مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 13: سطر 13:
=== پہلا احتمال ===
=== پہلا احتمال ===


اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان آیات میں سنہ 5 ہجری قمری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض  [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عایشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] نے مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عایشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج۲۳، ص ۱۷۳؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج۵، ص۵۰۴۔</ref>
اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان آیات میں سنہ 5 ہجری قمری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض  [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عایشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] میں مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عایشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج۲۳، ص ۱۷۳؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج۵، ص۵۰۴۔</ref>


مشہور روایت خود حضرت عایشہ کے نقل کے مطابق جسے تقریبا تمام منابع میں یکساں ذکر کیا گیا ہے، واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے: [[غزوہ بنی مصطلق|غزوہ بنی مُصطَلِق]] سے واپسی پر قافلہ کسی جگہ آرام کی خاطر ٹھہر گیا، اس وقت حضرت عایشہ قضای حاجت کی نیت سے لشکرگاہ سے کہیں دور چلی گئی اس دوران آپ کی گردن بند گم ہو گئی جس کی تلاش میں کچھ مدت گزر گئی۔ جب واپس قافلہ کی طرف آگئی تو قافلہ وہاں سے حرکت کر چکا تھا چونکہ قافلہ والوں کو آپ کی عدم موجودگی کا علم نہیں تھا انہوں نے اس تصور سے کہ آپ اپنی کجاوہ میں موجود ہیں اسے اونٹ پر رکھ کر چل پڑے۔ حضرت عایشہ اسی جگہ بیٹھ گئی اس خیال سے کہ جب کجاوہ میں نہیں پائیں گے تو دوبارہ یہیں پلٹ آئیں گے، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عایشہ کو اپنی اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔ اس روایت کے مطابق اس سفر سے واپسی پر حضرت عایشہ بیمار ہو گئی اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپ اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ شایعات لوگوں کے درمیان پھیل گئی ہے۔ اس واقعے کے کچھ مدت بعد قرآن کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی جسے پیغمبر اکرمؐ نے لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔<ref>ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۲۹۷-۳۰۲ واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۶-۴۳۵۔ </ref>
مشہور روایت خود حضرت عایشہ کے نقل کے مطابق جسے تقریبا تمام منابع میں یکساں ذکر کیا گیا ہے، واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے: [[غزوہ بنی مصطلق|غزوہ بنی مُصطَلِق]] سے واپسی پر قافلہ کسی جگہ آرام کی خاطر ٹھہر گیا، اس وقت حضرت عایشہ قضای حاجت کی نیت سے لشکرگاہ سے کہیں دور چلی گئی اس دوران آپ کی گردن بند گم ہو گئی جس کی تلاش میں کچھ مدت گزر گئی۔ جب واپس قافلہ کی طرف آگئی تو قافلہ وہاں سے حرکت کر چکا تھا چونکہ قافلہ والوں کو آپ کی عدم موجودگی کا علم نہیں تھا انہوں نے اس تصور سے کہ آپ اپنی کجاوہ میں موجود ہیں اسے اونٹ پر رکھ کر چل پڑے۔ حضرت عایشہ اسی جگہ بیٹھ گئی اس خیال سے کہ جب کجاوہ میں نہیں پائیں گے تو دوبارہ یہیں پلٹ آئیں گے، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عایشہ کو اپنی اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔ اس روایت کے مطابق اس سفر سے واپسی پر حضرت عایشہ بیمار ہو گئی اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپ اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ شایعات لوگوں کے درمیان پھیل گئی ہے۔ اس واقعے کے کچھ مدت بعد قرآن کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی جسے پیغمبر اکرمؐ نے لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔<ref>ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۲۹۷-۳۰۲ واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۶-۴۳۵۔ </ref>


====تہمت لگانے والے====<!--
====تہمت لگانے والے====
چنان کہ از آیات قرانی می‌توان دریافت، تہمت‌زنندگان بہ عایشہ گروہی از مردم بودند با این حال نام چند تن در بین تہمت زنندگان در منابع تاریخی مطرح شدہ است۔ از جملہ [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] کہ بہ عنوان سرکردہ منافقان [[مدینہ]] شناختہ می‌شد و منابع بہ نقش مہم او در این ماجرا اشارہ کردہ‌اند۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔</ref> [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] و [[مسطح بن اثاثہ]] از دیگر افرادی ہستند کہ بہ نام آنان در منابع تصریح شدہ است و بہ دستور پیامبر(ص) بر آنان حد جاری شد۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔</ref> برخی از منابع نام عبداللہ بن اُبَیّ را در بین مجازات شدگان آوردہ‌اند<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔</ref> و برخی بہ نام او اشارہ‌ای نکردہ‌اند۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔</ref>
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے والے ایک گروہ تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام مطرح ہوا ہے۔ من جملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں منافقین کا سردار محسوب ہوتا تھا، کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری ہوا تھا۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔</ref>


===انتقاداتی بر این تفسیر===
===اس احتمال سے متعلق شکوک و شبہات===<!--
دربارہ این [[حدیث|روایت]] مشہور کہ در بیشتر منابع تاریخی و تفسیری تکرار شدہ است، انتقاداتی بہ خصوص از سوی برخی از نویسندگان [[شیعہ]] مطرح شدہ است۔ این نویسندگان ضمن تصریح بہ اینکہ ہمسران پیامبر(ص) از اتہام ناپاکی مبرا ہستند در اصل وقوع ماجرای افک [[عایشہ]] تردید کردہ و آیات افک را مربوط بہ ماجرای دیگر دانستہ‌اند۔ این نویسندگان با اشارہ بہ اشکالات درون متنی و سندی روایات ماجرای افک، از جملہ اختلاف روایات در جزئیات، منتہی شدن سند ہمہ روایات بہ عایشہ و ضعیف بودن سند روایات، این داستان را جعلی و ہدف سازندگان آن را، فضیلت‌سازی برای عایشہ دانستہ‌اند۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> برای مثال، در یکی از این روایات آمدہ است کہ پیامبر (ص) در این زمینہ با [[علی بن ابیطالب]] و [[اسامہ بن زید]] مشورت کرد و اسامہ در دفاع از عایشہ و امام علی بر ضد عایشہ سخن گفتند؛ اما اسامہ در زمان رخ دادن این ماجرا کودک بودہ است۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>
دربارہ این [[حدیث|روایت]] مشہور کہ در بیشتر منابع تاریخی و تفسیری تکرار شدہ است، انتقاداتی بہ خصوص از سوی برخی از نویسندگان [[شیعہ]] مطرح شدہ است۔ این نویسندگان ضمن تصریح بہ اینکہ ہمسران پیامبر(ص) از اتہام ناپاکی مبرا ہستند در اصل وقوع ماجرای افک [[عایشہ]] تردید کردہ و آیات افک را مربوط بہ ماجرای دیگر دانستہ‌اند۔ این نویسندگان با اشارہ بہ اشکالات درون متنی و سندی روایات ماجرای افک، از جملہ اختلاف روایات در جزئیات، منتہی شدن سند ہمہ روایات بہ عایشہ و ضعیف بودن سند روایات، این داستان را جعلی و ہدف سازندگان آن را، فضیلت‌سازی برای عایشہ دانستہ‌اند۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> برای مثال، در یکی از این روایات آمدہ است کہ پیامبر (ص) در این زمینہ با [[علی بن ابیطالب]] و [[اسامہ بن زید]] مشورت کرد و اسامہ در دفاع از عایشہ و امام علی بر ضد عایشہ سخن گفتند؛ اما اسامہ در زمان رخ دادن این ماجرا کودک بودہ است۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>


confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم