان]] (مقدمہ کتاب) بقلم [[شیخ طوسی]] (456ق)
*[[مجمع البیان]] (مقدمہ کتاب) بقلم [[شیخ طبرسی]] (۵۴۸ق)
*[[مجمع البیان]] (مقدمہ کتاب) بقلم [[شیخ طبرسی]] (548ق)
*{{حدیث|إملاءُ ما مَنَّ بِه الرحمن ابو البقاء عکبری}} (۶۱۶ق)
*{{حدیث|إملاءُ ما مَنَّ بِه الرحمن ابو البقاء عکبری}} (616ق)
*البرہان فی علوم القرآن (زرکشی) (۷۹۴ق)
*البرہان فی علوم القرآن (زرکشی) (794ق)
*الاتقان فی علوم القرآن (جلال‌ الدین سیوطی) (۹۱۱ق)
*الاتقان فی علوم القرآن (جلال‌ الدین سیوطی) (911ق)
*[[آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن|آلاء الرحمان]] (مقدمہ کتاب) بقلم [[محمد جواد بلاغی]] (۱۳۵۲ق)
*[[آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن|آلاء الرحمان]] (مقدمہ کتاب) بقلم [[محمد جواد بلاغی]] (1352ق)
*[[البیان فی تفسیر القرآن]] ([[سید ابو القاسم خوئی]]) (۱۳۷۱ش)
*[[البیان فی تفسیر القرآن]] ([[سید ابو القاسم خوئی]]) (1371ش)
*قرآن در اسلام ([[سید محمد حسین طباطبائی]]) (۱۳۶۰ش)
*قرآن در اسلام ([[سید محمد حسین طباطبائی]]) (1360ش)
*[[التمہید فی علوم القرآن]] ([[محمد ہادی معرفت]]) (۱۳۸۵ش)<ref>ہاشم‌زادہ، «کتاب شناسی علوم قرآن»، ص۳۹۵، ۳۹۶، ۳۹۷، ۴۰۱، ۴۰۸؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۱-۱۹.</ref>
*[[التمہید فی علوم القرآن]] ([[محمد ہادی معرفت]]) (1385ش)<ref>ہاشم‌زادہ، «کتاب شناسی علوم قرآن»، ص395، 396، 397، 401، 408؛ معرفت، التمہید، 1412ق، ج1، ص11-19.</ref>
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


سطر 159: سطر 159:
[[ملف:مراسم قرآن به سر گرفتن نجف سال 1395.jpg|تصغیر|[[نجف]] میں شب قدر کو قرآن سروں پر رکھنے کا منظر]]
[[ملف:مراسم قرآن به سر گرفتن نجف سال 1395.jpg|تصغیر|[[نجف]] میں شب قدر کو قرآن سروں پر رکھنے کا منظر]]


قرآن مسلمانوں کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی اجتماعی زندگی میں بھی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ [[ختم قرآن]] کی عمومی محفلیں مختلف [[مسجد|مساجد]] اور دیگر مذہبی مقامات جیسے [[امام باڑا|امام بارگاہوں]]، [[ائمہ معصومین]] اور [[امام زادگان]] کے حرم حتی مختلف افراد اپنے گھروں میں بھی ختم قرآن کی نشستیں منعقد کرتے ہیں۔<ref>«آداب ختم قرآن در ماہ رمضان»، گلستان قرآن، ص۳۶.</ref>
قرآن مسلمانوں کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی اجتماعی زندگی میں بھی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ [[ختم قرآن]] کی عمومی محفلیں مختلف [[مسجد|مساجد]] اور دیگر مذہبی مقامات جیسے [[امام باڑا|امام بارگاہوں]]، [[ائمہ معصومین]] اور [[امام زادگان]] کے حرم حتی مختلف افراد اپنے گھروں میں بھی ختم قرآن کی نشستیں منعقد کرتے ہیں۔<ref>«آداب ختم قرآن در ماہ رمضان»، گلستان قرآن، ص36.</ref>


[[قرآن سروں پر اٹھانا]] شب قدر کے ایام میں شیعوں کی مراسم میں سے ایک ہے۔ اس رسم میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خدا کو اس کی عزت و جلال اور [[چودہ معصومین]] کا واسطہ دے کر اپنی گناہوں سے مغفرت طلب کی جاتی ہے۔<ref>[http://www.hawzah.net/fa/Question/View/64090/ «مراسم قرآن بہ سر گرفتن»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ.]</ref>
[[قرآن سروں پر اٹھانا]] شب قدر کے ایام میں شیعوں کی مراسم میں سے ایک ہے۔ اس رسم میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خدا کو اس کی عزت و جلال اور [[چودہ معصومین]] کا واسطہ دے کر اپنی گناہوں سے مغفرت طلب کی جاتی ہے۔<ref>[http://www.hawzah.net/fa/Question/View/64090/ «مراسم قرآن بہ سر گرفتن»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ.]</ref>


مسلمانوں کے تمام رسمی اور غیر رسمی مراسم جیسے شادی بیاہ اور مجالس عزاداری وغیرہ کا آغاز بھی قرآن کی کچھ آیات کی تلاوت کے ذریعے ہوتا ہے۔<ref>موسوی آملی، قرآن در رسوم ايرانی، ۱۳۸۴، ص۴۷.</ref>
مسلمانوں کے تمام رسمی اور غیر رسمی مراسم جیسے شادی بیاہ اور مجالس عزاداری وغیرہ کا آغاز بھی قرآن کی کچھ آیات کی تلاوت کے ذریعے ہوتا ہے۔<ref>موسوی آملی، قرآن در رسوم ايرانی، 1384، ص47.</ref>


==قرآن مستشرقین کی نظر میں==
==قرآن مستشرقین کی نظر میں==
بہت سارے غیر مسلم دانشورں نے قرآن کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بعض مستشرقین قرآن کو پیغمبر اکرمؐ کا کلام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کے مطالب کو [[یہودیت|یہودیوں]] اور [[مسیحیت|عیسائیوں]] کے مآخذ اور [[زمان جاہلیت]] کے اشعار سے اقتباس کیا ہے۔ بعض محققین اگرچہ صراحت کے ساتھ قرآن کو وحی نہیں مانتے لیکن اسے انسانی کلام سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص۳۵. </ref>
بہت سارے غیر مسلم دانشورں نے قرآن کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بعض مستشرقین قرآن کو پیغمبر اکرمؐ کا کلام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کے مطالب کو [[یہودیت|یہودیوں]] اور [[مسیحیت|عیسائیوں]] کے مآخذ اور [[زمان جاہلیت]] کے اشعار سے اقتباس کیا ہے۔ بعض محققین اگرچہ صراحت کے ساتھ قرآن کو وحی نہیں مانتے لیکن اسے انسانی کلام سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص35. </ref>


ریجارڈ بل قرآن کے ادبیات میں تکرار اور تشبیہ کے طریقہ کار کو یہودیوں اور عیسائیوں کے "حُنَفاء" نامی رسم سے اقتباس شدہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں نولدکھ قرآن کی سورتوں خاص کر مکی سورتوں کو ادبی لحاظ سے معجز نما قرار دیتے ہوئے قرآنی آیات کو فرشتوں کی نغمہ سرایی قرار دیتے ہیں جو مؤمن کو وجد میں لاتی ہیں۔ موریس بوکای، [[اعجاز علمی قرآن]] کو مد نظر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن کی بعض آیات جدید سائنسی ایجادات سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ آخرکار وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن منشأ الہی کا حامل ہے۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص۳۵. </ref>
ریجارڈ بل قرآن کے ادبیات میں تکرار اور تشبیہ کے طریقہ کار کو یہودیوں اور عیسائیوں کے "حُنَفاء" نامی رسم سے اقتباس شدہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں نولدکھ قرآن کی سورتوں خاص کر مکی سورتوں کو ادبی لحاظ سے معجز نما قرار دیتے ہوئے قرآنی آیات کو فرشتوں کی نغمہ سرایی قرار دیتے ہیں جو مؤمن کو وجد میں لاتی ہیں۔ موریس بوکای، [[اعجاز علمی قرآن]] کو مد نظر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن کی بعض آیات جدید سائنسی ایجادات سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ آخرکار وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن منشأ الہی کا حامل ہے۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص35. </ref>


==فوٹو گیلری==
==فوٹو گیلری==
سطر 196: سطر 196:
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
*«آداب ختم قرآن در ماہ رمضان»، گلستان قرآن، ش۹۱، ۱۳۸۰ش.
*«آداب ختم قرآن در ماہ رمضان»، گلستان قرآن، ش91، 1380ش.
* [http://www.pasokhgoo.ir/node/74337 «آداب رفتن بہ خانہ جدید»، در سایت: مرکز ملی پاسخگوی بہ سؤالات شرعی(۲۰ تیر ۱۳۹۵)، تاریخ دسترسی(۲۴ بہمن ۱۳۹۵).]
* [http://www.pasokhgoo.ir/node/74337 «آداب رفتن بہ خانہ جدید»، در سایت: مرکز ملی پاسخگوی بہ سؤالات شرعی(20 تیر 1395)، تاریخ دسترسی(24 بہمن 1395).]
*آذرنوش، آذرتاش، «ترجمہ قرآن بہ فارسی»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۷، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش.
*آذرنوش، آذرتاش، «ترجمہ قرآن بہ فارسی»، دانشنامہ جہان اسلام، ج7، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1382ش.
*اسکندرلو، محمدجواد، «علوم قرآنی»، قم، سازمان حوزہ‌ہا و مدارس علمیہ خارج از کشور، چاپ اول، ۱۳۷۹ش.
*اسکندرلو، محمدجواد، «علوم قرآنی»، قم، سازمان حوزہ‌ہا و مدارس علمیہ خارج از کشور، چاپ اول، 1379ش.
*[http://old.telavat.com/ShowObject.aspx?id=4157 «تاريخچہ و وظايف و اہداف»، سایت تلاوت، تاریخ دسترسی(۱۰ بہمن ۱۳۹۵ش).]
*[http://old.telavat.com/ShowObject.aspx?id=4157 «تاريخچہ و وظايف و اہداف»، سایت تلاوت، تاریخ دسترسی(10 بہمن 1395ش).]
*بلاغی، صدرالدین، قصص قرآن، تہران، امیرکبیر، چاپ ہفدہم، ۱۳۸۰ش.
*بلاغی، صدرالدین، قصص قرآن، تہران، امیرکبیر، چاپ ہفدہم، 1380ش.
*ترابی سفیدآبی، « تأثير قرآن در شعر و ادب فارسی»، دوماہنامہ بشارت، ش۴۵، ۱۳۸۳ش.
*ترابی سفیدآبی، « تأثير قرآن در شعر و ادب فارسی»، دوماہنامہ بشارت، ش45، 1383ش.
*جباری راد، حمید، «نورنگاران معاصر»، دوماہنامہ بشارت، ش۵۸، ۱۳۸۶ش.
*جباری راد، حمید، «نورنگاران معاصر»، دوماہنامہ بشارت، ش58، 1386ش.
*جعفری، عالیہ، «تأثير قرآن در شعر فارسی»، دوماہنامہ بشارت، ش۶۷، ۱۳۸۷ش.
*جعفری، عالیہ، «تأثير قرآن در شعر فارسی»، دوماہنامہ بشارت، ش67، 1387ش.
*جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، اسراء، چاپ ششم، ۱۳۸۹ش.
*جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، اسراء، چاپ ششم، 1389ش.
*جمعی از محققان، «آیہ بسملہ»، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی،  قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۴ش.
*جمعی از محققان، «آیہ بسملہ»، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی،  قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1394ش.
*حر عاملی، محمدبن حسن، وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، تحقیق عبدالرحیم ربانی شیرازی، بیروت، دار احیاء التراث، چاپ ششم، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۱م.  
*حر عاملی، محمدبن حسن، وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، تحقیق عبدالرحیم ربانی شیرازی، بیروت، دار احیاء التراث، چاپ ششم، 1412ق/1991م.  
*خرمشاہی، بہاءالدین، «قرآن  مجید»، دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج۲، تہران، دوستان-ناہید، چاپ اول، ۱۳۷۷ش.
*خرمشاہی، بہاءالدین، «قرآن  مجید»، دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج2، تہران، دوستان-ناہید، چاپ اول، 1377ش.
*خوئی، ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ احیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ق.  
*خوئی، ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ احیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ چہارم، 1430ق.  
*رحمتی، محمدکاظم، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، ج۷، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش.
*رحمتی، محمدکاظم، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، ج7، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1382ش.
*رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، چاپ سوم، ۱۳۶۹ش.
*رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، چاپ سوم، 1369ش.
*راستگو، سدمحمد، «تجلی قرآن در ادب فارسی»، دوماہنامہ بشارت، ش۳۰، ۱۳۸۱.
*راستگو، سدمحمد، «تجلی قرآن در ادب فارسی»، دوماہنامہ بشارت، ش30، 1381.
*سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، الرضی-بیدار-عزیزی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش.
*سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، الرضی-بیدار-عزیزی، چاپ دوم، 1363ش.
*سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، ترجمہ سیدمہدی حائری قزوینی،  تہران، امیرکبیر، چاپ اول، ۱۳۶۳ش.
*سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، ترجمہ سیدمہدی حائری قزوینی،  تہران، امیرکبیر، چاپ اول، 1363ش.
*طارمی، حسن، «تأویل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۶، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۸۸ش.
*طارمی، حسن، «تأویل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج6، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ دوم، 1388ش.
*عباسی، مہرداد، «تفسیر»دانشنامہ جہان اسلام، ج۷، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش.
*عباسی، مہرداد، «تفسیر»دانشنامہ جہان اسلام، ج7، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1382ش.
*کریمی، محمود، «مستشرقان و قرآن»، گلستان قرآن، ش۲۲، ۱۳۷۹ش.
*کریمی، محمود، «مستشرقان و قرآن»، گلستان قرآن، ش22، 1379ش.
*گاربار، الگ، «ہنر، معماری و قرآن»، ترجمہ حسن ہفتادر، اسلام‌پژوہی، ش۱، ۱۳۸۴ش.
*گاربار، الگ، «ہنر، معماری و قرآن»، ترجمہ حسن ہفتادر، اسلام‌پژوہی، ش1، 1384ش.
*مجتہد شبستری، محمد، «آیہ»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۲، تہران، مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۷۰ش.
*مجتہد شبستری، محمد، «آیہ»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج2، تہران، مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ دوم، 1370ش.
*محمود زادہ، مہرداد، «ہنر خط و تذہیب قرآنی»، کتاب ماہ ہنر، ش۳، ۱۳۷۷ش.
*محمود زادہ، مہرداد، «ہنر خط و تذہیب قرآنی»، کتاب ماہ ہنر، ش3، 1377ش.
*«مراسم قرآن بہ سر گرفتن»، در پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ(۷ اردیبہشت ۱۳۹۲)، تاریخ دسترسی(۱۴ اسفند ۱۳۹۵).
*«مراسم قرآن بہ سر گرفتن»، در پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ(7 اردیبہشت 1392)، تاریخ دسترسی(14 اسفند 1395).
*مستفید، حمیدرضا، «جزء»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۰، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۵ش.
*مستفید، حمیدرضا، «جزء»، دانشنامہ جہان اسلام، ج10، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1385ش.
*مصباح یزدی، محمدتقی،  قرآن‌شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ سوم، ۱۳۸۹ش.
*مصباح یزدی، محمدتقی،  قرآن‌شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ سوم، 1389ش.
*مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ پانزدہم، ۱۳۸۹ش،
*مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ پانزدہم، 1389ش،
*معارف، مجید، «گزارشی از آموزش قرآن در سیرہ رسول خدا ؑ»، پژوہش دینی، ش۳. ۱۳۸۰ش.
*معارف، مجید، «گزارشی از آموزش قرآن در سیرہ رسول خدا ؑ»، پژوہش دینی، ش3. 1380ش.
*معرفت، محمدہادی، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، در سایت دانشنامہ موضوعی قرآن، تاریخ دسترسی(۱۳ اسفند ۱۳۹۵).
*معرفت، محمدہادی، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، در سایت دانشنامہ موضوعی قرآن، تاریخ دسترسی(13 اسفند 1395).
*معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، ۱۴۱۸ق.
*معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، 1418ق.
*معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
*معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، 1419ق.
*معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
*معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، 1412ق.
*معموری، علی، «تحدی»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱۴، تہران، مرکز دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۵ش.
*معموری، علی، «تحدی»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج14، تہران، مرکز دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1385ش.
*مکارم شیرازی، ناصر،  تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.
*مکارم شیرازی، ناصر،  تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1374ش.
*موسوی آملی، «قرآن در رسوم ايرانی»، دوماہنامہ بشارت، ش۵۱، ۱۳۸۴ش.
*موسوی آملی، «قرآن در رسوم ايرانی»، دوماہنامہ بشارت، ش51، 1384ش.
*میرمحمدی زرندی، سیدابوالفضل، تاریخ و علوم قرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۶۳ش.
*میرمحمدی زرندی، سیدابوالفضل، تاریخ و علوم قرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1363ش.
*ناصحیان، علی‌اصغر، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، ۱۳۸۹ش.
*ناصحیان، علی‌اصغر، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، 1389ش.
*[http://old.telavat.com/ShowObject.aspx?id=3831 «نظارت بر چاپ و‌ نشر قرآن کريم»، سایت تلاوت، تاریخ دسترسی(۱۰ بہمن ۱۳۹۵ش).]
*[http://old.telavat.com/ShowObject.aspx?id=3831 «نظارت بر چاپ و‌ نشر قرآن کريم»، سایت تلاوت، تاریخ دسترسی(10 بہمن 1395ش).]
*ہاشم‌زادہ، محمدعلی، «کتاب‌شناسی علوم قرآن»، پژوہش‌ہای قرآنی، ش۱۳و۱۴، ۱۳۷۷ش.
*ہاشم‌زادہ، محمدعلی، «کتاب‌شناسی علوم قرآن»، پژوہش‌ہای قرآنی، ش13و14، 1377ش.
*یوسفی غروی، محمدہادی، علوم قرآنی، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۹۳ش.
*یوسفی غروی، محمدہادی، علوم قرآنی، قم، دفتر نشر معارف، 1393ش.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم